Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٩] یعنی وہ ہر بار عہد شکنی کرکے اپنے سرکشی کے جرم کو سخت سے سخت تر بناتے چلے گئے۔ اسی سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ انہیں اپنے جرائم کی مناسبت سے کس قدر سخت سزا ملنے والی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فلما کشفنا عنھم العذاب اذا ھم ینکثون :” اذا “ مفا جاتیہ ہے، جس کا معنی ” اچانک “ ہے، یعنی عذاب ہٹتے ہی فوراً عہد توڑ دیتے نہ سوچنے کی زحمت کرتے نہ عہد توڑنے میں انہیں کوئی حیا مانع ہوتی تھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُمُ الْعَذَابَ اِذَا ہُمْ يَنْكُثُوْنَ۝ ٥٠- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- كشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17]- ( ک ش ف ) الکشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- نكث - النَّكْثُ : نَكْثُ الأَكْسِيَةِ والغَزْلِ قَرِيبٌ مِنَ النَّقْضِ ، واستُعِيرَ لِنَقْضِ العَهْدِ قال تعالی:- وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة 12] ، إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف 135] والنِّكْثُ- کالنِّقْضِ والنَّكِيثَةُ کالنَّقِيضَةُ ، وكلُّ خَصْلة يَنْكُثُ فيها القومُ يقال لها : نَكِيثَةٌ. قال الشاعر - مَتَى يَكُ أَمْرٌ لِلنَّكِيثَةِ أَشْهَد - ( ن ک ث ) النکث - کے معنی کمبل یا سوت ادھیڑ نے کے ہیں اور یہ قریب قریب نقض کے ہم معنی ہے اور بطور استعارہ عہد شکنی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة 12] اور اگر اپنی قسمیں توڑ ڈالیں ۔ إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف 135] تو وہ عہد توڑ ڈالتے ہیں ۔ النکث والنکثۃ ( مثل النقض والتقضۃ اور نکیثۃ ہر اس مشکل معاملہ کو کہتے ہیں جس میں لوگ عہد و پیمان توڑ ڈالیں شاعر نے کہا ( 437 ) متیٰ یک امر للنکیثۃ اشھد جب کوئی معاملہ عہد شکنی کی حد تک پہنچ جائے تو میں حاضر ہوتا ہون ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُمُ الْعَذَابَ اِذَا ہُمْ یَنْکُثُوْنَ ” پھر جب ہم دور کردیتے تھے ان سے وہ عذاب تو اسی وقت وہ وعدے سے پھرجاتے تھے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :44 فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ خدا کے عذاب سے تنگ آ کر حضرت موسیٰ سے اس کے ٹلنے کی دعا کرانا چاہتے تھے اس وقت بھی وہ آپ کو پیغمبر کہنے کے بجائے جادوگر ہی کہہ کر خطاب کرتے تھے ۔ حالانکہ وہ جادو کی حقیقت سے ناواقف نہ تھے ، اور ان سے یہ بات چھپی ہوئی نہ تھی کہ یہ کرشمے کسی جادو سے رونما نہیں ہو سکتے ۔ ایک جادوگر زیادہ سے زیادہ جو کچھ کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک محدود رقبے میں جو لوگ اس کے سامنے موجود ہوں ان کے ذہن پر ایسا اثر ڈالے جس سے وہ یہ محسوس کرنے لگیں کہ پانی خون بن گیا ہے ، یا مینڈک ابلے پڑ رہے ہیں ، یا ٹڈی دل چڑھے چلے آ رہے ہیں ۔ اور اس محدود رقبے کے اندر بھی کوئی پانی حقیقت میں خون نہ بن جائے گا بلکہ اس دائرے سے نکلتے ہی پانی کا پانی رہ جائے گا ۔ کوئی مینڈک فی الواقع پیدا نہ ہوگا بلکہ اسے پکڑ کر آپ اس دائرے سے باہر لے جائیں گے تو آپ کے ہاتھ میں مینڈک کے بجائے صرف ہوا ہو گی ۔ ٹڈی دل بھی محض خیالی دل ہو گا ، کسی کھیت کو وہ نہ چاٹ سکے گا ۔ رہی یہ بات کہ ایک پورے ملک میں قحط بر پا ہو جائے ، یا تمام ملک کی نہریں اور چشمے اور کنوئیں خون سے بھر جائیں ، یا ہزارہا میل کے رقبے پر ٹدی دل ٹوٹ پڑیں اور وہ لاکھوں ایکڑ کے کھیت صاف کر جائیں ، یہ کام نہ آج تک کبھی کوئی جادوگر کر سکا ہے ، نہ جادو کے زور سے کبھی یہ ہو سکتا ہے ۔ ایسے جادوگر کسی بادشاہ کے پاس ہوتے تو اسے فوج رکھنے اور جنگ کی مصیبتیں جھیلنے کی کیا ضرورت تھی ، جادو کے زور سے وہ ساری دنیا کو مسخر کر سکتا تھا ۔ بلکہ جادوگروں کے پاس یہ طاقت ہوتی تو وہ بادشاہوں کی ملازمت ہی کیوں کرتے ؟ خود بادشاہ نہ بن بیٹھتے ؟ مفسرین کو بالعموم یہ پریشانی پیش آئی ہے کہ جب عذاب سے نجات پانے کے لیے فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اس وقت وہ ان کو اے ساحر کہہ کر کیسے خطاب کرتے تھے ۔ مصیبت کے وقت مدد کی التجا کرنے والا تو خوشامد کرتا ہے نہ کہ مذمت ۔ اسی وجہ سے انہوں نے یہ تاویل کی ہے کہ جادو اس زمانے کے اہل مصر کے نزدیک بڑا باوقعت علم تھا اور اے ساحر کہہ کر دراصل وہ حضرت موسیٰ کی مذمت نہ کرتے تھے بلکہ اپنے نزدیک عزت کے ساتھ وہ گویا ان کو اے عالم کہہ کر پکارتے تھے ۔ لیکن یہ تاویل اس بنا پر بالکل غلط ہے کہ قرآن میں دوسرے مقامات پر جہاں جہاں بھی فرعون کے وہ اقوال نقل کیے گئے ہیں جن میں اس نے حضرت موسیٰ کو جادوگر اور ان کے پیش کردہ معجزات کو جادو کہا ہے ، وہاں مذمت اور تحقیر کا اندازہ صاف ظاہر ہوتا ہے ، اور صریحاً یہ نظر آتا ہے کہ اس کے نزدیک جادو ایک جھوٹی چیز تھی جس کا الزام حضرت موسیٰ پر رکھ کر وہ آپ کو جھوٹا مدعی نبوت قرار دیتا تھا ۔ اس لیے یہ ماننے کے قابل بات نہیں ہے کہ یکایک اس مقام پر اس کی نگاہ میں ساحر ایک با عزت عالم کا لقب بن گیا ہو ۔ رہا یہ سوال کہ جب دعا کی درخواست کرتے وقت بھی وہ علانیہ حضرت موسیٰ کی توہین کرتا تھا تو آپ اس کی درخواست قبول ہی کیوں کرتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنجناب کے پیش نظر اللہ کے حکم سے ان لوگوں پر حجت تمام کرنا تھا ۔ عذاب ٹالنے کے لیے ان کا آپ سے دعا کی درخواست کرنا خود یہ ثابت کر رہا تھا کہ اپنے دلوں میں وہ جان چکے ہیں کہ یہ عذاب کیوں آ رہے ہیں ، کہاں سے آ رہے ہیں ، اور کون انہیں ٹال سکتا ہے ۔ اس کے باوجود جب وہ ہٹ دھرمی کے ساتھ آپ کو ساحر کہتے تھے ، اور عذاب ٹل جانے کے بعد راہ راست قبول کرنے کے وعدے سے پھر جاتے تھے ، تو در حقیقت وہ اللہ کے نبی کا کچھ نہ بگاڑتے تھے بلکہ اپنے خلاف اس مقدمے کو اور زیادہ مضبوط کرتے چلے جاتے تھے جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کلی استیصال کی شکل میں آخر کر دیا ۔ ان کا آپ کو ساحر کہنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ در حقیقت اپنے دل میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ یہ عذاب ان پر جادو کے زور سے آ رہے ہیں ۔ بلکہ اپنے دلوں میں وہ خوب سمجھتے تھے کہ یہ اللہ رب العالمین کی نشانیاں ہیں ، اور پھر جان بوجھ کر ان کا انکار کرتے تھے ۔ یہی بات ہے جو سورہ نمل میں فرمائی گئی ہے کہ : وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَا اَنْفُسُھُمْ ظُلْماً وَّ عُلُوَّ ا ( آیت 14 ) ۔ ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے مگر انہوں نے ظلم اور تکبر کی بنا پر ان نشانیوں کا انکار کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani