سورة الزُّخْرُف نام : آیت 35 کے لفظ : وَزُخْرُفاً سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں لفظ زُخْرُفْ آیا ہے ۔ زمانۂ نزول : کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوسکا ہے ۔ لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ بھی اسی زمانے میں نازل ہوئی ہے جس میں المومن ، حٰم السجدہ اور الشوریٰ نازل ہوئیں ۔ یہ ایک ہی سلسلے کی سورتیں معلوم ہوتی ہیں جن کا نزول اس وقت سے شروع ہوا جب کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے ہوگئے تھے ۔ شب و روز اپنی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کر مشورے کر رہے تھے کہ آپ کو کس طرح ختم کیا جائے ، اور ایک حملہ آپ کی جان پر ہو بھی چکا تھا ۔ اس صورت حال کی طرف آیات 79 ۔ 80 ۔ میں صاف اشارہ موجود ہے ۔ موضوع اور مباحث : اس سورے میں پورے زور کے ساتھ قریش اور اہل عرب کے ان جاہلانہ عقائد و اوہام پر تنقید کی گئی ہے جن پر وہ اصرار کیے چلے جا رہے تھے ، اور نہایت محکم و دل نشین طریقے سے ان کی نامعقولیت کا پردہ فاش کیا گیا ہے ، تا کہ معاشرے کا ہر فرد ، جس کے اندر کچھ بھی معقولیت موجود ہو ، یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آخر یہ کیسی جہالتیں ہیں جن سے ہماری قوم بری طرح چمٹی ہوئی ہے ، اور جو شخص ہمیں ان کے چکر سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے ۔ کلام کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ اپنی شرارتوں کے بل پر یہ چاہتے ہو کہ نزول روک دیا جائے ، مگر اللہ نے کبھی اشرار کی وجہ سے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل نہیں روکی ہے ، بلکہ ان ظالموں کو ہلاک کر دیا ہے جو اس کی ہدایت کا راستہ روک کر کھڑے ہوئے تھے ۔ یہی کچھ وہ اب بھی کرے گا ۔ آگے چل کر آیات 41 ۔ 43 ۔ اور 79 ۔ 80 میں یہ مضمون پھر دہرایا گیا ہے ۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے تھے ان کو سناتے ہوئے حضور سے فرمایا گیا ہے کہ تم خواہ زندہ رہو یا نہ رہو ، ان ظالموں کو ہم سزا دے کر رہیں گے ۔ اور خود ان لوگوں کو صاف صاف متنبہ کر دیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہمارے نبی کے خلاف ایک اقدام کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم بھی پھر ایک فیصلہ کن قدم اٹھائیں گے ۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ وہ مذہب کیا ہے جسے یہ لوگ سینے سے لگائے ہوئے ہیں ، اور وہ دلائل کیا ہیں جن کے بل بوتے پر یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ خود مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کا ، اور ان کا اپنا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ جن نعمتوں سے یہ فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ سب اللہ کی دی ہوئی ہیں ۔ پھر بھی دوسروں کو اللہ کے ساتھ خدائی میں شریک کرنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں ۔ بندوں کو اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں ۔ اور اولاد بھی بیٹیاں جنہیں خود اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہیں ۔ فرشتوں کو انہوں نے دیویاں قرار دے رکھا ہے ۔ ان کے بت عورتوں کی شکل کے بنا رکھے ہیں ۔ انہیں زنانہ کپڑے اور زیور پہناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ ان کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی سے منتیں اور مرادیں مانگتے ہیں ۔ آخر انہیں کیسے معلوم ہوا کہ فرشتے عورتیں ہیں ؟ ان جہالتوں پر ٹوکا جاتا ہے تو تقدیر کا بہانہ پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ ہمارے اس کام کو پسند نہ کرتا تو ہم کیسے ان بتوں کی پرستش کر سکتے تھے ۔ حالانکہ اللہ کی پسند اور ناپسند معلوم ہونے کا ذریعہ اس کی کتابیں ہیں نہ کہ وہ کام جو دنیا میں اس کی مشیت کے تحت ہو رہے ہیں ۔ مشیت کے تحت تو ایک بت پرستی ہی نہیں ، چوری ، زنا ، ڈاکہ ، قتل ، سب ہی کچھ ہو رہا ہے ۔ کیا اس دلیل سے ہر اس برائی کو جائز و برحق قرار دیا جائے گا جو دنیا میں ہو رہی ہے ؟ پوچھا جاتا ہے کہ اپنے اس شرک کے لیے تمہارے پاس اس غلط دلیل کے سوا کوئی اور سند بھی ہے ، تو جواب دیتے ہیں کہ باپ دادا سے یہ کام یوں ہی ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ گویا ان کے نزدیک کسی مذہب کے حق ہونے کے لیے یہ کافی دلیل ہے ۔ حالانکہ ابراہیم علیہ السلام ، جن کی اولاد ہونے پر ہی ان کے سارے فخر و امتیاز کا مدار ہے ، باپ دادا کے مذہب کو لات مار کر گھر سے نکل گئے تھے اور انہوں نے اسلاف کی ایسی اندھی تقلید کو رد کر دیا تھا جس کا ساتھ کوئی دلیل معقول نہ دیتی ہو ۔ پھر اگر ان لوگوں کو اسلاف کی تقلید ہی کرنی تھی تو اس کے لیے بھی اپنے بزرگ ترین اسلاف ، ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے جاہل ترین اسلاف کا انتخاب کیا ان سے کہا جاتا ہے کہ کیا کبھی کسی نبی نے اور خدا کی طرف سے آئی ہوئی کسی کتاب نے بھی یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے بھی عبادت کے مستحق ہیں ، تو یہ عیسائیوں کے اس فعل کو دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو ابنُ اللہ مانا اور ان کے پرستش کی ۔ حالانکہ سوال یہ نہ تھا کہ کسی نبی کی امت نے شرک کیا ہے یا نہیں ، بلکہ یہ تھا کہ خود کسی نبی نے شرک کی تعلیم دی ہے ۔ ؟ عیسیٰ ابن مریم نے کب کہا تھا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو ۔ ان کی اپنی تعلیم تو وہی تھی جو دنیا کے ہر نبی نے دی ہے کہ میرا رب بھی اللہ ہے اور تمہارا رب بھی ، اسی کی تم عبادت کرو ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تسلیم کرنے میں انہیں تامل ہے تو اس بنا پر کہ ان کے پاس مال و دولت اور ریاست وجاہت تو ہے ہی نہیں ۔ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہمارے ہاں کسی کو نبی بنانا چاہتا تو ہمارے دونوں شہروں ( مکہ و طائف ) کے بڑے آدمیوں میں سے کسی کو بناتا ۔ اسی بنا پر فرعون نے بھی حضرت موسیٰ کو حقیر جانا تھا اور کہا تھا کہ آسمان کا بادشاہ اگر مجھ زمین کے بادشاہ کے پاس کوئی ایلچی بھیجتا تو اسے سونے کے کنگن پہنا کر ، فرشتوں کی ایک فوج اس کی اردلی میں دے کر بھیجتا ۔ یہ فقیر کہاں سے آ کھڑا ہوا ؟ فضیلت مجھے حاصل ہے کہ مصر کی بادشاہی میری ہے اور دریائے نیل کی نہریں میری ماتحتی میں چل رہی ہیں ۔ یہ شخص میرے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے کہ نہ مال رکھتا ہے نہ اقتدار ۔ اس طرح کفار کی ایک ایک جاہلانہ بات پر تنقید کرنے اور اس کے نہایت معقول و مدلل جوابات دینے کے بعد آخر میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ نہ خدا کی کوئی اولاد ہے ، نہ آسمان و زمین کے خدا الگ الگ ہیں ، نہ اللہ کے ہاں کوئی ایسا شفیع ہے جو جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرنے والوں کو اس کی سزا سے بچا سکے اللہ کی ذات اس سے منزہ ہے کہ کوئی اسکی اولاد ہو ۔ وہی اکیلا ساری کائنات کا خدا ہے ، باقی سب اس کے بندے ہیں نہ کہ اس کے ساتھ خدائی صفات و اختیارات میں شریک ۔ اور شفاعت اس کے ہاں صرف وہی کر سکتے ہیں جو خود حق پرست ہوں ، اور ان ہی کے لیے کر سکتے ہیں جنہوں نے دنیا میں حق پرستی اختیار کی ہو ۔
تعارف سورۃ الزخرف اس سورت کا مرکزی موضوع مشرکین مکہ کی تردید ہے جس میں ان کے اس عقیدے کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے جس کی رو سے وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، نیز وہ اپنے دین کو صحیح قرار دینے کے لئے یہ دلیل دیتے تھے کہ ہم نے اپنے باپ دادؤں کو اسی طریقے پر پایا ہے، اس کے جواب میں اول تو یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ قطعی عقائد کے معاملے میں باپ دادؤں کی تقلید بالکل غلط طرز عمل ہے، اور پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر فرمایا گیا ہے کہ اگر باپ دادؤں ہی کے پیچھے چلنا ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کیوں نہیں کرتے، جنہوں نے شرک سے کھلم کھلا بیزاری کا اعلان فرمایا تھا، مشرکین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو اعتراضات کیا کرتے تھے اس سورت میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے، ان کا ایک اعتراض یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو کوئی پیغمبر بھیجنا ہی تھا تو کسی دولت مند سردار کو اس مقصد کے لئے کیوں نامزد نہیں کیا گیا، اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں یہ واضح فرمایا ہے کہ دنیوی مال ودولت کا انسان کے تقدس اور اللہ تعالیٰ کے تقرب سے کوئی تعلق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی سونا چاندی اور دنیا بھر کی دولت دے سکتا ہے ؛ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں، کیونکہ آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں اس مال ودولت کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس سورت نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ معاشی وسائل کی تقسیم اپنی حکمت کے مطابق ایک خاص انداز سے فرماتے ہیں، جس کے لئے ایک مستحکم نظام بنایا گیا ہے، اسی ذیل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ بھی اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے ؛ کیونکہ فرعون کو بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر یہی اعتراض تھا کہ وہ دنیوی مال ودولت کے اعتبار سے کوئی بڑی حیثیت نہیں رکھتے، اور فرعون کے پاس سب کچھ ہے ؛ لیکن انجام یہ ہوا کہ فرعون اپنے کفر کی وجہ سے غرق ہوا، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غالب آکر رہے، نیز اس سورت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی مختصر ذکر فرماکر ان کی صحیح حیثیت واضح فرمائی گئی ہے۔ ‘‘ زخرف ’’ عربی زبان میں سونے کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر : ٣٥ میں اس کا ذکر اس سیاق میں کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو سارے کافروں کو سونے ہی سونے سے نہال کردے، اسی وجہ سے اس سورت کا نام زخرف ہے۔