Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جہالت و خباثت کی انتہاء اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے اے نبی آپ اعلان کر دیجئے کہ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کی اولاد ہو تو مجھے سر جھکانے میں کیا تامل ہے ؟ نہ میں اس کے فرمان سے سرتابی کروں نہ اس کے حکم کو ٹالوں اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے میں اسے مانتا اور اس کا اقرار کرتا لیکن اللہ کی ذات ایسی نہیں جس کا کوئی ہمسر اور جس کا کوئی کفو ہو یاد رہے کہ بطور شرط کے جو کلام وارد کیا جائے اس کا وقوع ضروری نہیں بلکہ امکان بھی ضروری نہیں ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ Ć۝ ) 39- الزمر:4 ) ، یعنی اگر حضرت حق جل و علا اولاد کی خواہش کرتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا لیکن وہ اس سے پاک ہے اس کی شان وحدانیت اس کے خلاف ہے اس کا تنہا غلبہ اور قہاریت اس کی صریح منافی ہے بعض مفسریں نے ( عابدین ) کے معنی انکاری کے بھی کئے ہیں جیسے سفیان ثوری ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ( عابدین ) سے مراد یہاں ( اول الجاحدین ) ہے یعنی پہلا انکار کرنے والا اور یہ ( عبد یعبد ) کے باب سے ہے اور جو عبادت کے معنی میں ہوتا ہے ۔ وہ ( عبد یعبد ) سے ہوتا ہے ۔ اسی کی شہادت میں یہ واقعہ بھی ہے کہ ایک عورت کے نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ ہوا حضرت عثمان نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت علی نے اس کی مخالفت کی اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے آیت ( وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا 15؀ ) 46- الأحقاف:15 ) یعنی حمل کی اور دودھ کی چھٹائی کی مدت ڈھائی سال کی ہے ۔ اور جگہ اللہ عزوجل نے فرمایا آیت ( وفصالہ فی عامین ) دو سال کے اندر اندر دودھ چھڑانے کی مدت ہے حضرت عثمان ان کا انکار نہ کر سکے اور فوراً آدمی بھیجا کہ اس عورت کو واپس کرو یہاں بھی لفظ ( عبد ) ہے یعنی انکار نہ کر سکے ۔ ابن وہب کہتے ہیں ( عبد ) کے معنی نہ ماننا انکار کرنا ہے ۔ شاعر کے شعر میں بھی ( عبد ) انکار کے اور نہ ماننے کے معنی میں ہے ۔ لیکن اس قول میں نر ہے اس لئے کہ شرط کے جواب میں یہ کچھ ٹھیک طور پر لگتا نہیں اسے ماننے کے بعد مطلب یہ ہو گا کہ اگر رحمان کی اولاد ہے تو میں پہلا منکر ہوں ۔ اور اس میں کلام کی خوبصورتی قائم نہیں رہتی ۔ ہاں صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ( ان ) شرط کے لئے نہیں ہے ۔ بلکہ نفی کے لئے ہے جیسے کہ ابن عباس سے منقول بھی ہے ۔ تو اب مضمون کلام یہ ہو گا کہ چونکہ رحمان کی اولاد نہیں پس میں اس کا پہلا گواہ ہوں حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ کلام عرب کے محاورے کے مطابق ہے یعنی نہ رحمان کی اولاد نہ میں اس کا قائل و عابد ۔ ابو صخر فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ میں تو پہلے ہی اس کا عابد ہوں کہ اس کی اولاد ہے ہی نہیں اور میں اس کی توحید کو ماننے میں بھی آگے آگے ہوں مجاہد فرماتے ہیں میں اس کا پہلا عبادت گذار ہوں اور موحد ہوں اور تمہاری تکذیب کرنے والا ہوں ۔ امام بخاری فرماتے ہیں میں پہلا انکاری ہوں یہ دونوں لغت میں ( عابد ) اور ( عبد ) اور اول ہی زیادہ قریب ہے اس وجہ سے کہ یہ شرط و جزا ہے لیکن یہ ممتنع اور محال محض ناممکن ۔ سدی فرماتے ہیں اگر اس کی اولاد ہوتی تو میں اسے پہلے مان لیتا کہ اس کی اولاد ہے لیکن وہ اس سے پاک ہے ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں اور جو لوگ ( ان ) کو نافیہ بتلاتے ہیں ان کے قول کی تردید کرتے ہیں اسی لئے باری تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ آسمان و زمین اور تمام چیزوں کا حال اس سے پاک بہت دور اور بالکل منزہ ہے کہ اس کی اولاد ہو وہ فرد احمد صمد ہے اس کی نظیر کفو اولاد کوئی نہیں ارشاد ہوتا ہے کہ نبی انہیں اپنی جہالت میں غوطے کھاتے چھوڑو اور دنیا کے کھیل تماشوں میں مشغول رہنے دو اسی غفلت میں ان پر قیامت ٹوٹ پڑے گی ۔ اس وقت اپنا انجام معلوم کرلیں پھر ذات حق کی بزرگی اور عظمت اور جلال کا مزید بیان ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات اس کی عابد ہے اس کے سامنے پست اور عاجز ہے ۔ وہ خبیر و علیم ہے جیسے اور آیت میں ہے کہ زمین و آسمان میں اللہ وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کو اور تمہارے ہر ہر عمل کو جانتا ہے وہ سب کا خالق و مالک سب کو بسانے اور بنانے والا سب پر حکومت اور سلطنت رکھنے والا بڑی برکتوں والا ہے ۔ وہ تمام عیبوں سے کل نقصانات سے پاک ہے وہ سب کا مالک ہے بلندیوں اور عظمتوں والا ہے کوئی نہیں جو اس کا حکم ٹال سکے کوئی نہیں جو اس کی مرضی بدل سکے ہر ایک پر قابض وہی ہے ہر ایک کام اس کی قدرت کے ماتحت ہے قیامت آنے کے وقت کو وہی جانتا ہے اس کے سوا کسی کو اس کے آنے کے ٹھیک وقت کا علم نہیں ساری مخلوق اسی کی طرف لوٹائی جائے گی وہ ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کا بدلہ دے گا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان کافروں کے معبودان باطل جنہیں یہ اپنا سفارشی خیال کئے بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی بھی سفارش کے لئے آگے بڑھ نہیں سکتا کسی کی شفاعت انہیں کام نہ آئے گی اسکے بعد استثناء منقطع ہے یعنی لیکن جو شخص حق کا اقراری اور شاہد ہو اور وہ خود بھی بصیرت و بصارت پر یعنی علم و معرفت والا ہو اسے اللہ کے حکم سے نیک لوگوں کی شفاعت کار آمد ہو گی ان سے اگر تو پوچھے کہ ان کا خالق کون ہے ؟ تو یہ اقرار کریں گے کہ اللہ ہی ہے افسوس کہ خالق اسی ایک کو مان کر پھر عبادت دوسروں کی بھی کرتے ہیں جو محض مجبور اور بالکل بےقدرت ہیں اور کبھی اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتے کہ جب پیدا اسی ایک نے کیا تو ہم دوسرے کی عبادت کیوں کریں ؟ جہالت و خباثت کند ذہنی اور بےوقوفی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایسی سیدھی سی بات مرتے دم تک سمجھ نہ آئی ۔ بلکہ سمجھانے سے بھی نہ سمجھا اسی لئے تعجب سے ارشاد ہوا کہ اتنا مانتے ہوئے پھر کیوں اندھے ہو جاتے ہو ؟ پھر ارشاد ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یہ کہنا کہا یعنی اپنے رب کی طرف شکایت کی اور اپنی قوم کی تکذیب کا بیان کیا کہ یہ ایمان قبول نہیں کرتے جیسے اور آیت میں ہے ( وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا 30؀ ) 25- الفرقان:30 ) یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شکایت اللہ کے سامنے ہو گی کہ میری امت نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ امام ابن جریر بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں امام بخاری فرماتے ہیں ابن مسعود کی قرأت لام کے زیر کیساتھ بھی نقل کی ہے اس کی ایک توجیہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ آیت ( اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ ۭ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ 80؀ ) 43- الزخرف:80 ) پر معطوف ہے دوسرے یہ کہ یہاں فعل مقدر مانا جائے یعنی ( قال ) کو مقدر مانا جائے ۔ دوسری قرأت یعنی لام کے زیر کیساتھ جب ہو تو یہ عجب ہو گا آیت ( وَعِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 85 ؀ ) 43- الزخرف:85 ) پر تو تقدیر یوں ہو گی ۔ کہ قیامت کا علم اور اس قول کا علم اس کے پاس ہے ختم سورہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ مشرکین سے منہ موڑ لے اور ان کی بدزبانی کا بد کالمی سے جواب نہ دو بلکہ ان کے دل پر چانے کی خاطر قول میں اور فعل میں دونوں میں نرمی برتو کہہ دو کہ سلام ہے ۔ انہیں ابھی حقیقت حال معلوم ہو جائے گی ۔ اس میں رب قدوس کی طرف سے مشرکین کو بڑی دھمکی ہے اور یہی ہو کر بھی رہا ۔ کہ ان پر وہ عذاب آیا جو ان سے ٹل نہ سکا حضرت حق جل و علا نے اپنے دین کو بلند و بالا کیا اپنے کلمہ کو چاروں طرف پھیلا دیا اپنے موحد مومن اور مسلم بندوں کو قوی کر دیا اور پھر انہیں جہاد کے اور جلا وطن کرنے کے احکام دے کر اس طرح دنیا میں غالب کر دیا اللہ کے دین میں بیشمار آدمی داخل ہوئے اور مشرق و مغرب میں اسلام پھیل گیا فالحمدللہ ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 کیونکہ اللہ کا مطیع اور فرماں بردار ہوں اگر واقع اس کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں ان کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ مطلب مشرکین کے عقیدے میں اللہ کی اولاد ثابت کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٦] یعنی تم کہتے ہو کہ اللہ کی اولاد ہے۔ اگر مجھے تمہاری یہ بات دل لگتی اور مجھے ایسا یقین حاصل ہوجاتا تو میں یقیناً سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ لیکن یہ بات میری عقل اور سمجھ سے باہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہو۔ اور کائنات کے تصرف میں اس کا بھی کچھ اختیار ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اگر ایسی صورت ہوتی تو کائنات کے پورے کے پورے نظام میں جو ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ایک سے زیادہ خداؤں کی صورت میں یہ کبھی برقرار نہیں رہ سکتی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قل ان کان للرحمن ولد…: کفار فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے، پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا۔ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان سے کہہ دیں کہ اگر رحمان کی کوئی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ میرا اللہ تعالیٰ کی اولاد نہ ماننا اور جنھیں تم اللہ کی اولاد قرار دیتے ہو ان کی عبادت سے انکار کسی ضد یا ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں، بلکہا س وجہ سے ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ اس ذات پاک کی اولاد ہو جس کا نام رحمان ہے۔ تفصیل کے لئے سورة مریم کی آیات (٨٨ تا ٩٨) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر رحمان کی کوئی اولاد ہو، جیسا کہ کفار کہتے ہیں، تو سب سے پہلے اس اولاد کی عبادت کرنے والا میں ہوں، کیونکہ میرا اس کے ساتھ بندگی کا تعلق سب سے زیادہ ہے، جیسا کہ بادشاہ کے نوکر چاکر بادشاہ کی اولاد کی تعظیم ان کے والد کی تعظیم کی وجہ سے کرتے ہیں، لیکن رحمان کی اولاد ہے ہی نہیں، اس لئے میں اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت کرنے والا نہیں۔- یاد رہے کہ یہ جملہ شرطیہ ہے، اس میں شرط کا وجود بلکہ اس کا امکان بھی ضروری نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ناممکن چیز کو بھی بفرض محال شرط کے طور پر ذکر کردیا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(لو اراد اللہ ان یتخذ ولذدا لاصطفی مما یخلق مایشآء سبحنہ ھو اللہ الواحد القھار) (الزمر : ٣)” اگر اللہ چاہتا کہ (کسی کو) اولاد بنئاے تو ان میں سے جنھیں وہ پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ضرور چن لیتا، وہ پاک ہے۔ وہ تو اللہ ہے، جو اکیلا ہے، بہت غلبے والا ہے۔ “ اور فرمایا :(لوکان فیھمآ الھۃ الا اللہ لفسدتا) (الانبیائ : ٢٢)” اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - (آیت) قُلْ اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ (اگر خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرتا) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ خدا کی اولاد ہونے کا کسی بھی درجہ میں کوئی امکان ہے، بلکہ مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ میں تمہارے عقائد کا انکار کسی عناد یا ہٹ دھرمی سے نہیں کر رہا ہوں بلکہ دلائل کی وجہ سے کر رہا ہوں، اگر صحیح دلائل سے خدا کی اولاد کا وجود ثابت ہوجاتا تو میں اسے ضرور مان لیتا، لیکن عقل ونقل کی ہر دلیل اس کی تردید کرتی ہے، اس لئے ماننے کا کوئی سوال نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل باطل کے ساتھ مباحثہ کے وقت اپنی حق پسندی جتلانے کے لئے یہ کہنا جائز اور مناسب ہے کہ اگر تمہارا دعویٰ صحیح دلائل کے ساتھ ثابت ہوتا تو میں اسے تسلیم کرلیتا، کیونکہ بعض اوقات اس انداز کلام سے مخالف کے دل میں ایسی نرمی پیدا ہو سکتی ہے جو اسے قبول حق پر آمادہ کر دے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ۝ ٠ ۤۖ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ۝ ٨١- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- كان - كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً- [ الأحزاب 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا - [ مریم 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله :- كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- ( ک و ن ) کان ۔- فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے - ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨١۔ ٨٢) اور آپ نضر بن حارث اور علقمہ سے کہیے کہ اللہ کے کوئی اولاد نہیں کیونکہ سب سے پہلے تو میں ہی اس کے وحدہ لاشریک ہونے کا اقرار کرنے والا ہوں وہ ان کے ان جھوٹے دعو وں سے پاک ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَـدٌق فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ ان سے کہیے کہ اگر رحمن کا کوئی بیٹا ہوتا تو سب سے پہلا اس کی عبادت کرنے والا میں ہوتا۔ “- کہ جب میں خدائے رحمان کو اپنا معبود مانتا ہوں اور اس کی پرستش کرتا ہوں ‘ اگر واقعتا اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو اس کی پرستش کرنے میں مجھے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ یہ نفی کا بہت تیکھا انداز ہے۔ اس اسلوب کو ” تعلیق بالمحال “ کہا جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی ایسا ہونے کا کوئی امکان ہے ‘ اس لیے اس کی اولاد کو پوجنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ ” تعلیق بالمحال “ کا یہی اسلوب اس حدیث میں بھی پایا جاتا ہے : (لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا) (١) ” اگر ابراہیم زندہ رہتا تو وہ صدیق نبی ہوتا۔ “- ایک دفعہ ٹورنٹو (کینیڈا) میں ایک قادیانی نے میرے ساتھ بحث کے دوران نبوت کے تسلسل کو ثابت کرنے کے لیے اسی حدیث کا حوالہ دیا تھا۔ اس حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے حضرت ابراہیم (رض) کا ذکر ہے ‘ جو حضرت ماریہ قبطیہ (علیہ السلام) کے بطن سے پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ ان کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اگر وہ زندہ رہتے تو وہ نبی ہوتے۔ اللہ کی مشیت کے مطابق ان کے زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا ‘ اس لیے نہ تو انہوں نے زندہ رہنا تھا اور نہ ہی نبوت کے سلسلے کو آگے چلنا تھا۔ بہر حال مذکورہ قادیانی نے اس حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی۔ میں نے اس کے جواب میں دلیل کے طور پر اسی آیت کا حوالہ دیا تھا : قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌق فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ 4 کہ یہاں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا جا رہا ہے کہ اگر رحمان کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ تو کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ کے علاوہ کسی اور کو پوجنے کا کچھ بھی امکان تھا ؟ اس پر اس نے تسلیم کیا کہ آپ کی یہ دلیل واقعتا مضبوط ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :64 مطلب یہ ہے کہ میرا کسی کو خدا کی اولاد نہ ماننا ، اور جنہیں تم اس کی اولاد قرار دے رہے ہو ان کی عبادت سے انکار کرنا کسی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں ہے ۔ میں جس بنا پر اس سے انکار کرتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ کوئی خدا کا بیٹا یا بیٹی نہیں ہے اور تمہارے یہ عقائد حقیقت کے خلاف ہیں ۔ ورنہ میں تو خدا کا ایسا وفادار بندہ ہوں کہ اگر بالفرض حقیقت یہی ہوتی تو تم سے پہلے میں بندگی میں سر جھکا دیتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کا کوئی امکان ہے، بلکہ یہ بات فرض محال کے طور پر کہی گئی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے عقائد کا جو انکار کر رہا ہوں، وہ کسی ہٹ دھرمی یا عناد کی وجہ سے نہیں کر رہا، بلکہ دلائل کی بنا پر کر رہا ہوں، اور اگر دلیل سے اللہ تعالیٰ کی کسی اولاد کا کوئی ثبوت ہوتا تو میں اس سے کبھی انکار نہ کرتا۔