24۔ 1 رَھْوًا بمعنی ساکن یا خشک۔ مطلب یہ ہے کہ تیرے لاٹھی مارنے سے دریا معجزانہ طور پر ساکن یا خشک ہوجائے گا اور اس میں راستہ بن جائے گا، تم دریا پار کرنے کے بعد اسے اسی حالت میں چھوڑ دینا تاکہ فرعون اور اس کا لشکر بھی دریا کو پار کرنے کی غرض سے اس میں داخل ہوجائے اور ہم اسے وہیں غرق کردیں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ پہلے تفصیل گزر چکی ہے۔
[١٩] سمندرکو کھڑے کا کھڑا چھوڑنے کی ہدایت اور فرعون کی غرقابی :۔ اس مقام پر جستہ جستہ واقعات کی طرف اشارے ہی کئے گئے ہیں۔ جب سیدناموسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی سمندر سے پار اتر چکے تو انہوں نے دیکھا کہ فرعون اور اس کا عظیم لشکر ان کے تعاقب میں سمندر کے دوسرے ساحل پر پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو خیال آیا کہ سمندر کے پانی پر پھر اپنا عصا ماریں تاکہ سمندر کا پانی پھر سے رواں ہوجائے۔ اور فرعون اور اس کا لشکر سمندر کے دوسرے ساحل پر ہی کھڑے کے کھڑے رہ جائیں اور سمندر میں بنے ہوئے خشک راستے سے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا تعاقب نہ کرسکیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی کی کہ ایسا مت کرو۔ قوم اور اس کے لشکر کو دریا میں داخل ہونے دو ۔ اسی سمندر میں ہی تو ہم نے ان لوگوں کو غرق کرنا ہے۔
واترک البحر رھواً …:” رھاء یرھو، رھواً “ (ن)” البحر “ سمندر کا ساکن ہونا۔” رھا الرجل رھوا “ جب آدمی دونوں ٹانگیں کھول لے اور انھیں الگ الگ کرلے۔ یہاں اس قصے کا وہ حصہ حذف کردیا ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ بنی اسرائیل سمندر پر پہنچے تو پیچھے سے فرعون بھی پہنچ گیا، بنی اسرائیل سخت خوف زدہ ہوگئے کہ اب دوبارہ پکڑے جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مار۔ انہوں نے ایسا کیا تو سمندر پھٹ گیا اور پانی کا ہر حصہ اپنی جگہ ایک بڑے پہاڑ کی شکل میں کھڑا ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل خیریت سے گزر گئے تو موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا :(واثرک البحر رھواً )” اور سمندمر کو اپنے حال پر ٹھہرا ہوا چھوڑ دے۔ “ دیکھیے سورة شعراء (٥٢ تا ٦٨) سمندر سے پار ہونے پر موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ سمندر کو اسی حلات میں ٹھہرا ہوا چھوڑ دیں کہ اس میں الگ الگ راستے کھلے ہوں، تعاقب کی فکر مت کریں، اس لشکر کو اسی سمندر میں غرق کیا جانا ہے۔
(آیت) وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا (اور دریا کو سکون کی حالت میں چھوڑ دینا) ” رھو “ کے معنی ہیں ” ساکن ‘ دراصل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے رفقاء کے پار ہوجانے کے بعد ان کی خواہش طبعی طور پر یہ ہونی چاہئے تھی کہ دریا دوبارہ اپنی اصلی حالت پر آجائے تاکہ فرعون کا لشکر پار نہ ہو سکے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ فرما دی کہ خود پار ہونے کے بعد سمندر کو اس کی ہئیت پر ساکن ہی چھوڑ دینا اور دوبارہ پانی کے جاری ہونے کی فکر مت کرنا، تاکہ فرعون خشک راستہ بنا ہوا دیکھ کر دریا کے بیچوں بیچ پہنچ جائے، اس وقت ہم دریا کو جاری کردیں گے اور یہ لشکر ڈوب جائے گا۔ (ابن کثیر)
وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَہْوًا ٠ ۭ اِنَّہُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ ٢٤- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - رهو - وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، أي : ساکنا، وقیل : سعة من الطّريق، وهو الصحیح، ومنه : الرَّهَاءُ للمفازة المستوية، ويقال لكلّ جوبة مستوية يجتمع فيها الماء رهو، ومنه قيل : «لا شفعة في رَهْوٍ»ونظر أعرابيّ إلى بعیر فالج فقال : رَهْوٌ بين سنامین - ( ر ھ و ) الرھو ساکن ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا کو ساکن چھوڑ دے میں رھو کے معنی ساکن کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس سے راستہ کی کشادگی مراد ہے اور یہی معنی صحیح ہیں اور اسی سے رھان ہے جس کے معنی ہمورا جنگل کے ہیں اور ہر وہ ہموار قطعہ زمین جہاں پانی جمع ہوتا ہو اسے رھم کہا جاتا ہے اسی سے ایک حدیث ہے «لا شفعة في رَهْوٍ»کہ پانی کی گذر گاہ کے مشترک ہونے سے حق شفع ثابت نہیں ہوتا ۔ ایک اعرابی نے ٹانگیں پھیلا کر کھڑے ہوئے اونٹ دیکھ کر کہا : ۔ کہ یہ دونوں بلندیوں کے درمیان رھوا یعنی کشادگی ہے ۔- جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- غرق - الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ،- ( غ ر ق ) الغرق - پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔
اور تم اس دریا کو چوڑا رستہ بنا ہوا اسی حالت پر چھوڑ دینا کیونکہ فرعون اور اس کا لشکر اس دریا میں ڈبو دیا جائے گا۔
آیت ٢٤ وَاتْرُکِ الْبَحْرَ رَہْوًا ” اور چھوڑ دینا سمندر کو ساکن “- ہم سمندر کو پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنا دیں گے ‘ اس راستے سے گزر جانے کے بعد اسے اسی طرح ساکن چھوڑ دینا۔- اِنَّہُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ ” یہ ایک لشکر ہیں جو غرق کیے جائیں گے۔ “- فرعون کا لشکر تمہارا تعاقب کرے گا اور اسی راستے سے گزرنے کی کوشش کرے گا ‘ لیکن ہم اس کو غرق کردیں گے۔
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :23 یہ حکم اس وقت دیا گیا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے قافلہ کو لے کر سمندر پار کر چکے تھے اور چاہتے تھے کہ سمندر پر عصا مار کر اسے پھر ویسا ہی کر دیں جیسا وہ پھٹنے سے پہلے تھا ، تاکہ فرعون اور اس کا لشکر اس راستے سے گذر کر نہ آ جائے جو معجزہ سے بنا تھا ۔ اس وقت فرمایا گیا کہ ایسا نہ کرو ۔ اس کو اسی طرح پھٹا کا پھٹا رہنے دو تاکہ فرعون اپنے لشکر سمیت اس راستے میں اتر آئے ، پھر سمندر کو چھوڑ دیا جائے گا اور یہ پوری فوج غرق کر دی جائے گی ۔
8: مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے راستے میں سمندر آجائے گا تو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سمندر کو ٹھہرا کر راستہ بنا دیں گے۔ جب تم اس سے پار ہوجاؤ تو اس بات کی فکر نہ کرنا کہ سمندر میں جو راستہ بنا ہوا ہے۔ وہ فرعون کے لشکر کے بھی کام آئے گا، اور وہ سمندر پار کر کے ہمارا تعاقب جار رکھیں گے، بلکہ سمندر کو ویسا ہی ٹھہرا ہوا چھوڑ دینا۔ اللہ تعالیٰ خود ان کو ڈبونے کے لیے سمندر کو پھر پہلی حالت میں واپس کردیں گے۔ اس واقعے کی تفصیل سورۃ یونس : 90 تا 92 اور سورۃ شعراء : 56 تا 67 میں گذر چکی ہے۔