Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٧] ظلم کے مقابلہ میں ڈٹ جانا اور ظالم سے بدلہ لینا :۔ یعنی متکبر اور جابر قسم کے لوگ ان پر زیادتی کرتے ہیں تو وہ ان کے آگے دبتے نہیں بلکہ ان کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔ کمزوری نہیں دکھاتے جیسا کہ مکہ میں مسلمانوں نے کافروں کے مصائب برداشت کئے مگر ان کے آگے جھکے نہیں۔ اور اگر ان میں بدلہ لینے کی ہمت ہو تو بدلہ لے کے چھوڑتے ہیں۔ ان کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب غالب ہوں تو اگر چاہیں تو مغلوب کو معاف بھی کردیں اور چاہیں تو اتنا ہی بدلہ لے لیں جتنی ان پر زیادتی ہوئی ہو اور معاف کرنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن جب کوئی طاقتور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں کسی ظالم یا متکبر کے سامنے جھکتے یا دبتے نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

والذین اذا اصابھم البغی …: یہ چوتھا وصف ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے پہلے ان کا وصف غصے کے وقت معاف کردینا ذکر فرمایا ہے اور یہاں انتقام کو ان کی خوبی قرار دیا ہے، تطبیق کیا ہے ؟ اس کا بہترین جواب مشہور تابعی ابراہیم نخعی نے دیا ہے، انہوں نے صحابہ کرام (رض) کا طرز عمل بیان کرتے ہئے فرمایا :” کان المومنون یکرھون ان یستدلوا و کانوا اذا قدروا عفواً (ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم : 18386 وقال حکمت بن بشیر مسندہ صحیح)” مومن یہ بات ناپسند کرتے تھے کہ ذلت قبول کریں، مگر جب قدرت پاتے تو معاف کردیتے تھے۔ “ خلاصہ یہ ہے کہ اگر معاف کرنا مجرم کے جرم سے باز آنے کا باعث ہو تو عضو افضل ہے، لیکن اگر معاف کرنے سے اس کی سرکشی میں اور جرم پر جرأت میں اضافہ ہو تو اتنقام لینا چاہیے۔ دلیل اس کی لفظ ” البغی “ (سرکشی) ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے۔- اذا انت اکرمت الکریم ملکتہ وان انت اکرمت اللئیم تمردا - ” جب تم کسی معزز آدمی کی عزت کرو گے تو اس کے مالک بن جاؤ گے اور اگر تم کمینے کی عزت کرو گے تو وہ سرکش ہوجائے گا۔ “- ابن کثیر نے فرمایا : یعنی ان میں اس شخص سے اتنقام لینے کی قوت ہوتی ہے جو ان پر ظلم اور زیادتی کرے، نہ وہ عاجز ہوتے ہیں نہ ذلیل ، بلکہ جو سرکشی کرے اس سے انتقام کی قدرت رکھتے ہیں، اس کے باوجود جب قابو پالیتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کہا :(لاتثریب علیکم الیوم ، یغفر اللہ لکم) (یوسف : ٩٢) ” آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں بخشے۔ “ حالانکہ وہ ان کے مواخذے پر اور اس سلوک کا بدلا لینے پر پوری قدرت رکھتے تھے جو انہوں نے ان کے ساتھ کیا تھا اور جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے موقع پر ان لوگوں سے فرمایا : جنہوں نے آپ سے دشمین کی انتہا کردی تھی اور جن کی گردنیں آپ کے ایک اشارے سے تن سے جدا ہوسکتی تھیں۔ (لاتثریب علیکم الیوم) (السنن الکبری للسائی :11298) اور جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان اسی (80) آدمیوں کو ماف کردیا جو کوہ تنعیم سے آپ پر حملہ آور ہونے کے لئے اترے تھے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر قابو پا لیا تو قدرت کے باوجود ان پر احسان فرما دیا۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غورث بن حارث کو معاف کردیا، جس نے آپ کو اچانک قتل کرنے کا ارادہ کیا، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوئے ہوئے تھے تو اس نے آپ کی تلوار میان سے نکالی لی، آپ بیدار ہوئے تو وہ ننگی اس کے ہاتھ میںھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے جھڑکا تو اس نے نیچے رکھ دی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو بلا کر ساری بات بتائی اور اسے معاف کردیا۔ (دیکھیے بخاری 4136) اسی طرح لبیدبن اعصم کو معاف کردیا جس نے آپ پر جادو کیا تھا، اس سے باز پرس بھی نہیں فرمائی۔ (دیکھیے بخاری :5765) اسی طرح اس یہودی عورت زینب کو معاف فرما دیا جو خیبر کے یہودی مرحب کی بہن تھی، جسے محمد بن مسلمہ (رض) نے قتل کیا تھا، جس نے خیبر کے موقع پر بکری کے بازو میں زہر ملا دیا تھا، بکری کے اس بازو نے آپ کو اس کی اطلاع دے دی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو بلایا تو اس نے اعتراف کرلیا۔ آپ نے اس سے کہا کہ تمہیں اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ اس نے کہا، میرا ارادہ یہ تھا کہ اگر آپ نبی ہوئے تو یہ آپ کو نقصان نہیں دے گی اور اگر نبی نہ ہوئے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے چھوڑ دیا، مگر جب اس زہر کی وجہ سے بشربن براء (رض) فوت ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے قصاص میں اسے قتل کردیا۔ (دیکھیے بخاری :3169، ابو داؤد، 4509، 4511) ایسی احادیث اور بھی بہت ہیں۔ (وللہ الحمد) یہ تمام واقعات بخاری و مسلم دونوں میں یا ان میں سے ایک میں موجود ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ساتویں صفت :- (آیت) وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُوْنَ ۔ یعنی جب ان پر کوئی ظلم کرتا تو یہ برابر کا انتقام لیتے ہیں۔ اس میں حد مساوات سے تجاوز نہیں کرتے، یہ صفت درحقیقت تیسری صفت کی تشریح و تفصیل ہے۔ کیونکہ تیسری صفت کا مضمون یہ تھا کہ یہ لوگ اپنے مخالف کو معاف کردیتے ہیں۔ مگر بعض حالات ایسے بھی پیش آسکتے ہیں کہ معاف کردینے سے فساد بڑھتا ہے تو وہاں انتقام لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اس کا قانون اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ اگر کسی جگہ انتقام لینا ہی مصلحت سمجھا جائے تو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس سے انتقام لینے میں برابری سے آگے نہ بڑھیں ورنہ یہ خود ظالم ہوجائیں گے۔ اسی لئے اس کے بعد فرمایا وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَ آ یعنی برائی کی جزا اس کی برابر برائی کرنا ہے۔ یعنی جتنا نقصان مالی یا جسمانی کسی نے تمہیں پہنچایا ہے ٹھیک اتنا ہی تم پہنچا دو ۔ جیسی برائی اس نے تمہارے ساتھ کی ہے ویسی ہی تم کرلو مگر اس میں یہ شرط ہے کہ وہ برائی فی نفسہ گناہ نہ ہو۔ مثلاً کسی شخص نے اس کو جبراً شراب پلا دی تو اس کے جواب میں اس کے لئے جائز نہ ہوگا کہ وہ اس کو زبردستی شراب پلا دے۔- اس آیت میں اگرچہ برابر کا بدلہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے مگر آگے یہ بھی فرما دیا کہ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ۭ۔ یعنی جو معاف کر دے اور اصلاح کا راستہ اختیار کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ جس میں یہ ہدایت کردی کہ معاف کردینا افضل ہے۔ اس کے بعد دو آیتوں میں اسی کی مزید تفصیل آئی ہے۔- عفو و انتقام میں معتدل فیصلہ :- حضرت ابراہیم نخعی نے فرمایا کہ سلف صالحین یہ پسند نہ کرتے تھے کہ مومنین اپنے آپ کو فساق فجار کے سامنے ذلیل کریں اور ان کی جرأت بڑھ جائے۔ اس لئے جہاں یہ خطرہ ہو کہ معاف کرنے سے فساق فجار کی جرأت بڑھے گی وہ اور نیک لوگوں کو ستائیں گے وہاں انتقام لے لینا بہتر ہوگا اور معافی کا افضل ہونا اس صورت میں ہے جبکہ ظلم کرنے والا اپنے فعل پر نادم ہو اور ظلم پر اس کی جرأت بڑھ جانے کا خطرہ نہ ہو۔ قاضی ابوبکر ابن عربی نے احکام القرآن میں اور قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار کیا ہے کہ عفو و انتقام کے دونوں حکم مختلف حالات کے اعتبار سے ہیں۔ جو ظلم کرنے کے بعد شرمندہ ہوجائے اس سے عفو افضل ہے اور جو اپنی ضد اور ظلم پر اصرار کر رہا ہو اس سے انتقام لینا افضل ہے۔- اور حضرت اشرف المشائخ نے بیان القرآن میں اس کو اختیار فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیتوں میں مومنین، مخلصین اور صالحین کی دو خصوصیتیں ذکر فرمائی ہیں۔ ھم یغفرون۔ میں تو یہ بتلایا کہ یہ غصہ میں مغلوب نہیں ہوتے بلکہ رحم و کرم ان کے مزاج میں غالب رہتا ہے معاف کردیتے ہیں۔ اور ھم ینتصرون میں یہ بتلایا کہ یہ بھی انہیں صالحین کی خصوصیت ہے کہ اگر کبھی ظلم کا بدلہ لینے کا داعیہ ان کے دل میں پیدا بھی ہو اور بدلہ لینے لگیں تو اس میں حق سے تجاوز نہیں کرتے، اگرچہ معاف کردینا ان کے لئے افضل ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَہُمُ الْبَغْيُ ہُمْ يَنْتَصِرُوْنَ۝ ٣٩- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] ، قال :- الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل .- مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- انْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ- وَالانْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ : طلب النُّصْرَة وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری 39] ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال 72] ، وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری 41] ، فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر 10] وإنما قال :«فَانْتَصِرْ» ولم يقل : انْصُرْ تنبيهاً أنّ ما يلحقني يلحقک من حيث إنّي جئتهم بأمرك، فإذا نَصَرْتَنِي فقد انْتَصَرْتَ لنفسک، وَالتَّنَاصُرُ : التَّعاوُن . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات 25]- لا نتصار والانتنصار کے منعی طلب نصرت کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری 39] اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں ۔ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال 72] اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرتی لا زم ہے ۔ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری 41] اور جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس کے بعد انتقام لے ۔ فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر 10] تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ ( بار الہ میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں ان سے ) بدلہ لے ۔ میں انصر کی بجائے انتصر کہنے سے بات پر متنبہ کیا ہے کہ جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ذات باری تعالیٰ پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ( ذات باری تعا لی پہنچ رہی ہے کیو ن کہ میں تیرے حکم سے ان کے پاس گیا تھا لہذا میری مدد فر مانا گو یا یا تیرا اپنی ذات کے لئے انتقام لینا ہے ۔ لتنا صر کے معنی باہم تعاون کرنے کے ہیں ۔ چنا نچہ قرآن میں ہے : ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات 25] تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

انتقام لینا کب جائز ہوتا ہے ؟- قول باری ہے (والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون۔ اور وہ ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم واقع ہوتا ہے تو وہ (برابر کا ) بدلہ لے لیتے ہیں) ابراہیم نخعی سے آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ لوگ مسلمانوں کے لئے اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو دبا کر اور عاجز بنا کر رکھیں جس کی بنا پر فاسق وفاجر لوگوں کو ان کے خلاف جرات دکھانے کا موقعہ مل جائے۔- سدی کا قول ہے کہ (ھم ینتصرون) کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ ان لوگوں سے بدلہ لے لیتے ہیں جو ان پر ظلم کرتے ہیں لیکن وہ ان کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے۔ ابولکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر ہمیں اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ہم لوگوں پر اپنے حقوق کو معاف کردیں ۔ چناچہ ارشاد ہے (وان تعفوا اقرب للتقوی۔ اور تمہارا معاف کردینا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے)- قصاص کے سلسلے میں ارشاد ہے (فمن تصدق بہ فھوکفارۃ لہ۔ جو شخص قصاص کا صدقہ کردے گا اس کے لئے یہ بات کفارہ بن جائے گی) نیز ارشاد ہے (ولیعفوا والیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم۔ انہیں چاہیے کہ عفو اور درگزر سے کام لیں۔ کیا تمہیں یہ بتا پسند نہیں کہ اللہ تمہارے گناہوں کی بخشش کرے) ان آیت کے احکام ثابت ہیں منسوخ نہیں ہوئے۔- قول باری (والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون) ظاہری طور پر اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اس موقعہ پر بدلہ لینا افضل ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے اور نماز کی پابندی کے ساتھ مقرون کردیا ہے۔- اسے اس معنی پر محمول کیا جائے گا جس کا ذکر ابراہیم نخعی نے کیا ہے کہ لوگ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ مسلمان اپنے آپ کو اس طرح دباکر اور عاجز بنا کر رکھیں کہ فاسق وفاجر لوگوں کو ان کے خلاف جرات دکھانے کا موقع مل جائے۔ اس لئے بدلہ لینے کا موقعہ وہ ہے جب ایک شخص ظلم و زیادتی کرے اور پھر اس پر نادم ہونے کی بجائے اصرار کرے۔- عفو و درگزر کا موقعہ وہ ہے جب ظلم و زیادتی کرنے والا اپنے فعل پر پشیمان ہو اور آئندہ ایسی حرکت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے بعد فرمایا (ولمن انتصر بعد ظلمہ فاولئک ما علیھم من سبیل۔ اور جو اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے لے تو ایسے لوگوں پر کوئی گرفت نہیں) آیت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اس میں بدلہ لینے کی اباحت کردی گئی ہے بدلہ لینے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔- اس کے ساتھ ہی یہ ارشاد ہے (ولمن صبر وغفران ذلک لمن عزم الامور اور جو شخص صبر کرے اور معاف کردے یہ البتہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے) اس ارشاد کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب ظلم و زیادتی کرنے والا اپنے فعل پر اصرار نہ کرتا ہو۔ ایسے موقعہ پر اسے معاف کردینا بہترہوگا لیکن ظلم وتعدی پر اصرار کرنے والے سے بدلہ لینا افضل ہے کیونکہ اس پر ماقبل کی آیت دلالت کررہی ہے۔- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سے قول باری (ولمن انتصر بعد ظلمہ فاولئک ماعلیھم من سبیل) کی تفسیر میں روایت کی ہے۔ یہ بات اس صورت میں ہوگی جب لوگوں کے درمیان قصاص کا معاملہ درپیش ہو لیکن اگر کوئی شخص تم پر ظلم کرے تو تمہارے لئے اس پر ظلم کرنا حلال نہیں ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جو ان پر کسی کی طرف سے ظلم ہوتا ہے تو پورا پورا بدلہ لیتے ہیں کسی قسم کی زیادتی نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ وَالَّذِیْنَ اِذَٓا اَصَابَہُمُ الْبَغْیُ ہُمْ یَنْتَصِرُوْنَ ” اور وہ لوگ کہ جب ان پر زیادتی ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں۔ “- یعنی اقامت دین کی جدوجہد جب ” قتال “ کے مرحلے میں داخل ہوجائے تو پھر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا حکم ہے۔ سورة البقرۃ میں اس حکمت عملی کو یوں بیان فرمایا گیا ہے : وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ وَاَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ (آیت ١٩١) ” اور قتل کر دو انہیں جہاں کہیں بھی تم انہیں پائو اور نکال باہر کرو انہیں وہاں سے جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا “۔ گویا جب ایک دفعہ آگے بڑھ کر باطل کو چیلنج کردیا گیا تو پھر فیصلہ کن فتح تک اس جنگ کو سختی سے جاری رکھنے کا حکم ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جنگ بدر میں پکڑے گئے قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کیے جانے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے (سورۃ الانفال کی آیات ٦٧ ‘ ٦٨ میں ) ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا گیا۔ ان قیدیوں کے بارے میں حضرت عمر (رض) کی رائے یہ تھی کہ ان سب کو قتل کردیا جائے ‘ بلکہ آپ (رض) کو تو اصرار تھا کہ ہر مسلمان اپنے رشتے دار اور عزیز قیدی کو خود اپنے ہاتھ سے قتل کرے۔ اس حوالے سے آپ (رض) کی دلیل یہی تھی کہ اگر آج ان لوگوں کو چھوڑ دیا گیا تو کل وہ پھر ہمارے مقابلے میں آجائیں گے۔ حضرت عمر (رض) کے اس خدشے کی اس وقت تصدیق بھی ہوگئی جب فدیہ پر رہائی پانے والے قیدیوں میں سے اکثر و بیشتر اگلے سال غزوئہ اُحد میں مسلمانوں کے خلاف پھر سے آ کھڑے ہوئے تھے۔ عام مفسرین کے نزدیک سورة الانفال کی مذکورہ آیات حضرت عمر (رض) کی رائے کی تائید میں نازل ہوئیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :63 یہ بھی اہل ایمان کی بہترین صفات میں سے ہے ۔ وہ ظالموں اور جباروں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے ۔ ان کی نرم خوئی اور عفو و درگزر کی عادت کمزوری کی بنا پر نہیں ہوتی انہیں بھکشوؤں اور راہبوں کی طرح مسکین بنکر رہنا نہیں سکھایا گیا ہے ۔ ان کی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ جب غالب ہوں تو مغلوب کے قصور معاف کر دیں ، جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے در گزریں ، اور جب کسی زیر دست یا کمزور آدمی سے کوئی خطا سرزد ہو جائے تو اس سے چشم پوشی کر جائیں ، لیکن کوئی طاقتور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں اور اس کے دانت کھٹے کر دیں ۔ مومن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا ۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani