41۔ 1 یعنی تجھے موت آجائے، قبل اس کے کہ ان پر عذاب آئے، یا تجھے مکہ سے نکال لے جائیں۔ 41۔ 2 دنیا میں اگر ہماری مشیت طلب کرنے والی ہوئی، بصورت دیگر عذاب آخروی سے تو وہ کسی صورت نہیں بچ سکتے۔
فاما نذھبن بک فانا منھم…: یہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک اور طرح سے تسلی دلائی ہے کہ یہ کفار جو آپ کی موت کے منتظر ہیں اور ہر وقت آپ کو کسی نہ کسی طرح قتل کرنے کی کوشش اور مشورہ کرتے رہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ آپ کی موت سے ان کی مشکل ختم ہوجائے گی اور سب کچھ ان کے حق میں ہوجائے گا۔ فرمایا ان کا یہ خیال غلط ہے، کیونکہ اگر ہم آپ کو اپنے پاس لے جائیں تو پھر بھی یہ لوگ سزا سے بچ نہیں سکیں گے، بلکہ ہم ہر حال میں ان سے انتقام لینے والے ہیں، یا آپ کی زندگی میں آپ کو اس سزا کا کچھ حصہ دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تو یہ بھی کچھ بعید نہیں، کیونکہ ہم ان پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا، اللہ تعالیٰ نے بدر اور دوسرے معرکوں میں کفار کو ملنے والی سزا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آنکھوں سے دکھا دی۔ مزید دیکھیے سورة مومن (٧٧)
فَاِمَّا نَذْہَبَنَّ بِكَ فَاِنَّا مِنْہُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ ٤١ ۙ- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - نقم - نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] .- ( ن ق م )- نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔
(٤١۔ ٤٢) سو اگر ہم آپ کو اٹھا لیں تو ہم ان سے بذریعہ عذاب بدلہ لینے والے ہیں یا بدر کے دن جو ان سے بدلہ لینے کا وعدہ کر رکھا ہے وہ آپ کو دکھائیں غرض کہ ہم آپ کے وصال سے پہلے یا بعد ہر طرح ان پر عذاب نازل کرنے میں قادر ہیں۔
آیت ٤١ فَاِمَّا نَذْہَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْہُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ ” تو اگر ہم آپ کو لے بھی جائیں ‘ تب بھی ان سے تو ہم انتقام لے کر ہی رہیں گے۔ “- اگر ہم آپ کو اپنے پاس بلا لیں تب بھی انہیں تو ان کے جرائم کی سزا مل کر ہی رہے گی۔