Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣١] یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کسی کے حق میں جو فیصلہ کردے گا وہ نافذ ہو کے رہے گا اور اس کی کہیں اپیل بھی نہ ہوسکے گی کیونکہ وہی سب پر غالب ہے۔- [٣٢] یعنی وہ فیصلہ کرتے وقت کسی پر رحم تو کرسکتا ہے۔ مگر کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ بات اس کی صفت عدل کے خلاف ہے۔ وہ یہ تو کرسکتا کہ ایک قصوروار کو معاف کردے یا اس کے جرم سے کم سزا دے یا اس کے عمل سے بہت زیادہ بدلہ دے دے اور بیشتر مقدمات میں وہ اپنی اسی صفت رحیمیت کا ہی مظاہرہ کرے گا۔ سزا صرف ان لوگوں کو دے گا جنہوں نے شرک کیا ہو۔ یا از راہ تکبر دعوت حق کو ٹھکرا دیا ہو اور پھر معاندانہ سرگرمیوں میں ہی لگے رہے ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) الا من رحم اللہ : یعنی جس پر اللہ نے رحم فرما دیا وہی بچے گا، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) عنہب یان کرتے ہیں کیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لن ینجی احداً منکم عملہ، قالوا ولاا نت یا رسول اللہ ؟ قال ولا انا، الا ان یتعمدنی اللہ برحمۃ) (بخاری، الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل :6363)” تم میں کسی کو اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا۔ “ صحابہ نے کہا :” یا رسول اللہ کیا آپ کو بھی نہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” مجھے بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔ “- (٢) انہ ھو العزیز الرحیم : یہ اس بات کا جواب ہے کہ کوئی کسی کی مدد کیوں نہیں کرسکے گا ؟ فرمایا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب پر غالب ہے، وہ جو فیصلہ کر دے گا وہ نافذ ہو کر رہے گا۔ کسی میں اسے رد کرنے یا بدلنے کی یا اس کی مرضی کے بغیر سفارش کرنے کی جرأت نہیں ہوگی،۔ ” الرحیم “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب پر غالب ہونے کے باوجود بےحد مہربان ہے، کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ وہ چاہے تو قصور وار کی سزا معاف کر دے یا اس میں کمی کر دے یا کسی کو اس عمل سے بہت زیادہ جزا دے دے، مگر وہ جرم کے بغیر کسی کو سزا نہیں دیتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّا مَنْ رَّحِمَ اللہُ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝ ٤٢ ۧ- «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

البتہ مسلمانوں کے کیونکہ وہ ایسے نہیں اور ان میں ایک ایک کے لیے اللہ کے حکم سے شفاعت کرے گا اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے کافروں کو سزا دے گا اور مہربان ہے مسلمانوں پر رحمت فرمائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ اللّٰہُط اِنَّہٗ ہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ” سوائے اس کے جس پر اللہ رحم فرما دے۔ یقینا وہی ہے زبردست ‘ بہت رحم فرمانے والا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :37 ان فقروں میں بتایا گیا ہے کہ فیصلے کے دن جو عدالت قائم ہو گی اس کا کیا رنگ ہو گا ۔ کسی کی مدد یا حمایت وہاں کسی مجرم کو نہ چھڑا سکے گی ، نہ اس کی سزا کم ہی کرا سکے گی ۔ کلی اختیارات اس حاکم حقیقی کے ہاتھ میں ہوں گے جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی ، اور جس کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کا بل بوتا کسی میں نہیں ہے ۔ یہ بالکل اس کے اپنے اختیار تمیزی پر موقوف ہو گا کہ کسی پر رحم فرما کر اس کو سزا نہ دے یا کم سزا دے ، اور حقیقت میں اس کی شان یہی ہے کہ انصاف کرنے میں بے رحمی سے نہیں بلکہ رحم ہی سے کام لے ۔ لیکن جس کے مقدمے میں جو فیصلہ بھی وہ کرے گا وہ بہرحال بےکم و کاست نافذ ہو گا ۔ عدالت الٰہی کی یہ کیفیت بیان کرنے کے بعد آگے کے چند فقروں میں بتایا گیا ہے کہ اس عدالت میں جو لوگ مجرم ثابت ہوں گے ان کا انجام کیا ہو گا ، اور جن لوگوں کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ دنیا میں خدا سے ڈر کر نافرمانیوں سے پرہیز کرتے رہے تھے ، ان کو کن انعامات سے سرفراز کیا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani