Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 اس جہان سے مراد بنی اسرائیل کے زمانے کا جہان ہے کل جہان نہیں ہے، کیونکہ قرآن میں امت محمدیہ کو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے یعنی بنی اسرائیل اپنے زمانے میں دنیا جہان والوں پر فضیلت رکھتے تھے ان کی یہ فضیلت اس استحقاق کی وجہ سے تھی جس کا علم اللہ کو ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] یعنی یہ بات عرب جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں کئی قسم کی خامیاں موجود ہیں۔ تاہم دوسری قوموں کی نسبت پھر بھی بہتر ہیں۔ لہذا ہم نے اہل عالم کی دینی قیادت انہیں کے سپرد کردی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد اخترنھم ” اخترنا “” ختاریختار اختیاراً “ (افتعال) سے جمع متکلم ماضی معلوم ہے۔ یہاں بھی ” لقد “ لانے کا مقصد یہی ہے کہ اتنی پسی ہوئی قوم کو یکایک تمام دنیا پر برتری کیسے مل سکتی ہے ؟ فرمایا قسم ہے کہ ہم نے انھیں تمام جہانوں پر چن لیا، پھر ہمارے چنے ہوؤں کو برتری کیوں حاصل نہ ہوگی،۔- (٢) علی علم : یعنی ہم نے بلا وجہ ان کا انتخاب نہیں کیا، بلکہ ہمیں ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں کا علم تھا اور ہم ان کی خامیوں اور کمزوریوں سے بھی واقف تھے۔ اس علم ہی کی بنا پر ہم نے ان کے زمانے کی تمام قوموں میں سے ان کا انتخاب کیا۔- (٣) علی العلمین :” العلمین “ سے مراد ان کے زمانے کے جہان ہیں ، کل جہان نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (کنتم خیراً امۃ) (آل عمران : ١١٠) کہہ کر تمام امتوں سے بہتر قرار دیا ہے، کیونکہ ” کان “ استمرار پر دلالت کر رہا ہے۔ ہاں بعض جزوی فضائل بنی اسرائیل میں ایسے ہیں جو انھی کی خصوصیت ہیں، مثلاً اتنے انبیاء کا ان میں مبعوث ہونا مگر مجموعی اور کلی لحاظ سے امت محمد (ﷺ) افضل ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَلَــقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰي عِلْمٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ (اور ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے علم کی رو سے دنیا جہان والوں پر فوقیت دی) اس سے بنی اسرائیل کا امت محمدیہ علی صاحبہا السلام پر فائق ہونا لازمی نہیں آتا۔ کیونکہ اس سے مراد اس زمانے کے دنیا جہان والے ہیں اور اس وقت بلاشبہ وہ تمام اقوام سے افضل تھے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے حضرت مریم کے لئے ” نساء العالمین پر فضیلت کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی خاص پہلو سے بنی اسرائیل کو تمام دنیا اور ہر زمانے کے لوگوں پر کوئی فضیلت حاصل ہو لیکن مجموعی حیثیت سے افضلیت امت محمدیہ ہی کو حاصل ہے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ابن کثیر وغیرہ) اور علی علم (اپنے علم کی رو سے) کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے پس ان کو فوقیت دینا چونکہ ہمارے علم میں حکمت و مصلحت کا تقاضا تھا، اس لئے ہم نے ان کو فوقیت دے دی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَــقَدِ اخْتَرْنٰہُمْ عَلٰي عِلْمٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝ ٣٢ ۚ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- اختیارُ :- طلب ما هو خير وفعله، وقد يقال لما يراه الإنسان خيرا، وإن لم يكن خيرا، وقوله : وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان 32] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى إيجاده تعالیٰ إياهم خيرا، وأن يكون إشارة إلى تقدیمهم علی غيرهم . والمختار في عرف المتکلّمين يقال لكلّ فعل يفعله الإنسان لا علی سبیل الإكراه، فقولهم : هو مختار في كذا، فلیس يريدون به ما يراد بقولهم فلان له اختیار، فإنّ الاختیار أخذ ما يراه خيرا، والمختار قد يقال للفاعل والمفعول .- الاختیار - ( افتعال ) بہتر چیز کو طلب کرکے اسے کر گزرنا ۔ اور کبھی اختیار کا لفظ کسی چیز کو بہتر سمجھنے پر بھی بولا جاتا ہے گو نفس الامر میں وہ چیز بہتر نہ ہو اور آیت کریمہ :۔ وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان 32] ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا ۔ میں ان کے بلحاظ خلقت کے بہتر ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں دوسروں پر فوقیت بخشتا مراد ہو ۔ متکلمین کی اصطلاح میں مختار ( لفظ ہر اس فعل کے متعلق بولا جاتا ہے جس کے کرنے میں انسان پر کسی قسم کا جبروا کراہ نہ ہو لہذا ھو مختار فی کذا کا محاورہ فلان لہ اختیار کے ہم معنی نہیں ہے کیونکہ اختیار کے معنی اس کام کے کرنے کے ہوتے ہیں جسے انسان بہتر خیال کرتا ہو ۔ مگر مختار کا لفظ فاعل اور مفعول دونوں پر بولا جاتا ہے ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے علم کی رو سے جو کہ ہم نے ان کو سکھایا تمام جہانوں پر فوقیت دی اور من وسلوی کتاب اور رسول اور فرعون اور اس کی قوم سے نجات دے کر منتخب کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ وَلَقَدِ اخْتَرْنٰـہُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ” اور ہم نے علم رکھنے کے باوجود اُن (بنی اسرائیل) کو اقوامِ عالم پر ترجیح دی تھی۔ “- بنی اسرائیل کی تمام خرابیاں اور کوتاہیاں ہمارے علم میں تھیں۔ اس کے باوجود ہم نے دنیا کی تمام اقوام پر انہیں فضیلت دے کر برگزیدہ کیا تھا۔ بنی اسرائیل کی اس فضیلت کا ذکر قرآن حکیم میں بار بار آیا ہے۔ سورة البقرۃ میں یہ آیت دو مرتبہ (٤٧ اور ١٢٢ ) آئی ہے : یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ 4 ” اے بنی اسرائیل یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت عطا کی جہان والوں پر۔ “ - قرآن کریم (خصوصی طور پر سورة البقرۃ) میں بنی اسرائیل کے بڑے بڑے جرائم بھی ِگنوائے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی کی وجہ یہ تھی کہ ان کا سواد اعظم مسلسل توحید سے چمٹا رہا تھا۔ اگرچہ گاہے بگاہے ان میں مشرکانہ نظریات و اوہام بھی پنپتے رہے لیکن ان کی اکثریت بہر حال توحید پر قائم رہی۔ مثلاً ایک زمانے میں ان کے درمیان ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا تھا جو حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتا تھا لیکن اس دور میں بھی مجموعی طور پر ان میں سے اکثر لوگ توحید پرست ہی رہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :28 یعنی بنی اسرائیل کی خوبیاں اور کمزوریاں دونوں اللہ پر عیاں تھیں اس نے بے دیکھے بھالے اس کا انتخاب اندھا دھند نہیں کر لیا تھا ۔ اس وقت دنیا میں جتنی قومیں موجود تھیں ان میں سے اس قوم کو جب اس نے اپنے پیغام کا حامل اور اپنی توحید کی دعوت کا علمبردار بنانے کے لیے چنا تو اس بنا پر چنا کہ اس کے علم میں وقت کی موجود قوموں میں سے یہی اس کے لیے موزوں تر تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani