(١) یوم لایغنی ملوی عن مولی شیائً : ” مولی “ کا معنی دوست بھی ہے، قریبی رشتہ دار بھی ، غلام بھی اور غلام کا مالک بھی۔ یعنی قیامت کے دن کوئی شخص کسی ایسے شخص کے کام نہیں آسکے گا جس سے اس کی دوستی یا رشتہ داری یا اس کی حمایت حاصل کرنے کا کوئی تعلق ہو۔ دیکھیے سورة مومنون (١٠١) اور سورة معارج (١٠، ١١)- (٢) ولا ھم ینصرون : اور نہ کسی اور طرف سے مدد مل سکے گی۔
يَوْمَ لَا يُغْنِيْ مَوْلًى عَنْ مَّوْلًى شَـيْــــًٔا وَّلَا ہُمْ يُنْصَرُوْنَ ٤١ ۙ- غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - ونفی المُوَالاةَ بينهم في الآخرة، فقال في مُوَالاةِ الکفارِ بعضهم بعضا : يَوْمَ لا يُغْنِي مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئاً [ الدخان 41] اور آخرت میں ان کی باہم دوستی کی نفی کرتے ہوئے فرمایا : ۔ يَوْمَ لا يُغْنِي مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئاً [ الدخان 41] جس دن کوئی دوست کسی ودست کے کچھ کام نہیں آئے گا شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی
اور جس عذاب الہی کے مقابلے کے دن کوئی علاقہ والا کسی علاقہ والے کے اور نہ کافر کفر کے اور نہ کوئی قریبی رشتہ دار کسی رشتہ دار کے کچھ کام آئے گا اور نہ ان سے عذاب الہی روکا جائے گا۔
آیت ٤١ یَوْمَ لَا یُغْنِیْ مَوْلًی عَنْ مَّوْلًی شَیْئًا وَّلَا ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ” جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہیں آسکے گا اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔ “
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :36 اصل میں لفظ مولیٰ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی تعلق کی بنا پر دوسرے شخص کی حمایت کرے ، قطع نظر اس سے کہ وہ رشتہ داری کا تعلق ہو یا دوستی کا یا کسی اور قسم کا ۔