Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عظیم الشان قرآن کریم کا نزول اور ماہ شعبان اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس عظیم الشان قرآن کریم کو بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ Ǻ۝ښ ) 97- القدر:1 ) ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے ۔ اور یہ رات رمضان المبارک میں ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ١٨٥؁ ) 2- البقرة:185 ) رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ۔ سورہ بقرہ میں اس کی پوری تفسیر گذر چکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ نہیں لکھتے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لیلہ مبارکہ جس مے قرآن شریف ہوا وہ شعبان کی پندرہویں رات ہے یہ قول سراسر بےدلیل ہے ۔ اس لئے کہ نص قرآن سے قرآن کا رمضان میں نازل ہونا ثابت ہے ۔ اور جس حدیث میں مروی ہے کہ شعبان میں اگلے شعبان تک کے تمام کام مقرر کر دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ نکاح کا اور اولاد کا اور میت کا ہونا بھی وہ حدیث مرسل ہے اور ایسی احادیث سے نص قرآنی کا معارضہ نہیں کیا جا سکتا ہم لوگوں کو آگاہ کر دینے والے ہیں یعنی انہیں خیر و شر نیکی بدی معلوم کرا دینے والے ہیں تاکہ مخلوق پر حجت ثابت ہو جائے اور لوگ علم شرعی حاصل کرلیں اسی شب ہر محکم کام طے کیا جاتا ہے یعنی لوح محفوظ سے کاتب فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے تمام سال کے کل اہم کام عمر روزی وغیرہ سب طے کر لی جاتی ہے ۔ حکیم کے معنی محکم اور مضبوط کے ہیں جو بدلے نہیں وہ سب ہمارے حکم سے ہوتا ہے ہم رسل کے ارسال کرنے والے ہیں تاکہ وہ اللہ کی آیتیں اللہ کے بندوں کو پڑھ سنائیں جس کی انہیں سخت ضرورت اور پوری حاجت ہے یہ تیرے رب کی رحمت ہے اس رحمت کا کرنے والا قرآن کو اتارنے والا اور رسولوں کو بھیجنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان زمین اور کل چیز کا مالک ہے اور سب کا خالق ہے ۔ تم اگر یقین کرنے والے ہو تو اس کے باور کرنے کے کافی وجوہ موجود ہیں پھر ارشاد ہوا کہ معبود برحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہر ایک کی موت زیست اسی کے ہاتھ ہے تمہارا اور تم سے اگلوں کا سب کا پالنے پوسنے والا وہی ہے اس آیت کا مضمون اس آیت جیسا ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) ، یعنی تو اعلان کر دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ جس کی بادشاہت ہے آسمان و زمین کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو جلاتا اور مارتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 بابرکت رات (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ) سے مراد شب قدر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ) 2 ۔ البقرۃ :185) رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا، یہ شب قدر رمضان کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ یہاں قدر کی رات اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بابرکت ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا دوسرے، اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے (جیسا کہ آگے آرہا ہے) چوتھے اس رات کی عبادت ہزار مہینے (83 سال 4 ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے شب قدر یا لیلہ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اس رات آپ پر قرآن نازل ہوا، یا یہ مطلب ہے لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اتارا گیا جو آ ّسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے ضرورت و مصلحت 33 سالوں تک مختلف اوقات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترتا رہا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] لیلۃ القدر اور شب برات ایک ہی رات ہے :۔ یعنی جس رات قرآن نازل ہوا وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی۔ کیونکہ اس رات کو تمام دنیا کی ہدایت کا اہتمام کیا جارہا تھا۔ اس مقام پر اس رات کو (لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ) کہا گیا اور سورة القدر میں (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ) یعنی بڑی قدر و منزلت والی رات یا وہ رات جس میں بڑے اہم امور کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔- مطلب دونوں کا ایک ہی ہے بالفاظ دیگر ایک ہی رات کو یہاں (لَیْلَۃٍ مُّبَارِکَۃٍ ) کہا گیا ہے اور سورة القدر میں (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ) ۔ اور سورة بقرہ میں یہ صراحت بھی موجود ہے ہے کہ یہ رات ماہ رمضان المبارک کی رات تھی۔ (٢: ١٨٥) اور احادیث صحیحہ میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ یہ رات ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے۔ اور اکثر اقوال کے مطابق یہ رمضان کی ستائیسیویں رات ہوتی ہے۔ مگر بعض ناقابل احتجاج روایات کی بنا پر بعض لوگوں نے اس رات کو دو الگ الگ راتیں قرار دے لیا یعنی (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ) کو تو رمضان کے آخری عشرہ میں ہی سمجھا اور (لَیْلَۃٍ مُّبَارِکَۃٍ ) کو ماہ شعبان کی پندرہ تاریخ قرار دے دیا۔ اور اس کا نام شب قدر یا شب برات رکھ لیا۔ حالانکہ شب کا لفظ لیلۃ کا فارسی ترجمہ ہے اور برات کا لفظ قدر کا۔ گویا (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ) کا ہی فارسی زبان میں ترجمہ کرکے ایک دوسری رات بنا کر اس کا تہوار منانے لگے اور اس میں پٹاخے اور آتش بازی چلانے لگے۔ گویا جو کام ہندو اپنے دسہرہ کے موقع پر کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں نے شب برات سے متعلق کرکے اپنے تہوار منانے کے شوق کو پورا کرلیا۔- رہی یہ بات کہ کیا سارے کا سارا قرآن اسی رات اترا تھا جیسا کہ بظاہر اس سورت اور سورة القدر سے معلوم ہوتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سارے کا سارا قرآن ہی لوح محفوظ سے نقل کرکے فرشتوں اور بالخصوص جبرئیل کے حوالہ کردیا گیا تھا۔ یا یہ سارا قرآن آسمان دنیا پر اتار دیا گیا تھا۔ پھر یہ وہاں سے حسب موقع و ضرورت تئیس سال تک رسول اللہ پر نازل ہوتا رہا۔ البتہ سورة علق کی پہلی پانچ آیات اسی رات رسول اللہ پر غار حرا میں نازل ہوئی تھیں۔- [٢] یعنی قرآن کریم کے نازل کرنے سے ہمارا مقصود یہ تھا کہ اس سے تمام اہل عالم کو ان کے انجام سے خبردار کیا جائے اور ان کی گمراہی اور برے اعمال کی سزا سے انہیں ڈرایا جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک شب قدر ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے۔ اس رات کو مبارک فرمانا اس لئے ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر بیشمار خیرات و برکات نازل ہوتی ہیں اور قرآن کریم کا شب قدر میں نازل ہونا قرآن کی سورة قدر میں تصریح کے ساتھ آیا ہے۔ (آیت) انا انزلنہ فی لیلة القدر، اس سے ظاہر ہوا کہ یہاں بھی لیلة مبارکہ سے مراد شب قدر ہی ہے۔ اور ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں ابتداء دنیا سے آخر تک اپنے انبیاء (علیہم السلام) پر نازل فرمائی ہیں وہ سب کی سب ماہ رمضان المبارک ہی کی مختلف تاریخوں میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت قتادہ نے بروایت واثلہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صحف ابراہیم (علیہ السلام) رمضان کی پہلی تاریخ میں اور تورات رمضان کی چھٹی تاریخ میں، زبور بارہویں میں، انجیل اٹھارویں میں اور قرآن چوبیس تاریخ گزرنے کے بعد یعنی پچیسویں شب میں نازل ہوا۔ (قرطبی)- قرآن کے شب قدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے پورا قرآن سماء دنیا پر اسی رات میں نازل کردیا گیا تھا۔ پھر تئیس سال کی مدت میں تھوڑا تھوڑا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتا رہا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ہر سال میں جتنا قرآن نازل ہونا مقدر ہوتا تھا اتنا ہی شب قدر میں لوح محفوظ سے سماء دنیا پر نازل کردیا جاتا تھا۔ (قرطبی)- اور بعض مفسرین عکرمہ وغیرہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اس آیت میں لیلہ مبارکہ سے مراد شب برات یعنی نصف شعبان کی رات قرار دی ہے مگر اس رات میں نزول قرآن دوسری تمام نصوص قرآن اور روایات حدیث کے خلاف ہے (آیت) شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن اور انا انزلنا فی لیلة القدر جیسی کھلی نصوص کے ہوتے ہوئے بغیر کسی قوی دلیل کے نہیں کہا جاسکتا کہ نزول قرآن شب برات میں ہوا۔ البتہ شعبان کی پندرھویں شب کو بعض روایات حدیث میں شب برات یا لیلة الصک کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس رات کا مبارک ہونا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کا ذکر ہے۔ اس کے ساتھ بعض روایات میں یہ مضمون بھی آیا ہے جو اس جگہ لیلہ مبارکہ کی صفت میں بیان فرمایا ہے یعنی (آیت) فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ۔ امراً من عندنا یعنی اس رات میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ ہماری طرف سے کیا جاتا ہے جس کے معنی حضرت ابن عباس یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ رات جس میں نزول قرآن ہوا، یعنی شب قدر، اسی میں مخلوقات کے متعلق تمام اہم امور جن کے فیصلے اس سال میں اگلی شب قدر تک واقع ہونے والے ہیں طے کئے جاتے ہیں کہ کون کون اس سال میں پیدا ہوں گے، کون کون آدمی اس میں مریں گے، کس کو کس قدر رزق اس سال میں دیا جائے گا۔ یہی تفسیر دوسرے ائمہ تفسیر حضرت قتادہ، مجاہد، حسن وغیرہم سے بھی منقول ہے اور مہدوی نے فرمایا کہ معنی اس کے یہ ہیں کہ یہ تمام فیصلے جو تقدیر الٰہی میں پہلے ہی سے طے شدہ تھے اس رات میں متعلقہ فرشتوں کے سپرد کردیئے جاتے ہیں، کیونکہ قرآن و سنت کی دوسری نصوص اس پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلے انسان کی پیدائش سے بھی پہلے ازل ہی میں لکھ دیئے تھے۔ تو اس رات میں ان کے طے کرنے کا حاصل یہی ہوسکتا ہے کہ قضا و قدر کی تنفیذ جن فرشتوں کے ذریعہ ہوتی ہے اس رات میں یہ سالانہ احکام ان کے سپرد کردیئے جاتے ہیں۔ (قرطبی)- چونکہ بعض روایات حدیث میں شب برات یعنی شعبان کی پندرہویں شب کے متعلق بھی آیا ہے کہ اس میں آجال و ارزاق کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ اس لئے بعض حضرات نے آیت مذکورہ میں لیلہ مبارکہ کی تفسیر لیلة البرات سے کردی ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ یہاں اس رات میں نزول قرآن کا ذکر سب سے پہلے ہے اور اس کا رمضان میں ہونا قرآن کی نصوص سے متعین ہے۔ اور شب برات کے متعلق جو یہ مضمون بعض روایات میں آیا ہے کہ اس میں ارزاق وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں اول تو ابن کثیر نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ روایت مرسل ہے اور ایسی روایت نصوص صریحہ کے مقابلہ میں قابل اعتماد نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح قاضی ابوبکر بن عربی نے فرمایا کہ نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد روایت ایسی نہیں جس سے ثابت ہو کہ رزق اور موت وحیات کے فیصلے اس رات میں ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے فرمایا کہ اس رات کی فضیلت میں بھی کوئی قابل اعتماد حدیث نہیں آئی لیکن روح المانی وغیرہ کے فیصلے نصف شعبان کی رات میں لکھے جاتے ہیں اور شب قدر میں فرشتوں کے حوالے کئے جاتے ہیں اگر یہ روایت ثابت ہو تو اس طرح دونوں قول میں تطبیق ہو سکتی ہے ورنہ اصل بات جو ظاہر قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ سورة دخان کی آیت میں لیلہ مبارکہ اور فیہا یفرق وغیرہ کے سب الفاظ شب قدر ہی کے متعلق ہیں۔ رہا شب برات کی فضیلت کا معاملہ، سو وہ ایک مستقل معاملہ ہے جو بعض روایات حدیث میں منقول ہے مگر وہ اکثر ضعیف ہیں اس لئے قاضی ابوبکر بن عربی نے اس رات کی کسی فضیلت سے انکار کیا ہے لیکن شب برات کی فضیلت کی روایات اگرچہ با عتبار سند کے ضعف سے کوئی خالی نہیں لیکن تعد دطرق اور تعدد روایات سے ان کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس لئے بہت سے مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کرلینے کی بھی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۝ ٣- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَـیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ ” یقینا ہم نے اس کو نازل کیا ہے ایک مبارک رات میں “- یہ مضمون سورة القدر میں واضح تر انداز میں آیا ہے : اِنَّآاَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃِ الْقَدْرِ ۔ کہ ہم نے اسے ” لیلۃ القدر “ میں نازل فرمایا۔ چونکہ قرآن مجید میں عام طور پر اہم مضامین کم از کم دو مرتبہ آئے ہیں اس لیے اس خاص رات کا ذکر بھی دو مرتبہ آیا ہے۔ وہاں ” لیلۃ القدر “ کے نام سے اور یہاں ” لیلۃ مبارکۃ “ کے نام سے۔- اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ” یقینا ہم خبردار کردینے والے ہیں۔ “- رسالت اور انزالِ کتب کا اصل مقصد لوگوں کا انذار (خبردار کرنا ‘ آگاہ کرنا) ہے۔ جیسے سورة المدثر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا : یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ ” اے چادر اوڑھنے والے ‘ اٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے “۔ دنیا کی زندگی اصل زندگی نہیں ہے۔ یہ تو اصل ” کتاب زندگی “ کے دیباچے کی مانند ہے۔ اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہونے والی ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے لوگوں کو خبردار ( ) کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل (علیہ السلام) اور الہامی کتب کے ذریعے ہدایت کے ایک سلسلے کا اہتمام فرمایا تاکہ ان میں اصل اور ہمیشہ کی زندگی کو بہتر بنانے کا شعور پیداہو اور وہ اس کے لیے تیاری کرسکیں : وَمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌط وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ ٧ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۔ ( العنکبوت) ” یہ دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں ‘ جبکہ آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے۔ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :1 کتاب مبین کی قسم کھانے کا مطلب سورہ زخرف حاشیہ نمبر 1 میں بیان کیا جا چکا ہے ۔ یہاں بھی قسم جس بات پر کھائی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں بلکہ ہم ہیں ، اور اس کا ثبوت کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ، خود یہ کتاب ہی اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے ۔ اس کے بعد مزید بات یہ فرمائی گئی کہ وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی جس میں اسے نازل کیا گیا ۔ یعنی نادان لوگ ، جنہیں اپنی بھلائی برائی کا شعور نہیں ہے ، اس کتاب کی آمد کو اپنے لیے بلائے ناگہانی سمجھ رہے ہیں اور اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں ۔ لیکن در حقیقت ان کے لیے اور تمام نوع انسانی کے لیے وہ ساعت بڑی سعید تھی جب ہم نے غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکانے کے لیے یہ کتاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس رات میں قرآن نازل کرنے کا مطلب بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کا سلسلہ اس رات شروع ہوا ۔ اور بعض مفسرین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اس میں پورا قرآن ام الکتاب سے منتقل کر کے حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا اور پھر وہ حالات و وقائع کے مطابق حسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر 23 سال تک نازل کیا جاتا رہا ۔ صحیح صورت معاملہ کیا ہے ، اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اس رات سے مراد وہی رات ہے جسے سورہ قدر میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے ۔ وہاں فرمایا گیا کہ : اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیلَۃِ الْقَدْرِ ، اور یہاں فرمایا کہ : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ۔ پھر یہ بات بھی قرآن مجید ہی میں بتادی گئی ہے کہ وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی : شَھْرُ رَمَضَا نَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰن ( البقرہ ، 185 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: اس سے مراد شب قدر ہے، کیونکہ اسی رات میں قرآن کریم لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا، اور پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتا رہا۔