28۔ 1 یعنی اس کا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی وصیت اپنی اولاد کو کر گئے جیسے فرمایا یعنی اللہ نے اس کلمہ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ان کی اولاد میں باقی رکھا اور وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے۔ 28۔ 2 یعنی اولاد ابراہیم میں یہ موحدین اس لئے پیدا کئے تاکہ ان کی توحید کے وعظ سے لوگ شرک سے باز آتے رہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دین تھا جو خالص توحید پر مبنی تھا نہ کہ شرک پر۔
[٢٦] سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو بھی یہی تعلیم دی تھی اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کردی تھی کہ اگر تم میں کوئی اختلاف واقع ہوجائے تو اسی کلمہ توحید کی طرف رجوع کرنا اور میری اس تعلیم کو کبھی نہ بھولنا۔ اور وہ تعلیم یہی تھی کہ اللہ کے سوا کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو پرستش کے قابل ہو۔
( ) ١ وجعلھا کلمۃ :’ جعلھا “ میں ضمیر ” ھا ‘ سے مراد کلمہ توحی ” لا الہ الا اللہ “ ہے، کیونکہ ” اثنی برآء مما تعبدون “ کا خلاصہ ” لا الہ “ ہے اور ” الا الذی فطرنی “ کا خلاصہ “ الا اللہ “ ہے۔- (ہ) باقیہ فی عقبہ :” جعلھا “ میں ضمیر فاعل سے مراد ابراہیم (علیہ السلام) بھی ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کلمہ کو پانی اولاد میں باقی رہنے والا بنادیا۔ دو طرح سے، ایک تو انہوں نے اپنی اولاد کو اور ان کی اولاد نے پانی اولاد کو اس کی وصیت کی، جیسا کہ فرمایا :(ووضی بھا ابرھم بنیہ و یعقوب ، یبنی ان اللہ اصطفی لکم الذین فلا ت موتن الا وانثم مسلمون) (البقرۃ : ١٢٢)” اور اسی کی وصیت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے بیٹو بیشک اللہ نے تمہارے لئے یہ دین چن لیا ہے، تو تم ہرگز فوت نہ ہونا مگر اس کی اولاد میں سے ایک امت مسلم یعنی اللہ کی فرماں بردار رہے، وہ بت پرستی سے بچے رہیں، ایمان اور عمل صالح پر قائم رہیں اور ان میں انبیاء و رسل اور اس کلمے کی دعوت دینے والے موجود رہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واذا بتلی ابراھم ربہ بکلمت فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً قال ومن ذریتی قال لا ینال عھدی الظلمین) (البقرہ :123)” اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ساتھ آزمایا تو اس نے انھیں پورا کردیا۔ فرمایا بیشک میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ کہا اور میری اولاد میں سے بھی ؟ فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔ “ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی ۔ (واجنبنی و بنی ان نعبد الاصنام) (ابراہیم : ٣٥)” اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ “ اور دعا کی : (رب اجعلنی مقیم الصلوۃ ومن ذریتی) (ابراہیم : ٣٠) ” اے میرے رب مجھ نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی۔ “ اور ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) نے دعا کی :(ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنآ امۃ مسلمۃ لک) (البقرۃ : ١٢٨)” اے ہمارے رب اور ہمیں اپنے لئے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لئے فرماں بردار بنا۔ “ اور یہ دعا بھی کی :(ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویرکیھم) (البقرۃ : ١٢٩)” اے ہمارے رب اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انھیں کتاب و حکمت سکھائے اور انھیں پاک کرے۔ “- اور اگر ” جعلھا “ میں ضمیر فاعل سے مراد اللہ تعالیٰ ہو تو مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کلمے کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں باقی رہنے والا بنادیا اور ان میں ہمیشہ اس کلمے پر ایمان رکھنے والے اور اس کی دعوت دینے والے موجود رہے اور رہیں گے۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی دعا قبول فرما کر مکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انا دعوۃ ابی ابراہیم) (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ح : 1536)” میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں۔ “ اسی طرح ان کی اولاد میں اسحاق، یعقوب اور بہت سے انبیاء (علیہم السلام) مبعوث فرمائے، فرمایا :(٣ وھبنا لہ اسحاق و یعقوب و جعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتب) (العنکبو :28)” اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کئے اور اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ “- (٣) لعلھم یرجعون : یعنی اگر ان میں سے کچھ لوگ گمراہ ہو کر شرک کرنے لگیں تو توحید پرستوں کی دعوت پر اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ آئیں۔ اس میں مکہ والوں کو تنبیہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کلمہ لے کر آئے ہیں جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد میں باقی چھوڑا تھا، اس لئے تم ان کی دعوت قبول کرلو اور شرک سے باز آجاؤ۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ساری اولاد ایمان والی نہیں ہوئی بلکہ ان میں نیک و بد ہر قسم کے لوگ رہے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٢٤) ، صافات (١١٣) نسائ، (٥٤، ٥٥) اور سورة حدید (٢٦) اگلی آیت میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔
(آیت) وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ (اور وہ اس کو اپنی اولاد میں ایک قائم رہنے والی بات کر گئے) مطلب یہ ہے کہ اپنے عقیدہ توحید و انہوں نے اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ اپنی اولاد کو بھی اسی عقیدے پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی۔ چناچہ آپ کی اولاد میں ایک بڑی تعداد موحدین کی ہوئی اور خود مکہ مکرمہ اور اس کے گرد و نواح میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت تک ایسے سلیم الفطرت حضرات موجود تھے جو صدیاں گزرنے کے بعد بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اصلی دین پر ہی قائم رہے۔- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی ذات کے علاوہ اپنی اولاد کو دین صحیح پر کاربند کرنے اور رکھنے کی فکر بھی انسان کے فرائض میں داخل ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) میں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے علاوہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں بھی قرآن کریم نے بتایا ہے کہ انہوں نے وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو صحیح دین پر قائم رہنے کی وصیت کی تھی۔ لہٰذا جس صورت سے ممکن ہو اولاد کے اعمال و اخلاق کی اصلاح میں اپنی پوری کوشش صرف کردینا ضروری بھی ہے اور انبیاء کی سنت بھی۔ اور یوں تو اولاد کی اصلاح کے بہت سے طریقے ہیں جنہیں حسب موقع اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن حضرت شیخ عبدالوہاب شعرانی (رح) نے لطائف المنن والاخلاق میں لکھا ہے کہ اولاد کی اصلاح کے لئے زیادہ کارگر عمل یہ ہے کہ والدین ان کی دینی اصلاح کے لئے دعا کا اہتمام کریں۔ افسوس ہے کہ اس آسان تدبیر سے آج کل غفلت عام ہوتی جا رہی ہے۔ اور اس کے انجام بد کا مشاہدہ خود والدین کرتے رہتے ہیں۔
وَجَعَلَہَا كَلِمَۃًۢ بَاقِيَۃً فِيْ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ ٢٨- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- بقي - البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وقد بَقِيَ بَقَاءً ، وقیل : بَقَي في الماضي موضع بقي، وفي الحدیث : «بقینا رسول الله» أي : انتظرناه وترصّدنا له مدة كثيرة، والباقي ضربان : باق بنفسه لا إلى مدّة وهو الباري تعالی، ولا يصحّ عليه الفناء، وباق بغیره وهو ما عداه ويصح عليه الفناء .- والباقي بالله ضربان :- باق بشخصه إلى أن يشاء اللہ أن يفنيه، کبقاء الأجرام السماوية .- وباق بنوعه وجنسه دون شخصه وجزئه، كالإنسان والحیوان .- وكذا في الآخرة باق بشخصه كأهل الجنة، فإنهم يبقون علی التأبيد لا إلى مدّة، كما قال عزّ وجل : خالِدِينَ فِيها [ البقرة 162] .- والآخر بنوعه وجنسه، كما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «أنّ ثمار أهل الجنة يقطفها أهلها ويأکلونها ثم تخلف مکانها مثلها» «1» ، ولکون ما في الآخرة دائما، قال اللہ عز وجل : وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص 60] ، وقوله تعالی: وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف 46] ، أي : ما يبقی ثوابه للإنسان من الأعمال، وقد فسّر بأنها الصلوات الخمس، وقیل : سبحان اللہ والحمد لله والصحیح أنها كلّ عبادة يقصد بها وجه اللہ تعالیٰ وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ- [هود 86] ، وأضافها إلى اللہ تعالی، وقوله تعالی: فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة 8] . أي : جماعة باقية، أو : فعلة لهم باقية . وقیل : معناه : بقية . قال : وقد جاء من المصادر ما هو علی فاعل وما هو علی بناء مفعول والأوّل أصح .- ( ب ق ی ) البقاء - کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اس کا باب بقی ( ض ) بقیا بھی آتا ہے چناچہ حدیث میں ہے یعنی ہم آنحضرت کے منتظر رہے اور کافی عرصہ تک آپ کی نگہبانی میں بیٹھے رہے ۔ الباقی ( صفت ) دو قسم پر ہے ایک الباقی بنفسہ جو ہمیشہ ایک حالت پر قائم رہے اور اس پر گھبی فنا طاری نہ ہو اس معنی میں یہ حق تعالیٰ کی صفت ہے ۔ دوم الباقی بغیرہ اس میں سب ماسوی اللہ داخل ہیں کہ ان پر فناء اور تغیر کا طاری ہونا صحیح ہے ۔ الباقی باللہ بھی دو قسم پر ہے ۔ ایک وہ جو بذاتہ جب تک اللہ کی مشیت ہو باقی جیسے اجرام سماویہ ۔ دوم وہ جس کے افراد و اجزاء تو تغیر پذیر ہوں مگر اس کی نوع یا جنس میں کسی قسم کا تغیر نہ ہو ۔ جیسے انسان وحیوان ۔ اسی طرح آخرت میں بھی بعض اشیاء بشخصہ باقی رہیں گی ۔ جیسے اہل جنت کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہیں گے ۔ جیسے فرمایا : ۔ خالِدِينَ فِيها [ البقرة 162] خالدین ( 4 ) جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اور بعض چیزیں صرف جنس ونوع کے اعتبار سے باقی رہیں گی ۔ جیسا کہ آنحضرت سے مروی ہے ان اثمار اھل الجنۃ یقطفھا اھلھا ویاء کلونھا ثم تخلف مکانھا مثلھا : کہ ثمار ( جنت کو اہل جنت چن کر کھاتے رہنیگے اور ان کی جگہ نئے پھل پیدا ہوتے رہیں گے چونکہ آخرت کی تمام اشیاء دائمی ہیں اس لئے فرمایا : ۔ وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص 60] اور جو خدا کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف 46] میں وہ تمام اذکار و اعمال صالحہ داخل ہیں جن کا ثواب انسان کے لئے باقی رہے ا ۔ بعض نے ان سے پانچ نمازیں مراد لی ہیں ۔ اور بعض نے اس سے یعنی تسبیح وتحمید مراد لی ہے ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ ان میں ہر وہ عبادت داخل ہے جس سے رضائے الہی مقصود ہو یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة 8] بھلا تو ان میں سے کسی بھی باقی دیکھتا ہے میں باقیۃ کا موصوف جماعۃ یا فعلۃ محزوف ہے یعنی باقی رہنے والی جماعت یا ان کا کوئی فعل جو باقی رہا ہو ۔ اور بعض کے نزدیک باقیۃ بمعنی بقیۃ ہے ان کا قول ہے کہ بعض مصادر فاعل کے وزن پر آتے ہیں اور بعض مفعول کے وزن پر لیکن پہلا قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔- عقب - العَقِبُ : مؤخّر الرّجل، وقیل : عَقْبٌ ، وجمعه : أعقاب، وروي : «ويل للأعقاب من النّار» واستعیر العَقِبُ للولد وولد الولد . قال تعالی: وَجَعَلَها كَلِمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف 28] ، وعَقِبِ الشّهر، من قولهم : جاء في عقب الشّهر، أي : آخره، وجاء في عَقِبِه : إذا بقیت منه بقيّة، ورجع علی عَقِبِه : إذا انثنی راجعا، وانقلب علی عقبيه، نحو رجع علی حافرته ونحو : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وقولهم : رجع عوده علی بدئه قال : وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام 71] ، انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران 144] ، وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] ، فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون 66]- ( ع ق ب ) ب والعقب پاؤں کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی اس کی جمع اعقاب ہے حدیث میں ہے ویلمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف 28] وضو میں خشک رہنے والی ایڑیوں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور بطور استعارہ عقب کا لفظ بیٹے پوتے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے ۔ جاء فی عقب الشھر مہنے کے آخری دنوں میں آیا ۔ رجع علٰی عقیبہ الٹے پاؤں واپس لوٹا ۔ انقلب علٰی عقیبہ وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا جیسے : ۔ رجع علٰی ھافرتہ کا محاورہ ہے اور جیسا کہ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے لوٹ گئے ۔ نیز کہا جاتا ہے ۔ رجع عودہ علٰی بدئہ یعنی جس راستہ پر گیا تھا اسی راستہ سے واپس لوٹ ایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام 71] تو کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) اور جو الٹے پاؤں پھر جائیگا ۔ ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] تو پسپا ہوکر چل دیا ۔ فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون 66] اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے ۔ عقبہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا اس کا جانشین ہوا جیسا کہ دبرہ اقفاہ کا محاورہ ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
اور ابراہیم کلمہ لا الہ الا اللہ کو اپنی قوم میں ایک باقی رہنے والی چیز کر گئے تاکہ وہ لوگ اپنے کفر سے لوٹتے رہیں۔
آیت ٢٨ وَجَعَلَہَا کَلِمَۃًم بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ” اور اس نے اسی بات کو باقی رکھا اپنے پیچھے (اپنی اولاد میں) بھی تاکہ وہ (اللہ ہی کی جناب میں ) رجوع کیے رہیں۔ “- یہی بات سورة البقرۃ میں یوں بیان ہوئی ہے : وَوَصّٰی بِہَآ اِبْرٰہٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُط یٰـبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَـکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ ” اور اسی کی وصیت کی تھی ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب ( علیہ السلام) نے بھی ‘ کہ اے میرے بیٹو اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے ‘ پس تم ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان “
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :26 یعنی یہ بات کہ خالق کے سوا کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں ہے ۔ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :27 یعنی جب بھی راہ راست سے ذرا قدم ہٹے تو یہ کلمہ ان کی رہنمائی کے لیے موجود رہے اور وہ اسی کی طرف پلٹ آئیں ۔ اس واقعہ کو جس غرض کے لیے یہاں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کفار قریش کی نامعقولیت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا جائے اور انہیں اس بات پر شرم دلائی جائے کہ تم نے اسلاف کی تقلید اختیار کی بھی تو اس کے لیے اپنے بہترین اسلاف کو چھوڑ کر اپنے بد ترین اسلاف کا انتخاب کیا ۔ عرب میں قریش کی مشیخت جس بنا پر چل رہی تھی وہ تو یہ تھی کہ وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل کی اولاد تھے اور ان کے بنائے ہوئے کعبے کی مجاوری کر رہے تھے ۔ اس لیے انہیں پیروی ان کی کرنی چاہیے تھی نہ کہ اپنے ان جاہل اسلاف کی جنہوں نے حضرت ابراہیم و اسماعیل کے طریقے کو چھوڑ کر گرد و پیش کی بت پرست قوموں سے شرک سیکھ لیا ، پھر اس واقعہ کو بیان کر کے ایک اور پہلو سے بھی ان گمراہ لوگوں کی غلطی واضح کی گئی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ حق و باطل کی تمز کیے بغیر اگر آنکھیں بند کر کے باپ دادا کی تقلید کرنا درست ہوتا تو سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ کام کرتے ۔ مگر انہوں نے صاف صاف اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہہ دیا کہ میں تمہارے اس جاہلانہ مذہب کی پیروی نہیں کر سکتا جس میں تم نے اپنے خالق کو چھوڑ کر ان ہستیوں کو معبود بنا رکھا ہے جو خالق نہیں ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تقلید آبائی کے قائل نہ تھے ، بلکہ ان کا مسلک یہ تھا کہ باپ دادا کی پیروی کرنے سے پہلے آدمی کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کہ وہ صحیح راستے پر ہیں بھی یا نہیں ، اور اگر دلیل معقول سے یہ ظاہر ہو کہ وہ غلط راستے پر جا رہے ہیں تو ان کی پیروی چھوڑ کر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو دلیل کی رو سے حق ہو ۔