Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مغضوب شدہ قوموں کی نشاندہی ارشاد ہوتا ہے کہ اگلی امتوں کو جو اسباب دنیوی مال و اولاد وغیرہ ہماری طرف سے دئیے گئے تھے ویسے تو تمہیں اب تک مہیا بھی نہیں ان کے بھی کان آنکھیں اور دل تھے لیکن جس وقت انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور ہمارے عذابوں کا مذاق اڑایا تو بالاخر ان کے ظاہری اسباب انہیں کچھ کام نہ آئے اور وہ سزائیں ان پر برس پڑیں جن کی یہ ہمیشہ ہنسی کرتے رہے تھے ۔ پس تمہیں انکی طرح نہ ہونا چاہیے ایسا نہ ہو کہ انکے سے عذاب تم پر بھی آجائیں اور تم بھی ان کی طرح جڑ سے کاٹ دئیے جاؤ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے اے اہل مکہ تم اپنے آس پاس ہی ایک نظر ڈالو اور دیکھو کہ کس قدر قومیں نیست و نابود کر دی گئی ہیں اور کس طرح انہوں نے اپنے کرتوت بدلے پائے ہیں احقاف جو یمن کے پاس ہے حضر موت کے علاقہ میں ہے یہاں کے بسنے والے عادیوں کے انجام پر نظر ڈالو تمہارے اور شام کے درمیان ثمودیوں کا جو حشر ہوا اسے دیکھو اہل یمن اور اہل مدین کی قوم سبا کے نتیجہ پر غور کرو تم تو اکثر غزوات اور تجارت وغیرہ کے لئے وہاں سے آتے جاتے رہتے ہو ، بحیرہ قوم لوط سے عبرت حاصل کرو وہ بھی تمہارے راستے میں ہی پڑتا ہے پھر فرماتا ہے ہم نے اپنی نشانیوں اور آیتوں سے خوب واضح کر دیا ہے تاکہ لوگ برائیوں سے بھلائیوں کی طرف لوٹ آئیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا جن جن معبودان باطل کی پرستش شروع کر رکھی تھی گو اس میں ان کا اپنا خیال تھا کہ اس کی وجہ سے ہم قرب الہٰی حاصل کریں گے ، لیکن کیا ہمارے عذابوں کے وقت جبکہ ان کو ان کی مدد کی پوری ضرورت تھی انہوں نے ان کی کسی طرح مدد کی ؟ ہرگز نہیں بلکہ ان کی احتیاج اور مصیبت کے وقت وہ گم ہوگئے ان سے بھاگ گئے ان کا پتہ بھی نہ چلا الغرض ان کا پوجنا صریح غلطی تھی غرض جھوٹ تھا اور صاف افتراء اور فضول بہتان تھا کہ یہ انہیں معبود سمجھ رہے تھے پس ان کی عبادت کرنے میں اور ان پر اعتماد کرنے میں یہ دھوکے میں اور نقصان میں ہی رہے ، واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2 6 ۔ 1 یہ اہل مکہ کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم کیا چیز ہو تم سے پہلی قومیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا قوت وشوکت میں تم سے کہیں زیادہ تھیں لیکن جب انہوں نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں آنکھ کان اور دل کو حق کے سننے دیکھنے اور اسے سمجھنے کے لیے استعمال نہیں کیا تو بالآخر ہم نے انہیں تباہ کردیا اور یہ چیزیں ان کے کچھ کام نہ آسکیں۔ 26۔ یعنی جس عذاب کو وہ انہونا سمجھ کر بطور مذاق کہا کرتے تھے کہ لے آ اپنا عذاب جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے، وہ عذاب آیا اور اس نے انہیں ایسا گھیرا کہ پھر اس سے نکل نہ سکے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩] یعنی سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچ بچار کے لیے دل دیئے تھے۔ مگر وہ ان سے اتنا ہی کام لیتے تھے جو ایک جانور لیتا ہے۔ یعنی اتنا ہی جو دنیا کے مال و متاع کے حصول کے لیے مفید ہو۔ دنیا کے کام میں عقلمند تھے لیکن وہ عقل نہ آئی جس سے آخرت درست ہو، آیات الٰہی سنتے وقت ان کے کان بہرے ہوجاتے تھے اور آیات الٰہی دیکھنے کے لیے ان کی آنکھیں بند ہی رہتی تھیں۔ پھر جب ان پر عذاب الٰہی آیا تو ان کی عقلمندی ان کے کسی کام نہ آسکی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد مکنھم فیمآ ان مکنکم فیہ :” مکن یمکن تمکینا “ کسی چیز پر قدرت دینا۔ ” ان رہی ہے کہ جسمانی ڈیل ڈول، مال، اولاد، قوت، سلطن ، غرض وہ دنیوی اسباب جن پر ہم نے قوم عاد کو قدرت عطا کی تھی حسین ان پر قدرت عطا نہیں کی، جب اللہ کے عذاب کے سامنے ان کی تمام تر قوت و شوکت تنکوں کی طرح اڑ گئی تو تمہاری کیا بساط ہے ؟ یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمائی ہے، دیکھیے سورة روم (٩) اور سورة مومن (٢١) ۔- (٢) وجعلنا لھم سمعاً وابصاراً و افدۃ…: دوسری جگہ ان کے متعلق فرمایا :(وکانوا مستبصرین) (العنکبوت : 38)” حالانکہ وہ بہت سمجھ دار تھے۔ “ یعنی ہم نے انہیں سننے کے لئے کان، دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سوچ بچار کے لئے دل دیے تھے، مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو سننے، اس کی نشانیوں کو عبرت کے لئے دیکھنے اور آخرت کی زندگی کے متعلق غور و فکر کے بجائے اسے اتنا ہی کام لیا جو دنیا کے مال و متاع کے حصول کیلئے مفید ہو۔ دنیا کے کام میں عقل مند تھے، لیکن وہ عقل نہ ائٓی جس سے آخرت درست ہو، آیات الٰہی سنتے وقت ان کے کان بہرے ہوجاتے تھے اور آیات الٰہی دیکھنے کیلئے ان کی آنکھیں ب ند ہی رہتی تھیں۔ پھر جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو ان کی عقل مندی ان کے کسی کام نہ آکسی ، کیونکہ وہ اللہ کی آیات تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا کرتے تھے۔ - (٣) وحاق بھم ما کانوا بہ یستھزون : یعنی وہ عذاب جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو وہ کب آرہا ہے، اسی عذاب نے انہیں گھیر لیا اور ایسا گھیرا کہ پھر اس سے نکل نہ سکے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ مَكَّنّٰہُمْ فِيْمَآ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِيْہِ وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَۃً۝ ٠ ۡ ۖ فَمَآ اَغْنٰى عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَآ اَبْصَارُہُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُہُمْ مِّنْ شَيْءٍ اِذْ كَانُوْا يَجْـحَدُوْنَ۝ ٠ ۙ بِاٰيٰتِ اللہِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ۝ ٢٦ ۧ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- مكن - المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] - ( م ک ن ) المکان - اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - فأد - الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ.- ( ف ء د ) الفواد - کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔- إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔- جحد - الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد .- ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد - وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- حاق - قوله تعالی: وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] . قال عزّ وجلّ : وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] ، أي : لا ينزل ولا يصيب، قيل : وأصله حقّ فقلب، نحو : زلّ وزال، وقد قرئ : فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطانُ [ البقرة 36] ، وأزالهما «2» وعلی هذا : ذمّه وذامه .- ( ح ی ق ) ( الحیوق والحیقان)- ( ض ) کے معنی کسی چیز کو گھیر نے اور اس پر نازل ہونے کے ہیں ۔ اور یہ باء کے ساتھ متعدی ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ : وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اسکے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے وحاق بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] اور جس چیز سے استہزاء کیا کرتے تھے اس نے ان کو آگھیرا ۔ - اسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ .- ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 79] .- الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے ان کو اس قدر مال و طاقت اور کاموں کا حوصلہ دیا تھا کہ اے مکہ والو تمہیں اس قدر مال نہیں دیا اور نہ اتنی قوت دی ہے اور ہم نے انہیں سننے کے لیے کان اور دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچنے و سمجھنے کے لیے دل دیے تھے مگر کیونکہ وہ حق تعالیٰ کے وعدوں اور اس کی کتاب کا انکار کیا کرتے تھے تو اس لیے عذاب الہی کے سامنے ان کی آنکھوں وغیرہ میں سے کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی اور وہ جس عذاب کا مذاق اڑایا کرتے تھے وہی عذاب نازل ہوگیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ وَلَقَدْ مَکَّنّٰہُمْ فِیْمَآ اِنْ مَّکَّنّٰکُمْ فِیْہِ ” اور ہم نے جو تمکن انہیں دیا تھا ایسا تمکن ّہم نے تمہیں نہیں دیا ہے “- قریش مکہ کو مخاطب کر کے بتایا جا رہا ہے کہ جو طاقت اور شان و شوکت قوم عاد کو عطا ہوئی تھی اور جو وسائل انہیں میسر تھے تم لوگوں کے پاس تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ قبل ازیں سورة الاعراف کی آیت ٦٩ کے ضمن میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ تہذیب و تمدن کے اعتبار سے قوم عاد اپنے زمانے کی بہت ترقی یافتہ قوم تھی۔ شداد اسی قوم کا بادشاہ تھا جس نے خصوصی طور پر ایک شہر بسا کر اسے جنت ِارضی کا نام دیا تھا۔ قوم عاد کا علاقہ اب لق ودق صحرا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس صحرا میں شداد کے مذکورہ شہر کی باقیات زیر زمین سیٹلائیٹ کے ذریعے سے دریافت ہوچکی ہیں۔ حتیٰ کہ شہر کی فصیل پر بنے ہوئے ٣٠ کے قریب ستون بھی گن لیے گئے ہیں۔ اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام نشانیاں ایک ایک کر کے دنیا کے سامنے آتی چلی جائیں گی جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔- وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْئِدَۃً ” اور ہم نے انہیں کان ‘ آنکھیں اور دل ( یاعقلیں) عطا کیے تھے۔ “- فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَآ اَبْصَارُہُمْ وَلَآ اَفْئِدَتُہُمْ مِّنْ شَیْئٍ ” تو ان کے کچھ بھی کام نہ آئے ان کے کان ‘ نہ ان کی آنکھیں اور نہ ہی ان کے دل ( عقلیں) “- اِذْ کَانُوْا یَجْحَدُوْنَ لا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ ” جبکہ وہ انکار ہی کرتے رہے اللہ کی آیات کا اور ان کو گھیر لیا اسی چیز نے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :30 یعنی مال ، دولت ، طاقت ، اقتدار ، کسی چیز میں بھی تمہارا اور ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔ تمہارا دائرہ اقتدار تو شہر مکہ کے حدود سے باہر کہیں بھی نہیں اور وہ زمین کے ایک بڑے حصے پر چھائے ہوئے تھے ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :31 اس مختصر سے فقرے میں ایک اہم حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ خدا کی آیات ہی وہ چیز ہیں جو انسان کو حقیقت کا فہم و ادراک بخشتی ہیں ۔ یہ فہم و ادراک انسان کو حاصل ہو تو وہ آنکھوں سے ٹھیک دیکھتا ہے ، کانوں سے ٹھیک سنتا ہے ، اور دل و دماغ سے ٹھیک سوچتا اور صحیح فیصلے کرتا ہے لیکن جب وہ آیات الٰہی کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اسے نگاہ حق شناس نصیب نہیں ہوتی ، کان رکھتے ہوئے بھی وہ ہر کلمہ نصیحت کے لیے بہرہ ہوتا اور دل و دماغ کی جو نعمتیں خدا نے اسے دی ہیں ان سے الٹی سوچتا اور ایک سے ایک غلط نتیجہ اخذ کرتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ اس کی ساری قوتیں خود اس کی اپنی ہی تباہی میں صرف ہونے لگتی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani