Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] اس آیت کی تفسیر کے لیے سورة حٰم السجدۃ کی آیت نمبر ٣٠ کے حواشی ملاحظہ فرمایئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا…: ان آیات کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة حم سجدہ (٣٠، ٣١) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جن لوگوں نے (صدق دل سے) کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے (یعنی توحید کو تعلیم رسول کے مطابق قبول کیا) پھر (اس پر متقیم رہے (یعنی اس کو چھوڑا نہیں) سو یقیناً (اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان لوگوں پر (آخرت میں) کوئی خوف (کی بات واقع ہونے والی) نہیں اور نہ وہ (وہاں غمگین ہوں گے (یہ تو ان کے مضرت سے بچنے کا بیان تھا، آگے اس منفعت کا ذکر ہے جو ان کو ملنے والی ہے کہ) یہ لوگ اہل جنت ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے بعوض ان (نیک) کاموں کے جو کہ وہ کرتے تھے (جن میں سے ایمان لانے اور اس پر قائم رہنے کا اوپر ذکر ہے) اور (جس طرح ہم نے حقوق اللہ کو واجب کیا ہے جس کا ذکر ہوچکا اسی طرح حقوق العباد کو بھی واجب کیا ہے چناچہ ان میں سے ایک بہت بڑا حق والدین کا ہے اس لئے) ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے (اور بالخصوص ماں کے ساتھ اور زیادہ کیونکہ) اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور (پھر) بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور اس کا دودھ چھڑانا (اکثر) تیس مہینہ (میں پورا ہوتا) ہے۔ (اتنے دنوں طرح طرح کی مصیبت اٹھاتی ہے اور کم و بیش ان مصیبتوں میں باپ کی بھی شرکت ہوتی ہے بلکہ اکثر امور کا انتظام عادتاً باپ ہی کو کرنا پڑتا ہے اور اپنے آرام میں خلل آجانا یہ دونوں کو مساوی طور پر پیش آتا ہے اس لئے بھی ماں باپ کا حق انسان پر زیادہ واجب کیا گیا ہے۔ غرض اس کے بعد نشو و نما پاتا ہے) یہاں تک کہ جب (نشو و نماپاتے پاتے) اپنی جوانی کو (یعنی بلوغ کو) پہنچ جاتا ہے اور (پھر بلوغ کے بعد ایک زمانہ میں) چالیس برس (کی عمر) کو پہنچتا ہے تو (جو سعادت مند ہوتا ہے وہ) کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھ کو اس پر مداومت دیجئے کہ میں آپ کی ان نعمتوں کا شکر کیا کروں جو آپ نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہیں (اگر ماں باپ مسلمان ہیں تب تو دین کی نعمت بھی، ورنہ دنیا کی نعمت تو ظاہر ہی ہے اور ماں باپ کی نعمت کا اثر اولاد پر بھی پہنچتا ہے۔ چناچہ ان کا وجود و بقا جو دنیاوی نعمت ہے اس کی بدولت تو خود اولاد کا وجود ہی ہوتا ہے اور دینی نعمت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت اس کے لئے علم و عمل کا ذریعہ بنتی ہے) اور (وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مجھ کو اس کی بھی پابندی نصیب کیجئے کہ) میں نیک کام کیا کروں جس سے آپ خوش ہوں اور میری اولاد میں بھی میرے (نفع کے) لئے صلاحیت پیدا کر دیجئے (دنیاوی نفع یہ کہ دیکھ دیکھ کر راحت ہو اور دینی نفع یہ کہ اجر وثواب ہو اور) میں آپ کی جناب میں (گناہوں سے بھی) توبہ کرتا ہوں اور میں (آپ کا) فرمانبردار ہوں (مقصود اس سے اپنی غلامی کا اقرار ہے نہ کہ دعویٰ آگے ان اعمال کا نتیجہ فرماتے ہیں کہ) یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم ان کے نیک کاموں کو قبول کرلیں گے اور ان کے گناہوں سے درگزر کردیں گے اس طور پر کہ یہ اہل جنت میں سے ہوں گے (اور یہ سب) اس وعدہ صادقہ کی وجہ سے (لہوا) جس کا ان سے (دنیا میں) وعدہ کیا جاتا تھا (یہاں تک تو محسنین اور خوش بخت لوگوں کا بیان ہوا۔ آگے ظالم اور بدبخت لوگوں کا ذکر ہے یعنی) اور جس نے (حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پامال کردیا جیسا اس کے اس حال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے) اپنے ماں باپ سے کہا (جن کے حق کی حقوق العباد میں سب سے زیادہ تاکید ہے خصوصاً جبکہ وہ مسلمان بھی ہوں اور خصوصاً جبکہ وہ اس کو بھی اسلام کی دعوت دے رہے ہوں) کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھ کو یہ وعدہ (یعنی خبر) دیتے ہو کہ میں (قیامت میں دوبارہ زندہ ہو کر) قبر سے نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر گئیں (جن کو ہر زمانے میں ان کے پیغمبر یوں ہی خبریں دیتے چلے آئے مگر آج تک کسی بات کا ظہور نہ ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب باتیں ہی باتیں ہیں) اور وہ دونوں (غریب ماں باپ اس کے اس انکار سے کہ جو کفر عظیم ہے گھبرا کر) اللہ سے فریاد کر رہے ہیں (اور نہایت درد مندی سے اس سے کہہ رہے ہیں) کہ ارے تیرا ناس ہو ایمان لا (اور قیامت کو بھی برحق سمجھ) بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو یہ (اس پر بھی) کہتا ہے کہ یہ بےسند باتیں اگلوں سے منقول چلی آرہی ہیں (مطلب یہ کہ ایسا بدنصیب ہے کہ کفر اور ماں باپ سے بدسلوکی دونوں کا مرتکب ہے، اور بدسلوکی بھی اس درجہ کی کہ ماں باپ کی مخالفت کے ساتھ ان سے کلام میں بھی بدتمیزی کرتا ہے۔ آگے ان اعمال کا نتیجہ فرماتے ہیں کہ) یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے حق میں بھی ان لوگوں کے ساتھ اللہ کا قول (یعنی وعدہ عذاب) پورا ہو کر رہا جو ان سے پہلے جن اور انسان (کفار) ہو گزرے ہیں بیشک یہ (سب) خسارہ میں رہے۔ اور (آگے مذکورہ بالا تفصیل کو خلاصہ و اجمال کے طور پر فرماتے ہیں کہ مذکورہ دونوں فریقوں میں سے) ہر ایک (فریق) کے لئے ان کے (مختلف درجے اس لئے ملیں گے) تاکہ اللہ تعالیٰ سب کو ان کے اعمال (کی جزا) پوری کردے اور ان پر (کسی طرح کا) ظلم نہ ہوگا اور (اوپر محسنین کی جزا میں تو جنت کو متعین طور پر سے بیان کردیا گیا تھا مگر ظالمین کا عذاب متعین کر کے نہیں بتایا گیا تھا اجمالاً فرما دیا تھا حق علیہم القول اور کانوا خسرین اس لئے آگے عذاب کی تعیین فرماتے ہیں کہ وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے جس روز کفار آگ کے سامنے لائے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا) کہ تم اپنی لذت کی چیزیں اپنی دنیوی زندگی میں حاصل کرچکے (یہاں کوئی لذت تم کو نصیب نہ ہوگی) اور ان کو خوب برت چکے (حتی کہ ان میں پڑ کر ہم کو بھی بھول گئے) سو آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی (چنانچہ سزا کے لئے آگ ہے اور ذلت میں سے یہ ملامت اور پھٹکار ہے) اس وجہ سے کہ تم دنیا میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے (تکبر سے مراد ایسا تکبر ہے جو ایمان سے باز رکھے کیونکہ دائمی عذاب اسی کے ساتھ خاص ہے) اور اس وجہ سے کہ تم نافرمانیاں کیا کرتے تھے (اس میں کفر، فسق، ظلم اور ان کی تمام صورتیں داخل ہوگئیں۔ )- معارف و مسائل - مذکورہ الصدر آیات میں پہلی دو آیتیں تو پچھلے ہی کلام کا تکملہ ہے جو اس سے پہلی آیات میں آیا ہے کہ ظالموں کے لئے وعید عذاب اور مؤمنین صالحین کے لئے فوز و فلاح کی خوشخبری تھی۔ پہلی آیت یعنی (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا میں بڑی بلاغت کے ساتھ پورے اسلام و ایمان اور اعمال صالحہ سب کو جمع کردیا گیا ہے۔ ربنا اللہ کا اقرار پورا ایمان ہے اور اس پر استقامت میں ایمان پر تادم مرگ قائم رہنا بھی شامل ہے اور اس کے مقتضیات پر پورا پورا عمل بھی۔ لفظ استقامت اور اس کی اہمیت کی تشریح و تفصیل سورة حم سجدہ میں بیان ہوچکی ہے۔ آیت مذکورہ میں ایمان و استقامت پر یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو نہ آئندہ اسکی تکلیف و پریشانی کا خوف ہوگا نہ ماضی کی تکلیف پر رنج و افسوس رہے گا۔ بعد کی آیت میں اس بےنظیر راحت کے دائمی اور غیر منقطع ہونے کی بشارت دی گئی ہے اس کے بعد کی چار آیتوں میں انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت اور اس کے خلاف کرنے کی مذمت اور ضمن میں انسان پر اسکے ماں باپ کے احسانات کا اور اولاد کے لئے سخت محنت و مشقت برداشت کرنے کا تذکرہ اور بڑی عمر کو پہنچنے کے ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع وانابت کی خاص تلقین فرمائی گئی ہے۔ سابقہ آیات سے اس کی مناسبت اور ربط بقول ابن کثیر یہ ہے کہ قرآن کریم کا عام اسلوب یہ ہے کہ وہ جہاں انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کی طرف دعوت دیتا ہے تو ساتھ ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک اور خدمت و اطاعت کے احکام بھی دیتا ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات مختلف سورتوں میں اس پر شاہد ہیں۔ اسی سالوب کے مطابق یہاں بھی اللہ کی توحید کی دعوت کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر کیا گیا۔ اور قرطبی نے بحوالہ قشیری وجہ ربط یہ بیان کیا ہے کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک تسلی کا پہلو ہے کہا آپ ایمان و توحید کی دعوت دیتے رہیں کوئی قبول کرے گا کوئی نہ کرے گا اس سے مغموم نہ ہوں کیونکہ انسان کا حال یہی ہے کہ وہ سب اپنے والدین کے ساتھ بھی یکساں نہیں رہتے بعض اچھا سلوک کرتے ہیں اور بعض ان کے ساتھ بھی بدسلوکی کرتے ہیں۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ١٣ ۚ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سدفھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جو لوگ توحید خداوندی کے قائل ہوگئے اور پھر فرائض کی ادائیگی اور گناہوں سے بچنے میں قائم رہے لومڑی کی طرح مکرو فریب نہیں کیا تو ان لوگوں کو عذاب کے آنے کا کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ پچھلی باتوں پر غمگین ہوں گے یا یہ مطلب کہ جس وقت دوزخی خوف زدہ ہوں گے انہیں کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا اور جس وقت دوسرے لوگ غمگین ہوں گے انہیں کوئی غم نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ” بیشک جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جم گئے “- نوٹ کیجیے یہ وہی الفاظ ہیں جو اس سے پہلے ہم سورة حٰمٓ السجدۃ کی آیت ٣٠ میں پڑھ آئے ہیں۔ وہاں بھی میں نے عرض کیا تھا اور اب پھر دہرا رہا ہوں کہ اس ” استقامت “ کو صرف ایک لفظ مت سمجھئے ‘ غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ اس ” استقامت “ میں ایک ” قیامت “ مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان کر ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہنا ‘ اس کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا ‘ اسی پر توکل ّکرنا ‘ اس کے احکامات کی پابندی کرنا اور اس کی طرف سے عائد کردہ جملہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں اپنا تن من دھن دائو پر لگا دینا وغیرہ سب اس استقامت میں شامل ہے۔ سورة حٰمٓ السجدۃ (آیت ٣٠) کے مطالعہ کے دوران ہم حضرت سفیان بن عبداللہ (رض) کی حدیث پڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی تھی کہ مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایک بات ایسی بتادیجیے جسے میں پلے ّباندھ لوں اور میرے لیے وہ کافی ہوجائے۔ اس کے جواب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ) ” کہو کہ میں ایمان لایا اللہ پر ‘ پھر اس پر جم جائو “ بہر حال اللہ پر ایمان لانے کے بعد استقامت یہی ہے کہ انسان کا دل اس سوچ پر جم جائے کہ اللہ ہی میرا پروردگار ہے اور وہی حاجت روا ‘ وہی مشکل کشا ہے اور وہی میری دعائوں کا سننے والا ہے ‘ اور پھر انسان خود کو اللہ کے لیے وقف کر دے۔ ایک بندہ مومن کی اسی کیفیت کا نقشہ سورة الانعام کی اس آیت میں دکھایا گیا ہے : قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے : میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ “- فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ” تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔ “- ملاحظہ کیجیے سورة یونس کی آیت ٦٢ میں ” اولیاء اللہ “ کے مخصوص مقام و مرتبہ کے حوالے سے بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں : اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ ” آگاہ ہو جائو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے “۔ گویا جو لوگ ایمان لائے اور پھر ایمان پر مستقیم ہوگئے وہ اولیاء اللہ ہیں اور آخرت میں انہیں کسی قسم کے خوف اور حزن و ملال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :18 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، حٰم السجدہ ، حاشیہ نمبر 33 تا 35 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: ثابت قدم رہنے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ مرتے دم تک اس ایمان پر قائم رہے، اور یہ بھی کہ اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کی۔