35۔ 1 یعنی اللہ کے عذاب سے وہ کہیں بھاگ کر چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔
[٥٠] یعنی اللہ کی آیات میں جھگڑا کرنے والے منکرین کو اس دنیا میں بھی ایسا حادثہ پیش آسکتا ہے کہ کوئی جائے پناہ کہیں نہ مل سکے جیسے مثلاً سمندری سفر میں۔ آخرت میں تو یہ لوگ اور بھی زیادہ بےبس اور لاچار ہوں گے۔
ویعلم الذین یجادلون فی ایتنا …: یہاں سوال ہے کہ ” یعلم “ پر نصب کیوں ہے اور ” واؤ “ کے ساتھ عطف کس پر ڈالا گیا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس جملے کا عطف ایک محذوف جملے پر ہے، جس میں اس بات کی علت بیان کی گئی ہے کہ ہوائیں جہازوں کے لئے کبھی موافق، کبھی شدید ترین مخالف اور کبھی ساکن کیوں ہوتی ہیں اور ” یعلم “ پر نصب ” لام کی “ کی وجہ سے آیا ہے جس کے بعد ” ان “ ناصبہ مقدر ہوتا ہے۔ گویا پوری عبارت اس طرح ہے :” اللہ فعل ذلک لیعتبر المومنون و لیعلم الذین یجادلون فی آیاتنا “ یعنی اللہ تعالیٰ نے کشتیوں اور ہواؤں کا یہ معاملہ اس لئے ذکر فرمایا ہے تاکہ مومن اس سے عبرت حاصل کریں اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلانے کے لئے جھگڑا کرتے ہیں وہ جان لیں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھاگ کر جانے کی کوئی جگہ نہیں۔ ہوسکتا ہے یہ جاننے کے بعد وہ اللہ کی آیات پر ایمان لے آئیں۔ بعض مفسرین نے محذوف جملے کے لئے اس سے مختلف الفاظ بھی ذکر فرمائے ہیں، مقصد سب کا یہی ہے کہ ” ویعلم الذین یجادلون فی ایتنا “ میں گزشتہ چیزوں کی علت بیان ہوئی ہے۔ لعت والے جملے کے حذف کی قرآن مجید میں کئی مثالیں ملتی ہیں، جیسے فرمایا :(ولنجعلہ ایۃ للناس) (مریم : ٢١)” اور تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے بہت بڑی نشانی بنائیں۔ ” اور جیسے فرمایا :(وخلق اللہ السموت والارض بالحق و لتجری کل نفس بما کسبت) (الجائبۃ : ٢٢)” اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلا دیا جائے جو اس نے کمایا۔ “
وَّيَعْلَمَ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا ٠ ۭ مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِيْصٍ ٣٥- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- حاص - قال تعالی: هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] ، وقوله تعالی: ما لَنا مِنْ مَحِيصٍ [إبراهيم 21] ، أصله من حَيْص بيص أي : شدّة، وحَاصَ عن الحقّ يَحِيصُ ، أي : حاد عنه إلى شدّة ومکروه . وأمّا الحوص فخیاطة الجلد ومنه حصت عين الصّقر .- ( ح ی ص ) حاص - ( ض ) عن الحق کے معنی حق سے بھاگ کر شدت ومکروہ کی طرف جانے کے میں قرآن میں ہے : ۔ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] کہ کہیں بھاگنے کی جگہ ہی : ما لَنا مِنْ مَحِيصٍ [إبراهيم 21] کوئی جگہ گریز اور رہائی ہمارے لئے نہیں ہے ۔ یہ اصل میں حیص وبیص سے ہے جس کے شدت اور سختی کے ہیں مگر الحوص ( وادی ) ہو تو اس کے معنی چمڑا سلنا ہوتے ہیں اور اسی سے حصت عین الصقر کا محاورہ ہے جس کے معنی صقرۃ کی آنکھیں سی دینے کے ہیں ۔
تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہوجائے جو کہ رسول اکرم کی تکذیب کرتے ہیں کہ عذاب خداوندی کے مقابلہ میں کہیں جائے پناہ نہیں۔
آیت ٣٥ وَّیَعْلَمَ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِیْصٍ ” اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جو ہماری آیات میں کٹ حجتی کر رہے ہیں کہ ان کے لیے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ “
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :54 قریش کے لوگوں کو اپنے تجارتی کاروبار کے سلسلے میں حبش اور افریقہ کے ساحلی علاقوں کی طرف بھی جانا ہوتا تھا ، اور ان سفروں میں وہ باد بانی جہازوں اور کشتیوں پر بحر احمر سے گزرتے تھے جو ایک بڑا خطرناک سمندر ہے ۔ اس میں اکثر طوفان اٹھتے رہتے ہیں اور زیر آب چٹانیں کثرت سے ہیں جن سے طوفان کی حالت میں ٹکرا جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ اس لیے جس کیفیت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے یہاں کھینچا ہے اسے قریش کے لوگ اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں پوری طرح محسوس کر سکتے تھے ۔