29۔ 1 یعنی ان فرعونیوں کے نیک اعمال ہی نہیں تھے جو آسمان پر چڑھتے اور ان کا سلسلہ منقطع ہونے پر آسمان روتے، نہ زمین پر ہی وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے کہ اس سے محرومی پر زمین روتی۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین میں کوئی بھی ان کی ہلاکت پر رونے والا نہیں تھا (فتح القدیر)
[٢١] زمین اور آسمان کے رونے کے مختلف مفہوم :۔ زمین اور آسمان کے نہ رونے سے مراد یہ ہے کہ ان پر نہ زمین کی مخلوق کو رونا آیا یا افسوس لگا اور نہ آسمان میں بسنے والی مخلوق کو۔ بلکہ زمین والے تو ایسے ظالموں کے مرنے پر خوشی مناتے ہیں کہ ان کے ظلم و تشدد سے جان چھوٹی اور خس کم جہاں پاک کے مصداق اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں وہ بھلا روئیں گے کیوں ؟ یہی حال آسمانوں کی مخلوق کا ہے۔ ایسے لوگوں کی روح کو جب مرنے کے بعد اوپر لے جایا جاتا ہے تو ان کے لیے آسمان کا دروازہ کھلتاہی نہیں وہ ایسی ارواح پر پھٹکار بھیجتے ہیں وہ ان کی موت پر کیسے رو سکتے یا افسوس کرسکتے ہیں۔ تاہم اگر ان الفاظ کو ان کے ظاہری مفہوم پر ہی محمول کیا جائے تو بھی اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال کے اثرات ہمارے اعضاء وجوارح پر اور خود زمین پر ثبت ہو رہے ہیں تو پھر ہمیں آسمان و زمین کے رونے یا افسوس کرنے پر بھی تعجب نہ کرنا چاہئے۔ اور بعض روایات سے ایسی باتیں ثابت بھی ہیں۔ علاوہ ازیں ہر زبان میں ایسے الفاظ مح اور تاً بھی استعمال ہوتے ہیں۔ جن پر نہ کسی نے کبھی تعجب کیا ہے اور نہ اعتراض۔
(١) فما بکت علیھم السمآء والارض : اس آیت کی تفسیر میں تین قول ہیں، تینوں میں سے جو بھی مراد لے لیں درست ہے۔ ایک یہ کہ ” السمآئ “ سے پہلے لفظ ” اھل “ محذوف ہے، جیسے یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے والد کو جا کر بتایا کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے، جس کی وجہ سے عزیز مصر نے اسے اپنے پاس روک لیا ہے۔ پھر یقین دلانے کے لئے کہا :(وسئل القریۃ التی کنا فیھا والعیر التی اقبلنا فیھا) (یوسف :82)” اور آپ اس بستی سے پوچھ لیں جن میں ہم تھے اور اس قافلے سے بھی جس میں ہم آئے ہیں۔ “ مطلب یہ ہے کہ اس بستی والوں سے پوچھ لیں۔ اسی طرح یہاں مطلب یہ ہے کہ نہ ان پر آسمان والے روئے اور نہ زمین والے ، بلکہ ہر ایک نے اطمینان کا سانس لیا اور ہر ظالم حکمران ٹولے کا یہی حشر ہوتا ہے۔- دوسرا قول یہ کہ اس سے مراد ان ک تحقیر اور ان کا مذاق اڑانا ہے۔ عرب کے ہاں جب کوئی بڑا آدمی فوت ہوتا تو وہ اس کی موت کو بہت بڑا حادثہ بتانے کے لئے کہتے کہ اس پر آسمان رویا، زمین روئی اور پہاڑ لرز اٹھے۔ مطلب یہ کہ اتنی شان و شوکت والے اور خدائی کا ڈنکا بجانے والے مرے تو ان لوگوں کی طرح جن کی نہ کوئی حیثیت ہوتی ہے اور نہ کسی کو ان کے مرنے کے پروا ہوتی ہے۔ تیسرا قول یہ کہ آیت کے ظاہر الفاظ کے مطابق آسمان و زمین نیک لوگوں کے مرنے پر روتے ہیں، مگر ان کے مرنے پر نہ آسمان رویا نہ زمین۔ یہ معنی بھی کچھ بعید نہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ڈر سے پتھروں سے نہریں پھوٹنے، ان کے پھٹ جانے اور اللہ کے خوف سے گر پڑنے کا ذکر فرمایا ہے (دیکھیے بقرہ : ٧٤) اور جس طرح کھجور کے درخت کا تنا (حنانہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسے چھوڑ کر منبر پر خطبہ دینے کے وقت رویا تھا۔- (٢) وما کانوا منظرین : اور نہ وہ مہلت پانے والے ہوں کہ توبہ کرلیتے، بلکہ آن کی آن میں ڈبو دیئے گئے۔
زمین میں آسمان کا رونا :۔ (آیت) فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ (پس ان پر آسمان و زمین کو رونا نہیں آیا) مطلب یہ ہے کہ انہوں نے زمین پر کوئی ایسا عمل صالح نہیں کیا تھا کہ ان کے مرجانے سے زمین روئے، اور نہ ان کا کوئی نیک عمل آسمان تک پہنچا تھا کہ ان پر آسمان روئے اور یہ بات متعدد روایات سے ثابت ہے کہ کسی نیک بندے کی موت پر آسمان و زمین روتے ہیں۔ حافظ ابویعلی نے حضرت انس کی روایت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ آسمان میں ہر بندے کے لئے دو دروازے مقرر ہیں، ایک سے اس کا رزق نازل ہوتا ہے دوسرے سے اس کا عمل اور اس کی گفتگو اوپر پہنچتی ہے۔ چناچہ جب وہ بندہ مرتا ہے تو یہ دروازے اسے یاد کر کے روتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے (بطور استشہاد) یہی آیت تلاوت فرمائی کہ (آیت) فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ حضرت ابن عباس سے بھی اسی قسم کی روایات مروی ہیں (ابن کثیر) ایک اور حدیث میں جو حضرت شریح بن عبید حضرمی سے مروی ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ” جو مومن بھی ایسی غریب الوطنی کی حالت میں مرتا ہے کہ اس پر کوئی رونے والا نہ ہو تو اس پر آسمان و زمین روتے ہیں، اس پر بھی آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ یہ زمین و آسمان کسی کافر پر نہیں روتے (ابن جریر) حضرت علی سے بھی منقول ہے کہ انہوں نے نیک آدمی کے مرنے پر آسمان و زمین کے رونے کا ذکر فرمایا (ابن کثیر)- اور بعض حضرات نے آیت کے الفاظ کو مجاز و استعارہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آسمان و زمین کا حقیقتاً رونا مراد نہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کا وجود ایسا ناقابل التفات تھا کہ اس کے ختم ہوجانے پر کسی کو افسوس نہیں ہوا۔ لیکن مذکورہ روایات کی روشنی میں راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آسمان و زمین کا حقیقتاً رونا مراد ہے کیونکہ جب آیت کے حقیقی معنی ممکن ہیں اور روایات سے بھی ان کی تائید ہوتی ہے تو خواہ مخواہ اسے مجاز و استعارہ پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں۔ رہا یہ شبہ کہ آسمان و زمین میں شعور کہاں ہے جو وہ رو سکیں تو اس کا جواب ظاہر ہے کہ کائنات کی ہر مخلوق میں کچھ نہ کھ شعور ضرور موجود ہے جیسا کہ قرآن کریم کی (آیت) ان من شیء الا یسبح بحمدہ سے معلوم ہوتا ہے اور اب رفتہ رفتہ جدید سائنس بھی اسی نتیجے پر پہنچ رہی ہے۔ ہاں یہ ضروری نہیں کہ آسمان و زمین کا رونا ویسا ہی ہو جیسے انسانوں کا رونا ہوتا ہے، ان کے رونے کی کیفیت یقینا مختلف ہوگی جس کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں۔
فَمَا بَكَتْ عَلَيْہِمُ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ وَمَا كَانُوْا مُنْظَرِيْنَ ٢٩ ۧ- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- بكي - بَكَى يَبْكِي بُكًا وبُكَاءً ، فالبکاء بالمدّ : سيلان الدمع عن حزن وعویل، يقال إذا کان الصوت أغلب کالرّغاء والثغاء وسائر هذه الأبنية الموضوعة للصوت، وبالقصر يقال إذا کان الحزن أغلب، وجمع البَاكِي بَاكُون وبُكِيّ ، قال اللہ تعالی: خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم 58]- ( ب ک ی ) بکی - یبکی کا مصدر بکی وبکاء یعنی ممدود اور مقصور دونوں طرح آتا ہے اور اس کے معنی غم کے ساتھ آنسو بہانے اور رونے کے ہیں اگر آواز غالب ہو تو اسے بکاء ( ممدود ) کہا جاتا ہے جیسے ؎ رغاء وثغاء اور اس نوع کے دیگر اوزاں جو صوت کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور اگر غم غالب ہو تو اسے بکی ( بالقصر ) کہا جاتا ہے الباکی رونے والا غم اور اندوہ سے آنسو بہانے والا اس کی جمع باکون وب کی آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم 58] تو سجدے میں کر پڑتے اور روتے رہتے تھے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں
نہ فرعون اور اس کی قوم پر آسمان کا دروازہ رویا اور نہ زمین پر نماز کی جگہ روئی، کیونکہ جب مومن مرتا ہے تو اس پر آسمان کا دروازہ جس سے اس کا عمل چڑھتا اور اس کا رزق اترتا ہے اور زمین پر اس کی نماز پڑھنے کی جگہ روتی ہے اور فرعون اور اس کی قوم پر یہ مقامات نہیں روئے کیونکہ ان کے عمل چڑھنے کے لیے نہ تو آسمان پر کوئی دروازہ تھا اور نہ زمین پر ان کی نماز پڑھنے کی کوئی جگہ تھی اور نہ ان کو غرق ہونے سے کوئی مہلت دی گئی۔
آیت ٢٩ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآئُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ ” تو نہ ان پر آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ہی انہیں کوئی مہلت دی گئی۔ “
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :25 یعنی جب وہ حکمراں تھے تو ان کی عظمت کے ڈنکے بج رہے تھے ۔ ان کی حمد و ثناء کے ترانوں سے دنیا گونج رہی تھی ۔ خوش آمدیوں کے جم گھٹے انکے آگے اور پیچھے لگے رہتے تھے ۔ ان کی وہ ہوا باندھی جاتی تھی کہ گویا ایک عالم ان کے کمالات کا گرویدہ اور ان کے احسانات کا زیر بار ہے ۔ اور ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مقبول نہیں ، مگر جب وہ گرے تو کوئی آنکھ ان کے لیے رونے والی نہیں تھی ، بلکہ دنیا نے ایسا اطمینان کا سانس لیا کہ گویا ایک کانٹا تھا جو اس کے پہلو سے نکل گیا ۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے نہ خلق خدا کے ساتھ کوئی بھلائی کی تھی کہ زمین والے ان کے لیے روتے ، نہ خدا کی خوشنودی کا کوئی کام کیا تھا کہ آسمان والوں کو ان کی ہلاکت پر افسوس ہوتا ۔ جب تک مشیت الٰہی سے اس کی رسی دراز ہوتی رہی ، وہ زمین کے سینے پر مونگ دلتے رہے ۔ جب ان کے جرائم حد سے گذر گئے تو اس طرح اٹھا کر پھینک دیئے جیسے کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے ۔