[٩] یعنی کبھی تو کہتے تھے کہ کوئی عجمی اسے قرآن سکھا جاتا ہے پھر وہ سے اپنی طرف سے ہم پر پیش کرکے کہتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو مجھ پر نازل ہوا ہے۔ اور جب آپ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اگر تم لوگ اللہ کی دعوت پر ایمان لے آؤ تو تم عرب و عجم کے مالک بن جاؤ گے۔ تو آپ کو دیوانہ کہنے لگتے تھے۔ گویا یہ دونوں الگ الگ مواقع پر کافروں کے الزامات ہیں۔ جو یہاں اکٹھے کردیئے گئے ہیں۔
ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ ١٤ ۘ- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - جُنون - : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36]- جنون - ( ایضا ) جنوں ۔ دیونگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] کہ ان کے - رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ - مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔
تب بھی یہ لوگ ان پر ایمان نہیں لاتے اور یہی کہتے ہیں کہ معاذ اللہ جبر و یسار کا سکھایا ہوا دیوانہ ہے ہم اس بھوک کے عذاب کو غزوہ بدر تک کے لیے ان سے ہٹادیں گے مگر اے مکہ والو تم پھر اپنی نافرمنی کی اصلی حالت پر آجاؤ گے۔
آیت ١٤ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَقَالُوْا مُعَلَّـمٌ مَّجْنُوْنٌ ” پھر انہوں نے منہ پھیرلیا اس کی طرف سے اور کہا کہ یہ تو سکھایا پڑھایا ہوا مجنون ہے۔ “- معاذ اللہ نقل کفر کفر نباشد وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ ان کو یہ باتیں کسی اور نے سکھائی ہیں اور کبھی کہتے کہ ان پر آسیب اور ِجنات ّوغیرہ کا اثر ہوگیا ہے اور ان کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔ معاذ اللہ
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :12 ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ بے چارہ تو سیدھا آدمی تھا ، کچھ دوسرے لوگوں نے اسے بَھروں پر چڑھا لیا ، وہ در پر وہ قرآن کی آیتیں گھڑ گھڑ کر اسے پڑھا دیتے ہیں ، یہ آ کر عام لوگوں کے سامنے انہیں پیش کر دیتا ہے ، وہ مزے سے بیٹھے رہتے ہیں ، اور یہ گالیاں اور پتھر کھاتا ہے ۔ اس طرح ایک چلتا ہوا فقرہ کہہ کر وہ ان ساری دلیلوں اور نصیحتوں اور سنجیدہ تعلیمات کو اڑا دیتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برسوں سے ان کے سامنے پیش کر کر کے تھکے جا رہے تھے ۔ وہ نہ ان معقول باتوں پر کوئی توجہ کرتے تھے جو قرآن مجید میں بیان کی جا رہی تھیں ۔ نہ یہ دیکھتے تھے کہ جو شخص یہ باتیں پیش کر رہا ہے وہ کس پائے کا آدمی ہے ۔ اور نہ یہ الزام رکھتے وقت ہی وہ کچھ سوچنے کی زحمت گوارا کرتے تھے کہ ہم یہ کیا بکواس کر رہے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی دوسرا شخص در پردہ بیٹھ کر سکھانے پڑھانے والا ہوتا تو وہ حضرت خدیجہ اور ابوبکر اور علی اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم اور دوسرے ابتدائی مسلمانوں سے آخر کیسے چھپ جاتا جن سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب اور ہر وقت کا ساتھی کوئی نہ تھا ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہی لوگ سب سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ اور عقیدت مند تھے ، حالانکہ درپردہ کسی دوسرے شخص کے سکھانے پڑھانے سے نبوت کا کاروبار چلایا گیا ہوتا تو یہی لوگ آپ کی مخالفت میں سب سے پیش پیش ہوتے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل ، حاشیہ ۱۰۷ ، جلد سوم ، الفرقان ، حاشیہ ۱۲ ) ۔