31۔ 1 دونوں بستیوں سے مراد مکہ اور طائف ہے اور بڑے آدمی سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک مکہ کا ولید بن مغیرہ اور طائف کا عروہ بن ثقفی ہے۔
[٣٠] قریش کے آپ کی ذات پر اعتراضات :۔ قریش مکہ کا پہلا اعتراض تو یہ تھا کہ ہم جیسا ایک بشر کیسے رسول ہوسکتا ہے پھر جب انہیں دلائل کے ساتھ سمجھایا گیا کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے انسان ہی رسول ہوسکتا ہے اور تم لوگوں کی ہدایت کے لیے تمہاری زبان جاننے والا ہی رسول ہوسکتا ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ تو اب تیسرا اعتراض یہ جڑ دیا کہ مکہ اور طائف دو مرکزی شہر ہیں۔ مکہ کا رئیس ولید بن مغیرہ تھا اور طائف کا عروہ بن مسعود ثقفی ہے۔ ان شہروں کا کوئی بڑا آدمی رسول بن جاتا تو بھی کوئی بات تھی۔ بھلا اللہ تعالیٰ کو رسول بنانے کے لیے ایسا ہی آدمی ملا تھا جو یتیم پیدا ہوا تھا اور جس کے پاس نہ دولت ہے اور نہ کسی قبیلے یا خاندان کی سربراہی۔ اگلی آیت میں ان کے اسی اعتراض کے دو جواب دیئے جارہے ہیں۔
وقالوا لو لا نزل ھذا القرآن…: پچھلی ایٓ میں ان کے قرآن پر طعن کا ذکر تھا تو اس آیت میں قرآن لانے والے پر اعتراض کا ذکر ہے۔ کفار پہلے تو کسی بشر کا رسول ہونا ہی ماننے کے لئے تیار نہ تھے، ان کا مطالبہ تھا کہ رسول فرشتہ ہونا چاہیے۔ جب ناقابل تردید دلائل سے انھیں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام رسول بشر ہی بھیجے ہیں، تمہارے جد امجد ابراہیم و اسماعیل (رض) اور دوسرے پیغمبر، مثلاً موسیٰ (علیہ السلام) سب بشر ہی تھے، تو فرشتہ رسول کا مطالبہ چھوڑ کر یہ مطالبہ داغ دیا کہ یہ قرآن دو بستیوں میں سے کسی عظیم آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا۔ دو بستیوں سے مراد مکہ اور طائف ہیں ، کیونکہ ان کی مرکزی بستیاں یہ دو ہی تھیں۔ ” عظیم “ سے مراد دنیاوی مال و دولت اور جاہ مرتبہ کے لحاظ سے عظیم ہے۔ مفسرین مکہ کے ان عظیم آدمیوں میں سے ولید بن مغیرہ یا عتبہ بن ربیعہ کا اور طائف کے عظماء میں سے عروہ بن مسعود، حبیب بن عمر یا کنانہ بن عبد یالیل یا اس قبیل کے دوسرے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں۔ کفار کے خیال میں مال کی کثرت اور قوم کے سردار ہونے کی وجہ سے یہ لوگ نبوت کے حق دار تھے ۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال و جاہ کی کمی کی وجہ سے اس کے اہل نہیں تھے، کیونکہ آپ کے پاس دولت کی کثرت تھی نہ کسی قبیلے کی سرداری۔ یہ کفار کی جہالت اور سخت نادانی تھی کہ انہوں نے نبوت کے منصب کے لئے مال و جاہ کو شرط قرار دیا۔
خلاصہ تفسیر - (یہ تو کافروں نے قرآن کے بارے میں کہا) اور (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں) کہنے لگے کہ یہ قرآن (اگر کلام الٰہی ہے اور بحیثیت رسالت آیا ہے تو) ان دونوں بستیوں (یعنی مکہ اور طائف کے رہنے والوں) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا (یعنی رسول کیلئے عظیم الشان ہونا ضروری ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال اور ریاست نہیں رکھتے تو یہ پیغمبر نہیں ہو سکتے۔ باری تعالیٰ ان کے اس شبہ کی تردید فرماتے ہیں کہ) کیا یہ لوگ آپ کے رب کی رحمت (خاصہ یعنی نبوت) کو (خود) تقسیم کرنا چاہتے ہیں (یعنی یہ چاہتا کہ نبوت ہماری رائے کے مطابق لوگوں کو ملنی چاہئے گویا خود تقسیم کرنے کی ہوس کرنا ہے کہ یہ تقسیم ہمارے سپرد ہو حالانکہ یہ ہوس نری نادانی ہے کیونکہ) دنیوی زندگی میں (تو) ان کی روزی ہم (ہی) نے تقسیم کر رکھی ہے اور (اس تقسیم میں) ہم نے ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے تاکہ (اس سے یہ مصلحت حاصل ہو کہ) ایک دوسرے سے کام لیتا رہے (اور عالم کا انتظام قائم رہے) اور (ظاہر اور یقینی بات ہے کہ) آپ کے رب کی رحمت (خاصہ یعنی نبوت) بدرجہا اس (دنیوی مال و متاع اور جاہ و منصب) سے بہتر ہے کہ جس کو یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں (پس جب دنیوی معیشت کی تقسیم ہم نے ان کی رائے پر نہیں رکھی، حالانکہ وہ ادنیٰ درجہ کی چیز ہے، تو نبوت جو خود بھی اعلیٰ درجہ کی چیز ہے اور اس کے مصالح بھی نہایت عظیم درجہ کے ہیں وہ کیونکر ان کی رائے پر تقسیم کی جاتی) ۔- معارف و مسائل - ان آیات میں باری تعالیٰ نے مشرکین عرب کے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے جو وہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر کیا کرتے تھے۔ دراصل شروع میں تو وہ باور کرنے پر ہی تیار نہ تھے کہ اللہ کا کوئی رسول انسان ہوسکتا ہے، چناچہ ان کا یہ اعتراض قرآن کریم نے جا بجا ذکر فرمایا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم رسول کیسے مان لیں جبکہ وہ عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے اور بازاروں میں چلتے ہیں، لیکن جب متعدد آیات قرآنی کے ذریعہ یہ واضح کردیا گیا کہ یہ صرف آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی خصوصیت نہیں، بلکہ دنیا میں جس قدر انبیاء آئے ہیں وہ سب انسان ہی تھے، تو اب انہوں نے پینترا بدل کر یہ اعتراض کیا کہ اگر کسی انسان ہی کو نبوت سونپنی تھی تو حضور مالی اعتبار سے کوئی بڑے صاحب حیثیت نہیں ہیں، یہ منصب حضور کے بجائے مکہ اور طائف کے کسی بڑے دولت مند اور صاحب جاہ و منصب انسان کو کیوں نہیں دیا گیا، روایات میں ہے کہ اس سلسلہ میں انہوں نے مکہ مکرمہ سے ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ کے اور طائف سے عروہ بن مسعود ثقفی حبیب بن عمرو ثقفی یا کنانہ بن عبد یا لیل کے نام پیش کئے تھے۔ (روح المعانی)- مشرکین کے اس اعتراض کے باری تعالیٰ نے دو جواب دیئے ہیں۔ پہلا جواب مذکورہ آیتوں میں سے دوسری آیت میں اور دوسرا جواب اگلی آیات میں دیا گیا ہے اس کی تشریح بھی وہیں آئے گی۔ اس سے پہلے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ تمہیں اس معاملے میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نبوت کا منصب کس کو دے رہا ہے اور کس کو نہیں دے رہا ؟ نبوت کی تقسیم تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے کہ کسی کو نبی بنانے سے پہلے تم سے رائے لی جائے۔ یہ کام کلیتاً اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اپنی عظیم مصلحتوں کے مطابق اسے انجام دیتا ہے۔ تمہارا وجود اور عقل و شعور اس عظیم کام کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ تقسیم نبوت کا کام تمہارے سپرد کردیا جاتا اور نبوت کی تقسیم تو بہت اونچے درجہ کی چیز ہے تمہاری حیثیت وجود و شعور تو اس کی بھی متحمل نہیں کہ خود تمہاری معیشت اور سامان معیشت کی تقسیم کا کام تمہارے سپرد کیا جاسکے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کیا گیا تو تم ایک دن بھی نظام عالم کو نہ چلا سکو گے اور سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے دنیوی زندگی میں تمہاری روزی کی تقسیم بھی تمہارے ذمہ نہیں رکھی بلکہ تقسیم معیشت کا کام خود اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ جب یہ ادنیٰ درجہ کا کام تمہارے حوالہ نہیں کیا جاسکتا تو نبوت کی تقسیم جیسا عظیم کام تمہارے حوالہ کیسے کردیا جائے۔ آیات کا مقصود کلام تو اتنا ہی ہے لیکن مشرکین کو جواب دینے کے ضمن میں باری تعالیٰ نے دنیا کے نظام معیشت سے متعلق جو اشارے کردیئے ہیں ان سے متعدد معاشی اصول مستنبط ہوتے ہیں، یہاں ان کی مختصر توضیح ضروری ہے۔
وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ٣١- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
اور ان مکہ والوں میں سے ولید اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ یہ قرآن حکیم مکہ اور طائف میں سے کسی بڑے آدمی یعنی ولید بن مغیرہ اور ابی مسعود ثقفی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا۔- شان نزول : وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ (الخ)- اور ابن منذر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ ولید بن مغیرہ نے کہا کہ محمد جو بات کہہ رہے ہیں اگر وہ صحیح ہوتی تو یہ قرآن حکیم مجھ پر یا مسعود ثقفی پر نازل کیا جاتا تب یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٣١ وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ” اور کہنے لگے کہ کیوں نہیں اتارا گیا یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی عظیم شخص پر ؟ “- یہاں اصل مرکب اضافی ” رَجُلٍ عَظِیْمٍ “ ہے ‘ لیکن ان دو الفاظ کے درمیان ” مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ “ آجانے سے ” رجل “ کی صفت (عظیم) آخر پر چلی گئی ہے۔ قرآن کے اسلوب کے مطابق الفاظ کی یہ تقدیم و تاخیر مخصوص صوتی آہنگ کے باعث ہوتی ہے جس کی مثالیں قرآن میں جا بجا ملتی ہیں۔ - مکہ اور طائف نزولِ قرآن کے زمانے میں (پاکستان کے راولپنڈی اور اسلام آباد کی طرح) جڑواں شہر ( ) سمجھے جاتے تھے۔ دونوں شہروں کے لوگوں کے آپس میں گہرے مراسم تھے۔ مکہ کے اکثر سرداروں کی طائف میں بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔ ان میں ولید بن مغیرہ کا ذکر روایات میں خاص طور پر آتا ہے کہ طائف میں اس کے بہت سے باغات اور مکانات تھے۔ مذکورہ جملہ دراصل اس پس منظر میں کسا گیا تھا کہ ان دونوں شہروں کی بڑی شخصیات کو چھوڑ کر اللہ کو رسول بنانے اور اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کے لیے آخر قریش کا ایک یتیم ہی کیوں پسند آیا ہے
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :30 دونوں شہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں ۔ کفار کا یہ کہنا تھا کہ واقعی خدا کو کوئی رسول بھیجنا ہوتا اور وہ اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا تو ہمارے ان مرکزی شہروں میں سے کسی بڑے آدمی کو اس غرض کے لیے منتخب کرتا ۔ رسول بنانے کے لیے اللہ میاں کو ملا بھی تو وہ شخص جو یتیم پیدا ہوا ، جس کے حصے میں کوئی میراث نہ آئی ، جس نے بکریاں چرا کر جوانی گزار دی ، جو اب گزر اوقات بھی کرتا ہے تو بیوی کے مال سے تجارت کر کے ، اور جو کسی قبیلے کا شیخ یا کسی خانوادے کا سربراہ نہیں ہے ۔ کیا مکہ میں ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ جیسے نامی گرامی سردار موجود نہ تھے ؟ کیا طائف میں عروہ بن مسعود ، حبیب بن عمرہ ، کنانہ بن عبد عمرو ، اور ابن عبد یالیل جیسے رئیس موجود نہ تھے ؟ یہ تھا ان لوگوں کا استدلال ۔ پہلے تو وہ یہی ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کوئی بشر بھی رسول ہو سکتا ہے ۔ مگر جب قرآن مجید میں پے در پے دلائل دے کر ان کے اس خیال کا پوری طرح ابطال کر دیا گیا ، اور ان سے کہا گیا کہ اس سے پہلے ہمیشہ بشر ہی رسول ہو کر آتے رہے ہیں ، اور انسانوں کی ہدایت کے لیے بشر ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کہ غیر بشر ، اور جو رسول بھی دنیا میں آئے ہیں وہ یکایک آسمان سے نہیں اتر آئے تھے بلکہ انہی انسانی بستیوں میں پیدا ہوئے تھے ، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ، بال بچوں والے تھے اور کھانے پینے سے مبرا نہ تھے ( ملاحظہ ہو النحل ، آیت ، 43 ۔ بنی اسرائیل ، 94 ۔ 95 ۔ یوسف ، 109 ۔ الفرقان ، 7 ۔ 20 ۔ الانبیاء ، 7 ۔ 8 ۔ الرعد ، 38 ) ، تو انہوں نے یہ دوسری پیترا بدلا کہ اچھا ، بشر ہی رسول سہی ، مگر وہ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے ۔ مالدار ہو ، با اثر ہو ، بڑے جتھے والا ہو ، لوگوں میں اس کی شخصیت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہو ۔ محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس مرتبے کے لیے کیسے موزوں ہو سکتے ہیں ؟
7: دو بستیوں سے مراد مکہ مکرمہ اور طائف کے شہر ہیں۔ چونکہ اس علاقے میں یہی دو بڑے شہر تھے، اس لیے مشرکین نے یہ کہا کہ ان شہروں کے دولت مند سرداروں پر قرآن نازل ہونا چاہئے تھا۔