Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نیکیوں کو غارت کرنے والی برائیوں کی نشاندہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ خبر دیتا ہے کہ کفر کرنے والے راہ اللہ کی بندش کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے ہدایت کے ہوتے ہوئے گمراہ ہونے والے اللہ کا تو کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں کل قیامت والے دن یہ خالی ہاتھ ہوں گے ایک نیکی بھی ان کے پاس نہ ہو گی ۔ جس طرح نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں اسی طرح اس کے بدترین جرم و گناہ ان کی نیکیاں برباد کر دیں گے ۔ امام محمد بن نصر مروزی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الصلوۃ میں حدیث لائے ہیں کہ صحابہ کا خیال تھا کہ ( لا الہ الا اللہ ) کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا جیسے کہ شرک کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی اس پر اصحاب رسول اس سے ڈرنے لگے کہ گناہ نیکیوں کو باطل نہ کر دیں ۔ دوسری سند سے مروی ہے کہ صحابہ کرام کا خیال تھا کہ ہر نیکی بالیقین مقبول ہے یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو کہنے لگے کہ ہمارے اعمال برباد کرنے والی چیز کبیرہ گناہ اور بدکاریاں کرنے والے پر انہیں خوف رہتا تھا اور ان سے بچنے والے کے لئے امید رہتی تھی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے با ایمان بندوں کو اپنی اور اپنے نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو ان کے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت کی چیز ہے اور مرتد ہونے سے روک رہا ہے جو اعمال کو غارت کرنے والی چیز ہے ۔ پھر فرماتا ہے اللہ سے کفر کرنے والے راہ اللہ سے روکنے والے اور کفر ہی میں مرنے والے اللہ کی بخشش سے محروم ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ شرک کو نہیں بخشتا اس کے بعد جناب باری عز اسمہ فرماتا ہے کہ اے میرے مومن بندو تم دشمنوں کے مقابلے میں عاجزی کا اظہار نہ کرو اور ان سے دب کر صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ قوت و طاقت میں زور وغلبہ میں تعداد و اسباب میں تم قوی ہو ۔ ہاں جبکہ کافر قوت میں ، تعداد میں ، اسباب میں تم سے زیادہ ہوں اور مسلمانوں کا امام مصلحت صلح میں ہی دیکھے تو ایسے وقت بیشک صلح کی طرف جھکنا جائز ہے جیسے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر کیا جبکہ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ جانے سے روکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال تک لڑائی بند رکھنے اور صلح قائم رکھنے پر معاہدہ کر لیا پھر ایمان والوں کو بہت بڑی بشارت و خوش خبری سناتا ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اس وجہ سے نصرت و فتح تمہاری ہی ہے تم یقین مانو کہ تمہاری چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی وہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس کا پورا پورا اجر و ثواب تمہیں عنایت فرمائے گا ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 بلکہ اپنا ہی بیڑا غرق کریں گے۔ 32۔ 2 کیونکہ ایمان کے بغیر کسی عمل کو اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں۔ ایمان و اخلاص ہی ہر عمل خیر کو اس قابل بناتا ہے کہ اس پر اللہ کے ہاں سے اجر ملے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٦] یعنی مسلمانوں سے غداری کرکے نہ وہ اللہ کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ اللہ کے رسول اور مسلمانوں کا۔ بلکہ وہ وہ سراسر اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں وہ اس طرح کہ اللہ ان کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیتا ہے علاوہ ازیں ان کے کچھ اچھے اعمال بھی برباد ہوجاتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ان الذین کفروا و صدوا عن سبیل اللہ …: یعنی منافقین اور یہود جنہیں یہ معلوم ہوچکا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ پہلی کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارتیں موجود ہیں مگر انہوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے آپ کی مخالفت کی، وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، نہ اللہ کے رسول اور اللہ کے بندوں کا کچھ نقصان کرسکوں گے، بلکہ وہ سراسر اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں، کیونکہ اپنے خیال میں وہ جو اچھے کام کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں برباد کر دے گا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور لوگوں کو اللہ کے دین سے روکنے کے لئے وہ جو سازشیں اور منصوبے تیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ناکام بنا دے گا۔ مزید دیکھیے اسی سورت کی پہلی آیت میں ” اضل اعمالھم “ کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور انہوں نے (اوروں کو بھی) اللہ کے رستہ (یعنی دین حق) سے روکا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی بعد اس کے کہ ان کو (دین کا) راستہ (دلائل عقلیہ سے مشرکین کے لئے اور نقلیہ سے بھی اہل کتاب کے لئے) نظر آ چکا تھا یہ لوگ اللہ (کے دین) کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے (بلکہ یہ دین ہر حال میں پورا ہو کر رہے گا چناچہ ہوا) اور اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو (جو دین حق کے مٹانے کے لئے عمل میں لا رہے ہیں) مٹا دے گا اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور (چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا حکم بتلاتے ہیں خواہ خاص طور پر وحی الٰہی میں اس کا حکم ہوا ہو یا وحی الٰہی میں کلی ضابطہ بیان فرمایا گیا ہو اور اس خاص حکم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (بھی) اطاعت کرو اور (کفار کی طرح اللہ و رسول کی مخالفت کر کے) اپنے اعمال کو برباد مت کرو (اس کی تفصیل معارف و مسائل میں آئے گی) بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور انہوں نے اللہ کے رستہ سے روکا پھر وہ کافر ہی رہ کر مر (بھی) گئے، سو خدا تعالیٰ ان کو کبھی نہ بخشے گا (عدم مغفرت کے لئے کفر کے ساتھ صد عن سبیل اللہ شرط نہیں بلکہ صرف کفروا الی الموت تک کا یہی اثر ہے لیکن زیادت تشنیع کے لئے یہ قید واقعی بڑھا دی کہ اس وقت کے رؤسائے کفار میں یہ امر بھی متحقق تھا، آگے مومنین کے مدایح اور کفار کے قبایح پر بطور تفریع کے فرماتے ہیں کہ جب معلوم ہوگیا کہ مسلمان خدا کے محبوب اور کفار مبغوض ہیں) تو (اے مسلمانو ) تم (کفار کے مقابلہ میں) ہمت مت ہارو اور (ہمت ہار کر ان کو) صلح کی طرف مت بلاؤ اور تم ہی غالب رہو گے (اور وہ مغلوب ہوں گے کہ تم محبوب ہو اور وہ مبغوض ہیں) اور اللہ تمہارے ساتھ ہے (یہ تو تم کو دنیا کی کامیابی ہوئی) اور (آخرت میں یہ کامیابی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ) تمہارے اعمال (کے ثواب) میں ہرگز کمی نہ کرے گا (یہ تو ہمت افزائی کر کے جہاد کی ترغیب تھی آگے دنیا کے فانی ہونے کا ذکر کر کے جہاد کی ترغیب اور انفاق فی سبیل اللہ کی تمہید ہے کہ) یہ دنیوی زندگی تو محض ایک لہو و لعب ہے (اگر اس میں جان اور مال کو اپنے فائدہ کے لئے بچانا چاہئے تو وہ فائدہ ہی کتنے دن کا ہے اور کیا اس کا حاصل) اور اگر تم ایمان اور تقویٰ اختیار کرو (جس میں جہاد بالنفس و المال بھی آ گیا) تو (تم کو تو اپنے پاس سے نفع پہنچا دے گا اس طرح کہ) تم کو تمہارا اجر عطا کرے گا اور (تم سے کسی نفع کا طالب نہ ہوگا چنانچہ) تم سے تمہارے مال (تک بھی جو کہ جان سے انہوں نے اپنے نفع کے لئے) طلب نہیں کرے گا (جب تم سے ایسی چیز نہیں طلب کرتا جس کا دینا آسان ہے تو جان جس کا دینا مشکل ہے وہ تو کیوں طلب کرے گا چناچہ ظاہر ہے کہ ہمارے جان و مال کے خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نفع نہیں اور نہ یہ ممکن ہے وہذا کقولہ تعالیٰ وہو یطعم ولا یطعم چنانچہ) اگر (امتحاناً ) تم سے تمہارے مال طلب کرے پھر انتہا درجہ تک تم سے طلب کرتا رہے (یعنی سب مال طلب کرنے لگے) تو تم (یعنی تم سے اکثر) بخل کرنے لگو (یعنی دینا گوارا نہ کرو) اور (اس وقت) اللہ تعالیٰ تمہاری ناگواری ظاہر کر دے (یعنی نہ دینے سے کہ فعل ظاہری ہے باطنی ناگواری کھل جاوے اس لئے یہ فرد ممکن بھی واقع نہیں کی گئی اور) ہاں تم لوگ ایسے ہو کہ تم کو اللہ کی راہ میں (جس کا نفع تمہاری طرف عائد ہونا یقینی ہے تھوڑا سا حصہ مال کا) خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے (اور بقیہ اکثر تمہارے قبضہ میں چھوڑ دیا جاتا ہے) سو (اس پر بھی) بعضے تم میں سے وہ ہیں جو بخل کرتے ہیں، اور (آگے اس فرد واقع پر بخل کی مذمت ہے کہ) جو شخص (ایسی جگہ خرچ کرنے سے) بخل کرتا ہے تو وہ (درحقیقت) خود اپنے سے بخل کرتا ہے (یعنی اپنے ہی کو اس کے نفع دائمی سے محروم رکھتا ہے) اور (نہیں تو) اللہ تو کسی کا محتاج نہیں (تاکہ احتمال اس کے ضرر کا ہو) اور (بلکہ) تم سب (اس کے) محتاج ہو (اور تمہاری اس احتیاج کی رعایت سے تم کو انفاق کا حکم کیا گیا کیونکہ آخرت میں تم کو ثواب کی حاجت ہوگی اور طریق اس کا یہی اعمال ہیں اور) اگر تم (ہمارے احکام سے) روگردانی کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کر دے گا (اور) پھر وہ تم جیسے (روگردانی کرنے والے) نہ ہوں گے (بلکہ نہایت فرمانبردار ہوں گے، یہ کام ان سے لیا جاوے گا اور اس طرح وہ حکمت پوری ہوجاوے گی)- معارف و مسائل - (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ، یہ آیت بھی منافقین اور یہود بنی قریظہ و بنی نضیر کے متعلق نازل ہوئی ہے اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہ ان منافقین کے متعلق ہے جنہوں نے غزوہ بدر کے موقع پر کفار قریش کی امداد اس طرح کی کہ ان میں سے بارہ آدمیوں نے ان کے پورے لشکر کا کھانا اپنے ذمہ لے لیا تھا، ہر روز ان میں سے ایک آدمی لشکر کفار کے کھانے کا انتظام کرتا تھا۔- (آیت) وَسَيُحْبِطُ اَعْمَالَهُمْ یہاں حبط اعمال سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی اسلام کے خلاف کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دے بلکہ اکارت کر دے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کے کفر و نفاق کی وجہ سے ان کے نیک عمل مثل صدقہ خیرات وغیرہ کے سب اکارت ہوجائیں گے قابل قبول نہ ہوں گے وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ ، قرآن کریم نے اس جگہ حبط اعمال کے بجائے ابطال اعمال کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا مفہوم بہت عام ہے کیونکہ ابطال کی ایک تو وہ صورت ہے جو کفر کی وجہ سے پیش آتی ہے جس کو اوپر آیت میں حبط اعمال کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ کافر اصلی کا تو کوئی عمل بوجہ کفر کے مقبول ہی نہیں اور اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا تو زمانہ اسلام کے اعمال اگرچہ لائق قبول تھے مگر اس کے کفر و ارتداد نے ان سب اعمال کو بھی اکارت کردیا۔- دوسری صورت ابطال اعمال کی یہ بھی ہے کہ بعض اعمال صالحہ کے لئے کچھ دوسرے اعمال صالحہ شرط ہیں تو جس شخص نے اس شرط کو ضائع کردیا تو اس کا یہ عمل صالح بھی ضائع ہوگیا جو اس شرط کے ساتھ مشروط تھا، مثلاً ہر عمل صالح کے قبول ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ خالص اللہ کے لئے ہو، ریا و سمعہ اس میں نہ ہو یعنی محض لوگوں کے دکھانے یا سنانے کے لئے یہ عمل نہ کیا ہو۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے ، (آیت) ومآ امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین اور دوسری جگہ فرمایا الا للہ الدین الخالص تو جس شخص کے نیک اعمال ریا و نمود کے لئے ہوں وہ عمل اللہ کے نزدیک باطل ہوجائے گا۔ اسی طرح صدقات کے بارے میں خود قرآن نے تصریح فرما دی (آیت) لا تبطلوا صدقتکم بالمن والاذی، یعنی اپنے صدقات کو احسان جتلا کر یا غریب کو ایذا دے کر باطل نہ کرو۔ معلوم ہوا کہ جس نے صدقہ دے کر غریب پر احسان جتلایا یا اسے کوئی اور ایذا پہنچائی اس کا صدقہ باطل ہے یہی مفہوم ہوسکتا ہے حضرت حسن بصری کے قول کا جو انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اپنی نیکیوں کو گناہوں کے ذریعہ باطل نہ کرو، جیسا کہ ابن جریج کا قول ہے یعنی بالریآء و السمعة اور مقاتل وغیرہ نے فرمایا بالمن، کیونکہ باتفاق اہل سنت والجماعت کفر و شرک کے علاوہ کوئی گناہ اگرچہ کبیرہ ہو ایسا نہیں جو مومن کے تمام اعمال صالحہ کو حبط اور باطل کر دے مثلاً کسی شخص نے چوری کرلی اور وہ نماز روزہ کا پابند ہے تو شرعاً اس کو یہ نہیں کہا جائے گا کہ تیری نماز اور روزہ بھی باطل ہوگئے اس کی قضا کر، اس لئے ابطال اعمال بالمعاصی سے مراد وہی معاصی ہوں گے جن کے نہ کرنے پر عمل کی مقبولیت کا مدار ہے جیسا ریا و نمود کہ ان کا نہ ہونا ہر عمل صالح کی مقبولیت کی شرط ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت حسن بصری کے قول میں ابطال اعمال سے مراد اعمال صالحہ کی برکات سے محرومی ہو نفس عمل کا ضائع ہوجانا مراد نہ ہو تو یہ تمام معاصی کے لئے شرط ہے، جس شخص کے اعمال میں معاصی کا غلبہ ہو تو اس کے تھوڑے سے نیک اعمال میں بھی وہ برکت نہیں ہوتی کہ عذاب سے بچا لے بلکہ وہ اپنے اعمال کی سزا قاعدہ کے مطابق بھگتے گا مگر بالآخر اپنے ایمان کی برکت سے سزا بھگتنے کے بعد انجام کار نجات پائے گا۔- مسئلہ، تیسری صورت ابطال عمل کی یہ بھی ہے کہ کوئی نیک عمل کر کے اس کو قصداً فاسد کر دے مثلاً نفل نماز یا روزہ شروع کرے پھر بغیر کسی عذر کے اس کو قصداً فاسد کر دے یہ بھی اس آیت کے ذریعہ ناجائز قرار پایا، امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے کہ جو اعمال صالحہ ابتداً فرض یا واجب نہیں تھے مگر کسی نے ان کو شروع کردیا تو اب ان کی تکمیل اس آیت کی رو سے واجب ہوگئی تاکہ ابطال عمل کا مرتکب نہ ہو، اگر کسی نے ایسا عمل شروع کر کے بلا عذر کے چھوڑ دیا یا قصداً فاسد کردیا تو وہ گناہ گار بھی ہو اور اس کے ذمہ قضا بھی لازم ہے۔ امام شافعی کے نزدیک نہ تو قضا لازم ہے اور نہ اس کے فاسد کرنے کا گناہ گار ہوگا کیونکہ جب ابتداً یہ عمل فرض یا واجب نہیں تھا تو بعد میں بھی فرض و واجب نہیں جس کے ترک یا فساد سے گناہ لازم آئے مگر حنفیہ کے نزدیک آیت مذکورہ کے الفاظ عام ہیں ہر عمل صالح کو شامل ہیں خواہ پہلے فرض واجب ہو یا نفلی طور پر کرنا شروع کر دیاہو تو شروع کرنے سے وہ نفلی عمل بھی واجب ہوگیا، تفسیر مظہری میں اس جگہ احادیث کثیرہ سے اس بحث کو مفصل لکھا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَشَاۗقُّوا الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَـبَيَّنَ لَہُمُ الْہُدٰى۝ ٠ ۙ لَنْ يَّضُرُّوا اللہَ شَـيْــــًٔا۝ ٠ ۭ وَسَيُحْبِطُ اَعْمَالَہُمْ۝ ٣٢- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً- ، [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- شقاق - والشِّقَاقُ : المخالفة، وکونک في شِقٍّ غير شِقِ صاحبک، أو مَن : شَقَّ العصا بينک وبینه . قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء 35] ، فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة 137] ، أي : مخالفة، لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود 89] ، وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة 176] ، مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ- [ الأنفال 13] ، أي : صار في شقّ غير شقّ أولیائه، نحو : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة 63] ، ونحوه : وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء 115] ، ويقال : المال بينهما شقّ الشّعرة، وشَقَّ الإبلمة «1» ، أي : مقسوم کقسمتهما، وفلان شِقُّ نفسي، وشَقِيقُ نفسي، أي : كأنه شقّ منّي لمشابهة بعضنا بعضا، وشَقَائِقُ النّعمان : نبت معروف . وشَقِيقَةُ الرّمل :- ما يُشَقَّقُ ، والشَّقْشَقَةُ : لهاة البعیر لما فيه من الشّقّ ، وبیده شُقُوقٌ ، وبحافر الدّابّة شِقَاقٌ ، وفرس أَشَقُّ : إذا مال إلى أحد شِقَّيْهِ ، والشُّقَّةُ في الأصل نصف ثوب وإن کان قد يسمّى الثّوب کما هو شُقَّةً.- ( ش ق ق ) الشق - الشقاق ( مفاعلہ ) کے معنی مخالفت کے ہیں گویا ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اور یا یہ شق العصابینک وبینہ کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی باہم افتراق پیدا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء 35] اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے ۔ فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة 137] تو وہ تمہارے مخالف ہیں ۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة 176] وہ ضد میں ( آکر نیگی سے ) دور ہوگئے ) ہیں ۔ مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال 13] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ یعنی اس کے اولیاء کی صف کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة 63] یعنی جو شخص خدا اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء 115] اور جو شخص پیغمبر کی مخالفت کرے ۔ المال بیننا شق الشعرۃ اوشق الابلمۃ یعنی مال ہمارے درمیان برابر برابر ہے ۔ فلان شق نفسی اوشقیق نفسی یعنی وہ میرا بھائی ہے میرے ساتھ اسے گونہ مشابہت ہے ۔ شقائق النعمان گل لالہ یا اس کا پودا ۔ شقیقۃ الرمل ریت کا ٹکڑا ۔ الشقشقۃ اونٹ کا ریہ جو مستی کے وقت باہر نکالتا ہے اس میں چونکہ شگاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے شقثقۃ کہتے ہیں ۔ بیدہ شقوق اس کے ہاتھ میں شگاف پڑگئے ہیں شقاق سم کا شگاف فوس اشق راستہ سے ایک جانب مائل ہوکر چلنے والا گھوڑا ۔ الشقۃ اصل میں کپڑے کے نصف حصہ کو کہتے ہیں ۔ اور مطلق کپڑے کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے ۔ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- حبط - وحَبْط العمل علی أضرب :- أحدها :- أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] - والثاني :- أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي :- «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» .- والثالث :- أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان .- وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات .- ( ح ب ط ) الحبط - حبط عمل کی تین صورتیں ہیں - ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں - اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو - لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔- ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے - لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

بیشک جو لوگ کافر ہوئے انہوں نے دوسروں کو بھی دین الہی اور اطاعت خداوندی سے روکا اور توحید کے اظہار کے بعد دین میں رسول اکرم کی مخالفت کی تو احکام الہی میں ان کی مخالفت اور بغض و عداوت اور کفر وغیرہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور بدر کے دن ہم ان کی نیکیوں اور مال و دولت کے خرچ کرنے کو مٹا دیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَشَآقُّــوا الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدٰی لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْئًا وَسَیُحْبِطُ اَعْمَالَہُمْ ” یقینا وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور جو روکتے رہے دوسروں کو اللہ کے راستے سے اور وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں سرگرم رہے اس کے بعد کہ ان کے لیے ہدایت واضح ہوچکی تھی ‘ وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اور وہ ان کے اعمال کو اکارت کر دے گا۔ “- گزشتہ آیات میں منافقین کے حبط ِاعمال کا ذکر تھا ‘ اب آیت زیر مطالعہ میں کفارِ مکہ کے اعمال کی بربادی کا بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنے زعم میں بیت اللہ کے متولی ّہونے اور حاجیوں کی خدمت بجا لانے جیسی نیکیوں پر پھولے نہیں سماتے ‘ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کی سند کے بغیر ان کا کوئی عمل بھی قابل قبول نہیں ہے۔ سورة التوبہ کی اس آیت میں ان لوگوں کو اس حوالے سے براہ راست مخاطب کیا گیا ہے : اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط (آیت ١٩) ” کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد رکھنے کو برابر کردیا ہے اس شخص (کے اعمال ) کے جو ایمان لایا اللہ پر اور یوم آخرت پر اور اس نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں ؟ “- آیت زیر مطالعہ میں ” اللہ کے راستے سے روکنے اور اللہ اور رسول کی مخالفت “ کے حوالے سے مشرکین مکہ کی اس طویل اور جاں گسل ” جدوجہد “ کی طرف بھی اشارہ ہے جس میں پچھلے اٹھارہ برسوں سے وہ اپنا تن من دھن کھپا رہے ہیں۔ آخر انہوں نے بھی تو اپنے ” دین “ کے لیے جنگیں لڑیں تھیں اور ان جنگوں میں انہوں نے جان و مال کی قربانیاں بھی دیں تھیں۔ صرف جنگ ِبدر میں انہوں نے اپنے ٧٠ جنگجو قربان کیے تھے۔ اس جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ان کا جذبہ انفاق بھی دیدنی تھا۔ نو سو اونٹ تو انہوں نے صرف لشکر کی غذائی ضروریات (نو یا دس اونٹ روزانہ کے حساب سے) پوری کرنے کے لیے مہیا کیے تھے۔ اس ایک مد کے اخراجات سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ” دین “ کے راستے میں کیسی کیسی قربانیاں دیں اور اپنے زعم میں کتنی بڑی بڑی نیکیاں کمائیں تھیں۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ میں ان پر واضح کیا جا رہا ہے کہ اپنے زعم میں تم لوگوں نے جو بڑی بڑی نیکیاں کما رکھی ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے کفر اور اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تمہاری مخالفت کی وجہ سے وہ سب برباد کردی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :39 اس فقرے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ جن کاموں کو انہوں نے اپنے نزدیک نیک سمجھ کر کیا ہے ، اللہ ان سب کو ضائع کر دے گا اور آخرت میں ان کا کوئی اجر بھی رہ نہ پا سکیں گے ۔ دوسرا مطلب یہ کہ جو تدبیریں بھی وہ اللہ اور اس کے رسول کے دین کا راستہ روکنے کے لیے کر رہے ہیں وہ سب ناکام و نامراد ہو جائیں گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ جو سازشیں اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو ملیا میٹ کردے گا، اور وہ مطلب بھی ہوسکتا ہے جو سورت کی پہلی آیت میں فرمایا گیا تھا کہ ان کے جو کوئی اچھے کام ہیں، آخرت میں ان پر کوئی ثواب نہیں ملے گا۔