شیطان سے بچو ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ رحیم و کریم کے ذکر سے غفلت و بےرغبتی کرے اس پر شیطان قابو پا لیتا ہے اور اس کا ساتھی بن جاتا ہے آنکھ کی بینائی کی کمی کو عربی زبان میں ( عشی فی العین ) کہتے ہیں ۔ یہی مضمون قرآن کریم کی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے جیسے فرمایا آیت ( وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا ١١٥ۧ ) 4- النسآء:115 ) ، یعنی جو شخص ہدایت ظاہر کر چکنے کے بعد مخالفت رسول کر کے مومنوں کی راہ کے سوا دوسری راہ کی پیروی کرے ہم اسے وہیں چھوڑیں گے اور جہنم واصل کریں گے جو بڑی بری جگہ ہے اور آیت میں ارشاد ہے ( فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ Ĉ ) 61- الصف:5 ) یعنی جب وہی ٹیڑھے ہوگئے اللہ نے ان کے دل بھی کج کر دئیے ۔ اور آیت میں فرمایا ( وقیضنا لھم قرناء ) الخ ، یعنی ان کے جو ہم نشین ہم نے مقرر کر دئیے ہیں وہ ان کے آگے پیچھے کی چیزوں کو زینت والی بنا کر انہیں دکھاتے ہیں یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے غافل لوگوں پر شیطان اپنا قابو کر لیتا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتا ہے اور ان کے دل میں یہ خیال جما دیتا ہے کہ ان کی روش بہت اچھی ہے یہ بالکل صحیح دین پر قائم ہیں قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے اور معاملہ کھل جائے گا تو اپنے اس شیطان سے جو ان کے ساتھ تھا برات ظاہر کرے گا اور کہے گا کاش کے میرے اور تمہارے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا جتنا مشرق اور مغرب میں ہے ۔ یہاں بہ اعتبار غلبے کے مشرقین یعنی دو مشرقوں کا لفظ کہدیا گیا ہے جیسے سورج چاند کو قمرین یعنی دو چاند کہدیا جاتا ہے اور ماں باپ کو ابو ین یعنی دو باپ کہدیا جاتا ہے ۔ ایک قرأت میں ( جا انا ) بھی ہے یعنی شیطان اور یہ غافل انسان دونوں جب ہمارے پاس آئیں گے حضرت سعید جریری فرماتے ہیں کہ کافر کے اپنی قبر سے اٹھتے ہی شیطان آکر اس کے ہاتھ سے ہاتھ ملا لیتا ہے پھر جدا نہں ہوتا یہاں تک کہ جہنم میں بھی دونوں کو ساتھ ہی ڈالا جاتا ہے پھر فرماتا ہے کہ جہنم میں تم سب کا جمع ہونا اور وہاں کے عذابوں میں سب کا شریک ہونا تمہارے لئے نفع دینے والا نہیں اس کے بعد اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ازلی بہروں کے کان میں آپ ہدایت کی آواز نہیں ڈال سکتے مادر زاد اندھوں کو آپ راہ نہیں دکھا سکتے صریح گمراہی میں پڑے ہوئے آپکی ہدایت قبول نہیں کر سکتے ۔ یعنی تجھ پر ہماری جانب سے یہ فرض نہیں کہ خواہ مخواہ ہر ہر شخص مسلمان ہو ہی جائے ہدایت تیرے قبضے کی چیز نہیں جو حق کی طرف کان ہی نہ لگائے جو سیدھی راہ کی طرف آنکھ ہی نہ اٹھائے جو بہکے اور اسی میں خوش رہو تجھے ان کی بابت کیوں اتنا خیال ہے ؟ تجھ پر ضروری کام صرف تبلیغ کرنا ہے ہدایت و ضلالت ہمارے ہاتھ کی چیزیں ہیں عادل ہیں ہم حکیم ہیں ہم جو چاہیں گے کریں گے تم تنگ دل نہ ہو جایا کرو پھر فرماتا ہے کہ اگرچہ ہم تجھے یہاں سے لے جائیں پھر بھی ہم ان ظالموں سے بدلہ لئے بغیر تو رہیں گے نہیں اگر ہم تجھے تیری آنکھوں سے وہ دکھا دیں جس کا وعدہ ہم نے ان سے کیا ہے تو ہم اس سے عاجز نہیں ۔ غرض اس طرح اور اسطرح دونوں سورتوں میں کفار پر عذاب تو آئے گا ہی ۔ لیکن پھر وہ صورت پسند کی گئی جس میں پیغمبر کی عزت زیادہ تھی ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت نہ کیا جب تک کہ آپ کے دشمنوں کو مغلوب نہ کر دیا آپ کی آنکھیں ٹھنڈی نہ کر دیں آپ ان کی جانوں اور مالوں اور ملکیتوں کے مالک نہ بن گئے یہ تو ہے تفسیر حضرت سدی وغیرہ کی لیکن حضرت قتادہ فرماتے ہیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے اٹھا لئے گئے اور انتقام باقی رہ گیا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آپ کی زندگی میں امت میں وہ معاملات نہ دکھائے جو آپ کی ناپسندیدہ تھے بجز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اور تمام انبیاء کے سامنے ان کی امتوں پر عذاب آئے ہم سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم کرا دیا گیا کہ آپ کی امت پر کیا کیا وبال آئیں گے اس وقت سے لے کر وصال کے وقت تک کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھل کھلا کر ہنستے ہوئے دیکھے نہیں گئے ۔ حضرت حسن سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ایک حدیث میں ہے ستارے آسمان کے بچاؤ کا سبب ہیں جب ستارے جھڑ جائیں گے تو آسمان پر مصیبت آجائے گی میں اپنے اصحاب کا ذریعہ امن ہوں میرے جانے کے بعد میرے اصحاب پر وہ آجائے گا جس کا یہ وعدہ دئیے جاتے ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو قرآن تجھ پر نازل کیا گیا ہے جو سراسر حق و صدق ہے جو حقانیت کی سیدھی اور صاف راہ کی راہنمائی کرتا ہے تو اسے مضبوطی کے ساتھ لئے رہ یہی جنت نعیم اور راہ مستقیم کا رہبر ہے اس پر چلنے والا اس کے احکام کو تھامنے والا بہک اور بھٹک نہیں سکتا یہ تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے ذکر ہے یعنی شرف اور بزرگی ہے ۔ بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ امر ( یعنی خلافت و امامت ) قریش میں ہی رہے گا جو ان سے جھگڑے گا اور چھینے گا اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ گرائے گا جب تک دین کو قائم رکھیں اس لئے بھی آپ کی شرافت قومی اس میں ہے کہ یہ قرآن آپ ہی کی زبان میں اترا ہے ۔ لغت قریش میں ہی نازل ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ اسے یہی سمجھیں گے انہیں لائق ہے کہ سب سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ عمل بھی انہی کا اس پر رہے بالخصوص اس میں بڑی بھاری بزرگی ہے ان مہاجرین کرام کی جنہوں نے اول اول سبقت کر کے اسلام قبول کیا ۔ اور ہجرت میں بھی سب سے پیش پیش رہے اور جو ان کے قدم بہ قدم چلے ذکر کے معنی نصیحت نہ ہونے کے معنی میں نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 10ۧ ) 21- الأنبياء:10 ) یعنی بالیقین ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارے لئے نصیحت ہے کیا پس تم عقل نہیں رکھتے؟ اور آیت میں ہے ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤ۙ ) 26- الشعراء:214 ) یعنی اپنے خاندانی قرابت داروں کو ہوشیار کر دے ۔ غرض نصیحت قرآنی رسالت نبوی عام ہے کنبہ والوں کو قوم کو اور دنیا کے کل لوگوں کو شامل ہے پھر فرماتا ہے تم سے عنقریب سوال ہو گا کہ کہاں تک اس کلام اللہ شریف پر عمل کیا اور کہاں تک اسے مانا ؟ تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو وہی دعوت دی جو اے آخرالزمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی امت کو دے رہے ہیں کل انبیاء کے دعوت ناموں کا خلاصہ صرف اس قدر ہے کہ انہوں نے توحید پھیلائی اور شرک کو ختم کیا جیسے خود قرآن میں ہے کہ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت نہ کرو حضرت عبداللہ کی قرأت میں یہ آیت اس طرح ہے ( واسئل الذین ارسلنا الیھم قبلک رسلنا ) پس یہ مثل تفسیر کے ہے نہ تلاوت کے واللہ اعلم ۔ تو مطلب یہ ہوا کہ ان سے دریافت کر لے جن میں تجھ سے پہلے ہم اپنے اور رسولوں کو بھیج چکے ہیں عبدالرحمن فرماتے ہیں نبیوں سے پوچھ لے یعنی معراج والی رات کو جب کہ انبیاء آپ کے سامنے جمع تھے کہ ہر نبی توحید سکھانے اور شرک مٹانے کی ہی تعلیم لے کر ہماری جانب سے مبعوث ہوتا رہا ۔
36۔ 1 عَشَا یَعْشُوْ کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری اس کی وجہ سے جو اندھا پن ہوتا ہے۔ یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہوجائے۔ 36۔ 2 وہ شیطان، اللہ کی یاد سے غافل رہنے والے کا ساتھی بن جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور نیکیوں سے روکتا ہے۔
[٣٦] یعش (مادہ عشو) عشا کے بنیادی معنی اندھیرے کی وجہ سے چیزوں کا واضح نظر نہ آنا اور کبھی یہ لفظ محض اندھیرے کے وقت کے لیے آجاتا ہے۔ اور بمعنی رات کو نظر نہ آنا، رتوندا ہونا، شب کو ری اور یہاں یعش سے مراد عمداً کسی چیز کو دیکھنے کی کوشش نہ کرنا اور آنکھیں بند کرلینا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کی یاد سے یا اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سے یا قرآن سے عمداً بےنیاز رہنا چاہتا ہے اس پر ایک شیطان خصوصی طور پر مسلط کردیا جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا، اس کے دل میں وسوسے ڈالتا اور اللہ کی یاد سے غافل کئے رکھتا ہے حتیٰ کہ اسے دوزخ تک پہنچا کے چھوڑتا ہے۔
(١) ومن یعش عن ذکر الرحمٰن : زمخشری نے فرمایا،” غشی یعشی “ (ع) جب نظر میں خرابی آجائے اور ” غشا یعشو “ (ن) جب اس شخص کی طرف دیکھے جس کی نظر خراب ہے، حالانکہ اس میں کوئی خرابی نہ ہو۔ دونوں میں ہے، اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی اور یہ قرآن بھی ۔ دنیا کی زیب و زینت میں ہمہ تن مشغول ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کے ذکر سے غافل ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے فرشتے اس سے نفرت کرتے ہیں اور شیطان اس سے چمٹ جاتے ہیں، جو اسے ہر برائی میں مبتلا کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(یایھا الذین امنوا لاتلھکم اموالکم ولا اولادکم عن ذکر اللہ ومن یفعل ذلک فاؤلئک ھم الخسرون) (المنافقون : ٩)” اے لوگو جو ایمان لائے ہوچ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ “ اور جو شخص خواہش نفس پر قابو رکھ کر دنیا کے فتنوں سے بچے اور اللہ کے ذکر پر دوام کرے تو شیطان اس سے دور ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ فرشتہ مقرر کردیتے ہیں جو اس کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر سے جان بوجھ کر غفلت کے لئے اندھا بننے کا لفظ استعمال فرمایا اور لفظ ” الرحمٰن “ اس لئے ذکر فرمایا کہ انسان کے لائق نہیں کہ اس بےحد رحم والے کے ذکر سے غفلت کرے۔- (٢) نقیض لہ شیطناً فھولہ قرین : اس کی تفسیر کیلئے دیکھیے سورة حم السجدہ (٢٥) ۔ ” شیطناً “ نکرہ ہے، کوئی نہ کوئی شیطان، وہ انسانوں میں سے ہو یا ابلیس کی اولاد میں سے۔ شیطان مقرر کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی، حالانکہ یہ انسان کے اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے، کیونکہ ہر کام کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(والی اللہ ترجع الامور) (البقرۃ : ٢١٠)” اور سب کام اللہ ہی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ “
خلاصہ تفسیر - اور جو شخص اللہ کی نصیحت (یعنی قرآن اور وحی) سے (جان بوجھ کر) اندھا بن جاوے (جیسے یہ کفار ہیں کہ کافی شافی دلائل کے ہوتے ہوئے تجاہل سے کام لیتے ہیں) ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں، سو وہ (ہر وقت) اس کے ساتھ رہتا ہے اور وہ (ساتھ رہنے والے شیاطین) ان (قرآن سے اعراض کرنے والوں) کو (برابر) راہ (حق) سے روکتے رہتے ہیں (اور تسلط کا یہی اثر ہے) اور یہ لوگ (باوجود راہ حق سے دور ہونے کے) یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (یعنی ہم) راہ (راست) پر ہیں (سو جس کی گمراہی کی یہ صورت اور یہ حالت ہو اس کے راہ پر آنے کی کیا امید ہے۔ سو غم کیوں کیا جائے اور یہ بھی تسلی رکھئے کہ ان کا یہ تغافل جلدی ہی ختم ہوگا اور جلد ہی ان کو اپنی غلطی ظاہر ہوجائے گی کیونکہ یہ تغافل صرف دنیا ہی دنیا تک ہے) یہاں تک کہ جب ایسا شخص ہمارے پاس آوے گا (اور اس کی غلطی ظاہر ہوگی) تو (اس شیطان قرین سے) کہے گا کہ کاش میرے اور تیرے درمیان میں (دنیا میں) مشرق ومغرب کے برابر فاصلہ ہوتا (کیوں) کہ (تو تو) برا ساتھی تھا (کہ تو نے مجھ کو گمراہ کیا، مگر یہ حسرت اس وقت کام نہ آئے گی) اور (نیز ان سے کہا جائے گا کہ) جب کہ تم (دنیا میں) کفر کرچکے تھے تو (جس طرح آج حسرت تمہارے کام نہیں آئی اسی طرح) آج یہ بات (بھی) تمہارے کام نہ آوے گی کہ تم (اور شیاطین) سب عذاب میں شریک ہو (جیسے دنیا میں بعض اوقات دوسرے کو شریک مصیبت دیکھ کر ایک گونہ تسلی ہوجاتی ہے وہاں چونکہ عذاب بہت زیادہ شدید ہوگا اس لئے دوسرے کی طرف التفات بھی نہ ہوگا، ہر شخص اپنے حال میں مبتلا ہوگا اور اپنے ہی کو سب سے زیادہ مبتلا سمجھے گا) سو (آپ کو جب ان کی یہ حالت معلوم ہوگئی کہ ان کی ہدایت کی کوئی امید نہیں تو) کیا آپ (ایسے) بہروں کو سنا سکتے ہیں یا (ایسے) اندھوں کو اور ان لوگوں کو جو کہ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں راہ پر لا سکتے ہیں (یعنی ان کی ہدایت آپ کے اختیار سے خارج ہے آپ درپے نہ ہوں) پھر (ان کی یہ سرکشی خالی جانے والی نہیں، بلکہ اس پر ضرور سزا مرتب ہونے والی ہے خواہ آپ کی حیات میں ہو خواہ آپ کی وفات کے بعد ہو، پس) اگر ہم (دنیا سے) آپ کو اٹھا لیں تو بھی ہم ان (کافروں) سے بدلہ لینے والے ہیں یا اگر ان سے جو ہم نے عذاب کا وعدہ کر رکھا ہے وہ (آپ کی حیات میں ان پر نازل کر کے) آپ کو (بھی) دکھلا دیں تب بھی (کچھ بعید نہیں کیونکہ) ہم کو ان پر ہر طرح کی قدرت ہے (مطلب یہ ہے کہ عذاب ضرور ہوگا خواہ کب ہی ہو اور جب یہ بات ہے) تو آپ (تسلی رکھئے اور اطمینان سے) اس قرآن پر قائم رہئے جو آپ پر وحی کے ذریعہ سے نازل کیا گیا ہے (کیونکہ) آپ بیشک سیدھے رستہ پر ہیں (مطلب یہ کہ اپنا کام کئے جائیے اور دوسروں کے کام کا غم نہ کیجئے) اور یہ قرآن (جس پر قائم رہنے کو ہم کہتے ہیں) آپ کے لئے اور آپ کی قوت کے لئے بڑے شرف کی چیز ہے (آپ کے لئے تو اس لئے کہ آپ بلاواسطہ مخاطب ہیں اور قوم کے لئے اس واسطے کہ وہ بالواسطہ مخاطب ہیں، عام بادشاہوں سے ہم کلامی بڑا شرف سمجھی جاتی ہے چہ جائیکہ ملک الموت کا مخاطب بننا) اور عنقریب (قیامت کے دن) تم سب (اپنے اپنے ذمہ کے واجب حقوق سے) پوچھے جاؤ گے (پس آپ سے صرف تبلیغ کے متعلق سوال ہوگا جس کو آپ خوب ادا کرچکے ہیں اور عمل کے متعلق ان سے سوال ہوگا، پس جب آپ سے ان کے اعمال کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی تو آپ غم کیوں کرتے ہیں) اور (ہم نے جو آپ پر نازل ہونے والی وحی کو حق قرار دیا ہے اس میں کفار کو سب سے بڑا اعتراض عقیدہ توحید پر ہے جس کے حق ہونے میں ان کو بڑا کلام ہے، سو درحقیقت وہ ایسا امر حق ہے کہ اس پر تمام انبیاء (علیہم السلام) کا اجماع ہے اور چونکہ انبیاء عقلی و نقلی دلائل کے جامع ہیں اس لئے گویا اس پر ہزاروں عقلی و نقلی دلائل قائم ہیں، چناچہ اگر آپ کا جی چاہے تو) آپ ان سب پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے پوچھ لیجئے (یعنی ان کی کتابوں اور صحیفوں سے جن کا کچھ بقیہ موجود ہے، تحقیق کرلیجئے) کہ کیا ہم نے خدائے رحمان کے سوا (کبھی بھی) دوسرے معبود ٹھہرا دیئے تھے کہ ان کی عبادت کی جاوے (اس سے دوسروں کو سنانا منظور ہے کہ جس کا جی چاہے تحقیق کرلے اور کتابوں میں دیکھنے کو رسولوں سے پوچھنا مجازاً کہہ دیا)- معارف و مسائل - یاد خدا سے اعراض بری صحبت کا سبب ہے :- (آیت) وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ الخ۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی نصیحت یعنی قرآن اور وحی سے جان بوجھ کر اعراض کرے تو ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو دنیا میں بھی اس کے ساتھ لگا رہتا ہے اور اسے نیکیوں سے روک کر برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے اور آخرت میں بھی جب یہ شخص قبر سے اٹھے گا تو یہ شیطان اس کے ساتھ ساتھ ہوگا یہاں تک کہ دونوں جہنم میں داخل ہوجائیں۔ (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی یاد سے اعراض کی اتنی سزا دنیا میں مل جاتی ہے کہ انسان کی صحبت خراب ہوجاتی ہے اور شیاطین، خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنات میں سے، اس کو بھلائیوں سے دور اور برائیوں سے قریب کرتے رہتے ہیں وہ کام سارے گمراہی کے کرتا ہے مگر سمجھتا یہ ہے کہ بہت اچھا کر رہا ہے (قرطبی) اور یہاں جس شیطان کو مسلط کرنے کا ذکر ہے وہ اس شیطان کے علاوہ ہے جو ہر مومن و کافر کے ساتھ لگایا گیا ہے کیونکہ مومن سے خاص اوقات میں ہٹ بھی جاتا ہے، اور یہ ہمیشہ ساتھ لگا رہے گا۔ (بیان القرآن) ۔
وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَہٗ شَيْطٰنًا فَہُوَلَہٗ قَرِيْنٌ ٣٦- عيش - العَيْشُ : الحیاة المختصّة بالحیوان، وهو أخصّ من الحیاة، لأنّ الحیاة تقال في الحیوان، وفي الباري تعالی، وفي الملک، ويشتقّ منه المَعِيشَةُ لما يُتَعَيَّشُ منه . قال تعالی: نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ، مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] ، لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] ، وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] . وقال في أهل الجنّة : فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] ، وقال عليه السلام : «لا عَيْشَ إلّا عَيْشُ الآخرة- ( ع ی ش )- العیش خاص کر اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوان میں پائی جاتی ہے اور یہ لفظ الحیاۃ سے اض ہے کیونکہ الحیاۃ کا لفظ حیوان باری تعالیٰ اور ملائکہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامان زیست کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جن زندگی بسر کی جاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ۔ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ۔ وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] اور ہم ہی نے تمہارے لئے اس میں زیست کے سامان پیدا کردیئے ۔ لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] تمہارے لئے اس میں سامان زیست ۔ اور اہل جنت کے متعلق فرمایا : ۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] وہ دل پسند عیش میں ہوگا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا ( 55 ) - الا عیش الا عیش الاخرۃ کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے ۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- قيض - قال تعالی: وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت 25] ، وقوله : وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطاناً [ الزخرف 36] أي : نُتِحْ ، ليستولي عليه استیلاء القیض علی البیض، وهو القشر الأعلی ( ق ی ض ) القیض کے معنی انڈے کے اوپر کا چھلکا کے ہیں اور چھلکا چونکہ اس کے باقی منادہ اجزار پر محیط اور مستولی ہوتا ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت 25] اور ہم نے شیطانوں کو ہم نشین مقرر کردیا ہے اسی طرح ایت کریمہ : ۔ وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطاناً [ الزخرف 36] اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے ( یعنی تغافل کرے ) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں ۔ میں نقیض لہ شیطان کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس سے الگ ہوجاتے ہیں تاکہ شیطان اس پر اس طرح مسلط ہوجائے جیسے انڈے کا اوپر کا چھلکا اپنے مافیھا پر مستولی رہتا ہے ۔.- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - قرین - الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف 53] .- يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص 38] وفلان قِرْنُ فلان في الولادة، وقَرِينُهُ وقِرْنُهُ في الجلادة «1» ، وفي القوّة، وفي غيرها من الأحوال . قال تعالی: إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات 51] ، وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق 23] إشارة إلى شهيده . قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق 27] ، فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف 36] وجمعه : قُرَنَاءُ. قال : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت 25] .- ( ق ر ن ) الا قتران ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔ اور آدمی جو دوسرے کا ہم عمر ہو یا بہادری قوت اور دیگر اوصاف میں اس کا ہم پلہ ہوا سے اس کا قرن کہا جاتا ہے اور ہم پلہ یا ہم سر کون قرین بھی کہتے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان قرن فلان او قرینہ فلاں اس کا ہم عمر ہم سر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات 51] کہ میرا ایک ہم نشین تھا ۔ وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق 23] اور اس کا ہم نشین ( فرشتہ ) کہے گا یہ ( اعمال مانہ ) میرے پاس تیار ہے ۔ یہاں قرین سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے دوسری جگہ شہید ( گواہ ) کہا ہے ۔ قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق 27] ، اس کا ساتھی ( شیطان ) کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا ۔ فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف 36] تو وہ اس کا ساتھی ہوجا تا ہے ۔ قرین کی جمع قرنآء ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت 25] اور ہم نے شیبان کو ان کا ہم نشین مقرر کردیا ۔
اور جو شخص اللہ کی توحید اور اس کی کتاب سے منہ پھیرے تو ہم دنیا و آخرت میں ایک شیطان کو اس کا ساتھی بنا دیتے ہیں۔- شان نزول : وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ (الخ)- ابن ابی حاتم نے محمد بن عثمان مخزومی سے روایت کیا کہ قریش نے اپنے لوگوں سے کہا کہ ہر ایک شخص اصحاب محمد میں سے ایک شخص کو پکڑے۔ چناچہ حضرت ابوبکر کو طلحہ نے پکڑ لیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس لے کر آئے اور وہ طاقت میں بڑھ کر تھے، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ مجھے کیوں بلاتے ہو انہوں نے کہا کہ لات اور عزی کی عبادت کی طرف بلاتے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ لات کیا ہے وہ بولے ہمارا رب، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا تو پھر عزی کون ہے، وہ بولے کہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں، حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا تو پھر ان کی ماں کون ہے، تو طلحہ خاموش ہوگئے، کچھ جواب نہ دے کسے اور پھر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ ان کو جواب دو ، مگر وہ بھی جواب نہ دے سکے، تب طلحہ بولے، ابوبکر چلو کھڑے ہو، اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد الرسول اللہ یعنی طلحہ مشرف بااسلام ہوگئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی یعنی جو شخص اللہ کی نصیحت سے اندھا بن جائے۔
آیت ٣٦ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَـیِّضْ لَـہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ ” اور جو کوئی ُ منہ پھیر لے رحمان کے ذکر سے ‘ اس پر ہم ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں ‘ تو وہ اس کا ساتھی بنا رہتا ہے۔ “
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :34 وسیع المعنیٰ لفظ ہے ۔ رحمان کے ذکر سے مراد اس کی یاد بھی ہے ، اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی ، اور یہ قرآن بھی ۔
11: اس سے معلوم ہوا کہ بے فکری کے ساتھ گناہ کئے جانے اور اس پر شرمندہ نہ ہونے کا ایک عذاب یہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے جو اسے نیکی کی طرف آنے نہیں دیتا، اور گناہ کی زندگی پر ہی مگن رکھتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔