53۔ 1 اس دور میں مصر اور فارس کے بادشاہ اپنی امتیازی شان اور خصوصی حیثیت کو نمایاں کرنے کے لئے سونے کے کڑے پہنتے تھے۔ اسی طرح قبیلوں کے سردار کے ہاتھوں میں بھی سونے کے کڑے اور گلے میں سونے کے طوق اور زنجریں ڈال دی جاتی ہیں۔ اسی اعتبار سے فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہا کہ اگر اس کی حیثیت اور امتیازی شان ہوتی تو اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے ہونے چاہیے تھے۔ 53۔ 2 جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا رسول ہے یا بادشاہوں کی طرح اس کی شان کو نمایاں کرنے کے لئے اس کے ساتھ ہوتے۔
[٥٢] فرعون کا قوم کے سامنے اپنا اور سیدنا موسیٰ کا تقابل پیش کرنا :۔ پرانے زمانے میں یہ رواج عام تھا کہ بادشاہ، نواب اور راجے مہاراجے سونے اور جواہرات کے کنگن پہنا کرتے اور اپنے جس درباری پر خوش ہوتے تو اسے بھی انعام و اکرام کے طور پر کنگن پہناتے اور جب کبھی سیر و سفر کو نکلتے تو ان کے آگے پیچھے فوجوں کے محافظ دستے ہوتے تھے اور یہ رواج آج کل بھی عام ہے۔ فرعون نے اپنے اور سیدنا موسیٰ کے تقابل میں ایک تو دولت اور حکومت کا ذکر کیا۔ دوسرے موسیٰ کی رسالت پر یہ اعتراض کیا کہ اگر وہ فی الواقع اللہ کا زمین پر نائب ہے۔ تو کم از کم نشانی کے طور پر اسے سونے کے کنگن تو پہنائے گئے ہوتے یا کم از کم اس کی حفاظت کے لیے اس کے آگے پیچھے فرشتوں کے محافظ دستے ہی اس کی حفاظت پر مامور ہوتے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی چیز نہیں پھر وہ اللہ کا نائب کیسے ہوا ؟ تمہاری عقل پر کیا پتھر پڑگئے ہیں کہ تم میرے مقابلہ میں اس کی باتیں تسلیم کرنے لگے ہو ؟
(فلو لا القی علیہ اسورۃ من ذھب …:” اسورۃ “ ” سوار “ کی جمع ہے، کنگن۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ نہ موسیٰ (علیہ السلام) سونے کے کنگن پہنیں گے ، نہ ان کے ساتھ فرشتے آئیں گے اور نہ ہمیں ان پر ایمان لانا پڑے گا۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لان کے لئے بھی کفار نے دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ سونے کے مکان اور اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو سامنے لانے کی شرط عائد کیھی، فرمایا :(وقالوا لن نومن لک حتی تفجر لنا من الارض ینبوعاً اوتکون لک جنۃ من نحیل و عنب فتفجر الانھر خلھا تفجیراً او تسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا او تاتی باللہ والملئکۃ قلیلاً اویکون لک بیت من زخرف او ترقی فی السمآئ) (بنی اسرائیل :90 تا 93)” اور انہوں نے کہا ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ تو ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری کرے۔ یا تیرے لئے کھجوروں اور انگور کا ایک باغ ہو، پس تو اس کے درمیان نہیں جاری کر دے، خوب جاری کرنا۔ یا آسمان کو ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دے ، جیسا کہ تو نے دعویٰ کیا ہے، یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر وہ، یا تو آسمان میں چڑھ جائے۔ “ حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ایک تھی اور سبھی کو دعوت کے سلسلے میں ایک جیسے مراحل سے گزرنا پڑا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے پیغمبروں خصوصاً موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات بار بار بیان فرمائے ہیں، تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو اور آپ صبر و استقامت سے کام لیں اور آپ کے زمانے کے کفار کو پہلی کافر اقوام کے انجام سے عبرت ہو اور وہ کفر سے باز آجائیں۔
فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَہُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ مُقْتَرِنِيْنَ ٥٣- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - سور - السَّوْرُ : وثوب مع علوّ ، ويستعمل في الغضب، وفي الشراب، يقال : سَوْرَةُ الغضب، وسَوْرَةُ الشراب، وسِرْتُ إليك، وسَاوَرَنِي فلان، وفلان سَوَّارٌ: وثّاب . والْإِسْوَارُ من أساورة الفرس أكثر ما يستعمل في الرّماة، ويقال : هو فارسيّ معرّب . وسِوَارُ المرأة معرّب، وأصله دستوار «3» ، وكيفما کان فقد استعملته العرب، واشتقّ منه : سَوَّرْتُ الجارية، وجارية مُسَوَّرَةٌ ومخلخلة، قال : فَلَوْلا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ [ الزخرف 53] ، وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 21] ، واستعمال الْأَسْوِرَةِ في الذهب، وتخصیصها بقوله : «ألقي» ، واستعمال أَسَاوِرَ في الفضّة وتخصیصه بقوله : حُلُّوا «4» فائدة ذلک تختصّ بغیر هذا الکتاب . والسُّورَةُ : المنزلة الرفیعة، قال الشاعر : ألم تر أنّ اللہ أعطاک سُورَةً ... تری كلّ ملک دونها يتذبذب«1» وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة «2» فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها - [ النور 1] ، أي : جملة من الأحكام والحکم، وقیل : أسأرت في القدح، أي : أبقیت فيه سؤرا، أي : بقيّة، قال الشاعر : لا بالحصور ولا فيها بِسَآرٍ- «3» ويروی ( بِسَوَّارٍ ) ، من السَّوْرَةِ ، أي : الغضب .- ( س و ر ) السور - اس کے اصل معنی بلندی پر کودنے کے ہیں اور غصہ یا شراب کی شدت پر بھی سورة کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ سورة الغضب اور سورة الشراب ( شراب کی تیزی سورت الیک کے معنی ہیں میں تیری طرف چلا اور س اور نی فلان کے معنی ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے ہیں ۔ اور سورة بمعنی وثاب یعنی عربدہ گر کے ہیں اور الاسوات اسا ورۃ الفرس کا مفرد ہے جس کے معنی تیرا انداذ کے ہیں گیا ہے کہ یہ فارسی سے معرب ہے ۔ سوراۃ المرءۃ ( عورت کا بازو بند ) یہ بھی معرب ہے اور اصل میں دستور ہے ۔ بہر حال اس کی اصل جو بھی ہو اہل عرب اسے استعمال کرتے ہیں اور اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سورات المرءۃ میں نے عورت کو کنگن پہنائے اور جاریۃ مسورۃ ومخلقۃ اس لڑکی کو کہتے ہیں جس نے بازو بند اور پازیب پہن رکھی ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ [ الزخرف 53] سونے کے کنگن ۔۔۔۔۔ چاندی کے کنگن ۔۔۔۔۔ اور قرآن میں سونے کے ساتھ اسورۃ جمع لاکر پھر خاص کر القی کا صیغہ استعمال کرنا اور فضۃ سے قبل اساور کا لفظ لاکر اس کے متعلق حلوا کا صیغہ استعمال کرنے میں ایک خاص نکتہ ملحوظ ہے کس جس کی تفصیل دوسری کتاب میں بیان ہوگی ۔ السورۃ کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( الطویل ) ( 244 ) الم تر ان اللہ اعطا ک سورة تریٰ کل ملک دونھا یتذ بذب بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسا مرتبہ بخشا ہے جس کے ورے ہر بادشاہ متذبذب نظر آتا ہے ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اص - لی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اسارت فی القدح سے مشتق ہے جس کے معنی پیالہ میں کچھ باقی چھوڑ نے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( البسیط ) ( 245 ) لا بالحصور ولا فیھا بسآ ر نہ تنگ دل اور بخیل ہے اور نہ عربدہ گر ۔ ایک روایت میں ولا بوار ہے ۔ جو شورۃ بمعنی شدت غضب سے مشتق ہے ۔- ذهب ( سونا)- الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ورجل ذَهِبٌ: رأى معدن الذّهب فدهش، وشیء مُذَهَّبٌ: جعل عليه الذّهب، وكميت مُذْهَبٌ: علت حمرته صفرة، كأنّ عليها ذهبا،- ( ذ ھ ب ) الذھب ۔ سونا ۔ اسے ذھبتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجل ذھب ، جو کان کے اندر زیادہ سانا دیکھ کر ششدرہ جائے ۔ شیئ مذھب ( او مذھب ) زرا ندددہ طلاء کی ہوئی چیز ۔ کمیت مذھب ( اومذھب ) کمیت گھوڑا جس کی سرخی پر زردی غالب ہو ۔ گویا وہ سنہری رنگ کا ہے ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- قرن ( ملنا)- الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف 53] . يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص 38]- ( ق ر ن ) الا قتران - ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔
سو اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے اور فرشتے اس کے مددگار اور اس کی رسالت کے تصدیق کرنے والے بن کر اس کے ساتھ کیوں نہ آئے۔
آیت ٥٣ فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ ” تو کیوں نہیں اتارے گئے اس پر سونے کے کنگن ؟ “- اگر یہ واقعی اللہ کا فرستادہ ہے تو اللہ نے اسے سونے کے کنگن کیوں نہ مہیا کیے کہ ایک بادشاہ کے مقابلے میں جا رہے ہو ‘ کم از کم یہ سونے کے کنگن ہی پہنتے جائو۔- اَوْ جَآئَ مَعَہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ ” یا اس کے ساتھ فرشتے چلے آ رہے ہوتے صفیں باندھے ہوئے “
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :49 قدیم زمانے میں جب کسی شخص کو کسی علاقے کی گورنری ، یا کسی غیر ملک کی سفارت کے منصب پر مقرر کیا جاتا تو بادشاہ کی طرف سے اس کو خلعت عطا ہوتا تھا جس میں سونے کے کڑے یا کنگن بھی شامل ہوتے تھے ، اور اس کے ساتھ سپاہیوں ، چوبداروں اور خدام کا ا یک دستہ بھی ہوتا تھا تاکہ اس کا رعب اور دبدبہ قائم ہو اور اس بادشاہ کی شان و شوکت کا اظہار ہو جس کی طرف سے وہ مامور ہو کر آ رہا ہے ۔ فرعون کا مطلب یہ تھا کہ اگر واقعی موسیٰ ( علیہ السلام ) کو آسمان کے بادشاہ نے ایں جانب کے پاس اپنا سفیر بنا کر بھیجا تھا تو اسے خلعت شاہی ملا ہوتا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اس کے ساتھ آئے ہوتے ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ملنگ ہاتھ میں لاٹھی لیے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں رب العالمیں کا رسول ہوں ۔