Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی دنیا کے مال و اسباب میں رغبت کرنے کی وجہ سے طالب دنیا ہی ہوجائیں گے اور رضائے الٰہی اور آخرت کی طلب سب فراموش کردیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ولولا ان یکون الناس امۃ واحدۃ…:” سفاً “” سقف “ کی جمع ہے، چھتیں۔ ” معارج “ (سیڑھیاں)” معرج “ یا ” معراج “ کی جمع ہے، جیسے ” مقاتح “ اور مفاتیح “ ” مفتاح “ کی جمع ہیں۔ ” سرراً “ ” سریر “ کی جمع ہے، چار پائیاں ، تخت ۔ ” ازخرفاً “ کا معنی سونا ہے، جیسا کہ کفار نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا :(اویکون لک بیت من اخرف) (بنی اسرائیل : ٩٣)” یا تیرے لئے سونے ایک گھر ہو۔ “ اس کا معنی زینت و آرائش بھی ہے، جیسا کہ فرمایا :(حتی اذا اخذت الارض زخرفھا وازینت ) (یونس : ٢٣)” یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی آرائش حاصل کرلی اور خوب مزین ہوگئی۔ “” زخرفاً “ منصوب ہونے کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ یہ اصل میں ” سقفاً من فضۃ ومن زخرف “ ہے، حرف جار حذف ہونے کی وجہ سے منصبو ہوگیا ، یعنی ” ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور سونے کی۔ “ دوسری وجہ یہ کہ یہ ” لجعلنا “ کے مفعول ” سقفاً “ پر عطف ہے، یعنی ” لجعلنا لبیوتھم سقفا من فضۃ و لجعلنا لھم زخرفاً “ کہ ” ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور ہم ان کے لئے سونا مہیا کردیتے۔ “ ” اوان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا “ میں ” ان “ نافیہ ہے اور ” لما “ بمعنی ’ الا ‘ ہے جیسے فرمایا :(ان کل نفس لما علیھا حافظ) (الطارق : و)” نہیں کوئی جان مگر اس کے اوپر ایک حفاظت کرنے والا ہے۔ “- (٢) آیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ” ورحمت ربک خیر مما یجمعون “ (اور تیرے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں) میں آخرت کی عظمت و شان اور دنیا کی حقارت بیان فرمائی تو ساتھ ہی بیان فرمایا کہ اس سے نزدیک دنیا و بالکل ہی حقیر اور بےقدر و قیمت ہے، اس کے ہاں کوئی قیمت ہے تو صرف آخرت کی، اس لئے اس نے آخرت کی نعمتیں صرف مسلمانوں کے لئے خاص کر رکھی ہیں، کفار کا ان میں کوئی حصہ نہیں۔ دنیا کی نعمتوں میں اس نے مومن و کافر سب کو شریک رکھا ہے اور دونوں کو ان نعمتوں میں شریک رکھنے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر ہمیں یہ بات ناپسند نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی امت یعنی سبھی کافر ہوجائیں گے تو ہم دنیا کی زیب و زینت کی تمام اشیاء کفار کو دے دیتے، لیکن چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ لوگوں کے دلوں میں دنیوی زیب و زینت کی شدید رغبت اور محت موجود ہے، اگر ہم نے یہ سبھی کچھ کفار کو دے دیا تو دنیا کی رغبت کے نتیجے میں سبھی لوگ کافر ہوجائیں گے۔ (جب کہ یہ بات ہماری رحمت کو منظور نہیں) اس لئے ہم نے کافر و مومن دونوں میں غنی بھی رکھے ہیں، فقر بھی اور دنیا کی زندگی کے ساز و سامان میں دونوں کو شریک رکھا ہے۔ آیت کے آخری جملوں (وان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا و الاخرۃ عند ربک للمتقین) (اور یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کے سامان کے سوا کچھ نہیں اور آخرت تیرے رب کے ہاں متقی لوگوں کے لئے ہے) میں بیان فرمایا کہ آخرت صرف ایمان والوں کے لئے ہے۔ یہی مضمون سورة اعراف (٣٢) میں بیان ہوا ہے۔ سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لو کانت الدنیا تعدل عند اللہ جناح یعوضۃ ماسقی کافرا منھا شربۃ مائ) (ترمذی، الزھد، باب ماجدء فی ھوان الدنیا علی اللہ مرد جل : ٢٣٢٠)” اگر دنیا اللہ کے ہاں مچھر کے ایک پر کے برابر ہوتی تو وہ اس میں سے کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ پینے کو نہ دیتا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اور یہ کافر لوگ مال و دولت کی زیادتی کو نبوت کی صلاحیت کی شرط سمجھتے ہیں حالانکہ نبوت ایک عظیم الشان چیز ہے اس لئے اس کی صلاحیت کی شرط بھی عظیم الشان ہونی چاہئے) اور (دنیا کی دولت و جاہ ہمارے نزدیک اس قدر حقیر ہے کہ) اگر یہ بات (متوقع) نہ ہوتی کہ (قریب قریب) تمام آدمی ایک ہی طریقے کے ہوجاویں گے (یعنی کافر ہوجائیں گے) تو جو لوگ خدا کے ساتھ کفر کرتے ہیں (اور خدا کے نزدیک سخت مبغوض ہیں) ہم ان (سب) کے لئے ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی کردیتے اور زینے بھی (چاندی کے کردیتے) جن پر چڑھا (اترا) کرتے اور ان کے گھروں کے کواڑ بھی (چاندی کے کردیتے) اور تخت بھی (چاندی کے کردیتے) جن پر تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں اور (یہی چیزیں) سونے کی بھی (کر دیتے، یعنی کچھ چاندی کی کچھ سونے کی۔ مگر یہ سامان سب کفار کو اس لئے نہیں دیا کہ اکثر انسانوں کی طبیعت میں مال و متاح کی حرص غالب ہے اور اس مفروضہ صورت میں کفر اس مال و متاع کے حصول کا یقینی سبب بن جاتا، پس چند تھوڑے سے آدمیوں کو چھوڑ کر قریب قریب سبھی کفر اختیار کرلیتے، اس لئے ہم نے تمام کافروں کو مال و دولت کی یہ وسعت نہیں دی، ورنہ اگر یہ مصلحت نہ ہوتی تو ہم ایسا ہی کرتے اور ظاہر ہے کہ دشمن کو قدر و وسعت کی چیز نہیں دیا کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیوی مال و متاع حقیقت میں کوئی عظیم الشان چیز نہیں، پس وہ نبوت جیسے منصب عظیم کے لئے صلاحیت کی شرط بھی نہیں ہو سکتی اس کے بجائے نبوت کی شرط وہ اعلیٰ درجہ کے ملکات ہیں جو اللہ کی طرف سے انبیاء کو عطا ہوتے ہیں اور یہ ملکات محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پوری طرح جمع ہیں، پس نبوت ان ہی کے لئے زیبا تھی نہ کہ مکہ اور طائف کے رئیسوں کے لئے) اور (حقارت دنیا کی ایک بالکل ظاہر وجہ بیان فرماتے ہیں کہ) یہ سب (ساز و سامان جس کا اوپر ذکر ہوا) کچھ بھی نہیں، صرف دنیوی زندگی کی چند روزہ کامرانی ہے (پھر فنا، آخر فنا) اور آخرت (جو ابدی ہے اور اس لئے اس سے بہتر ہے وہ) آپ کے پروردگار کے ہاں خدا ترسوں کے لئے ہے۔- معارف و مسائل - مال و دولت کی زیادتی فضیلت کا سبب نہیں ہے :- کفار نے جو یہ کہا تھا کہ مکہ اور طائف کے کسی بڑے مالدار کو نبی کیوں نہ بنادیا گیا ؟ ان آیات میں اس کا دوسرا جواب دیا گیا ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک نبوت کے لئے کچھ شرائط صلاحیت کا پایا جانا ضروری ہے لیکن مال و دولت کی زیادتی کی بنا پر کسی کو نبوت نہیں دی جاسکتی، کیونکہ مال و دولت ہماری نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اگر تمام لوگوں کے کافر بن جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم سب کافروں پر سونے چاندی کی بارش کردیتے اور صحیح ترمذی کی ایک حدیث میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے لو کانت الدنیا تعدل عند اللہ جناح بعوضة ماسقی کافراً منھا شربة ماء (یعنی اگر دنیا اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی درجہ رکھتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا) اس سے معلوم ہوا کہ نہ مال و دولت کی زیادتی کوئی فضیلت کی چیز ہے نہ اس کی کمی انسان کے کم رتبہ ہونے کی علامت ہے۔ البتہ نبوت کے لئے کچھ اعلیٰ درجہ کے اوصاف ضروری ہیں وہ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں، اس لئے یہ اعتراض بالکل لغو اور باطل ہے۔- اور مذکورہ آیات میں یہ جو کہا گیا ہے کہ اگر کافروں پر مال دولت کی اتنی فراوانی کردی جاتی تو سب لوگ کافر ہوجاتے، اس میں مراد لوگوں کی بھاری اکثریت ہے ورنہ اللہ کے کچھ نیک بندے آج بھی ایسے موجود ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ کفر اختیار کر کے وہ مال و دولت سے نہال ہو سکتے ہیں، لیکن وہ مال و دولت کی خاطر کفر کو اختیار نہیں کرتے ایسے کچھ لوگ شاید اس وقت بھی ایمان پر قائم رہ جاتے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَآ اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُيُوْتِہِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَيْہَا يَظْہَرُوْنَ۝ ٣٣ ۙ- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - سقف - سَقْفُ البیت، جمعه : سُقُفٌ ، وجعل السماء سقفا في قوله تعالی: وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ [ الطور 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلْنَا السَّماءَ سَقْفاً مَحْفُوظاً [ الأنبیاء 32] ، وقال :- لِبُيُوتِهِمْ سُقُفاً مِنْ فِضَّةٍ [ الزخرف 33] ، والسَّقِيفَةُ : كلّ مکان له سقف، کالصّفّة، والبیت، والسَّقَفُ : طول في انحناء تشبيها بالسّقف - ( س ق ف )- سقف البیت مکان کی چھت کر کہتے ہیں اس کی جمع سقف ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفاً مِنْ فِضَّةٍ [ الزخرف 33]( ہم ) ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنادیتے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ [ الطور 5] اور اونچی چھت کی ۃ قسم میں مراد آسمان ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَجَعَلْنَا السَّماءَ سَقْفاً مَحْفُوظاً [ الأنبیاء 32] میں آسمان کو محفوظ چھت فرمایا ہے ۔ اور ہر وہ جگہ جو مسقف ہو اسے سقیفہ کہا جاتا ہے جیسے صفۃ ( چبوترہ ) مکان وغیرہ ۔ اور چھت کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر اس لمبی چیز - فض - الفَضُّ : کسر الشیء والتّفریق بين بعضه وبعضه، كفَضِّ ختم الکتاب، وعنه استعیر :- انْفَضَّ القومُ. قال اللہ تعالی: وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها - [ الجمعة 11] ، لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] ، والفِضَّةُ- اختصّت بأدون المتعامل بها من الجواهر، ودرع فَضْفَاضَةٌ ، وفَضْفَاضٌ: واسعة .- ( ف ض ض ) الفض کے معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں جیسے فض ختم الکتاب : خط کی مہر کو توڑ نا اسی سے انقض القوم کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی متفرق اور منتشر ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں : ۔ وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها[ الجمعة 11] اور جب یہ لوگ سودابکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں ۔ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھٹرے ہوتے ۔ والفِضَّةُچاندی یعنی وہ ادنی جو ہر جس کے ذریعہ لین دین کیا جاتا ہے ۔ درع فضفا ضۃ وفضفا ض فراخ زرہ ۔ - عرج - العُرُوجُ : ذهابٌ في صعود . قال تعالی: تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر 14] ، والمَعَارِجُ : المصاعد . قال : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 3] ، ولیلة المِعْرَاجُ سمّيت لصعود الدّعاء فيها إشارة إلى قوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وعَرَجَ عُرُوجاً وعَرَجَاناً : مشی مشي العَارِجِ. أي : الذاهب في صعود، كما يقال : درج : إذا مشی مشي الصاعد في درجه، وعَرِجَ : صار ذلک خلقة له «4» ،- ( ع ر ج ) العروج - کے معنی اوپر چڑھنا کے ہیں قرآن میں ہے : تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] جس کی طرف روح ( الامین ) اور فرشتے چڑھتے ہیں ۔ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر 14] اور وہ اس میں چڑھنے بھی لگیں ۔ اور معارج کے معنی سیڑھیوں کے ہیں اس کا مفرد معرج ( اور معراج ) ہے ۔ قرآن میں ہے :- ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 3] سیڑھیوں والے خدا کی طرف سے ( نازل ہوگا ) ۔ اور شب معراج کو بھی لیلۃ المعراج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں دعائیں اوپر چڑھتی ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ؛- إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ - ظَاهَرَ ( مدد)- وَظَهَرَ عليه : غلبه، وقال : إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] ، وظاهَرْتُهُ :- عاونته . قال تعالی: وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ- [ التحریم 4] ، أي : تعاونا، تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] ، وقرئ : ( تَظَّاهَرَا) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ- ظھر علیہ کے معنی ہیں وہ اس پر غالب آگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں ۔ ظاھرتہ : میں نے اس کی مدد کی ( اور ظاھر علیہ کے معنی ہیں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی ) قرآن پاک میں ہے : ۔ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] اور انہوں نے تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم 4] اور اگر پیغمبر کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی ۔ ایک قرات میں تظاھر ا ہے ( یعنی تاء کو ظاء میں ادغام کیسا تھ ) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ [ الأحزاب 26] اور اہل کتاب میں سے جنهوں نے ان کی مدد کی ۔ تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣۔ ٣٤) اور اگر یہ بات متوقع نہ ہوتی کہ سب ایک ہی طریقہ یعنی کفر کے ہوجائیں گے تو ہم ان کافروں کے گھروں کی چھتیں تک چاندی کی کردیتے اور نیز زینے بھی چاندی کے کردیتے جن پر چڑھا اترا کرتے ہیں۔- اور ان کے گھروں کے دروازے بھی اور تخت بھی جن پر یہ آرام کرتے ہیں چاندی کے کردیتے اور یہی چیزیں سونے کی یعنی کہ ان کے گھروں میں سے ہر ایک چیز سونے چاندی کی کردیتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ وَلَوْلَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ” اور اگر یہ (اندیشہ) نہ ہوتا کہ تمام لوگ ایک ہی امت بن جائیں گے “- یعنی اگر تمام لوگوں کے کافر اور منکر ہوجانے کا خدشہ نہ ہوتا :- لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّـکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِہِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْہَا یَظْہَرُوْنَ ” تو جو لوگ رحمن کا کفر کرتے ہم ان کے لیے بنا دیتے ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی اور سیڑھیاں بھی جن پر وہ چڑھتے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani