Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قیامت کے قریب نزول عیسیٰ علیہ السلام ( یصدون ) کے معنی حضرت ابن عباس مجاہد عکرمہ اور ضحاک نے کئے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے یعنی اس سے انہیں تعجب معلوم ہوا ۔ قتادہ فرماتے ہیں گھبرا کر بول پڑے ۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے منہ پھیرنے لگے اس کی وجہ جو امام محمد بن اسحاق نے اپنی سیرت میں بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولید بن مغیرہ وغیرہ قریشیوں کے پاس تشریف فرما تھے جو نضر بن حارث آ گیا اور آپ سے کچھ باتیں کرنے لگا جس میں وہ لاجواب ہو گیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀ ) 21- الأنبياء:98 ) ، آیتوں تک پڑھ کر سنائیں یعنی تم اور تمہارے معبود سب جہنم میں جھونک دئیے جاؤ گے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے گئے تھوڑی ہی دیر میں عبداللہ بن زہیری تمیمی آیا تو ولید بن مغیرہ نے اس سے کہا نضر بن حارث تو ابن عبدالمطلب سے ہار گیا اور بالآخر ابن عبدالمطلب ہمیں اور ہمارے معبودوں کو جہنم کا ایندھن کہتے ہوئے چلے گئے ۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو خود انہیں لاجواب کر دیتا جاؤ ذرا ان سے پوچھو تو کہ جب ہم اور ہمارے سارے معبود دوزخی ہیں تو لازم آیا کہ سارے فرشتے اور حضرت عزیر اور حضرت مسیح بھی جہنم میں جائیں گے کیونکہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود حضرت عزیر کی پرستش کرتے ہیں نصرانی حضرت عیسیٰ کی عبادت کرتے ہیں ۔ اس پر مجلس کے کفار بہت خوش ہوئے اور کہا ہاں یہ جواب بہت ٹھیک ہے ۔ لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا ہر وہ شخص جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور ہر وہ شخص جو اپنی عبادت اپنی خوشی سے کرائے یہ دونوں عابد و معبود جہنمی ہیں ۔ فرشتوں یا نبیوں نے نہ اپنی عبادت کا حکم دیا نہ وہ اس سے خوش ۔ ان کے نام سے دراصل یہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں وہی انہیں شرک کا حکم دیتا ہے ۔ اور یہ بجا لاتے ہیں اس پر آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ١٠١؀ۙ ) 21- الأنبياء:101 ) ، نازل ہوئی یعنی حضرت عیسیٰ ، حضرت عزیر ، اور ان کے علاوہ جن احبار و رہبان کی پرستش یہ لوگ کرتے ہیں اور خود وہ اللہ کی اطاعت پر تھے شرک سے بیزار اور اس سے روکنے والے تھے اور ان کے بعد گمراہوں جاہلوں نے انہیں معبود بنا لیا تو وہ محض بےقصور ہیں اور فرشتوں کو جو مشرکین اللہ کی بیٹیاں مان کر پوجتے تھے ان کی تردید میں آیت ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88؀ۭ ) 19-مريم:88 ) ، سے کئی آیتوں تک نازل ہوئیں اور ان کے اس باطل عقیدے کی پوری تردید کر دی اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں اس نے جو جواب دیا تھا جس پر مشرکین خوش ہوئے تھے یہ آیتیں اتریں کہ اس قول کو سنتے ہی کہ معبودان باطل بھی اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے انہوں نے جھٹ سے حضرت عیسیٰ کی ذات گرامی کو پیش کر دیا اور یہ سنتے ہی مارے خوشی کے آپ کی قوم کے مشرک اچھل پڑے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگے کہ ہم نے دبا لیا ۔ ان سے کہو کہ حضرت عیسیٰ نے کسی سے اپنی یا کسی اور کی پرستش نہیں کرائی وہ تو خود برابر ہماری غلامی میں لگے رہے اور ہم نے بھی انہیں اپنی بہترین نعمتیں عطا فرمائیں ۔ ان کے ہاتھوں جو معجزات دنیا کو دکھائے وہ قیامت کی دلیل تھے حضرت ابن عباس سے ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے اپنے معبودوں کا جہنمی ہونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سن کر کہا کہ پھر آپ ابن مریم کی نسبت کیا کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اب کوئی جواب ان کے پاس نہ رہا تو کہنے لگے واللہ یہ تو چاہتے ہیں کہ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو اللہ مان لیا ہے ہم بھی انہیں رب مان لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو صرف بکواس ہے کھسیانے ہو کر بےتکی باتیں کرنے لگے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قرآن میں ایک آیت ہے مجھ سے کسی نے اس کی تفسیر نہیں پوچھی ۔ میں نہیں جانتا کہ کیا ہر ایک اسے جانتا ہے یا نہ جان کر پھر بھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے ؟ پھر اور باتیں بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ مجلس ختم ہوئی اور آپ چلے گئے ۔ اب ہمیں بڑا افسوس ہونے لگا کہ وہ آیت تو پھر بھی رہ گئی اور ہم میں سے کسی نے دریافت ہی نہ کیا ۔ اس پر ابن عقیل انصاری کے مولیٰ ابو یحییٰ نے کہا کہ اچھا کل صبح جب تشریف لائیں گے تو میں پوچھ لوں گا ۔ دوسرے دن جو آئے تو میں نے ان کی کل کی بات دہرائی اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کونسی آیت ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں سنو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قریش سے فرمایا کوئی ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاتی ہو اور اس میں خیر ہو ۔ اس پر قریش نے کہا کیا عیسائی حضرت عیسیٰ کی عبادت نہیں کرتے ؟ اور کیا آپ حضرت عیسیٰ کو اللہ کا نبی اور اس کا برگذیدہ نیک بندہ نہیں مانتے ؟ پھر اس کا کیا مطلب ہوا کہ اللہ کے سوا جس کی عبادت کی جاتی ہے وہ خیر سے خالی ہے ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ کہ جب عیسیٰ بن مریم کا ذکر آیا تو لوگ ہنسنے لگے ۔ وہ قیامت کا علم ہیں یعنی عیسیٰ بن مریم کا قیامت کے دن سے پہلے نکلنا ابن ابی حاتم میں بھی یہ روایت پچھلے جملے کے علاوہ ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ان کے اس قول کا کہ کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے معبود محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہترے ہیں یہ تو اپنے آپ کو پجوانا چاہتے ہیں ، ابن مسعود کی قرأت میں ( ام ھذا ) ہے ۔ اللہ فرماتا ہے یہ ان کا مناظرہ نہیں بلکہ مجادلہ اور مکابرہ ہے یعنی بےدلیل جھگڑا اور بےوجہ حجت بازی ہے خود یہ جانتے ہیں کہ نہ یہ مطلب ہے نہ ہمارا یہ اعتراض اس پر وارد ہوتا ہے ۔ اس لئے اولاً تو آیت میں لفظ ( ما ) ہے جو غیر ذوی العقول کے لئے ہے دوسرے یہ کہ آیت میں خطاب کفار قریش سے ہے جو اصنام و انداد یعنی بتوں اور پتھروں کو پوجتے تھے وہ مسیح کے پجاری نہ تھے جو یہ اعتراض برمحل مانا جائے پس یہ صرف جدل ہے یعنی وہ بات کہتے ہیں جس کے غیر صحیح ہونے کو ان کے اپنے دل کو بھی یقین ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک ہلاک نہیں ہوتی جب تک بےدلیل حجت بازی اس میں نہ آجائے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ابن ابی حاتم میں اس حدیث کے شروع میں یہ بھی ہے کہ ہر امت کی گمراہی کی پہلی بات اپنے نبی کے بعد تقدیر کا انکار کرنا ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مجمع میں آئے اس وقت وہ قرآن کی آیتوں میں بحث کر رہے تھے ۔ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا اس طرح اللہ کی کتاب کی آیتوں کو ایک دوسری کے ساتھ ٹکراؤ نہیں یاد رکھو جھگڑے کی اسی عادت نے اگلے لوگوں کو گمراہ کر دیا ۔ پھر آپ نے آیت ( مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ 58؀ ) 43- الزخرف:58 ) کی تلاوت فرمائی پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ عزوجل کے بندوں میں سے ایک بندے تھے ۔ جن پر نبوت و رسالت کا انعام باری تعالیٰ ہوا تھا اور انہیں اللہ کی قدرت کی نشانی بنا کر بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ جو چاہے اس پر قادر ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین بنا کر فرشتوں کو اس زمین میں آباد کر دیتے ۔ یا یہ کہ جس طرح تم ایک دوسرے کے جانشین ہوتے ہو یہی بات ان میں کر دیتے مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں یعنی بجائے تمہارے زمین کی آبادی ان سے ہوتی ہے اس کے بعد جو فرمایا ہے کہ وہ قیامت کی نشانی ہے اس کا مطلب جو ابن اسحاق نے بیان کیا ہے وہ کچھ ٹھیک نہیں ۔ اور اس سے بھی زیادہ دور کی بات یہ ہے کہ بقول قتادہ حضرت حسن بصری اور حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہہ کی ضمیر کا مرجع عائد ہے حضرت عیسیٰ پر ۔ یعنی حضرت عیسیٰ قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لئے کہ اوپر سے ہی آپ کا بیان چلا آرہا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ مراد یہاں حضرت عیسیٰ کا قیامت سے پہلے کا نازل ہونا ہے جیسے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا آیت ( وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا ١٥٩؀ۚ ) 4- النسآء:159 ) یعنی ان کی موت سے پہلے ایک ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا ۔ یعنی حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے قیامت کے دن یہ ان پر گواہ ہوں گے ۔ اس مطلب کی پوری وضاحت اسی آیت کی دوسری قرأت سے ہوتی ہے جس میں ہے ( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِ ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ 61؀ ) 43- الزخرف:61 ) یعنی جناب روح اللہ قیامت کے قائم ہونے کا نشان اور علامت ہیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ نشان ہیں قیامت کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریم کا قیامت سے پہلے آنا ۔ اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ سے اور حضرت عباس سے اور یہی مروی ہے ابو لعالیہ ، ابو مالک ، عکرمہ ، حسن ، قتادہ ضحاک وغیرہ سے رحم اللہ تعالیٰ ۔ اور متواتر احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے حضرت عیسیٰ امام عادل اور حاکم باانصاف ہو کر نازل ہوں گے ۔ پس تم قیامت کا آنا یقینی جانو اس میں شک شبہ نہ کرو اور جو خبریں تمہیں دے رہا ہوں اس میں میری تابعداری کرو یہی صراط مستقیم ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان جو تمہارا کھلا دشمن ہے تمہیں صحیح راہ سے اور میری واجب اتباع سے روک دے حضرت عیسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ میں حکمت یعنی نبوت لے کر تمہارے پاس آیا ہوں اور دینی امور میں جو اختلافات تم نے ڈال رکھے ہیں ۔ میں اس میں جو حق ہے اسے ظاہر کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔ ابن جریر یہی فرماتے ہیں اور یہی قول بہتر اور پختہ ہے پھر امام صاحب نے ان لوگوں کے قول کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ بعض کا لفظ یہاں پر کل کے معنی میں ہے اور اس کی دلیل میں بعید شاعر کا ایک شعر پیش کرتے ہیں ۔ لیکن وہاں بھی بعض سے مراد قائل کا خود اپنا نفس ہے نہ کہ سب نفس ۔ امام صاحب نے شعر کا جو مطلب بیان کیا ہے یہ بھی ممکن ہے ۔ پھر فرمایا جو میں تمہیں حکم دیتا ہوں اس میں اللہ کا لحاظ رکھو اس سے ڈرتے رہو اور میری اطاعت گذاری کرو جو لایا ہوں اسے مانو یقین مانو کہ تم سب اور خود میں اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے در کے فقیر ہیں اس کی عبادت ہم سب پر فرض ہے وہ واحد لاشریک ہے ۔ بس یہی توحید کی راہ راہ مستقیم ہے اب لوگ آپس میں متفرق ہوگئے بعض تو کلمۃ اللہ کو اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہتے تھے اور یہی حق والی جماعت تھی اور بعض نے ان کی نسبت دعویٰ کیا کہ وہ اللہ کے فرزند ہیں ۔ اور بعض نے کہا آپ ہی اللہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں دعوں سے پاک ہے اور بلند و برتر ہے ۔ اسی لئے ارشاد فرماتا ہے کہ ان ظالموں کے لئے خرابی ہے قیامت والے دن انہیں المناک عذاب اور دردناک سزائیں ہوں گی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٥] معبودوں کا جہنم میں داخلہ اور سیدنا عیسیٰ کا معاملہ :۔ جب سورة انبیاء کی یہ آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀) 21 ۔ الأنبیاء :98) یعنی تم بھی اور اللہ کے سوا تم جن چیزوں کو پوجتے ہو، وہ سب جہنم کا ایندھن بنیں گے نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے یہ اعتراض اٹھایا کہ عبادت تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی کی جاتی ہے۔ تو کیا وہ بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے ؟ پھر اس اعتراض کا خوب پروپیگنڈا شروع کردیا۔ عبداللہ بن الزبعریٰ نے یہی سوال رسول اللہ سے کیا تو آپ خاموش رہے کیونکہ آپ خود کوئی جواب دینے کی بہ نسبت یہ بات زیادہ پسند فرماتے تھے کہ مشرکوں کے ایسے اعتراضات کے جو جواب بذریعہ وحی نازل ہوں وہی ان کو جواب دیا جائے۔ آپ کی خاموشی پر مشرکین قہق ہے لگانے اور کھل کھلا کر ہنسنے لگے جس کا مطلب یہ تھا کہ ہماری اس دلیل نے محمد کو چپ کرا دیا۔ بالفاظ دیگر ایسی مسکت دلیل پیش کرکے میدان مار لیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ولما ضرب ابن مریم مثلاً …: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح تمام پیغمبروں کا ذکر عزت و اکرام کے ساتھ کرتے تھے، عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر بھی ہمیشہ عزت و تکریم کیساتھ کرتے اور ان کی مثال آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دیا کرتے تھے کہ جس طرح ماں باپ کے بغیر آدم (علیہ السلام) کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عجیب و غریب کرشمہ ہے اسی طرح باپ کے بغیر عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش بھی اس کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے۔ مدینہ جانے کے بعد وفد نجران کی آمد پر سورة آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون) (آل عمران : ٥٩)” بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہوجا، سو وہ ہوجاتا ہے۔ “- پچھلی آیات میں مشرکین مکہ کے فرشتوں کی عبادت پر رد کے بعد فرمایا تھا :(وسئل من ارسلنا من قبلک من رسلنا اجعلنا من دون الرحمٰن الھۃ یعبدون) (الزخرف : ٣٥)” اور ان سے پوچھ جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیا ہم نے رحمان کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں جن کی عبادت کی جائے ؟ “ اس پر مشرکین میں سے کسی نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے معبود ہونے کا اعتراض جڑ دیا۔ ساتھ ہی دوسرے مشرکین نے شور مچانا شروع رک دیا کہ مسیح (علیہ السلام) کو دیکھو، نصرانی ان کی عبادت کرتے ہیں، پھر بھی مسلمان ان کا نام عزت سے لیتے ہیں۔ ہمارے بتا ور دیوی دیوتا فرشتے ہیں کیا ہمارے معبود فرشتے بہتر ہیں یا نصرانیوں کے معبود عیسیٰ (علیہ السلام) بہتر ہیں ؟ پھر ان کا نام عزت کے ساتھ کیوں لیا جاتا ہے اور ہمارے بتوں کو برا کیوں کہا جاتا ہے ؟ میں نے بہت غور و فکر اور متعدد تفاسیر کے مطالعہ کے بعد آیات کے الفاظ اور سیاق وسباق کو ملحوظ رکھ کر جو تفسیر سمجھی ہے ذکر کردی ہے۔ (واللہ اعلم) ابن عاشور نے فرمایا :” یہ مقام قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات میں سے ہے۔ “ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” یعنی قرآن میں ان کا ذکر آوے تو اعتراض کرتے ہیں کہ ان کو بھی خلق پوجتے ہیں، انہیں کیوں خوبی سے یاد کرتے ہو اور ہمارے پوجوں (معبودوں، بتوں) کو برا کہتے ہو۔ “ (موضح) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (ایک مرتبہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ کے سوا جتنوں کی ناحق عبادت کی جاتی ہے ان میں کسی میں کوئی خیر نہیں۔ اس پر قریش کے بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ نصرانی لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں مگر ان کے بارے میں آپ بھی مانتے ہیں کہ ان میں خیر ہی خیر تھی اس کے جواب میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں) اور جب (عیسیٰ ) ابن مریم (علیہ السلام) کے متعلق (ایک معترض کی طرف سے) ایک عجیب مضمون بیان کیا گیا (عجیب اس لئے کہ سرسری نظر ہی سے اس کا بطلان خود ان کو معلوم ہوسکتا تھا، پس عقل رکھ کر ایسا اعتراض کرنا بہت عجیب تھا، غرض جب یہ اعتراض کیا گیا) تو یکایک آپ کی قوم کے لوگ اس (اعتراض کے سننے) سے (مارے خوشی کے) چلانے لگے اور (اس معترض کے ساتھ متفق ہو کر) کہنے لگے کہ (بتلائیے آپ کے نزدیک) ہمارے معبود زیادہ بہتر ہیں یا عیسیٰ (علیہ السلام بہتر ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ آپ عیسیٰ (علیہ السلام) کو تو یقینا بہتر سمجھتے ہیں حالانکہ آپ نے جو یہ کہا تھا کہ اللہ کے سوا جتنوں کی ناحق عبادت کی جاتی ہے ان میں کوئی خیر نہیں، اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں بالکل بھلائی نہ ہو اس سے ایک تو آپ کا یہ قول (معاذ اللہ) درست نہیں رہا۔ دوسرے معلوم ہوا کہ جن کو آپ خیر کہتے ہیں خود ان کی بھی عبادت ہوئی ہے، اس لئے اس سے شرک کی صحت ثابت ہوگئی۔ آگے اس اعتراض کا جواب ہے، پہلے اجمالاً پھر تفصیلاً ، اجمالاً تو یہ ہے کہ) ان لوگوں نے جو یہ ( عجیب اعتراض) آپ سے بیان کیا ہے تو محض جھگڑنے کی غرض سے (نہ کہ طلب حق کے لئے) ورنہ خود ان پر اس اعتراض کی لغویت پوشیدہ نہ رہتی اور ان لوگوں کا جھگڑنا کچھ اسی اعتراض کے ساتھ مخصوص نہیں) بلکہ یہ لوگ (اپنی عادت سے) ہیں ہی جھگڑالو (کہ اکثر حق باتوں میں جھگڑے نکالتے ہیں۔ آگے تفصیلی جواب ہے یعنی) یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) تو محض ایک ایسے بندے ہیں جن پر ہم نے (مقبولیت اور کمالات نبوت دے کر اپنا) فضل کیا اور ان کو بنی اسرائیل کے لئے (اولاً اور دوسروں کیلئے بھی ثانیاً ) ہم نے (اپنی قدرت کا) ایک نمونہ بنایا تھا (تا کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ کو اس طرح بغیر باپ کے پیدا کرنا بھی کچھ مشکل نہیں۔ اس سے ان کے دونوں اعتراضات کا جواب نکل آیا جس کی تشریح معارف و مسائل میں آئے گی) اور (ہم تو اس سے زیادہ عجیب و غریب امور پر قادر ہیں، چنانچہ) اگر ہم چاہتے تو ہم تم سے فرشتوں کو پیدا کردیتے (جس طرح تم سے تمہارے بچے پیدا ہوتے ہیں) کہ وہ زمین پر (انسان کی طرح) یکے بعد دیگرے رہا کرتے (یعنی پیدائش بھی آدمیوں کی طرح ہوتی اور موت بھی۔ پس بغیر باپ کے پیدا ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے زیر قدرت نہیں رہے۔ لہٰذا یہ امر حضرت عیسیٰ کے معبود ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ اس طرح پیدا کرنے میں بعض حکمتیں تھیں جن میں سے ایک تو اوپر بیان ہوئی کہ انہیں اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنانا تھا) اور (دوسری حکمت یہ تھی کہ) وہ (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) اس طرح پیدا ہونے میں امکان) قیامت کے یقین کا ذریعہ ہیں (اس طرح کہ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے میں اس سے زیادہ اور کیا بعد ہے کہ دوبارہ زندگی خلاف عادت ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے ہونے سے ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ خلاف عادت امور کے صادر کرنے پر قادر ہے۔ پس اس سے قیامت و آخرت کے عقیدے کا صحیح ہونا ثابت ہوگیا اور جب تم نے عقیدہ آخرت کی یہ دلیل سن لی) تو تم لوگ اس (کی صحت) میں شک مت کرو، اور (توحید اور آخرت وغیرہ عقائد میں) تم لوگ میرا اتباع کرو، یہ (مجموعہ جس کی طرف میں تم کو بلاتا ہوں) سیدھا رستہ ہے اور تم کو شیطان (اس راہ پر آنے سے) روکنے نہ پاوے وہ بیشک تمہارا صریح دشمن ہے اور (جہاں تک تو کفار کے مذکورہ اعتراض کا جواب تھا، آگے خود عیسیٰ (علیہ السلام) کے مضمون دعوت سے توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کی تائید ہے یعنی) جب عیسیٰ (علیہ السلام کھلے کھلے) معجزے لے کر آئے تو انہوں نے (لوگوں سے) کہا کہ میں تمہارے پاس سمجھ کی باتیں لے کر آیا ہوں (تا کہ تمہارے عقائد کی اصلاح کروں) اور تاکہ بعض باتیں (منجملہ اعمال حلال و حرام کے) جن میں تم اختلاف کر رہے ہو تم سے بیان کر دوں (جس سے اختلاف و اشتباہ رفع ہوجاوے، جب میں اس طرح آیا ہوں) تو تم لوگ اللہ سے ڈرو (اور میری نبوت کا انکار نہ کرو، کیونکہ یہ خدا کی مخالفت ہے) اور میرا کہا مانو (کیونکہ نبوت کی تصدیق کے لئے یہ ضروری ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا کہ) بیشک اللہ ہی میرا بھی رب ہے، اور تمہارا بھی رب ہے سو (صرف) اسی کی عبادت کرو (اور) یہی (توحید) سیدھا رستہ ہے سو (باوجود عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس واشگاف بیان توحید کے پھر بھی) مختلف گروہوں نے (اس بارے میں) باہم اختلاف ڈال لیا (یعنی توحید کے خلاف طرح طرح کے مذاہب ایجاد کر لئے، چناچہ توحید میں نصاریٰ و غیر نصاریٰ کا اختلاف بھی معلوم ہے) سو ان ظالموں (یعنی مشرکین اہل کتاب و غیر اہل کتاب) کیلئے ایک پر درد دن کے عذاب سے بڑی خرابی (ہونے والی) ہے (پس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعوت سے خود توحید کی تائید ہوگئی، لہٰذا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ناحق عبادت سے شرک کی صحت پر استدلال مدعی سست گواہ چست کی مثال ہے) ۔- معارف و مسائل - وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ ، ان آیات کے شان نزول میں مفسرین نے تین روایتیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک مرتبہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ قریش کے لوگوں سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا، ” یا معشر قریش لا خیر فی احد یعبد من دون اللہ “ یعنی ” اے قریش کے لوگو، اللہ کے سوا جس کسی کی عبادت کی جاتی ہے اس میں کوئی خیر نہیں “ اس پر مشرکین نے کہا کہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں لیکن آپ خود مانتے ہیں کہ وہ اللہ کے نیک بندے اور اس کے نبی تھے۔ ان کے اس اعتراض کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ (قرطبی) دوسری روایت یہ ہے کہ جب قرآن کریم کی ( آیت) انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم (بلاشبہ اے مشرکو، تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے) نازل ہوئی تو اس پر عبداللہ بن الزبعری نے جو اس وقت کافر تھے، یہ کہا کہ اس آیت کا تو میرے پاس بہترین جواب موجود ہے، اور وہ یہ کہ نصاریٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں اور یہود حضرت عزیز (علیہ السلام) کی، تو کیا یہ دونوں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے ؟ یہ بات سن کر قریش کے مشرکین بہت خوش ہوئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ آیت نازل فرمائی کہ (آیت) ان الذین سبقت لہم منا الحسنیٰ اولئک عنھا مبعدون، اور دوسرے سورة زخرف کی مذکورہ بالا آیات۔ (ابن کثیر وغیرہ)- تیسری روایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ مشرکین مکہ نے یہ بےہودہ خیال ظاہر کیا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدائی کا دعویٰ کرنا چاہتے ہیں، ان کی مرضی یہ ہے کہ جس طرح نصاریٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو پوجتے ہیں اس طرح ہم بھی ان کی عبادت کیا کریں، اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں۔ اور درحقیقت تینوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں، کفار نے تینوں ہی باتیں کہیں ہوں گی جن کے جواب میں اللہ تعالٰ نے ایسی جامع آیات نازل فرما دیں جن سے ان کے تینوں اعتراضات کا جواب ہوگیا۔ اس آخری اعتراض کا جواب تو مذکورہ آیات میں بالکل واضح ہے کہ جن لوگوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی عبادت شروع کردی ہے انہوں نے نہ کسی خدائی حکم سے ایسا کیا، نہ خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کی یہ خواہش تھی اور نہ قرآن ان کی تائید کرتا ہے انہیں تو حضرت عیسیٰ کے باپ کے بغیر پیدا ہونے سے مغالطہ لگا تھا اور قرآن اس مغالطہ کی تردید کرتا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (معاذ اللہ) عیسائیوں کی دیکھا دیکھی اپنی خدائی کا دعویٰ کر بیٹھیں۔- اور پہلی اور دوسری روایتوں میں کفار کے اعتراض کا حاصل تقریباً ایک ہی ہے۔ ان کا جواب مذکورہ آیات سے اس طرح نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا تھا کہ اللہ کے سوا جتنوں کو لوگوں نے معبود بنا رکھا ہے وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ یا حضور نے جو فرمایا تھا کہ ان میں خیر نہیں، اس سے مراد وہ معبود تھے جو یا تو بےجان ہوں جیسے پتھر کے بت، یا جاندار ہوں مگر خود اپنی عبادت کا حکم دیتے یا اسے پسند کرتے ہوں جیسے شیاطین، فرعون اور نمرود وغیرہ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں جبکہ وہ کسی بھی مرحلہ پر اپنی عبادت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ نصاریٰ ان کی کسی ہدایت کی بنا پر ان کی عبادت نہیں کرتے، بلکہ انہیں ہم نے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا کر بغیر باپ کے پیدا کیا تھا تاکہ لوگوں پر یہ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی تخلیق میں اسباب کے کسی واسطے کی ضرورت نہیں لیکن نصاریٰ نے اس کا غلط مطلب لے کر انہیں معبود بنا لیا، حالانکہ ان کا یہ معبود بنانا عقلاً بھی غلط تھا اور خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کے بھی بالکل خلاف تھا۔ کیونکہ انہوں نے ہمیشہ توحید کی تعلیم دی تھی۔ غرض حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی عبادت سے بیزار ہونا اس بات سے مانع ہے کہ انہیں دوسرے باطل معبودوں کی صف میں شامل کیا جائے۔- اس سے کفار کا یہ اعتراض بھی ختم ہوگیا جس کا ذکر خلاصہ تفسیر میں آیا ہے کہ جن کو آپ خود خیر کہتے ہیں (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام) ان کی بھی عبادت ہوئی ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کی عبادت کچھ بری بات نہیں۔ مذکورہ آیات میں اس کا جواب واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جو عبادت ہوئی، وہ اللہ کی مرضی کے بھی خلاف تھی اور خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کے بھی۔ لہٰذا اس سے شرک کی صحت پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

شان نزول : وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ (الخ)- امام احمد نے سند صحیح کے ساتھ اور امام طبرانی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے قریش سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی عبادت کی جائے اس میں کوئی بھلائی نہیں اس پر ان لوگوں نے کہا کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نبی اور نیک بندے تھے حالانکہ ان کی بھی اللہ کے علاوہ عبادت کی گئی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ ” اور جب (قرآن میں) ابن ِمریم کی مثال بیان کی جاتی ہے تو اس پر آپ کی قوم چلانے ّلگتی ہے۔ “- حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر پر مشرکین ِمکہ ّکی چیخ و پکار ایک تو سورة الانبیاء کی اس آیت کے حوالے سے تھی : اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَط اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ ۔ ” یقینا تم لوگ اور جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ‘ سب جہنم کا ایندھن ہیں۔ تمہیں اس میں پہنچ کر رہنا ہے “۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ کے سوا جتنے معبود لوگوں نے بنا رکھے ہیں اگر وہ سب جہنم کا ایندھن بنیں گے تو پھر عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ بھی تو ان ہی میں شامل ہوں گے ‘ کیونکہ انہیں بھی تو دنیا میں پوجا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ کے مقابلے میں اگر فرشتوں ‘ اللہ کے مقرب بندوں ‘ ِجنات ّاور ُ بتوں وغیرہ کی پرستش کی گئی ہے تو جہنم میں جھونکے جانے کا مصداق ملائکہ ‘ انبیاء اور اولیاء اللہ تو نہیں ٹھہرتے۔ ظاہر ہے جو باطل ہوگا وہی جہنم میں جھونکا جائے گا۔ البتہ مشرکین مکہ اسی دلیل کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر پر شدت کے ساتھ چیخنا چلانا شروع کردیتے تھے۔ - دوسری طرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر پر مشرکین مکہ کے مخصوص رد عمل کا باعث ان کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ موقف بھی تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کی تعریف و توصیف کے پردے میں نصرانیت کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا دعویٰ یہ تھا کہ جس طرح ہم لات و ُ عزیٰ ّوغیرہ کی پوجا کرتے ہیں اسی طرح عیسائی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو پوجتے ہیں۔ تو ایسا کیوں ہے کہ عیسائیوں کے معبود کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعریف کرتے ہیں اور ہمارے معبودوں کی مذمت ؟ اس وجہ سے وہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عیسائیت کو قبول کرلینے اور عیسائیت کی تبلیغ کرنے کے الزامات لگاتے تھے۔ بلکہ جب مکہ میں مسلمانوں نے نماز پڑھنا شروع کی تو مشرکین ِمکہ ّنے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر یہ الزام بھی لگادیا کہ یہ لوگ ” صابی “ ہوگئے ہیں۔ صابی لوگ عراق میں آباد تھے اور وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے پیروکاروں کی نسل میں سے تھے۔ اگرچہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اصل دین کو تو بگاڑ دیا تھا لیکن ” نماز “ کسی نہ کسی شکل میں ان کے ہاں موجود تھی۔ چناچہ نماز کی اس مشابہت کے باعث مشرکین مکہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صابی ہونے کا الزام بھی لگایا تھا۔ بہر حال مذکورہ دو وجوہات کی بنا پر مشرکین مکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کے ذکر پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: جب سورۃ انبیاء کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں بت پرستوں کو خطاب کر کے فرمایا گیا تھا کہ یقین رکھو کہ تم اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، وہ سب جہنم کا ایندھن ہیں : 98۔ تو ایک کافر نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی عبادت کرتے ہیں، اس لیے اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ (معاذ اللہ) وہ بھی جہنم کا ایندھن بنیں، حالانکہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ اس کی یہ بات سن کر دوسرے کافروں نے خوب شور مچایا کہ واقعی اس شخص نے بہت زبردست اعتراض کیا ہے۔ حالانکہ اعتراض بالکل لغو تھا، کیونکہ اس آیت میں بت پرستوں سے خطاب تھا، عیسائیوں سے نہیں، اور اس میں بتوں کے علاوہ وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم دیا ہو۔ لہذا اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے داخل ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ یہ آیتیں اس موقع پر نازل ہوئی تھیں۔ اس آیت کے شان، نزول میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ کافر لوگوں میں سے کسی نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی وقت اپنے آپ کو اسی طرح خدا کا بیٹا قرار دیں گے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دیا تھا، اس پر بھی دوسرے مشرکین نے اس کی تعریف میں خوشی سے شور مچایا، اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ دونوں واقعے پیش آئے ہوں، اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کا جامع جواب اس آیت کے ذریعے نازل فرما دیا ہو۔