Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩] کیا قرآن آسان ہے یا مشکل ترین ؟ اللہ نے تو واقعی قرآن کو آسان ہی بنایا تھا لیکن ہمارے فرقہ باز علماء نے اسے مشکل ترین کتاب بنادیا ہے اور یہی کچھ عوام کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کی دلیل درس نظامی کا وہ نصاب ہے جو دینی مدارس میں چھ، سات، آٹھ حتیٰ کہ نو سال میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس نصاب میں قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کی باری عموماً آخری سال میں آتی ہے۔ پہلے چند سال تو صرف و نحو میں صرف کئے جاتے ہیں۔ ان علوم کو خادم قرآن علوم کہا جاتا ہے۔ ان علوم کی افادیت مسلم لیکن جس طالب علم کو فرصت ہی دو چار سال کے لیے ملے اسے کیا قرآن سے بےبہرہ ہی رکھنا چاہئے ؟ پھر اس کے بعد فقہ پڑھائی جاتی ہے۔ تاکہ قرآن اور حدیث کو بھی فقہ کی مخصوص عینک سے ہی دیکھا جاسکے۔ تقلید شخصی کے فوائد بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جس فرقہ کے مدرسہ میں طالب علم داخل ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی سانچہ میں ڈھل کر نکلتا ہے۔ اسی طرح فرقہ بازی کی گرفت کو تو واقعی مضبوط بنادیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتاً ان طالب علموں کو قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک ان ابتدائی علوم کو پڑھا نہ جائے اس وقت تک قرآن کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ اور اس طرح عملاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تردید کی جاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن کریم شرک کا سخت دشمن ہے۔ کوئی سورت اور کوئی صفحہ ایسا نہ ہوگا جس میں شرک کی تردید یا توحید کے اثبات میں کچھ نہ کچھ مذکور نہ ہو۔ مگر ہمارے طریقہ تعلیم کا یہ اثر ہے کہ شرک کی کئی اقسام مسلمانوں میں رواج پا گئی ہیں اور انہیں عین دین حق اور درست قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ شرک سے روکنے والوں کو کافر کہہ کر ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ لہذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اولین فرصت میں قرآن کریم کا ترجمہ خود مطالعہ کرنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے اور اس کے لیے کسی ایسے عالم کے ترجمہ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جو متعصب نہ ہو اور کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ یا ایسے عالم کا جس کی دیانت پر سب کا اتفاق ہو اور یہ ترجمہ بالکل خالی الذھن ہو کر دیکھنا چاہئے۔ قرآن سے خود ہدایت لینا چاہئے۔ اپنے سابقہ یا کسی کے نظریات کو قرآن میں داخل نہ کرنا چاہئے۔ نہ اس سے اپنے نظریات کھینچ تان کر اور تاویلیں کرکے کشید کرنا چاہئیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فانما یسرنہ بلسانک لعلھم یتذکرون : سورت کی ابتدا قرآن کریم کی عظمت و اہمیت کے بیان سے ہوئی تھی، آخر میں پھر اسی کی طرف توجہ دلائی کہ ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان عربی میں آسان کردیا ہے، تاکہ عرب لوگ اسے اپنی زبان میں ہونے کی وجہ سے آسانی کے ساتھ سمجھ لیں اور غیر عرب لوگوں کو سمجھائیں۔ مزید دیکھیے سورة مریم کی آیت (٩٧) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۝ ٥٨- سار - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير، فمن الأوّل قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج 46] ، قُلْ سِيرُوا[ الأنعام 11] ، سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ 18] ، ومن الثاني قوله : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص 29] ، ولم يجئ في القرآن القسم الثالث، وهو سِرْتُهُ.- والرابع قوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] ، هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس 22] ، وأمّا قوله : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل 69] فقد قيل : حثّ علی السّياحة في الأرض بالجسم، وقیل : حثّ علی إجالة الفکر، ومراعاة أحواله كما روي في الخبر أنه قيل في وصف الأولیاء : (أبدانهم في الأرض سَائِرَةٌ وقلوبهم في الملکوت جائلة) «1» ، ومنهم من حمل ذلک علی الجدّ في العبادة المتوصّل بها إلى الثواب، وعلی ذلک حمل قوله عليه السلام : «سافروا تغنموا» «2» ، - والتَّسْيِيرُ ضربان :- أحدهما : بالأمر، والاختیار، والإرادة من السائر نحو : هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس 22] .- والثاني : بالقهر والتّسخیر کتسخیر الجبال وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير 3] ، وقوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] ، - والسِّيرَةُ :- الحالة التي يكون عليها الإنسان وغیره، غریزيّا کان أو مکتسبا، يقال : فلان له سيرة حسنة، وسیرة قبیحة، وقوله : سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه 21] ، أي : الحالة التي کانت عليها من کو نها عودا .- ( س ی ر ) السیر - ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ سرت ( ض ) کے معنی چلنے کے ہیں اور سرت بفلان نیز سرتہ کے معنی چلانا بھی آتے ہیں اور معنی تلثیر کے لئے سیرتہ کہا جاتا ہے ۔ ( الغرض سیر کا لفظ چار طرح استعمال ہوتا ہے ) چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج 46] ، کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر ( و سیاحت ) نہیں کی ۔ قُلْ سِيرُوا[ الأنعام 11] کہو کہ ( اے منکرین رسالت ) ملک میں چلو پھرو ۔ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ 18] کہ رات ۔۔۔۔۔ چلتے رہو اور - دوسرے معنی یعنی سرت بفلان کے متعلق فرمایا : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص 29] اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے ۔ - اور تیسری قسم ( یعنی سرتہ بدوں صلہ ) کا استعمال قرآن میں نہیں پایا جاتا اور چوتھی قسم ( یعنی معنی تکثیر ) کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائی جائینگے ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس 22] وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھر نے اور سیر کرانے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور آیت : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل 69] کہ ملک میں چلو پھرو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سیاست جسمانی یعنی ملک میں سیر ( سیاحت ) کرنا مراد ہے اور بعض نے سیاحت فکری یعنی عجائبات قدرت میں غور فکر کرنا اور حالات سے باخبر رہنا مراد لیا ہے جیسا کہ اولیاء کرام کے متعلق مروی ہے ۔ ( کہ ان کے اجسام تو زمین پر چلتے پھرتے نظر اتے ہیں لیکن ان کی روحیں عالم ملکوت میں جو لانی کرتی رہتی ہیں ) بعض نے کہا ہے اس کے معنی ہیں عبادت میں اسی طرح کوشش کرنا کہ اس کے ذریعہ ثواب الٰہی تک رسائی ہوسکے اور آنحضرت (علیہ السلام) کا فرمان سافروا تغنموا سفر کرتے رہو غنیمت حاصل کر وگے بھی اس معنی پر محمول ہے - ۔ پھر تسیر دوقسم پر ہے ایک وہ جو چلنے والے کے اختیار واردہ سے ہو جیسے فرمایا ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس 22] وہی تو ہے جو تم کو ۔۔۔۔ چلنے کی توفیق دیتا ہے ۔ دوم جو ذریعہ کے ہو اور سائر یعنی چلنے والے کے ارادہ واختیار کو اس میں کسی قسم کا دخل نہ ہو جیسے حال کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہوکر رہ جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير 3] اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔ السیرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے عام اس سے کہ اس کی وہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی ۔ کہا جاتا ہے : ۔ فلان حسن السیرۃ فلاں کی سیرت اچھی ہے ۔ فلاں قبیح السیرۃ اس کی سیرت بری ہے اور آیت سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه 21] ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ۔ میں سیرۃ اولٰی سے اس عصا کا دوبارہ لکڑی بن جانا ہے ۔ - لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٨۔ ٥٩) سو ہم نے اس قرآن کریم کی قرات کو آسان کردیا تاکہ یہ لوگ قرآن کریم سے نصیحت قبول کریں سو آپ بدر کے دن ان کی ہلاکت کے منتظر رہیے یہ بھی آپ کے نقصان کے منتظر ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب بدبختوں کو بدر کے دن ہلاک کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰــہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے اس قرآن کو آسان کردیا ہے آپ کی زبان پر ‘ تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ “- قرآن کی زبان بہت فصیح وبلیغ ہونے کے باوجود بڑی سادہ اور آسان ہے۔ بعض مصنفین دقیق اور ثقیل الفاظ استعمال کر کے قارئین پر اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ عربی کی کتاب ” مقاماتِ حریری “ پڑھیں تو اس میں آپ کو بھاری بھر کم اور نامانوس الفاظ کی کثرت سے محسوس ہوگا کہ شاید کتاب لکھنے سے مصنف کا مقصود صرف اپنے ذخیرہ الفاظ کا مظاہرہ کرنا ہی ہے۔ بہر حال قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کا مقصد بنی نوع انسان کو ہدایت دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) قرآن کی عبارت کے ذریعے سے اپنی زبان دانی کی مہارت کا مظاہرہ کرنا مقصود نہیں تھا۔ چناچہ اس کتاب میں اگر ایک طرف ہمیں فصاحت و بلاغت کی معراج نظر آتی ہے تو دوسری طرف اس کی عبارت میں سہل ممتنع اور سادگی کا اعجاز بھی دکھائی دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani