[٣] لیلۃ القدر کو کس قسم کے فیصلے ہوتے ہیں ؟:۔ یعنی جس رات قرآن کا نزول ہوا اس رات آئندہ سال میں دنیا پر واقع ہونے والے اہم امور کے نہایت ٹھوس اور پائیدار فیصلے کرکے فرشتوں کے حوالہ کردیئے جاتے ہیں۔ اور یہ فیصلے سراسر حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور اسی مضمون کو سورة القدر میں یوں بیان فرمایا کہ اس رات ملائکہ اور جبرئیل اپنے پروردگار کے اذن سے ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں (٩٧: ٤) اس آیت سے معلوم ہوا کہ کائنات کے نظم و نسق کے بارے میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ افراد، اقوام اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کرکے اپنے فرشتوں کے حوالہ کردیتا ہے۔ پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عملدرآمد کرتے رہتے ہیں۔ یعنی افراد یا اقوام کی زندگی اور موت، فتح و شکست، عروج وزوال، قحط اور ارزانی اور رزق وغیرہ سے متعلق فیصلے اسی رات میں کردیئے جاتے ہیں۔
فیما یفرق کل امر حکیم :” فرق “ کا معنی فیصلہ ہے، اسی لئے قرآن کو ” فرقان “ کہا جاتا ہے۔” حکیم “ کے مفہوم میں دو باتیں شامل ہیں، ایک یہ کہ وہ حکم حکمت اور دانائی پر مبنی ہوتا ہے، اس میں کسی غلطی یا خامی کا امکان نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ وہ حکم محکم اور پختہ ہوتا ہے جسے کوئی بدلن ہیں سکتا۔ یعنی ہم نے اسے خصا طور پر اس بابرکت رات میں اس لئے نازل کیا کہ یہ قرآن ایک امر حکیم ہے اور اسی رات میں ہر امر حکیم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ سورة قدر میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ (تنزل الملئکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر) (القدر : ٣)” اس میں فرشتے اور روح (جبریل امین) اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے متعلق اترتے ہیں۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ایسی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ آئندہ سال سے متعلق افراد و اقوام کی قسمتوں کے تمام فیصلے فرشتوں کے حوالے کردیتے ہیں، مثلاً زندگی ، موت، بیماری ، رزق، عروج و زوال اور ہدیات و گمراہی وغیرہ، پھر وہ ان پر عمل درآمد کرتے رہتے ہیں۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا :(انک شلتری الرجل یمشی فی الاسواق، وقد وقع اسمہ فی الموتی ثم قرآء :(انا انزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ انا کنا منذرین فیھا یفرق کل امر حکیم) (الذدخان : ٣٠٣) یعنی لیلۃ القدر ففقی تلک الیلۃ یفرق امر الدنیا الی مثلھا من قابل) (مستدرک حاکم، تفسیر سورة الدخان : ٢ ٣٣٨، ح : ٣٦٨٨)” تم آدمی کو بازاروں میں چلتا پھرتا دیکھتے ہو، حالانکہ اس کا نام مردوں میں درج ہوچکا ہوتا ہے۔ پھر یہ آیت پڑھی : (انا انزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ انا کنا منذرین فیھا یشرق کل امر حکیم) کہ اس سے مراد لیلتہ القدر ہے، اس رات میں دنیا کے معاملات کا آئندہ سال کی اسی رات تک فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ “ حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا اور بیہقی نے ” شعب الایمان “ میں اسے حاکم سے روایت کیا ہے اور اس کے محقق نے کہاک کہ اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں۔
فِيْہَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ٤ ۙ- فرق - الفَرْقُ يقارب الفلق لکن الفلق يقال اعتبارا بالانشقاق، والفرق يقال اعتبارا بالانفصال . قال تعالی: وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] ، والفِرْقُ : القطعة المنفصلة، ومنه : الفِرْقَةُ للجماعة المتفرّدة من النّاس، وقیل : فَرَقُ الصّبح، وفلق الصّبح . قال : فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] ، - ( ف ر ق ) الفرق - والفلق کے قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن معنی انشقاق یعنی پھٹ جانا کے لحاظ سے فلق کا لفظ بولا جاتا ہے اور مغی انفعال یعنی الگ الگ ہونے کے لحاظ سے فرق قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا ۔ اور الفراق کے معنی الگ ہونے والا ٹکڑہ کے ہیں اسی سے فرقۃ ہے جس کے معنی لوگوں کا گروہ یا جماعت کے ہیں ۔ اور طلوع فجر پر فرق اور فلق دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا ( کہ ) گویا بڑا پہاڑ ہے - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
اس شب قدر میں ہر ایک حکمت والا معاملہ پورے سال کے لیے ہماری پیشی سے حکم صادر ہو کر طے کیا جاتا ہے جبریل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت جو کہ پورے سال کے کاموں پر مقرر ہیں ہم ان پر یہ حکم طے شدہ صادر کردیتے ہیں۔
آیت ٤ فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ” اس رات میں تمام ُ پر حکمت امور کے فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔ “- اس سے پہلے ہم سورة السجدۃ میں پڑھ چکے ہیں کہ تدبیر ِکائنات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی منصوبہ بندی ایک ہزار سال کی ہوتی ہے : یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ۔ ” وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف ‘ پھر وہ (امر) چڑھتا ہے اس کی طرف ‘ (یہ سارا معاملہ طے پاتا ہے) ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس ہے “۔ البتہ انسانی معاملات کے حوالے سے یہ رات (لیلہ مبارکہ) گویا اللہ تعالیٰ کی کائناتی سلطنت ( ) کے سالانہ بجٹ سیشن کا درجہ رکھتی ہے ۔ - ۔ - لفظ فرق کے لغوی معنی علیحدہ کردینے کے ہیں۔ چناچہ یُفْرَقُ کا درست مفہوم یہ ہوگا کہ فیصلے جاری ( ) کردیے جاتے ہیں۔ یعنی یہ وہ رات ہے جس میں تمام سال کے فیصلے طے کر کے تعمیل و تنفیذ ( ) کے لیے ملائکہ کے حوالے کردیے جاتے ہیں جو اس عظیم سلطنت کی ” سول سروس “ کا درجہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ آیت کے مطابق یہ وہی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو لوح محفوظ یا اُمّ الکتاب سے آسمانِ دنیا پر اتارا ۔
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :2 اصل میں لفظ اَمْرٍ حَکِیْم استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ حکم سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے ، کسی غلطی یا خامی کا اس میں کوئی امکان نہیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ ایک پختہ اور محکم فیصلہ ہوتا ہے ، اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ۔ سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :3 سورہ قدر میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے : تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ ، اس رات ملائکہ اور جبریل اپنے رب کے اِذن سے ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے شاہی نظم و نسق میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں وہ افراد اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کر کے اپنے فرشتوں کے حوالے کر دیتا ہے ۔ اور پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عمل درآمد کرتے رہتے ہیں ۔ بعض مفسرین کو جن میں حضرت عکرمہ سب سے زیادہ نمایاں ہیں ، یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے ، کیونکہ بعض احادیث میں اسی رات کے متعلق یہ بات منقول ہوئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں ۔ لیکن ابن عباس ، ابن عمر ، مجاہد ، قتادہ ، حسن بصری ، سعید بن جبیر ، ابن زید ، ابو مالک ، ضحاک اور دوسرے بہت سے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ رمضان کی وہی رات ہے جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے ، اس لیے کہ قرآن مجید خود اس کی تصریح کر رہا ہے ، اور جہاں قرآن کی صراحت موجود ہو وہاں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی دوسرے رائے نہیں قائم کی جا سکتی ۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ عثمان بن محمد کی جو روایت امام زہری نے شعبان سے شعبان تک قسمتوں کے فیصلے ہونے کے متعلق نقل کی ہے وہ ایک مرسل روایت ہے ، اور ایسی روایات نصوص کے مقابلے میں نہیں لائی جاسکتیں ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے ، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے ۔ ( احکام القرآن )
2: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال میں جو اہم واقعات ہونے والے ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ فلاں شخص پیدا ہوگا، اسے اتنا رزق دیا جائے گا، فلاں کا انتقال ہوگا، یہ ساری باتیں عملی تنفیذ کے لیے متعلقہ فرشتوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔