Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ کو کوئی پوچھنے والا نہیں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا اور نہ اسے کوئی کر سکتا ہے وہ جسے راہ راست دکھا دے اسے بہکا نہیں سکتا اور جس سے وہ راہ حق گم کر دے اسے کوئی اس راہ کو دکھا نہیں سکتا اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِيًّا مُّرْشِدًا 17۝ۧ ) 18- الكهف:17 ) جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی چارہ ساز اور رہبر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہ مشرکین قیامت کے عذاب کو دیکھ کر دوبارہ دنیا میں آنے کی تمنا کریں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27؀ ) 6- الانعام:27 ) ، کاش کہ تو انہیں دیکھتا جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم دوبارہ واپس بھیج دئیے جائیں تو ہم ہرگز اپنے رب کی آیتوں کو جھوٹ نہ بتائیں بلکہ ایمان لے آئیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ جس چیز کو اس سے پہلے پوشیدہ کئے ہوئے تھے وہ ان کے سامنے آگئی ۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ دوبارہ بھیج بھی دیئے جائیں تب بھی وہی کریں گے جس سے منع کئے جاتے ہیں یقینا یہ جھوٹے ہیں پھر فرمایا یہ جہنم کے پاس لائے جائیں گے اور اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر ذلت برس رہی ہو گی عاجزی سے جھکے ہوئے ہوں گے اور نظریں بچاکر جہنم کو تک رہے ہوں گے ۔ خوف زدہ اور حواس باختہ ہو رہے ہوں گے لیکن جس سے ڈر رہے ہیں اس سے بچ نہ سکیں گے نہ صرف اتنا ہی بلکہ ان کے وہم و گمان سے بھی زیادہ عذاب انہیں ہوگا ۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھے اس وقت ایمان دار لوگ کہیں گے کہ حقیقی نقصان یافتہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ اپنے والوں کو بھی جہنم واصل کیا یہاں کی آج کی ابدی نعمتوں سے محروم رہے اور انہیں بھی محروم رکھا آج وہ سب الگ الگ عذاب میں مبتلا ہیں دائمی ابدی اور سرمدی سزائیں بھگت رہے ہیں اور یہ ناامید ہو جائیں آج کوئی ایسا نہیں جو ان عذابوں سے چھڑا سکے یا تخفیف کرا سکے ان گمراہوں کو خلاصی دینے والا کوئی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٢] یعنی ان لوگوں کو کتاب وہ دی گئی جو ہدایت انسانی کے لیے بہترین کتاب ہے اور رسول وہ بھیجا گیا جس کی سیرت و کردار کی بلندی میں ان کو بھی کوئی شک نہیں۔ پھر بھی اگر یہ لوگ ہدایت قبول نہیں کرتے تو اللہ ایسے لوگوں کو کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔- [٦٣] یعنی آج دنیا میں یہ اپنی سرکشی کی حالت کو چمٹ تو سکتے ہیں مگر پلٹتے نہیں اور اس دن اپنی حالت کو پلٹنے کی کوئی گنجائش نہ ہوگی تو اس دن پلٹنے کی راہ پوچھیں گے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ پوچھیں گے کیا ہمارے دوبارہ واپس دنیا میں جانے کی کوئی صورت ہے تاکہ ہم بھی نیک عمل کرسکیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ومن یضلل اللہ فما لہ من ولی من بعدہ : یعنی جس شخص کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ حال ہو کہ نہ وہ عفو و درگزر کا اعلیٰ درجہ اختیار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور نہ کم از کم عدل و انصاف سے کام لینے پر تیار تو ظاہر ہے کہ وہ خیر سے محروم اور محض شر ہے، ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بھی خیر کی توفیق نہیں دیتا، بلکہ گمراہی میں دھکیل دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے پھر اس کا کوئی مددگار نہیں جو اسے ہدایت پر لے آئے۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٧٨، ١٨٦) اور سورة کہف (١٧) ۔- (٢) وتری الظلمین : اور تو ان ظالموں کو دیکھے گا جو عذاب دیکھنے سے پہلے ظلم و فساد اور زمین میں سرکشی سے باز آنے پر کسی طرح تیار نہیں تھے، اس لئے یہ ظالم نہ اپنے مالک کی گرفت سے ڈرتے تھے اور نہ انھیں حساب کتاب کا کوئی خوف تھا۔ ” الظلمین “ سے مراد یہاں کفار و مشرکین ہیں، کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں انھی کے لئے یہ لفظ آتا ہے۔ یہاں اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ آگے ان کے متعلق فرمایا :(الا ان الظلمین فی عذاب مقیم) (الشوری : ٣٥)” سن لو بیشک ظالم لوگ ہمیشہ رہنے والے عذاب میں ہوں گے۔ “ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ دائمی عذاب کفار و مشرکین ہی کو ہوگا۔ دوسری دلیل یہ کہ ان کے قول کے مقابلے میں مومنون کا قول ذکر فرمایا :(وقال الذین امنوا ان الخسرین الذین خسروآ انفسھم واھلیھم یوم القیمۃ) (الشوری : ٣٥)” اور وہ لوگ جو ایمان لائے ، کہیں گے اصل خسارے والے تو وہ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں گنوا دیا۔ “- (٣) لما راو العذاب یقولون…: وہی متکبر اور ظالم لوگ جو پہلے نہ رب تعالیٰ سے ڈرتے تھے اور نہ اس کے عذاب یا حساب کتاب سے ڈرتے تھے، جب عذاب دیکھیں گے تو ان کی ساری اکڑ ختم ہوجائے گی اور کہیں گے، کیا واپس جانے کا کوئی راستہ ہے کہ ہم دنیا میں جا کر اپنی کوتاہی کی تلافی کرلیں ؟ مزید دیکھیے سورة انعام (٢٧، ٢٨) اور سورة اعراف (٥٣) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (یہ حال تو اہل ہدایت کا تھا کہ وہ دنیا میں اللہ کی طرف سے ہدایت اور آخرت میں ثواب سے مشرف ہوئے) اور (آگے اہل ضلالت کا حال سنو، وہ یہ ہے کہ) جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے تو اس کے بعد اس شخص کا (دنیا میں بھی) کوئی چارہ ساز نہیں (کہ اس کو راہ پر لے آوے) اور (قیامت میں بھی برا حال ہوگا، چناچہ اس روز) آپ (ان) ظالموں کو دیکھیں گے کہ جس وقت ان کے عذاب کا معائنہ ہوگا کہ (نہایت حسرت) سے کہتے ہوں گے کیا (دنیا میں) واپس جانے کی کوئی صورت (ہو سکتی) ہے، (تا کہ پھر اچھے عمل کر کے آئیں) اور (نیز) آپ ان کو اس حالت میں دیکھیں گے کہ وہ دوزخ کے رو برو لائے جاویں گے، مارے ذلت کے جھکے ہوئے ہوں گے (اور وہ اس کو) سست (سست) نگاہ سے دیکھتے ہوں گے (جیسے خوف زدہ آدمی دیکھا کرتا ہے، اور ایک دوسری آیت میں جو نابینا ہونے کی خبر دی ہے وہ حشر کے وقت ہے اور یہ اس کے بعد کا واقعہ ہے، چناچہ وہاں لفظ نحشرہ کی تصریح ہے) اور (اس وقت) ایمان والے (اپنے بچنے پر شکر کرنے کے لئے اور ان پر ملامت کرنے کے لئے) کہیں گے کہ پورے خسارے والے وہ لوگ ہیں جو اپنی جانوں سے اور اپنے متعلقین سے (آج) قیامت کے روز خسارہ میں پڑے (اس کی تفسیر سورة زمر کے دوسرے رکوع میں گزر چکی ہے) یاد رکھو کہ ظالم (یعنی مشرک و کافر) لوگ عذاب دائمی میں (گرفتار) رہیں گے اور (وہاں) ان کے کوئی مددگار نہ ہوں گے جو خدا سے الگ (ہو کر) ان کی مدد کریں اور جس کو خدا گمراہ کر دے اس کی (نجات) کے لئے کوئی رستہ ہی نہیں، (یعنی نہ معذرت، نہ کسی کی مدد نہ اور کچھ۔ آگے کافروں سے خطاب ہے کہ اے لوگو جب تم نے قیامت کے یہ ہولناک حالات سن لئے تو) تم اپنے رب کا حکم (ایمان وغیرہ کا) مان لو قبل اس کے کہ ایسا دن آپہنچے جس کے لئے خدا کی طرف سے ہٹنا نہ ہوگا (یعنی جس طرح دنیا میں عذاب ہٹتا جاتا ہے، آخرت میں ایسی کوئی صورت نہ ہوگی) نہ تم کو اس روز کوئی (اور) پناہ ملے گی اور نہ تمہارے بارے میں کوئی (خدا سے) روک ٹوک کرنے والا ہے (کہ اتنا ہی پوچھ لے کہ ان کا یہ حال کیوں بنایا گیا اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو یہ سنا دیجئے) پھر اگر یہ لوگ (یہ سن کر بھی) اعراض کریں (اور ایمان نہ لائیں) تو (آپ فکر اور غم میں نہ پڑیں، کیونکہ) ہم نے آپ کو ان پر نگران کر کے نہیں بھیجا (جس سے باز پرس کا احتمال ہو کہ آپ کی نگرانی میں ان سے یہ امور کیوں صادر ہوئے، بلکہ) آپ کے ذمہ تو صرف (حکم کا) پہنچا دینا ہے (جس کو آپ کر رہے ہیں، پھر آپ اس سے زیادہ فکر کیوں کریں) اور (ان کے حق سے اعراض کرنے کا سبب تعلق مع اللہ کی کمزوری ہے، جس کی علامت یہ ہے کہ) ہم جب (اس قسم کے) آدمی کو کچھ اپنی عنایت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ اس پر (اترا کر) خوش ہوجاتا ہے (اور منعم پر نگاہ کر کے شکر نہیں کرتا) اور اگر (ایسے) لوگوں پر ان کے (ان) اعمال (بد) کے بدلے میں جو پہلے اپنے ہاتھوں کرچکے ہیں کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو (ایسا) آدمی ناشکری کرنے لگتا ہے (اور ایسا نہیں کرتا کہ گناہوں سے توبہ و استغفار کر کے عبادت و اطاعت کے ذریعہ اللہ کی طرف رجوع ہو، اور یہ دونوں حالتیں اس بات کی علامت ہیں کہ اس کا تعلق اپنی نفسانی لذتوں کے ساتھ زیادہ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ معدوم یا کمزور ہے اور اسی سے وہ کفر میں مبتلا ہوا ہے۔ اور چونکہ یہ حالت ان لوگوں کی طبیعت ثانیہ بن گئی ہے۔ اس لئے ان سے آپ ایمان کی توقع ہی کیوں رکھیں جو موجب غم ہو۔ آگے پھر توحید کا بیان ہے کہ) اللہ ہی کی ہے (سب) سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (چنانچہ) جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا فرماتا ہے یا ان کو (جس کے لئے چاہے) جمع کردیتا ہے (کہ) بیٹے بھی (دیتا ہے) اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہے بےاولاد رکھتا ہے، بیشک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ وَّلِيٍّ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۝ ٠ ۭ وَتَرَى الظّٰلِـمِيْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ يَقُوْلُوْنَ ہَلْ اِلٰى مَرَدٍّ مِّنْ سَبِيْلٍ۝ ٤٤ ۚ- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے - ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جسے اللہ تعالیٰ اپنے دین سے گمراہ کردے اس کو اللہ کے علاوہ اور کوئی راہ پر لانے والا نہیں اور آپ قیامت کے دن مشرکین یعنی ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کو دیکھیں گے کہ جس وقت وہ عذاب کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گے کہ دنیا میں واپس جانے کی کوئی تدبیر ہوسکتی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَالَــہٗ مِنْ وَّلِیٍّ مِّنْم بَعْدِہٖ ” اور جس کو اللہ نے ہی گمراہ کردیا ہو تو اس کے بعد اس کے لیے کوئی مدد گار نہیں۔ “- جس کی گمراہی پر اللہ تعالیٰ نے ہی مہر ثبت کردی ہو تو ایسے شخص کا ایسا کوئی حمایتی اور دوست ممکن نہیں جو اسے راہ راست پر لے آئے۔- وَتَرَی الظّٰلِمِیْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ یَقُوْلُوْنَ ہَلْ اِلٰی مَرَدٍّّّ مِّنْ سَبِیْلٍ ” اور تم دیکھو گے ظالموں کو کہ جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو کہیں گے : کیا واپس لوٹ جانے کا بھی کوئی راستہ ہے ؟ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :69 مطلب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن جیسی بہترین کتاب ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجی جو نہایت معقول اور نہایت مؤثر و دل نشین طریقہ سے ان کو حقیقت کا علم دے رہی ہے اور زندگی کا صحیح راستہ بتا رہی ہے ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نبی ان کی رہنمائی کے لیے بھیجا جس سے بہتر سیرت و کردار کا آدمی کبھی ان کی نگاہوں نے نہ دیکھا تھا ۔ اور اس کتاب اور اس رسول کی تعلیم و تربیت کے نتائج بھی اللہ نے ایمان لانے والوں کی زندگیوں میں انہیں آنکھوں سے دکھا دیے ۔ اب اگر کوئی شخص یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ہدایت سے منہ موڑتا ہے تو اللہ پھر اسی گمراہی میں اسے پھینک دیتا ہے جس سے نکلنے کا وہ خواہش مند نہیں ہے ۔ اور جب اللہ ہی نے اسے اپنے دروازے سے دھتکار دیا تو اب کون یہ ذمہ لے سکتا ہے کہ اسے راہ راست پر لے آئے گا ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :70 یعنی آج جبکہ پلٹ آنے کا موقع ہے ، یہ پلٹنے سے انکار کر رہے ہیں ۔ کل جب ، فیصلہ ہو چکے گا اور سزا کا حکم نافذ ہو جائے گا اس وقت اپنی شامت دیکھ کر یہ چاہیں گے کہ اب انہیں پلٹنے کا موقع ملے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani