Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 جیسے حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْعَظَمَۃُ اِذَارِیْ وَالْکِبْریاءُ رِدَائیْ فَمَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِنْھُمَا اَسْکَنْتُہُ نَارِیْ (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٩] ١۔ تکبر کی مذمت۔ ٢۔ کبریائی صرف اللہ کو لائق ہے :۔ تکبر اور غرور ایسا جرم ہے جس کی سزا دنیا میں بھی مل کے رہتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کا ہر شخص دنیا میں ہی مشاہدہ کرلیتا ہے۔ اور آخرت میں تو متکبرین کا یہ انجام ہوگا کہ کوئی ایسا متکبر نہیں ہوگا جسے جہنم میں ذلیل و رسوا کرکے داخل نہ کیا جائے۔ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جہنم میں زیادہ تر متکبر قسم کے لوگ ہی ہوں گے۔ نیز سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ (رض) دونوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : عزت پروردگار کی ازار ہے اور بزرگی اس کی چادر ہے۔ (پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) جو کوئی اسے مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا میں اسے ضرور عذاب دوں گا (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الکبر) نیز ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کبریائی میری چادر اور عظمت میرا ازار بند ہے۔ لہذا جو شخص ان دونوں میں سے کسی چیز کو مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا۔ میں اسے اٹھا کر آگ میں پھینک دوں گا (حوالہ ایضاً ) گویا کبریائی اور تکبر ایسی صفت ہے جو صرف اللہ اکیلے کو سزاوار ہے اور ایک مومن کبھی متکبر نہیں ہوسکتا۔ تکبر اور ایمان ایک دوسرے کی ضد ہیں جو کسی ایک انسان میں جمع نہیں ہوسکتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ولہ الکبریآ فی السموت والارض : یہ جملہ لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بندوں کو اپنی حمد کی تلقین و تاکید انھی کیف ائدے کے لئے کی ہے، ورنہ وہ خود نہ ان کی تعریف کا محتاج ہے، نہ اسے اس کی ضرورت ہے اور نہ ان کی تعریف سے اس کی شان میں کوئی اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ پہلے سے اور ہمیشہ ساری بڑائی اور عظمت کا اکیلا مالک ہے۔ کوئی اور اس کی بڑائی میں کیا اضافہ کرے گا۔- (٢) وھو العزیز الحکیم : یہ دو صفات اس بات کی دلیل کے طور پر ذکر فرمائیں کہ وہ اکیلا ہر کبریائی اور عظمت کا مالک ہے، کیونکہ وہی عزیز ہے اور وہی حکیم ہے (خبر پر الف لام سے حصر کا معنی پیدا ہو رہا ہے) ، دوسرا کوئی نہ عزیز ہے نہ نہ حکیم تو اس میں کبریئای کیا ہوگی ؟” العزیز “ میں قدرت و اختیار کی ہر صورت آجاتی ہے اور ” الحکیم “ میں علم کا ہر مفہوم آجاتا ہے۔ وہ ” العزیز “ (سب پر غالب) ہے، جو چاہے کرسکتا ہے، کوئی کام ایسا نہیں جو وہ نہ کرسکے اور کوئی ہستی ایسی نہیں جو اسے روک سکے اور وہ ” الحکیم “ (کمال حکمت والا ) ہے، جو کرتا ہے عین حکمت اور بالکل درست ہوتا ہے، کوئی اس میں نہ غلطی نکال سکتا ہے نہ اس سے بہتر کی نشان دہی کرسکتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَہُ الْكِبْرِيَاۗءُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۠ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَـكِيْمُ۝ ٣٧ ۧ- كِبْريَاءُ- والْكِبْريَاءُ : الترفع عن الانقیاد، وذلک لا يستحقه غير الله، فقال : وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الجاثية 37] ولما قلنا روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم يقول عن اللہ تعالی: «الکبریاء ردائي والعظمة إزاري فمن نازعني في واحد منهما قصمته» ، وقال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ [يونس 87] ،- الکبریاء ۔ اطاعت کیشی کے درجہ سے اپنے آپ کو بلند سمجھنے کا نام کبریاء ہے ۔ اور یہ استحقاق صرف ذات باری تعالیٰ کو ہی حاصل ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الجاثية 37] اور آسمانوں اور زمینوں میں اس کیلئے بڑائی ہے اور اس کا ثبوت اسی حدیث قدسی سے بھی ملتا ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (90) الکبریاء ردائی والعظمۃ ازاری فمن ناز عنی فی واحد منھما قصمتہ کہ کیریاء میری رواء ہے اور عظمت ازار ہے ۔ جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک میں میرے ساتھ مزاحم ہوگا ۔ تو میں اس کی گردن توڑ دالوں گا۔ اور قرآن پاک میں ہے ؛ قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ [يونس 87] وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ جس ( راہ ) پر ہم اپنے باپ دادوں کو پاتے رہیں ہیں اس سے ہم کو پھیر دو اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ وَلَہُ الْکِبْرِیَآئُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِص وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ” اور اسی کے لیے ہے بڑائی آسمانوں اور زمین میں۔ اور وہی ہے زبردست ‘ حکمت والا۔ “- اللہ اکبر یقینا اللہ سب سے بڑا ہے وہ آسمانوں میں بھی سب سے بڑا ہے اور وہ زمین میں بھی سب سے بڑا ہے۔ مگر زمین میں عملی طور پر اسے بڑا نہیں مانا جا رہا۔ زمین میں اللہ کے بندے اللہ سے بغاوت کرچکے ہیں۔ وہ اللہ کے قوانین کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کی قانون سازی کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کسی ملک کے عوام ہی اس کے اقتدارِ اعلیٰ ( ) کے اصل مالک ہیں۔ لیکن یاد رکھیے ” حاکمیت “ کا یہی دعویٰ سب سے بڑا کفر اور سب سے بڑا شرک ہے ‘ چاہے یہ دعویٰ فردِ واحد کرے یا پوری قوم مل کر کرے۔ اس حوالے سے بائبل میں موجود کے یہ الفاظ بہت اہم ہیں۔ اس دعا میں اسی دعوے کو ختم کرنے ‘ اسی کفر و شرک کو مٹانے اور آسمانوں کی طرح زمین پر بھی اللہ کی مرضی نافذ کرنے کا ذکر ہے :- - - - کہ اے اللہ تیری بادشاہت آئے۔ تیری مرضی جیسے آسمانوں میں پوری ہو رہی ہے ویسے ہی زمین پر بھی پوری ہو۔ آسمانوں کی مخلوق تو تیرے احکام کو من و عن تسلیم کرتی ہے۔ سورج تیری مرضی کے مطابق رواں دواں ہے۔ چاند تیرے حکم کا تابع ہے اور تمام کہکشائیں تیری مشیت کے سامنے سرنگوں ہیں ‘ لیکن ایک زمین ہے کہ جس کے بحر و بر کو انسان نے اپنے کرتوتوں کے سبب فساد سے بھر دیا ہے : ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم : ٤١) … اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی مرضی جیسے آسمانوں پر نافذ ہے ویسے ہی زمین پر بھی نافذ ہو۔ زمین پر بھی اللہ کے حکم کو سپریم لاء کا درجہ حاصل ہو۔ اسی قانون کے مطابق فیصلے ہوں۔ اسی کیفیت کا نام ” اقامت دین “ ہے ‘ جس کے لیے ” تنظیم اسلامی “ جدوجہد میں مصروف ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani