معارف مسائل - فضیلت سورت :- حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کی رات میں سورة دخان پڑھ لے تو صبح کو اس کے گناہ معاف ہوچکے ہوں گے۔ اور حضرت امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے جمعہ کی رات یا دن میں سورة دخان پڑھ لی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائیں گے۔ (قرطبی بروایت ثعلبی)- آیات مذکورہ میں قرآن کی عظمت اور بعض خاص صفات کا بیان ہے والکتاب المبین یعنی واضح کتاب سے مراد قرآن ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو ہم نے ایک مبارک رات میں نازل فرمایا جس کا مقصد غافل انسانوں کو بیدار کرنا ہے۔ اسی طرح کی قسم انہی الفاظ کے ساتھ سورة زخرف کے شروع میں بھی گزر چکی ہے وہاں اس کا بیان آ چکا ہے۔
آیت ٢ وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ ” قسم ہے اس روشن کتاب کی۔ “- جیسا کہ سورة الزخرف کے آغاز میں عرض کیا گیا ‘ سورة الدخان کی سورة الزخرف کے ساتھ نسبت ِزوجیت ہے اور اس کی ایک علامت یہ ہے کہ دونوں سورتوں کی دو ابتدائی آیات مشترک ہیں اور ان کا اسلوب بھی ایک جیسا ہے۔ چناچہ سورة الزخرف کی طرح یہاں اس آیت میں بھی قرآن کی قسم کا جوابِ قسم یا مقسم علیہ محذوف ہے۔ اس ضمن میں یہ وضاحت قبل ازیں کی جا چکی ہے کہ ایسے مقامات پر مقسم علیہ گویا وہی حقیقت ہے جس کا ذکر سورة یٰسٓ کے آغاز میں ہوچکا ہے : یٰسٓ۔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔۔ چناچہ یہاں پر اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کو مقدر ( ) مانتے ہوئے آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یوں ہوگا : ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کتاب ِمبین گواہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں “۔ گویا یہ روشن اور واضح کتاب ‘ یہ قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا قطعی ثبوت ہے۔