32۔ 1 یعنی قیامت کا وقوع، محض ظن وتخمین ہے، ہمیں تو یقین نہیں کہ یہ واقعی ہوگی۔
[٤٥] ایمان کے کسی جزو میں بھی شک کرنے والے کافر ہیں :۔ اس آیت سے ایک اہم حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے منکر اور قیامت میں شک رکھنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں، دونوں ہی ایک جیسے مجرم اور کافر ہیں۔ اور اس سے آگے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ جن جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر، اس کے فرشتوں پر اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر، روز آخرت پر اور خیر و شر کے اللہ کی طرف سے مقدر ہونے پر۔ ان میں سے کسی بھی ایک چیز کا انکار کردینا یا اسے مشکوک سمجھنا ایک ہی بات ہے اور ایسا شک کرنے والا مومن نہیں بلکہ کافر ہی ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ آخرت میں شک کرنے والے مجرم کیوں ہوتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو احکام الٰہی کا پابند بنانے اور بنائے رکھنے والی چیز صرف اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کا تصور ہے۔ اب اگر کوئی شخص آخرت کا منکر ہو یا اس میں شک رکھتا ہو، دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ یعنی انسان بلاخوف گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
(١) واذا قیل ان وعد اللہ حق والساعۃ…: اللہ تعالیٰ کفار کے جرائم بیان کرتے ہوئے فرمائیں گے کہ جب تم سے کہا جاتا تھا کہ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں تو تم یہ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے اور انکار کرتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے ؟ جیسے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے ہا تھا :” وما رب العلمین) (الشعرائ : ٢٢)” اور رب العالمین کیا چیز ہے ؟ “ یہ جھٹلانے کا بدترین انداز ہے جس میں انکار کے ساتھ استہزا بھی شامل ہے۔- (٢) ان نظن الاظناً : یہاں ایک سوال ہے کہ اس جملیک ا لفظی معنی ہے ” ہم نہیں گمان کرتے مگر گمان کرنا “ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے ” ان ناکل الا اکلا “ ” ہم نہیں کھاتے مگر کھانا۔ “ ظاہر ہے اس سے کوئی مفید مطلب بات حاصل نہیں ہوتی۔ جواب اس کا یہ کہ ” ظنا “ پر تنوین تقلیل و تحقیر کے لئے ہے، یعنی ہم گمان نہیں کرتے مگر ہلکا اور معمولی سا گمان، یعنی پیغمبروں کے وعظ اور لوگوں کے کہنے کی وجہ سے ہمیں اس کا معمولی سا گمان نہیں کرتے مگر ہلکا اور معمولی سا گمان، یعنی پیغمبروں کے وعظ اور لوگوں کے کہنے کی وجہ سے ہمیں اس کا معمولی سا گمان ہوتا ہے جس کی کچھ حیثیت نہیں۔ واضح رہے کہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر ظن یقین کے معنی میں آیا ہے، مگر یہاں شک کے معنی میں ہے، کیونکہ وہ یقین کے مقابلے میں آرہا ہے۔- (٣) وما نحن بمستیقین :” بائ “ یہاں نفی کی تاکید کے لئے ہے اور ” مستفین “ میں سین اور تاء مبالغہ کے لئے ہے۔ یعنی ہم پورا یقین کرنے والے ہرگز نہیں ہیں، کبھی معمولی سا گمان یا دھندلا سا خیال آجائے تو وہ الگ بات ہے۔- (٤) اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، یوم آخرت اور تقدیر میں سے کسی چیز میں شک ہو (گو انکار نہ بھی ہو) تو وہ کافر ہے۔ ایمان نام ہی یقین یعنی زوال شک کا ہے، کیونکہ انسان کو اللہ کے احکام کا پابند بنانے والی چیز ہے ہی یقین۔ آگے یقین کے درجات مختلف ہوسکتے ہیں اور ایمان میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے چار پرندوں والے واقعہ سے ظاہر ہے۔
وَاِذَا قِيْلَ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ لَا رَيْبَ فِيْہَا قُلْتُمْ مَّا نَدْرِيْ مَا السَّاعَۃُ ٠ ۙ اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَ ٣٢- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - دری - الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما - يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه «1» ، نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب - ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) - الدریۃ - ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔
اور جس وقت دنیا میں تم سے کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا بعث بعد الموت کے بارے میں وعدہ سچا ہے اور قیامت کے قیام میں کوئی شک نہیں وہ ضرور قائم ہوگی۔ مگر تم کہا کرتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیام قیامت کیا چیز ہے محض ایک خیال سا تو ہمیں ہوتا ہے باقی ہمیں اس کا یقین نہیں اور ان پر ان کے تمام برے اعمال ظاہر ہوجائیں گے۔
آیت ٣٢ وَاِذَا قِیْلَ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ لَا رَیْبَ فِیْہَا ” اور جب کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ سچ ہے اور قیامت آنے میں کوئی شک نہیں “- قُلْتُمْ مَّا نَدْرِیْ مَا السَّاعَۃُ ” تو تم کہتے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا ہوتی ہے “- السّاعۃ (قیامت کی موعودہ گھڑی ) کا ذکر سن کر تم کہا کرتے تھے کہ ہم کسی ساعت واعت کو نہیں جانتے۔ تمہارے یہ گستاخانہ جملے ہمارے پاس ریکارڈ میں موجود ہیں۔- اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا ” ہاں ہمیں ایک گمان سا تو ہوتا ہے “- لیکن کبھی کبھی تم قیامت کا ذکر سن کر یوں بھی کہا کرتے تھے کہ ہاں قیامت کے قائم ہونے اور آخرت کی زندگی کے بارے میں ہمیں گمان سا تو ہوتا ہے ‘ ایک خیال سا تو آتا ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ نیکی و بدی کے فرق اور سزا و جزا کی منطق کو تم لوگ خوب سمجھتے تھے۔ تم جانتے تھے کہ پیشہ ور مجرم اور نیک لوگ برابر نہیں ہوسکتے۔ کبھی کسی مظلوم کی بےبسی کو دیکھ کر تمہارے ذہن میں یہ سوال بھی چپک جاتا تھا کہ اس بےچارے کی کہیں تو داد رسی ہونی چاہیے اور کبھی کبھی تمہارا ضمیر تمہیں یہ بھی یاد دلایا کرتا تھا کہ ظالموں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے کوئی موثر اور قطعی نظام تو ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن پھر دنیوی مفادات کی یلغار کو اپنے سامنے پا کر ایسی ہر سوچ کو مفروضہ قرار دے کر تم جھٹک دیا کرتے تھے۔- وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ ” اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں۔ “- یہاں پر ” یقین “ کا لفظ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ دراصل ” آخرت “ کو ایک رسمی نظریے کے طور پر تسلیم کرلینا کافی نہیں۔ اس ” ایمان “ کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس کے بارے میں دل میں گہرا یقین ہونا بہت ضروری ہے۔ جب تک دل میں بعث بعد الموت اور آخرت کا پختہ یقین نہیں ہوگا انسان کا کردار درست نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سورة البقرۃ کی ابتدائی آیات میں متقین کی صفات کے حوالے سے جہاں غیب اور الہامی کتب پر ” ایمان لانے “ کی شرط کا ذکر ہے وہاں آخرت کے بارے میں ” یقین رکھنے “ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے : وَبِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں دل کے اندر گہرایقین رکھے بغیر مقام تقویٰ تک پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ چناچہ آج اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَکے الفاظ میں ہمیں اپنی باطنی کیفیت کی جھلک بھی نظر آئے گی۔ ہم موروثی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک عقیدے کے درجے میں تو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ‘ لیکن کیا دوبارہ جی اٹھنے اور اللہ کی عدالت میں پیش ہونے کا پختہ یقین ہمارے دلوں میں موجود ہے ؟ اس سوال کا جواب ہم میں سے ہر شخص کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں جھانک کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ یقین کی مطلوبہ کیفیت تک کیسے پہنچا جائے تو اس کا جواب ہمیں سورة الحدید کے مطالعہ کے دوران ملے گا۔
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :44 اس سے پہلے آیت 24 میں جن لوگوں کا ذکر گزر چکا ہے وہ آخرت کا قطعی اور کھلا انکار کرنے والے تھے ۔ اور یہاں ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اس کا یقین رکھتے اگرچہ گمان کی حد تم اس کے امکان سے منکر نہیں ہیں ۔ بظاہر ان دونوں گروہوں میں اس لحاظ سے بڑا فرق ہے کہ ایک بالکل منکر ہے اور دوسرا اس کے ممکن ہونے کا گمان رکھتا ہے ۔ لیکن نتیجے اور انجام کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ اس لیے کہ آخرت کے انکار اور اس پر یقین نہ ہونے کے اخلاقی نتائج بالکل ایک جیسے ہیں ۔ کوئی شخص خواہ آخرت کو نہ مانتا ہو ، یا اس کا یقین نہ رکھتا ہو ، دونوں صورتوں میں لازماً وہ خدا کے سامنے اپنی جواب دہی کے احساس سے خالی ہو گا ، اور یہ عدم احساس اس کو لازماً فکر و عمل کی گمراہیوں میں مبتلا کر کے رہے گا ۔ صرف آخرت کا یقین ہی دنیا میں آدمی کے رویے کو درست رکھ سکتا ہے ۔ یہ اگر نہ ہو تو شک اور انکار ، دونوں اسے ایک ہی طرح کی غیر ذمہ دارانہ روش پر ڈال دیتے ہیں ۔ اور چونکہ یہی غیر ذمہ دارانہ روش آخرت کی بد انجامی کا اصل سبب ہے ، اس لیے دوزخ میں جانے سے انکار کرنے والا بچ سکتا ہے ، نہ یقین رکھنے والا ۔