Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) حم والکتب المبین انا انزلنہ : اللہ تعالیٰ نے اس کتاب مبین کی قسم کھا کر فرمایا کہ یقیناً ہم نے ہی اسے نازل فرمایا ہے۔ یعنی یہ کتاب مبین خود اس بات کی شاہد ہے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کسی اور کی تصنیف نہیں، بلکہ اسے ہم نے ہی نازل کیا ہے۔ اگر کوئی اسے مخلوق کی تصنیف کہتا ہے تو وہ اس کی ایک سورت کی مثل ہی تصنیف کر کے لے آئے۔- (٢) فی لیلۃ مبرکۃ : کتاب کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ رات بڑی خیر و برکت والی ہے جس میں ہم نے اسے نازل فرمایا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دیا کہ وہ مبارک رات لیلتہ القدر ہے، جیسا کہ سورة قدر میں ہے :(انا انزلنہ فی لیلۃ القدر) (القدر : ١) ” بلاشبہ ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا۔ “ اور وہ ماہ رمضان میں ہے جیسا کہ فرمایا :(شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن) (البقرۃ : ١٨٥)” رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ “ کتاب اتارنے سے مراد اتارنے کی ابتدا ہے جو غار حرا میں ماہ رمضان کی اس مبارک رات میں ہوئی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ رات نصف شعبان کی رات ہے، مگر یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ یہ قرآن مجید کے صریح خلاف ہے۔ قاضی ابوبکر بن العربی نے ” احکام القرآن “ میں لکھا ہے کہ نصف شعبان کی رات سے متعلق کوئی روایت قابل اعتماد نہیں، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس بارے میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ مفسر شنقیطی نے فرمایا :” ابن العربی کے علاوہ دوسرے محققین کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ ایسیر وایات کی کوئی بنیاد نہیں، نہ ان میں سے کسی کی سند صحیح ہے۔ “- (٣) ” لیلۃ مبرکۃ “ کی برکات کی تفصیل سورة قدر میں ملاحظہ فرمائیں۔- (٤) انا کنا منذرین : یعنی ہم نے یہ کتاب اس لئے نازل کی کہ بندوں کو اچھے اور برے کاموں سے آگاہ کردیا جائے اور نافرمانی کی صورت میں انھیں ان کے انجام بد سے ڈرا دیا جائے، تاکہ ان کے پاس یہ عذر باقی نہ رہے کہ میں خبر دار نہیں کیا گیا۔ یہاں صرف ڈرانے کا ذکر فرمایا بشارت کا نہیں، کیونکہ اکثر لوگوں کے حسب حال یہی ہوتا ہے۔ ویسے ڈرانے کے ضمن میں بشارت بھی ہوتی ہے، اس شخص کے لئے جو ڈر جائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - حم (اس کے معنی اللہ کو معلوم ہیں) قسم ہے اس کتاب واضح (المعنی) کی کہ ہم نے اس کو (لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر) ایک برکت والی رات (یعنی شب قدر) میں اتارا ہے (کیونکہ) ہم (بوجہ شفقت کے اپنے ارادہ میں اپنے بندوں کو) آگاہ کرنے والے تھے (یعنی ہم کو یہ منظور ہوا کہ ان کو مضرتوں سے بچا لینے کے لئے خیر و شر پر مطلع کردیں، یہ قرآن کو نازل کرنے کا مقصد تھا۔ آگے اس شب کے برکات و منافع کا بیان ہے کہ) اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکم (صادر) ہو کر طے کیا جاتا ہے (یعنی سال بھر کے معاملات جو سارے کے سارے ہی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں جس طرح انجام دینے اللہ کو منظور ہوتے ہیں اس طریقے کو متعین کر کے ان کی اطلاع متعلقہ فرشتوں کو کر کے ان کے سپرد کردیئے جاتے ہیں، چونکہ وہ رات ایسی ہے اور نزول قرآن سب سے زیادہ حکمت والا کام تھا اس لئے اس کے لئے بھی یہی رات منتخب کی گئی اور یہ قرآن اس لئے نازل کیا گیا کہ) ہم بوجہ رحمت کے جو آپ کے رب کی طرف سے ہوتی ہے آپ کو پیغمبر بنانے والے تھے (تاکہ آپ کی معرفت اپنے بندوں کو آگاہ کردیں) بیشک وہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے (اس لئے بندوں کی رعایت کرتا ہے، اور وہ ایسا ہے) جو کہ مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو (مخلوق) ان دونوں کے درمیان میں ہے اس کا بھی، اگر تم یقین لانا چاہو (تو یہ توحید کے دلائل یقین دلانے کے لئے کافی موجود ہیں، آگے توحید کی تصریح ہے کہ) اس کے سوا کوئی لائق عبادت کے نہیں، وہی جان ڈالتا ہے وہ ہی جان نکالتا ہے، وہ تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا بھی پروردگار ہے (اور اس تصریح و توضیح کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ لوگ مان لیتے مگر یہ لوگ پھر بھی نہیں مانتے) بلکہ وہ (توحید جیسے حقائق کی طرف سے) شک میں (پڑے) ہیں (اور دنیا کے) کھیل (کود) میں مصروف ہیں (آخرت کی فکر نہیں جو حق کو طلب کریں اس میں غور سے کام لیں) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ حٰـمۗ۝ ١ ۚۛ وَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ۝ ٢ ۙۛ- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٣) حم۔ جو کچھ ہونے والا ہے اس کا للہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا اور کتاب مبین یعنی قرآن کریم کی جو کہ حلال و حرام اوامرو نواہی کو بیان کرنے والا ہے۔ قسم ہے کہ ہم نے اس قرآن حکیم کو شب قدر میں جو کہ برکتوں اور رحمتوں اور مغفرتوں والی رات ہے، بذریعہ جبریل امین آسمان دنیا پر اتارا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیس سال کے عرصے میں ایک ایک آیت اور سورت کر کے رسول اکرم پر اس قرآن کریم کو بذریعہ جبریل امین نازل فرمایا کیونکہ ہم بذریعہ قرآن کریم لوگوں کو ڈرانے والے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ حٰمٓ ” ح ‘ م ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani