بے وقوف ، کند ذہن اور جاہل منافقوں کی کند ذہنی اور بےعلمی ناسمجھی اور بےوقوفی کا بیان ہو رہا ہے کہ باوجود مجلس میں شریک ہونے کے کلام الرسول سن لینے کے پاس بیٹھے ہونے کے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا ۔ مجلس کے خاتمے کے بعد اہل علم صحابہ سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت کیا کیا کہا ؟ یہ ہیں جن کے دلوں پر مہر اللہ لگ چکی ہے اور اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے پڑ گئے ہیں فہم صریح اور قصد صحیح ہے ہی نہیں ، پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے جو لوگ ہدایت کا قصد کرتے ہیں انہیں خود اللہ بھی توفیق دیتا ہے اور ہدایت نصیب فرماتا ہے پھر اس پر جم جانے کی ہمت بھی عطا فرماتا ہے اور انکی ہدایت بڑھاتا رہتا ہے اور انہیں رشد و ہدایت الہام فرماتا رہتا ہے پھر فرماتا ہے کہ یہ تو اسی انتظار میں ہیں کہ اچانک قیامت قائم ہو جائے ۔ تو یہ معلوم کرلیں کہ اس کے قریب کے نشانات تو ظاہر ہو چکے ہیں ، جیسے اور موقعہ پر ارشاد ہوا ہے آیت ( ھٰذَا نَذِيْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى 56 ) 53- النجم:56 ) یہ ڈرانے والا ہے اگلے ڈرانے والوں سے قریب آنے والی قریب آچکی ہے ۔ اور بھی ارشاد ہوتا ہے آیت ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ ) 54- القمر:1 ) ، قیامت قریب ہوگئی اور چاند پھٹ گیا اور فرمایا آیت ( اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ Ǻۚ ) 21- الأنبياء:1 ) لوگوں کا حساب قریب آ گیا پھر بھی وہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی ہو کر دنیا میں آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اس لئے کہ رسولوں کے ختم کرنے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو کامل کیا اور اپنی حجت اپنی مخلوق پر پوری کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی شرطیں اور اسکی علامتیں اس طرح بیان فرما دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی نے اس قدر وضاحت نہیں کی تھی جیسے کہ اپنی جگہ وہ سب بیان ہوئی ہیں ۔ حسن بصری فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا قیامت کی شرطوں میں سے ہے چنانچہ خود آپ کے نام حدیث میں یہ آئے ہیں ۔ نبی التوبہ ، نبی الملحمہ ، حاشر جس کے قدموں پر لوگ جمع کئے جائیں عاقب جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیچ کی انگلی اور اس کے پاس والی انگلی کو اٹھا کر فرمایا میں اور قیامت مثل ان دونوں کے بھیجے گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروں کو قیامت قائم ہو جانے کے بعد نصیحت و عبرت کیا سود مند ہو گی ؟ جیسے ارشاد ہے آیت ( يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى 23ۭ ) 89- الفجر:23 ) اس دن انسان نصیحت حاصل کر لے گا لیکن اس کے لئے نصیحت کہاں ؟ یعنی قیامت کے دن کی عبرت بےسود ہے ۔ اور آیت میں ہے آیت ( وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ ۚ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ 52ښ ) 34- سبأ:52 ) یعنی اس وقت کہیں گے کہ ہم قرآن پر ایمان لائے حالانکہ اب انہیں ایسے دور از امکان پر دسترس کہاں ہو سکتی ہے ؟ یعنی ان کا ایمان اس وقت بےسود ہے پھر فرماتا ہے اے نبی جان لو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے کوئی اور نہیں ، یہ دراصل خبر دینا ہے اپنی وحدانیت کا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ اس کے علم کا حکم دیتا ہو ۔ اسی لئے اس پر عطف ڈال کر فرمایا اپنے گناہوں کا اور مومن مرد و عورت کے گناہوں کا استغفار کرو صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ( اللھم اغفرلی خطیتی وجھلی واسرافی فی امری وما انت اعلم بہ منی اللھم اغفرلی وجدی وخطی وعمدی وکل ذالک عندی ) یعنی اے اللہ میری خطاؤں کو اور میری جہالت کو اور میرے کاموں میں مجھ سے جو زیادتی ہو گئی ہو اس کو اور ہر چیز کو جسے تو مجھ سے بہت زیادہ جاننے والا ہے بخش ۔ اے اللہ میرے بےقصد گناہوں کو اور میرے عزم سے کئے ہوئے گناہوں کو اور میری خطاؤں اور میرے قصد کو بخش اور یہ تمام میرے پاس ہے ۔ اور صحیح حدیث میں ہے کہ آپ اپنی نماز کے آخر میں کہتے ( اللھم اغفرلی ما قدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما اسرفت وما انت اعلم بہ منی انت الھی لا الہ الا انت ) یعنی اے اللہ میں نے جو کچھ گناہ پہلے کئے ہیں اور جو کچھ پیچھے کئے ہیں اور جو چھپا کر کئے ہیں اور جو ظاہر کئے ہیں اور جو زیادتی کی ہے اور جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے بخش دے تو ہی میرا اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور صحیح حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو اپنے رب کی طرف توبہ کرو پس تحقیق میں اپنے رب کی طرف استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں ہر ایک دن ستر بار سے بھی زیادہ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن سرخس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے میں سے کھانا کھایا پھر میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ آپ کو بخشے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تجھے بھی تو میں نے کہا کیا میں آپ کے لئے استغفار کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اور اپنے لئے بھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اپنے گناہوں اور مومن مردوں اور باایمان عورتوں کے گناہوں کی بخشش طلب کر ۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے کھوے یا بائیں ہتھیلی کو دیکھا وہاں کچھ جگہ ابھری ہوئی تھی جس پر گویا تل تھے ۔ اسے مسلم ، ترمذی ، نسائی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے ابو یعلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لا الہ الا للہ کا اور استغفر اللہ کا کہنا لازم پکڑو اور انہیں بکثرت کہا کرو اس لئے کہ ابلیس کہتا میں نے لوگوں کو گناہوں سے ہلاک کیا اور انہوں نے مجھے ان دونوں کلموں سے ہلاک کیا ۔ میں نے جب یہ دیکھا تو انہیں خواہشوں کے پیچھے لگا دیا پس وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں ۔ ایک اور اثر میں ہے کہ ابلیس نے کہا اللہ مجھے تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم جب تک کسی شخص کی روح اس کے جسم میں ہے میں اسے بہکاتا رہوں گا پس اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے بھی قسم ہے اپنی بزرگی اور بڑائی کی کہ میں بھی انہیں بخشتا ہی رہوں گا جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں ۔ استغفار کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا دن میں ہیر پھیر اور تصرف کرنا اور تمہارا رات کو جگہ پکڑنا اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 60ۧ ) 6- الانعام:60 ) یعنی اللہ وہ ہے جو تمہیں رات کو فوت کر دیتا ہے اور دن میں جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتا ہے ۔ ایک اور آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ Č ) 11-ھود:6 ) ، یعنی زمین پر جتنے بھی چلنے والے ہیں ان سب کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور وہ ان کے رہنے کی جگہ اور دفن ہونے کا مقام جانتا ہے یہ سب باتیں واضح کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ۔ ابن جریج کا یہی قول ہے اور امام جریر بھی اسی کو پسند کرتے ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مراد آخرت کا ٹھکانا ہے ۔ سدی فرماتے ہیں تمہارا چلنا پھرنا دنیا میں اور تمہاری قبروں کی جگہ اسے معلوم ہے لیکن اول قول ہی اولیٰ اور زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم ۔
1 6 ۔ 1 یہ منافقین کا ذکر ہے ان کی نیت چونکہ صحیح نہیں ہوتی تھی اسلیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں وہ مجلس سے باہر آ کر صحابہ (رض) سے پوچھتے کہ آپ نے کیا فرمایا۔
[١٩] یعنی منافقین آپ کی مجلس میں آتے تو آپ کی باتوں کو اس لیے کان لگا کر سنتے تھے کہ کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے جس سے نبی کی اس تعلیم کو مشکوک بنایا جاسکے۔ پھر وہ یہی باتیں جاکر بعض علمائے یہود یا بعض مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ ابھی اس نبی نے کیا بات کہی تھی اور اس سے ان کا مقصد یہ ہرگز نہ ہوتا تھا کہ وہ اس سے ہدایت حاصل کریں بلکہ یہ کہ دوسروں کو بھی شک و شبہ میں ڈال دیں۔ یا خود آپ کے ارشادات کا وہ مفہوم لیتے تھے جو آپ کا مقصود نہیں ہوتا تھا۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے کاموں پر کسی طرح کی پابندی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ جب کسی کی یہ حالت ہوجائے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جبکہ اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے اور کوئی بھی ہدایت کی بات اس کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوتی۔
(١) ومنھم من یستیع الیک : مشرکین اور ان کے انجام بد کے ذکر کے بعد اہل کتاب کفار اور کفار کی بدترین قسم منافقین کا ذکر فرمایا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں حاضر ہوتے، آپ کی باتیں کان لگا کر سنتے، مگر ماننے کے لئے نہیں، بلکہ اپنی مفید مطلب باتیں ڈھونڈنے کے لئے، جن کے ساتھ وہ لوگوں کو اسلام سے بدظن کرتے۔ چونکہ ان کے دل و دماغ کا کفر حاوی تھا، قیامت پر ایمان وہ نہیں رکھتے تھے، اس لئے ان کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں اجنبی تھیں، ان کے دل میں وہ مفہوم بیٹھتا ہی نہیں تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے ادا ہوتا تھا۔ وہ سمجھ ہی نہیں سکتے تھے کہ کوئی شخص ان کے خیال میں موہم آخرت کیلئے اپنی دنیا کا نقصان بھی کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کی ساری تگ و دوہی دنیا کے لئے ہو وہ پیغمبروں کی بات سمجھ ہی نہیں سکتا، جیسا کہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا :(یشعیب مانفقہ کثیراً مما تقول) (ھود : ٩١)” اے شعیب ہم اس میں سے بہت سی باتیں نہیں سمجھتے جو تو کہتا ہے۔ “- (٢) حتی اذا خرجوا من عندلک قالوا للذین اوتوا العلم…:” اوتوا العلم “ سے مراد صحابہ کرام (رض) ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ذات وصفات، اپنے پیغمبروں، اپنی کتابوں، اپنے فرشتوں ، یوم آخرت اور تقدیر کے علم اور ان سب پر ایمان کی روشنی عطا فرما رکھی تھی۔ یعنی جب وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے نلکتے ہیں تو آپ کی باتوں کی تحقیر کرتے ہوئے اور ان کا مذاق اڑاتے ہوئے علم و ایمان سے آراستہ صحابہ کرام (رض) سے کہتے ہیں کہ ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا کہ ابھی ابھی اس نے کیا کہا ہے، کیا آپ لوگوں کی سمجھ میں کچھ آیا ہے ؟- (٣) اولئک الذین طبع اللہ علی قلوبھم : فرمایا ان کے نہ سمجھنے کی دو وجہیں ہیں، ایک تو یہ کہ ان کے کفر پر اصرار اور عناد کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کردی ہے، اس لئے وہ سمجھ سکتے ہیں نہیں، جیسا کہ فرمایا :(وقولھم قلوبنا غلف ، بل طبع اللہ علیھا بکفرھم فلا یومنون الا قلیلا) (النسائ : ١٥٥)” اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں، بلکہ اللہ نے ان پر ان کے کفر کی وجہ سے مہر کردی تو وہ ایمان نہیں لاتے مگر بہت کم۔ “- (٤) واتبعوا اھوآء ھم : یہ نہ سمجھنے کی دوسری وجہ ہے کہ وہ کوئی عقل دلیل سننے کے لئے تیار نہیں، بلکہ صرف وہ کام کرنا چاہتے ہیں جو ان کی خواہش کے مطابق ہوں اور مرضی کے خلاف وہ کوئی پابندی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جب کسی کی یہ حلات ہوجائے تو فی الواقع اس کی خواہش کے خلاف کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی، نہ ہی وہ اسے ماننے کے لئے تیار ہوتا ہے، خواہ وہ کتنی اچھی ہو۔
خلاصہ تفسیر - اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض آدمی ایسے ہیں (مراد منافقین ہیں) کہ وہ ( آپ کی تبلیغ وتعلیم کے وقت ظاہر میں تو) آپ کی طرف کان لگاتے ہیں (لیکن دل سے بالکل متوجہ نہیں ہوتے) یہاں تک کہ جب وہ لوگ آپ کے پاس سے (اٹھ کر مجلس سے) باہر جاتے ہیں تو دوسرے اہل علم (صحابہ) سے کہتے ہیں کہ حضرت نے ابھی (جب ہم مجلس میں تھے) کیا بات فرمائی تھی ( ان کا یہ کہنا بھی ایک قسم کا استہزاء ہی تھا کہ اس سے یہ جتلانا تھا کہ ہم آپ کی گفتگو کو قابل التفات نہیں سمجھتے، یہ بھی ایک شعبہ نفاق ہی کا تھا) یہ وہ لوگ ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی ہے (ہدایت سے دور ہوگئے) اور اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں اور (انہی کی قوم میں سے) جو لوگ راہ پر ہیں (یعنی مسلمان ہوچکے ہیں) اللہ تعالیٰ ان کو (احکام سننے کے وقت) اور زیادہ ہدایت دیتا ہے (کہ وہ ان احکام جدیدہ پر بھی ایمان لاتے ہیں یعنی ان کی ایمانیات کی تعداد بڑھ گئی یا یہ کہ ان کے ایمان کو اور زیادہ قوی اور پختہ کردیتے ہیں جو عمل صالح کا خاصہ ہے کہ اس سے ایمان میں مزید پختگی پیدا ہوتی ہے) اور ان کو ان کے تقویٰ کی توفیق دے دیتا ہے (آگے ان منافقین کے لئے و عید ہے کہ یہ جو قرآن اور احکام الٰہیہ سن کر بھی متاثر نہیں ہوتے) سو (معلوم ہوتا ہے کہ) یہ لوگ بس قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر دفعتا آ پڑے (یہ بطور زجر و توبیخ کے فرمایا کہ اب بھی متاثر نہیں ہوتے تو کیا قیامت میں تذکر اور ہدایت حاصل کریں گے) سو (یاد رکھو کہ قیامت بھی نزدیک ہے چنانچہ) اس کی (متعدد) علامتیں تو آ چکی ہیں (چنانچہ از روئے حدیث خود خاتم النبیین کی بعثت و نبوت بھی علامات قیامت میں سے ہے اور شق قمر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہونے کے علاوہ قیامت کی علامات قیامت میں سے ہے۔ یہ سب علامات زمانہ نزول قرآن میں موجود ہوچکی تھیں، آگے اس کا بیان ہے کہ ایمان لانے اور ہدایت پانے میں قیامت کا انتظار کرنا محض جہالت ہے کیونکہ وہ وقت سمجھنے اور عمل کرنے کا نہیں ہوگا۔ فرمایا) تو جب قیامت ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی اس وقت ان کو سمجھنا کہاں میسر ہوگا (یعنی مفید نہیں ہوگا)- معارف و مسائل - اشراط، کے معنے علامات کے ہیں اور علامات قیامت کی ابتداء خود خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے ہوجاتی ہے کیونکہ ختم نبوت بھی قرب قیامت کی علامت ہے۔ اسی طرح شق قمر کے معجزہ کو بھی قرآن میں اقتربت الساعة کے ساتھ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ یہ بھی علامات قیامت میں سے ہے۔ یہ تو علامات ابتدائیہ ہیں جو خود نزول قرآن کے وقت میں ظاہر ہوچکی تھیں دوسری علامات قریبہ احادیث صحیحہ میں ثابت ہیں ان میں سے ایک حدیث حضرت انس سے منقول ہے کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ علامات قیامت یہ ہیں۔- علم اٹھ جائے گا، جہل بڑھ جائے گا، زنا کی کثرت ہوگی، شراب خوری کی کثرت ہوگی، مرد کم رہ جائیں گے، عورتیں بڑھ جائیں گی، یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا متکفل ایک مرد ہوگا اور ایک روایت میں ہے کہ علم گھٹ جائے گا اور جہل پھیل جائے گا (بخاری و مسلم )- اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب مال غنیمت کو شخصی دولت سمجھ لیا جائے اور امانت کو مال غنیمت قرار دے لیا جائے (کہ حلال سمجھ کر کھا جائیں) اور زکوٰة کو تاوان سمجھا جائے (یعنی اس کی ادائیگی میں دل میں تنگی محسوس ہو) اور علم دین اغراض دنیوی کے لئے حاصل کیا جانے لگے، اور مرد اپنی بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرنے لگے، اور دوست کو اپنے قریب کرے اور باپ کو دور کر دے، اور مساجد میں شور و شغب ہونے لگے اور قوم کا سردار ان سب میں کا فاسق بدکردار آدمی ہوجائے، اور قوم کا نمائندہ ان سب میں کا رذیل ہوجائے، اور شریر آدمی کا اکرام صرف اس لئے کرنا پڑے کہ اس کا اکرام نہ کریں گے تو یہ ستائے گا اور گانے والی عورتوں کا گانا عام ہوجائے، اور مزامیر باجے گاجے پھیل جائیں اور شرابیں پی جانے لگیں، اور امت کے آخری لوگ اپنے اسلاف پر لعنت کرنے لگیں تو اس وقت تم لوگ انتظار کرو ایک سرخ آندھی کا اور زلزلہ کا اور لوگوں کے زمین میں دھنس جانے کا اور صورتیں مسخ ہوجانے کا اور آسمان سے پتھر برسنے کا اور دوسری علامات قیامت کا جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گی جیسے موتیوں کی لڑی کو کاٹ دیا جائے اور موتی ایک ایک کر کے نیچے آ گرتے ہیں۔
وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّسْتَمِــــعُ اِلَيْكَ ٠ ۚ حَتّٰٓي اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا ٠ ۣ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْ ١٦- اسْتِمَاعُ :- الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» .- استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے - حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - ( ماذا)- يستعمل علی وجهين :- أحدهما .- أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی:- وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب - ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔- أنف - أصل الأنف : الجارحة، ثم يسمّى به طرف الشیء وأشرفه، فيقال : أنف الجبل وأنف اللحية ونسب الحمية والغضب والعزّة والذلة إلى الأنف حتی قال الشاعر :- إذا غضبت تلک الأنوف لم أرضها ... ولم أطلب العتبی ولکن أزيدهاوقیل : شمخ فلان بأنفه : للمتکبر، وترب أنفه للذلیل، وأَنِفَ فلان من کذا بمعنی استنکف، وأَنَفْتُهُ : أصبت أنفه . وحتی قيل الأَنَفَة : الحمية، واستأنفت الشیء : أخذت أنفه، أي : مبدأه، ومنه قوله عزّ وجل : ماذا قال آنِفاً [ محمد 16] أي : مبتدأ .- ا ن ف) الانف اصل میں انف بمعنی ناک ہے ۔ مجازا کسی چیز کے سرے اور اس کے بلند ترحصہ کو بھی انف کہا جا تا ہے چناچہ پہاڑ کی چوٹی کو انف الجبل اور کنارہ ریش کو انف اللحیۃ کہدیتے ہیں ۔ اور حمیت وغضب اور عزت وذلت کو انف کی طرف منسوب کیا جاتا ہے شاعر نے کہا ہی ع (3) اذا عضبت تلک الانوف لم ارضھا ولم اطلب التعبی ولکن ازید ھا اور جب وہ ناراض ہوں گے تو میں انہیں راضی نہیں کروں گا ۔ بلکہ ان کی ناراضگی کو اور بڑھاؤں گا ۔ اور متکبر کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ شمخ فلان بانفہ فلاں نے ناک چڑھائی یعنی تکبر کیا ۔ ترب انفہ وہ ذلیل ہو ۔ انف فلان من کذا کسی بات کو باعث عار سمجھناانفتہ اس کی ناک پر مارا ۔ اور انفہ بمعنی حمیت بھی آتا ہے ۔ اسنتانفت الشئ کے معنی کسی شے کے سرے اور مبدء کو پکڑنے ( اور اس کا آغاز کرنے کے ہیں اور اسی ارشاد ہے ۔ مَاذَا قَالَ آنِفًا ( سورة محمد 16) انہوں نے ابھی ( شروع میں ) کہا تھا ؟- طبع - الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو : سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] ، - ( ط ب ع ) الطبع ( ف )- کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔
بعض آدمی یعنی منافقین میں سے ایسے ہیں کہ وہ جمعہ کے دن آپ کے خطبہ کی طرف کان تو لگاتے ہیں مگر وہ لوگ آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر جاتے ہیں تو اہل علم صحابہ کرام یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہتے ہیں کہ ابھی رسول اکرم نے منبر کیا فرمایا، جس سے مقصود ان کا آپ کے ساتھ تعریض کرنا ہوگا ہے۔- یہ منافقین ایسے لوگ ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے کہ وہ حق اور ہدایت کی بات سمجھتے ہی نہیں اور خفیہ طور پر کفر و نفاق خیانت اور رسول اکرم کے ساتھ دشمنی کرنے پر قائم ہیں۔- شان نزول : وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ (الخ)- اور ابن منذر نے ابن جریج سے روایت کیا ہے کہ مومنین اور منافقین سب رسول اکرم کے پاس جمع رہتے تو مومنین تو آپ کے فرامین کو سن کر محفوظ رکھتے تھے اور منافقین محفوظ نہیں رکھتے تھے باہر نکل کر مسلمانوں سے پوچھتے کہ ابھی آپ نے کیا فرمایا اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی یعنی بعض آدمی ایسے ہیں کہ وہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں۔
اب یہاں سے اس سورت کا اصل مضمون شروع ہو رہا ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی بتایا جا چکا ہے کہ اس سورت کا مرکزی مضمون ” قتال فی سبیل اللہ “ ہے اور اسی نسبت سے اس کا دوسرا نام ” سورة القتال “ ہے۔ اس مضمون کے تحت آئندہ آیات میں ان لوگوں کی باطنی کیفیات کی جھلکیاں بھی نظر آئیں گی جن کے دلوں میں روگ تھا اور قتال کے ذکر سے ان پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی تھی۔- آیت ١٦ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ کی بات کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ “- حَتّی اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا ” یہاں تک کہ جب وہ آپ کے پاس سے نکل کر باہر جاتے ہیں تو ان لوگوں سے پوچھتے ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے کہ ابھی انہوں (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے کیا کہا تھا ؟ “- یعنی آج حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جو ایک نئی بات کہہ دی ہے کہ ہمیں جنگ کے لیے تیار ہونا ہے اور قریش کے تجارتی قافلوں کا تعاقب کرنا ہے ‘ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اُوْتُوا الْعِلْمَ سے یہاں اہل ِایمان بھی مراد ہوسکتے ہیں اور اہل کتاب یہودی بھی۔ یعنی منافقین یہ بات ان مسلمانوں سے پوچھتے جنہیں وہ زیادہ سمجھدار سمجھتے تھے یا یہ کہ یہی بات وہ لوگ یہودیوں سے جا کر پوچھتے جنہیں اس سے پہلے کتاب کا علم دیا گیا تھا۔- اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَآئَ ہُمْ ” یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ “- جہاد و قتال کے تصور سے ان کے دلوں کی گھبراہٹ اور ایثار و قربانی کی باتوں کو قبول کرنے سے ان کی ہچکچاہٹ درحقیقت اس منافقت کی علامت ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوچکی ہے۔
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :25 یہ ان کفار و منافقین اور منکرین اہل کتاب کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آ کر بیٹھتے تھے اور آپ کے ارشادات ، یا قرآن مجید کی آیات سنتے تھے ، مگر چونکہ ان کا دل ان مضامین سے دور تھا جو آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوتے تھے ، اس لیے سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہ سنتے تھے اور باہر نکل کر مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ ابھی ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے تھے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :26 یہ تھا وہ اصل سبب جس کی وجہ سے ان کے دل کے کان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے لیے بہرے ہو گئے تھے ۔ وہ اپنی خواہشات کے بندے تھے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیمات پیش فرما رہے تھے وہ ان کی خواہشات کے خلاف تھیں ، اس لیے اگر وہ کبھی آپ کی مجلس میں آ کر بتکلف آپ کی طرف کان لگاتے بھی تھے تو ان کے پلے کچھ نہ پڑتا تھا ۔
8: یہ منافقین کا ذکر ہے، وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بیٹھ کر ظاہر تو یہ کرتے تھے کہ وہ آپ کی باتیں سن رہے ہیں، لیکن باہر نکل کر دوسروں سے پوچھتے کہ آپ نے کیا بات فرمائی تھیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے مجلس میں بیٹھ کر توجہ سے آپ کی بات نہیں سنی۔ اور شاید آپس میں ایک دوسرے کو یہ جتانا بھی مقصود ہو کہ ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو (معاذ اللہ) قابل توجہ نہیں سمجھتے۔