Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

زقوم ابو جہل کی خوراک ہوگا منکرین قیامت کو جو سزا وہاں دی جائے گی اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان مجرموں کو جو اپنے قول اور فعل کو نافرمانی سے ملوث کئے ہوئے تھے آج زقوم کا درخت کھلایا جائے گا ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد ابو جہل ہے ۔ گو دراصل وہ بھی اس آیت کی وعید میں داخل ہے لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ آیت صرف اسی کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ حضرت ابو درداء ایک شخص کو یہ آیت پڑھا رہے تھے مگر اس کی زبان سے لفظ ( اثیم ) ادا نہیں ہوتا تھا اور وہ بجائے اس کے یتیم کہہ دیا کرتا تھا تو آپ نے اسے ( طعام الفاجر ) پڑھوایا یعنی اسے اس کے سوا کھانے کو اور کچھ نہ دیا جائے گا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین میں ٹپک جائے تو تمام زمین والوں کی معاش خراب کر دے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے ، یہ مثل تلچھٹ کے ہو گا ۔ اپنی حرارت بدمزگی اور نقصان کے باعث پیٹ میں جوش مارتا رہے گا اللہ تعالیٰ جہنم کے داروغوں سے فرمائے گا کہ اس کافر کو پکڑ لو وہیں ستر ہزار فرشتے دوڑیں گے اسے اندھا کر کے منہ کے بل گھسیٹ لے جاؤ اور بیچ جہنم میں ڈال دو پھر اس کے سر پر جوش مارتا گرم پانی ڈالو ۔ جیسے فرمایا آیت ( يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ 19؀ۚ ) 22- الحج:19 ) ، یعنی ان کے سروں پر جہنم کا جوش مارتا گرم پانی بہایا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اور پیٹ کے اندر کی تمام چیزیں سوخت ہو جائیں گی اور یہ بھی ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ فرشتے انہیں لوہے کے ہتھوڑے ماریں گے جن سے ان کا دماغ پاش پاش ہو جائیں گے پھر اوپر سے یہ حمیم ان پر ڈالا جائے گا یہ جہاں جہاں پہنچے گا ہڈی کو کھال سے جدا کر دے گا یہاں تک کہ اس کی آنتیں کاٹتا ہوا پنڈلیوں تک پہنچ جائے گا ۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھے پھر انہیں شرمسار کرنے کے لئے اور زیادہ پشیمان بنانے کے لئے کہا جائے گا کہ لو مزہ چکھو تم ہماری نگاہوں میں نہ عزت والے ہو نہ بزرگی والے ۔ مغازی امویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل ملعون سے کہا کہ مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ تجھ سے کہدوں تیرے لئے ویل ہے تجھ پر افسوس ہے پھر مکرر کہتا ہوں کہ تیرے لئے خرابی اور افسوس ہے ۔ اس پاجی نے اپنا کپڑا آپ کے ہاتھ سے گھسیٹتے ہوئے کہا جا تو اور تیرا رب میرا کیا بگاڑ سکتے ہو؟ اس تمام وادی میں سب سے زیادہ عزت و تکریم والا میں ہوں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بدر والے دن قتل کرایا اور اسے ذلیل کیا اور اس سے کہا جائے گا کہ لے اب اپنی عزت کا اور اپنی تکریم کا اور اپنی بزرگی اور بڑائی کا لطف اٹھا اور ان کافروں سے کہا جائے گا کہ یہ ہے جس میں ہمیشہ شک شبہ کرتے رہے ۔ جیسے اور آیتوں میں ہے کہ جس دن انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ دوزخ ہے جسے تم جھٹلاتے رہے کیا یہ جادو ہے یا تم دیکھ نہیں رہے ؟ اسی کو یہاں بھی فرمایا ہے کہ یہ جس میں تم شک کر رہے تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ان شجرت الزقوم :” الزقوم “ کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة صافات (٦٢ تا ٦٥)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بیشک زقوم کا درخت (جس کی تحقیق سورة صافات کے دوسرے رکوع میں گزر چکی ہے) بڑے مجرم (یعنی کافر) کا کھانا ہوگا جو (صورت کے مکروہ ہونے میں) تیل کی تلچھن جیسا ہوگا (اور) وہ پیٹ میں ایسا کھولے گا جیسا تیز گرم پانی کھولتا ہے (اور فرشتوں کو حکم ہوگا کہ) اس کو پکڑو پھر گھسیٹتے ہوئے دوزخ کے بیچوں بیچ تک لے جاؤ، پھر اس کے سر کے اوپر تکلیف دینے والا گرم پانی چھوڑو (اور اس سے بطور استہزاء کہا جائے گا کہ) لے چکھ، تو بڑا معزز مکرم ہے (یہ تیری تعظیم ہو رہی ہے جیسا تو دنیا میں اپنے آپ کو معظم و مکرم سمجھ کر ہمارے احکام سے عار کیا کرتا تھا اور دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ) یہ وہی چیز ہے جس میں تم شک (و انکار) کیا کرتے تھے (یہ تو کافر دوزخیوں کا حال ہوا آگے اہل ایمان کا ذکر ہے کہ) بیشک خدا سے ڈرنے والے امن (چین) کی جگہ میں ہوں گے یعنی باغوں میں اور نہروں میں (اور) وہ لباس پہنیں گے باریک اور دبیز ریشم کا، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے (اور یہ) بات اسی طرح ہے اور ہم ان کا گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والیوں سے بیاہ کردیں گے ( اور) وہاں اطمینان سے ہر قسم کے میوے منگاتے ہوں گے (اور) وہاں وہ بجز اس موت کے جو دنیا میں آ چکی تھی اور موت کا ذائقہ بھی نہ چکھیں گے (یعنی مریں گے نہیں) اور اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ کے عذاب سے (بھی) بچالے گا (اور) یہ سب کچھ آپ کے رب کے فضل سے ہوگا، بڑی کامیابی یہی ہے (اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا کام اتنا ہے کہ آپ ان کو کہتے رہئے) سو (اسی غرض سے ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان (عربی) میں آسان کردیا تاکہ یہ (اس کو سمجھ کر اس سے) نصیحت قبول کریں تو (اگر یہ لوگ نہ مانیں تو) آپ (ان پر مصائب کے نزول کے) منتظر رہئے، یہ لوگ بھی (آپ پر مصائب کے نزول کے) منتظر ہیں (پس آپ تبلیغ سے زیادہ فکر میں نہ پڑئیے، نہ مخالفت پر رنج کیجئے، ان کا معاملہ خدا کے سپرد کر کے صبر کیجئے وہ خود سمجھ لے گا۔ )- معارف و مسائل - ان آیات میں آخرت کے کچھ احوال بیان کئے گئے ہیں، اور عادت کے مطابق یہاں بھی قرآن کریم نے دوزخ اور جنت دونوں ہی کے احوال یکے بعد دیگرے بیان فرمائے ہیں۔- (آیت) اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ ۔ زقوم کی حقیقت سے متعلق کچھ ضروری باتیں سورة صافات کی تفسیر میں لکھی جا چکی ہیں وہاں ملاحظہ فرمائی جائیں۔ یہاں اتنی بات قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کی آیات سے بظاہر یہ مترشح ہوتا ہے کہ کفار کو زقوم دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے ہی کھلایا جائے گا کیونکہ یہاں زقوم کھلانے کے بعد یہ حکم مذکور ہے کہ ” اسے کھینچ کر دوزخ کے بیچوں بیچ لے جاؤ۔ “ اس کے علاوہ سورة واقعہ کی (آیت) ھذا نزلھم یوم الدین سے بھی بعض حضرات نے یہی سمجھا ہے کیونکہ ” نزل “ ان کے نزدیک اصلاً مہمان کی اس خاطر تواضع کو کہا جاتا ہے جو اصل دعوت سے پہلے کی جائے، بعد کے کھانے کو ’ ضیافۃ “ یا ” مأدبۃ “ کہتے ہیں۔ یوں قرآنی الفاظ میں احتمال اس کا بھی ہے کہ زقوم کا کھلانا دخول جہنم کے بعد ہو۔ اس صورت میں ” نزل “ کا استعمال دعوت کے اصل کھانے کے معنی میں تو سعاً ہوگا اور آیت زیر تفسیر میں جو اس کے بعد جہنم کی طرف گھسیٹ لے جانے کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تھا تو پہلے بھی جہنم ہی میں، لیکن زقوم کھلانے کے بعد اسے مزید تذلیل اور ایذا رسانی کے لئے دوزخ کے وسط میں لیجایا جائے گا۔ واللہ اعلم (ملخص، ازبیان القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ۝ ٤٣ ۙ- شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- زقم - إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 43- 44] ، عبارة عن أطعمة كريهة في النار، ومنه استعیر : زَقَمَ فلان وتَزَقَّمَ : إذا ابتلع شيئا كريها .- ( ز ق م ) الزقوم تھوہر کا درخت ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 43- 44] بیشک سینڈھ کا درخت ۔ میں زقوم سے دوزخ کے کریہہ کھانے مراد ہیں اور اس سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ زقم فلان وتزقم اس نے کوئی کریہہ چیز نگل لی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٣۔ ٤٨) زقوم کا درخت دوزخ میں بڑے فاجروں یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کا کھانا ہوگا تیل کی تلچھٹ جیسا سیاہ یا کہ پگھلی ہوئی چاندی کی طرح سخت گرم ہوگا وہ پیٹ میں ایسا کھولے گا جیسا تیز گرم پانی کھولتا ہے۔- اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ اس ابو جہل کو پکڑو اور گھسیٹتے ہوئے دوزخ کے درمیان میں لے جاؤ اور اس کے سر کو لوہے کے گرزوں سے مارنے کے بعد جلتا ہوا گرم پانی ڈالو۔- شان نزول : اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ (الخ)- سعد بن منصور نے ابو مالک سے روایت کیا ہے کہ ابو جہل کھجور اور مکھن لے کر آتا تھا اور کہتا تھا کہ اس کو کھاؤ یہ وہی زقوم ہے جس سے محمد تمہیں ڈراتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور اموی نے مغازی میں عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ابوجہل سے ملنے گئے اور آپ نے اس سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تجھ سے یہ کہوں اولی لک فاولی ثم اولی لک فاولی۔ تیری کم بختی پر کم بختی آنے والی ہے اور پھر تیری کم بختی پر کم بختی آنے والی ہے۔- تو اس نے اپنے ہاتھ کو کپڑے سے نکالا اور کہنے لگا کہ میرے متعلق آپ اور آپ کے صاحب یعنی اللہ کسی بھی چیز کی قدرت نہیں رکھتا اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں بطحاء والوں کو روک سکتا ہوں اور میں العزیز الکریم ہوں، اللہ تعالیٰ نے اسے بدر کے دن مار ڈالا اور ذلیل و خوار کیا اور اسی کو اس جملہ کے ساتھ عار دلائی اور اس کے بارے میں نازل کیا کہ دوزخ میں اس سے کہا جائے گا ذق انک انت العزیز الکریم۔ اور ابن جریر نے بھی قتادہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ ” یقینا زقوم کا درخت ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :38 زقوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، سورہ صافات ، حاشیہ 34 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani