18۔ 1 عِبَاد اللّٰہِ سے مراد یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل ہے جسے فرعون نے غلام بنا رکھا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ 18۔ 2 اللہ کا پیغام پہنچانے میں امانت دار ہوں۔
[١٣] سیدنا موسیٰ کا فرعون سے مطالبہ :۔ اس آیت کے دو مطلب یہ ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے اور قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ میں اللہ کا رسول ہوں لہذا مجھ پر ایمان لاؤ اور دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ قوم بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کرکے میرے ہمراہ روانہ کردو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ کے بندو میرا حق مجھے ادا کرو یعنی میری بات مانو اور مجھ پر ایمان لاؤ۔ یہ اللہ کی طرف سے تم پر میرا حق ہے۔ اور مابعد کا جملہ کہ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں اس دوسرے مطلب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
(١) ان ادوا الی عباد اللہ …: یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے جو اقوال یہاں نقل ہوئے ہیں وہ ایک وقت کے نہیں بلکہ کئی سالوں میں مختلف مواقع پر انہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں سے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ چند فقروں میں بیان کیا گیا ہے۔- (٢) ان اذوا الی عباد اللہ : اس جملے کی تفسیر دو طرح سے ہوسکتی ہے، ایک یہ کہ ” عباد اللہ “ کا لفظ ” اذوا الی “ کا مفعول بہ ہے، یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو ۔” عباد اللہ “ (اللہ کے بندوں) سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جنہیں فرعون نے غلام بنا رکھا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو سالام کی دعوت کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات دلانا بھی تھا۔ اس تفسیر کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے :(فاتیہ فقولا انا رسولاً ربک فارسل معنا بنی اسرآئیل ، ولا تعذبھم) (طہ :38)” تو اس کے پاس جاؤ اور کہو بیشک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں، پس تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انھیں عذاب نہ دے۔ “ یہاں بنی اسرائیل کو ” عباد اللہ “ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور غلام ہیں، تمہیں کوئی حق نہیں کہ انھیں غلام بنا کر رکھو۔ یہی بات جنگ قادسیہ کے موقع پر ربعی بن عامر (رض) نے ایرانیوں کے سردار رستم سے کہی تھی، جب اس نے ان سے پوچھا :(ماجآء بکم ؟ )” تمہیں کیا چیز لے کر آئی ہے ؟ “ تو انہوں نے جواب میں جو تقریر کی اس کے ند جملے یہ ہیں :(اللہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ و من صیق الدنیا الی سع تھا ومن جور الاذبان الی عدل الاسلام) (البدایۃ والھایۃ :38 8، سن 13 ہجری کے واقعات)” اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھیجا ہے تاکہ ہم جسے وہ چاہے اسے بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی کی طرف اور دنیا کی تنگی سے نکال کر اس کی وسعت کی طرف اور تمام دینوں کے ظلم و جور سے نکال کر اسلام کے عدل کی طرف لے آئیں۔ “- دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” عباد اللہ “ سے پہلے حرف ندا ” یا “ محذوف ہے اور وہ منادیٰ مضاف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور ” اذوالی “ کا مفعول محذوف ہے :” ای ادوا الی ماوجب علیکم یا عباد اللہ “” یعنی اے اللہ کے بندو جو حقوق تم پر واجب ہیں وہ مجھے ادا کرو۔ “ یعنی مجھ پر ایمان لاؤ اور میری اطاعت کرو۔ اس تفسیر کے مطابق ” عباد اللہ “ سے مراد قبطی ہیں۔ یہ تفسیر بھی درست ہے، بعد کا جملہ ” انی لکم رسول امین “ اس تفسیر سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ حرف ندا کا حذف کلام عرب میں عام ہے، جیسا کہ عزیز مصر نے کہا تھا :(یوسف اعرض عن ھذا) (یوسف :29)” ای یا یوسف اغرض عن ھذا “ یعنی اے یوسف اس معاملے سے درگزر کر۔- (٣) انی لکم رسول امین : یہ پہلے جملے کی علت ہے، یعنی میرے حقوق جو تم پر واجب ہیں ادا کرو، کیونکہ میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں، تمہیں اللہ کا پیغام ٹھیک ٹھیک کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پہنچاتا ہوں۔ یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب موسیٰ (علیہ السلام) نے شروع میں اپنی دعوت پیش فرمائی۔
اَنْ اَدُّوْٓا اِلَيَّ عِبَادَ اللہِ ٠ ۭ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ ١٨ ۙ- أدى- الأداء : دفع الحق دفعةً وتوفیته، كأداء الخراج والجزية وأداء الأمانة، قال اللہ تعالی: فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمانَتَهُ [ البقرة 283] ، إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها [ النساء 58] ، وقال : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، وأصل ذلک من الأداة، تقول : أدوت بفعل کذا، أي : احتلت، وأصله : تناولت الأداة التي بها يتوصل إليه، واستأديت علی فلان نحو : استعدیت - ( ا د ی ) الاداء کے معنی ہیں یکبارگی اور پورا پورا حق دے دینا ۔ چناچہ خراج اور جزیہ کے دے دینے اور امانت کے واپس کردینے کو اداء کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ (1 فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ ( سورة البقرة 283) تو امانت دار کو چاہیے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے ۔ (1 إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ( سورة النساء 58) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے حوالہ کردیا کرو ۔ (1 وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ( سورة البقرة 178) اور پسندیدہ طریق سے خون بہا اسے پورا پورا ادا کرنا ۔ اصل میں یہ اداۃ سے ہے محاورہ ہے ادوت تفعل کذا ۔ کسی کام کے لئے حیلہ اور تدبیر کرنا اصل میں اس کے معنی اداۃ ( کسی چیز ) کو پکڑنے کے ہیں جس کے ذریعہ دوسری چیز تک پہنچا جاسکے ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔
اور انہوں نے کہا تھا کہ بنی اسرائیل کو میرے حوالہ کردو اور میرے ساتھ بھیج دو میں اللہ کی طرف سے امانت دار رسول ہوں۔
آیت ١٨ اَنْ اَدُّوْٓا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِط اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ” (اس پیغام کے ساتھ) کہ تم اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو ۔ یقینا میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ “- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ایک معزز اور امانت دار رسول ہوں اور تمہاری طرف اللہ کا یہ پیغام لے کر آیا ہوں کہ تم بنی اسرائیل کو آزاد کر کے میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دو ۔
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :15 یہ بات ابتدا ہی میں سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں حضرت موسیٰ کے جو اقوال نقل کیے جا رہے ہیں وہ ایک وقت میں ایک ہی مسلسل تقریر کے اجزا نہیں ہیں ، بلکہ سالہا سال کے دوران میں مختلف مواقع پر جو باتیں انہوں نے فرعون اور اس کے اہل دربار سے کہی تھیں ان کا خلاصہ چند فقروں میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۸۳ تا ۹۷ ، یونس ، حواشی ، ۷۲تا ۹۳ ، جلد سوم ، طہ ، حواشی ۱۸ الف تا ۵۲ ، الشعراء ، حواشی ۷ تا ٤۹ ، النمل ، حواشی ۸ تا ۱۷ ، القصص ، حواشی ٤٦ تا ۵٦ ، ۔ جلد چہارم ، المومن ، آیات 23 ت 46 ۔ الزخرف 46 تا 56 مع حواشی ) سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :16 اصل میں اَدُّوْا اِلَیَّ عِبَادَ اللہِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ ان کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو اوپر ہم نے کیا ہے اور اس کے لحاظ سے یہ اس مطالبے کا ہم معنی ہے جو سورہ اَعراف ( آیت 105 ) ، سورہ طٰہٰ ( 47 ) اور الشعراء ( 17 ) میں گزر چکا ہے کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دو دوسرا تر جمہ ، جو حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے ، یہ ہے کہ اللہ کے بندو میرا حق ادا کرو یعنی میری بات مانو ، مجھ پر ایمان لاؤ ، اور میری ہدایت کی پیروی کرو ، یہ خدا کی طرف سے تمہارے اوپر میرا حق ہے ۔ بعد کا یہ فقرہ کہ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں اس دوسرے مفہوم کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :17 یعنی بھروسے کے قابل رسول ہوں ۔ اپنی طرف سے کوئی بات ملا کر کہنے والا نہیں ہوں ۔ نہ اپنی کسی ذاتی خواہش یا غرض کے لیے خود ایک حکم یا قانون گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کرنے والا ہوں ۔ مجھ پر تم یہ اعتماد کرسکتے ہو کہ جو کچھ میرے بھیجنے والے نے کہا ہے وہی بےکم و کاست تم تک پہنچاؤں گا ۔ ( واضح رہے کہ یہ دو فقرے اس وقت کے ہیں جب حضرت موسیٰ نے سب سے پہلے اپنی دعوت پیش فرمائی تھی ) ۔
5: اس سے مراد بنو اسرائیل ہیں جن کو فرعون نے غلام بنایا ہوا تھا۔ دیکھئے سورۃ طٰہٰ : 47