52۔ 1 روح سے مراد ْقرآن ہے۔ یعنی جس طرح آپ سے پہلے اور رسولوں پر ہم وحی کرتے رہے، اسطرح ہم نے آپ پر قرآن کی وحی کی ہے قرآن کو روح اس لئے تعبیر کیا ہے کہ قرآن سے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے جیسے روح میں انسانی زندگی کا راز مضمر ہے۔ 52۔ 2 کتاب سے مراد قرآن ہے، یعنی نبوت پہلے قرآن کا بھی کوئی علم آپ کو نہیں تھا اور اسی طرح ایمان کی ان تفصیلات سے بھی بیخبر تھے جو شریعت میں مطلوب ہیں۔
[٧٢] آپ کو وحی کی تمام صورتوں میں وحی ہوئی :۔ اسی طرح سے مراد یہ ہے کہ ہم نے ان تمام قسموں کی وحی آپ کی طرف بھی کی ہے۔ القاء والہام سے متعلق سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پہلے جو وحی رسول اللہ پر ہوئی وہ سچا خواب تھا جو کچھ آپ نیند کی حالت میں دیکھتے وہ (بیداری میں) صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوتا۔ (بخاری۔ باب کیف کان بدء الوحی)- ایسا ہی خواب آپ کو صلح حدیبیہ سے پیشتر آیا تھا کہ مسلمان امن و اطمینان سے کعبہ کا طواف اور عمرہ کر رہے ہیں جس کا ذکر سورة فتح کی آیت نمبر ٢٧ میں موجود ہے۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ دوسری صورت اللہ تعالیٰ کا پردہ کے پیچھے سے بات کرنا ہے۔ وحی کی یہ صورت آپ کو واقعہ معراج کے دوران پیش آئی جبکہ نمازیں فرض ہوئی تھیں اور آپ اللہ تعالیٰ سے کئی بار ہم کلام ہوئے تھے اور اس کا ذکر سورة نجم کی آیات نمبر ٩ اور ١٠ میں موجود ہے۔- تیسری صورت جبرئیل کے آپ کے دل پر نازل ہونے کی ہے۔ اور قرآن سارے کا سارا اسی صورت میں نازل ہوا ہے۔ یہ صورت آپ کے لیے سخت تکلیف دہ ہوتی تھی۔ پہلے آپ گھنٹیاں بجنے جیسی آوازیں سنتے تھے۔ یہ گویا ایک قسم کا انتباہ ہوتا تھا۔ جس سے آپ کا رشتہ اس مادی دنیا سے کٹ کر عالم بالا سے جڑ جاتا تھا۔ اس وقت آپ کے حواس ظاہری کام نہیں کرتے تھے۔ اور تمام تر توجہ وحی کی طرف مبذول ہوجاتی تھی۔ اس شدت تکلیف سے آپ کو بعض دفعہ سخت سردی کے موسم میں بھی پسینہ آجاتا تھا۔ نیز اس وقت آپ پر شدید بوجھ پڑتا تھا۔ چناچہ سیدنا زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ مجھ سے وحی لکھوا رہے تھے۔ آپ کی ران میری ران پر تھی۔ وحی آنے سے آپ کی ران اتنی بھاری ہوگئی کہ میں ڈرا کہ کہیں میری ران (بوجھ سے) ٹوٹ نہ جائے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة النساء۔ باب (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 95ۙ ) 4 ۔ النسآء :95) اور اگر آپ اونٹنی پر سوار ہوتے اور وحی آنا شروع ہوتی تو اونٹنی بوجھ کے مارے بیٹھ جاتی تھی۔ اور چوتھی صورت سیدنا جبرئیل کے انسانی شکل میں آپ کے سامنے آکربات کرنے کی ہے۔ حدیث جبرئیل کے مطابق سیدنا جبرئیل اس وقت ایک اجنبی انسان کی شکل میں آئے تھے۔ اور بسا اوقات جبرئیل دحیہ کلبی کی شکل میں آپ کے پاس آتے تھے۔- [٧٣] روح سے یہاں مراد صرف قرآن نہیں بلکہ ہر طرح کی وحی ہے جس کا تفصیلی ذکر سابقہ حاشیہ میں کیا گیا ہے۔- [٧٤] یعنی نبوت ملنے سے پہلے آپ کو اس بات کا خواب و خیال تک نہ تھا کہ آپ کو نبوت یا کتاب الٰہی ملنے والی ہے یا ملنی چاہئے۔ اسی طرح آپ ایمان کی تفصیلات سے واقف نہ تھے۔ صرف اتنا ہی جانتے تھے کہ اس کائنات کا خالق ومالک صرف اللہ ہی اکیلا ہے اس کے سوا کوئی دوسرا اس کے اختیارات میں شریک اور اس کا ہمسر نہیں۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس ایمان کے تقاضے کیا ہیں نیز یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اللہ کی کتابوں، نبیوں، فرشتوں اور روز آخرت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔- [٧٥] یعنی اس کتاب قرآن کو روشنی بنادیا ہے اور اس روشنی میں ہدایت کی راہ صاف صاف نظر آنے لگتی ہے۔ اور جو لوگ قرآن کی اس روشنی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، ہم انہیں سعادت و فلاح کے راستہ پر لے چلتے ہیں۔- [٧٦] ہدایت کے سرچشمے کون کون سے ہیں ؟ ان دو آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کے ذرائع تین ہیں اوراقسام دو ہیں۔ پہلی قسم کی ہدایت یہ ہے کہ کوئی شخص کفر و شرک کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوجائے۔ اور ایسی ہدایت خالصتاً اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ورنہ قرآن جیسی دل نشین اور پر تاثیر کتاب ہو اور اس کے مبلغ افضل الانبیاء ہوں تو چاہئے تو یہ تھا کہ سب قریش مکہ ایمان لے آتے مگر آپ کی انتہائی تمنا اور سعی کے باوجود ایسا نہ ہوسکا۔ ہدایت کی دوسری قسم یہ ہے کہ جو لوگ اسلام لے آئے ہیں ان کی سیدھی راہ کے لیے رہنمائی کی جائے۔ اور یہ کام قرآن کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ کے ذریعہ سے بھی۔ اور آپ کے بعد صحابہ اور علماء کرام کے ذریعہ سے۔
(١) وکذلک اوحیناً الیک روحاً من امرنا :(روحاً ) سے مراد وحی ہے، خواہ قرآن کی صورت میں ہو یا سنت کی صورت میں، کیونکہ وہ دونوں وحی ہیں، جیسا کہ فرمایا :(وما ینطق عن الھویٰ ان ھوالا وحی یوحی) (النجم : ١٠٢)” اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔ “ اسے ” روح “ اس لئے کہا گیا ہے کہ حقیقی زندگی اسی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے، دل کی زندگی بھی اور آخرت کی زندگی بھی، جیسے فرمایا :(ینزل الملئکۃ بالروح من امرہ علی من یشآء من عبادہ) (النحل : ٢)” وہ فرشتوں کو وحی کے ساتھ اپنے حکم سے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ “- (٢) ماکنت تدری ما الکتب ولا الایمان : اس فرمان میں ایک تو نعمت کی یاد دہانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ علم عطا فرمایا جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے۔ دوسرا یہ آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل ہے کہ امی ہونے اور کتاب و ایمان کا علم نہ رکھنے کے باوجود آپ کا قرآن کریم جیسی عظیم کتاب لانا محض اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کی وحی ہی کے ذریعے سے ہوسکتا ہے۔- (٢) یہاں ایک سوال ہے کہ اس بات میں تو کوئی اشکال نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے پہلے کتاب کا علم نہ تھا، مگر یہ بات قابل غور ہے کہ آپ کو ایمان کا علم بھی نہیں تھا، کیونکہ انبیاء (علیہ السلام) کا نبوت ملنے سے پہلے کم از کم اللہ تعالیٰ اور اس کی وحدانیت پر ایمان تو ہوتا ہے، جیساک ہ صحیح بخاری وغیرہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غار حرا میں جا کر عبادت کرنے کا ذکر موجود ہے۔ جوابا س کا یہ کہ آپ ہی نہیں سارے عرب امی ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے اور یہ بھی مانتے تھے کہ وہی زمین و آسمان کا خلاق ہے اور پوری کائنات کی تدبیر کرنے والا ہے، مگر وہ شرک کی بیماری میں مبتلا تھے۔ انبیاء کی فطرت نہایت سلیم ہوتی ہے اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی اللہ پر ایمان تھا۔ نبوت سے پہلے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرک یا کبائر کا ارتکاب نہیں ہوا، مگر یہ ایمان اجمالی تھا۔ تفصیل کے ساتھ ایمان جو حدیث جبریل کے مطابق اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں ، یوم آخرت اور تقدیر پر ایمان کا نام ہے، اس کی تفصیلات آپ کو وحی کے بعد ہی معلوم ہوئیں۔ اس کے علاوہ جب لفظ ایمان اکیلا بولا جائے تو اس میں تصدیق ، قول اور عمل تینوں چیزیں شامل ہوتی ہیں، جیسا کہ وفد عبدالقیس کی مشہور وحدیث میں ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کی آیت (١٤٣) :(وما کان اللہ لیصیع ایمانکم) میں نماز کو ایمان قرار دیا اور جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(الایمان بصع و سبعون او بضع وستون شعبۃ فافضلھا قول لا الہ الا اللہ و اذناھا اماطۃ الاذی غن الظرین) (مسلم الایمان، باب بیان عدد شعب الایمان …٣٥)” ایمان کی ستر (٧٠) یا (فرمایا) ساٹھ (٦٠) سے زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل ” لا الہ الا اللہ “ کہنا ہے اور سب سے کم راستے سے تکلیف دہ چیز دور کرنا ہے۔ “ ظاہر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز، زکوۃ ، حج اور دوسری ایمانیات کی تفصیلات وحی الٰہی سے پہلے نہیں جانتے تھے۔- (٤) یہاں جو فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان معاملات کو نہیں جانتے تھے، حتیٰ ہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی اور کتاب اللہ کے ذریعے سے آپ کو ہدایت کا نور عظیم عطا فرمایا، یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر بیان فرمائی ہے، جیسے فرمایا :(وانزل اللہ علیک الکتب و الحکمۃ و علم مالم تکن تعلم) (النسائ : ١١٣) ” اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا۔ “ اور فرمایا :(وان کنت من قبلہ لمن الغفلین) (یوسف : ٣)” اور بیشک تو اس سے پہلے یقینا بیخبروں سے تھا۔ “ اور فرمایا :(وما کنت تتلوا من قبلہ من کتب و لا تخطہ بیمینک اذا لارتاب المبطلون) (العنکبوت :38)” اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، اس وقت باطل والے لوگ ضرور شک کرتے۔ “ اور فرمایا :(وما کنت ترجوان ان یلقی الیک الکتب الا رحمۃ من ربک) (القصص : ٨٦)” اور تو امیدنہ رکھتا تھا کہ تیری طرف کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، اس وقت باطل والے لوگ ضرور شک کرتے۔ “ اور تو امیدن ہ رکھتا تھا کہ تیری طرف کتاب نازل کی جائے گی مگر تیرے رب کی طرف سے رحمت کی وجہ سے (یہ نازل ہوئی۔ ) “ اور فرمایا :(تلک من انبآء الغیب نوجیھآء الیک ماکنت تعلمھا انت ولاقومک من قبل ھذا) (ھود :39)” یہ غیب کی خبروں سے ہے جنہیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا، اور نہ تیری قوم۔ “ ان آیات کی تفسیر پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔- (٥) ولکن جعلنہ نوراً ” نوراً “ میں تنوین تعظیم کے لئے ہے اور ” جعلنہ “ میں ” ہ “ ضمیر وحی الٰہی کی طرف جا رہی ہے جس کا ذکر ” روحاً من امرنا “ میں ہے۔ یعنی ہم نے اس وحی کو جو قرآن اور سنت کی صورت میں ہے، عظیم نور بنادیا۔ نور اس لئے فرمایا کہ اس کیساتھ حق روشن ہوتا ہے اور جہالت، شک اور شرک کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔- (٦) نھدی بہ من نشآء من عبادناً : یعنی ہم نے اس وحی کو ایسا نور بنایا جس کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو متعدد مقامات پر نور ہدایت قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١٧٤) ، اعراف (١٥٧) ، مائدہ (١٥، ١٦) اور سورة تغابن (٨)- (٧) ونک لتھدی الی صراط مستقیم : ہدایت اور صراط مستقیم کی تفسیر کے لئے سورة فاتحہ کا مطالعہ فرمائیں۔
(آیت) مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ الآیة۔ یہ آیت پہلی ہی آیت کے مضمون کا تکملہ ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں بالمشافہ کلام تو کسی کا نہ ہوا نہ ہوسکتا ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے مخصوص بندوں پر اپنی وحی بھیجتے ہیں جس کے تین طریقے پہلی آیت میں بیان ہوئے۔ اسی سنت الٰہیہ کے مطابق آپ پر بھی وحی بھیجی جاتی ہے۔ یہودیوں کا یہ مطالبہ کہ آپ اللہ تعالیٰ سے بالمشافہ کیوں مخاطب نہیں ہوتے محض جاہلانہ اور معاندانہ ہے۔ اس لئے یہ فرمایا کہ کسی انسان کو یہاں تک کہ کسی رسول کو جو کچھ بھی علم ملتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی ان کو یہ نہ بتلا دیں تو انہیں کسی کتاب کی واقفیت ہو سکتی ہے نہ تفصیلات ایمان کی کتاب کی واقفیت قبل وحی نہ ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ ایمان سے واقفیت نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ایمان کی تفصیلات اور شرائع ایمان یا ایمان کا اعلیٰ مقام جو بعد وحی حاصل ہوتا ہے، وحی سے پہلے اس کی واقفیت نہیں ہوتی۔ ورنہ باجماع امت یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ جس انسان کو اپنا رسول و نبی بناتے ہیں اس کو ابتداء ہی سے ایمان پر پیدا فرماتے ہیں۔ ان کی فطرت ایمان پر مبنی ہوتی ہے۔ عطاء نبوت اور نزول وحی سے پہلے بھی وہ پکے مومن ہوتے ہیں۔ اصول ایمان ان کی فطرت و خلقت میں داخل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) سے جب ان کی قوموں نے مخالفت کی تو ان پر طرح طرح کے الزام لگائے مگر کسی پیغمبر پر کسی امت نے یہ الزام نہیں لگایا کہ تم بھی تو نبوت کے دعوے سے پہلے ہماری طرح بتوں کو پوجا کرتے تھے۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں اور قاضی عیاض نے شفاء میں اس مضمون کو پوری تفصیل سے لکھا ہے۔
وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ٠ ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِيْ بِہٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ٠ ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَہْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ٥٢ ۙ- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - روح ( فرشته)- وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89]- روح - اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے ۔- دری - الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما - يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه «1» ، نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب - ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) - الدریۃ - ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے
اور اسی طرح ہم نے آپ کے پاس جبریل امین کے ذریعہ قرآن کریم بھیجا جبریل کے آنے سے پہلے آپ کو تو یہ خبر نہ تھی کہ قرآن کریم کیا ہے اور نہ آپ قرآن کریم اچھی طرح پڑھنا جانتے تھے اور نہ آپ توحید کی دعوت کا طریقہ جانتے تھے۔- لیکن ہم نے اس قرآن حکیم کو اوامرو نواہی حلال و حرام حق و باطل کے اظہار کے لیے ایک بیان بنایا ہم اس قرآن حکیم کے ذریعے سے جو اس کا اہل ہوتا ہے اس کو ہدایت نصیب کرتے ہیں اور آپ ایک سیدھے رستہ کی طرف لوگوں کو بلا رہے ہیں۔
آیت ٥٢ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَـآ اِلَـیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے ایک روح اپنے امر میں سے ۔ “- یہاں پر قرآن کو رُوحًا مِّن اَمْرِنَا کہا گیا ہے۔ - اگلی آیت میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایمان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایمان کہاں سے ملا ؟ اس مضمون کے اعتبار سے یہ قرآن حکیم کا اہم ترین مقام ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی مثال ایمان کی دہکتی ہوئی بھٹی کی سی ہے کہ جو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب آگیا ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگیا۔ البتہ جس طرح ایک خراب موصل ( ) بھٹی کے سامنے ہونے کے باوجود بھی ” اتصالِ حرارت “ کے عمل سے محروم رہتا ہے اسی طرح بعض بد نصیب انسان (منافقین) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قربت میں رہنے کے باوجود بھی ایمان سے محروم رہے۔ - مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے “- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے معروف اور روایتی طریقے سے نہ تو تعلیم حاصل کی تھی اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تورات یا کوئی اور کتاب پڑھی تھی۔ اس لحاظ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اُمییّن “ میں سے تھے۔- وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا ” لیکن اس (قرآن) کو ہم نے ایسا نور بنایا ہے جس کے ذریعے سے ہم ہدایت دیتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں۔ “- یعنی قرآن کے ذریعے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایمان نے ایک حقیقی اور واقعی شکل اختیار کرلی۔ فطرتِ انسانی کے اندر موجود ایمان کی خفتہ ( ) کیفیت کے بارے میں اس مطالعہ قرآن کے دوران قبل ازیں متعدد بار گفتگو ہوچکی ہے۔ ظاہر ہے روح محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تمام انسانی ارواح سے زیادہ قوی ایمان موجود تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح کے ایمان کی کیفیت سورة النور کے پانچویں رکوع میں بیان کی گئی مثال کے مطابق ” نورٌ عَلٰی نُوْرٍ “ کی سی تھی۔ ہمارے علماء نے اس کی تعبیر یوں کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح کے اندر اجمالی ایمان پہلے سے موجود تھا ‘ جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تفصیلی ایمان قرآن سے ملا۔ میں اس کی تعبیر یوں کرتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح مبارک کے اندر بالقوۃ ّ ( ) ایمان پہلے سے موجود تھا جو خفتہ ( ) حالت میں تھا۔ قرآن نے اس ایمان کو فعال ( ) کردیا۔ یعنی قرآن کے نور سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایمان جگمگا اٹھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے اندر ” نورٌ عَلٰی نُوْرٍ “ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی نوع انسان کو راہ ہدایت دکھانے کے لیے مینارہ نور بن گئے۔- وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقینا سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔ “- جیسے کہ ساحل پر موجود روشنی کا مینار جہازوں کو بندرگارہ تک پہنچنے کا راستہ دکھاتا ہے۔
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :83 اسی طرح سے مراد محض آخری طریقہ نہیں ہے بلکہ وہ تینوں طریقے ہیں جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئے ہیں ۔ اور روح سے مراد وحی ، یا وہ تعلیم ہے جو وحی کے ذریعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ۔ یہ بات قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تینوں طریقوں سے ہدایات دی گئی ہیں : 1 ) ۔ حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے کی ابتداء ہی سچے خوابوں سے ہوئی تھی ( بخاری و مسلم ) ۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا ہے ، چنانچہ احادیث میں آپ کے بہت سے خوابوں کا ذکر ملتا ہے جن میں آپ کو کوئی تعلیم دی گئی ہے یا کسی بات پر مطلع کیا گیا ہے ، اور قرآن مجید میں بھی آپ کے ایک خواب کا صراحت کے ساتھ ذکر آیا ہے ( الفتح ، آیت 27 ) ۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، فلاں بات میرے دل میں ڈالی گئی ہے ، یا مجھے یہ بتایا گیا ہے ، یا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے ، یا مجھے اس سے منع کیا گیا ہے ۔ ایسی تمام چیزیں وحی کی پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہیں ، اور احادیث قدسیہ بھی زیادہ تر اسی قبیل سے ہیں ۔ 2 ) ۔ معراج کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی دوسری قسم سے بھی مشرف فرمایا گیا ۔ متعدد صحیح احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پنج وقتہ نماز کا حکم دیے جانے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پر بار بار عرض معروض کرنے کا ذکر جس طرح آیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ اور اس کے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ویسا ہی مکالمہ ہوا تھا جیسا دامن طور میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوا ۔ 3 ) ۔ رہی تیسری قسم ، تو اس کے متعلق قرآن خود ہی شہادت دیتا ہے کہ اسے جبریل امین کے ذریعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا گیا ہے ( البقرہ ، 97 ۔ الشعراء ، 192 تا 195 ) ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :84 یعنی نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں یہ تصور تک نہ آیا تھا کہ آپ کو کوئی کتاب ملنے والی ہے ، یا ملنی چاہیے ، بلکہ آپ سرے سے کتب آسمانی اور ان کے مضامین کے متعلق کچھ جانتے ہی نہ تھے ۔ اسی طرح آپ کو اللہ پر ایمان تو ضرو حاصل تھا ۔ مگر آپ نہ شعوری طور پر اس تفصیل سے واقف تھے کہ انسان کو اللہ کے متعلق کیا کیا باتیں ماننی چاہییں ، اور نہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ اس کے ساتھ ملائکہ اور نبوت اور کتب الہٰی اور آخرت کے متعلق بھی بہت سی باتوں کا ماننا ضروری ہے ۔ یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جو خود کفار مکہ سے بھی چھپی ہوئی نہ تھیں ۔ مکہ معظمہ کا کوئی شخص یہ شہادت نہ دے سکتا تھا کہ اس نے نبوت کے اچانک اعلان سے پہلے کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کتاب الہٰی کا کوئی ذکر سنا ہو ، یا آپ سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہو کہ لوگوں کو فلاں فلاں چیزوں پر ایمان لانا چاہیے ۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے سے خود نبی بن بیٹھنے کی تیاری کر رہا ہو تو اسکی یہ حالت تو کبھی نہیں ہو سکتی کہ چالیس سال تک اس کے ساتھ شب و روز کا میل جول رکھنے والے اس کی زبان سے کتاب اور ایمان کا لفظ تک نہ سنیں ، اور چالیس سال کے بعد یکایک وہ انہی موضوعات پر دھواں دھار تقریریں کرنے لگے ۔
11: روح سے مراد قرآن کریم اور اس کے احکام ہیں، کیونکہ وہ انسان کے لئے روحانی زندگی کا باعث ہیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ روح سے مراد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ہوں جنہیں روح القدس بھی کہا جاتا ہے اور قرآن کریم کے نزول کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہی کو واسطہ بنایا ہے۔