Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فلما اسفونا انتقمنا منھم…: اس ایٓ سے ظاہر ہے کہ غصے ہونا اور انتقام لینا بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، جیسا کہ راضی ہونا اور انعام دینا اس کی صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھی انہیں ہلاک کرسکتا تھا، مگر فرعون نے نہروں کے اپنے تحت چلنے پر فخر کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اسے پانی ہی میں غقر کر کے انتقام لیا۔ عموماً انسان جس چیز پر فخر کرتا ہے اللہ کی طرف سے وہی چیز اس کی ہلاکت کا سامان بن جاتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) (اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا، یہ اسف سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی ہیں افسوس، لہٰذا اس جملے کے لفظی معنی ہوئے ” پس جب انہوں نے ہمیں افسوس دلایا “ اور افسوس بکثرت غصہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے اس کا با محاورہ ترجمہ عموماً اس طرح کیا جاتا ہے کہ ” جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا۔ “ اور چونکہ باری تعالیٰ افسوس اور غصہ کی انفعالی کیفیات سے پاک ہے اس لئے اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے کام ایسے کئے جس سے ہم نے انہیں سزا دینے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ (روح)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝ ٥٥ ۙ- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- أسِف - الأَسَفُ : الحزن والغضب معاً ، وقد يقال لکل واحدٍ منهما علی الانفراد، وحقیقته : ثوران دم القلب شهوة الانتقام، فمتی کان ذلک علی من دونه انتشر فصار غضبا، ومتی کان علی من فوقه انقبض فصار حزنا، ولذلک سئل ابن عباس عن الحزن والغضب فقال : مخرجهما واحد واللفظ مختلف فمن نازع من يقوی عليه أظهره غيظاً وغضباً ، ومن نازع من لا يقوی عليه أظهره حزناً وجزعاً ، وقوله تعالی: فَلَمَّا آسَفُونا انْتَقَمْنا مِنْهُمْ [ الزخرف 55] أي : أغضبونا .- ( ا س ف ) الاسف - ۔ حزن اور غضب کے مجموعہ کو کہتے ہیں کبھی آسف کا لفظ حزن اور غضب میں سے ہر ایک پر انفراد ابھی بولا جاتا ہے اصل میں اس کے معنی جذبہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے قوی آدمی پر ہو تو منقبض ہوکر حزن بن جاتی ہے اس لئے جب حضرت ابن عباس سے حزن اور غضب کی حقیقت دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا : لفظ دو ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے جب کوئی شخص اپنے سے کمزور کے ساتھ جھگڑتا ہے تو غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے سے قوی کے ساتھ جھگڑتا ہے تو واویلا اور غم کا اظہار کرتا ہے اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ( سورة الزخرف 55) کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔- نقم - نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] .- ( ن ق م )- نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔- غرق - الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ،- ( غ ر ق ) الغرق - پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٥۔ ٥٦) غرض کہ جب انہوں نے ہمارے نبی حضرت موسیٰ کو غصہ دلایا اور ہمیں بھی غصہ دلایا تو ہم نے بذریعہ عذاب ان سے بدلہ لیا، ہم نے سب کو دریا میں غرق کردیا اور ان کے بعد میں آنے والوں کے لیے عذاب کے ذریعے ہلاکت کا نمونہ بنا دیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ اَجْمَعِیْنَ ” تو جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ‘ پس ہم نے ان سب کو غرق کردیا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani