24۔ 1 جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام حدیبیہ میں تھے تو کافروں نے 80 آدمی، جو ہتھیاروں سے لیس تھے، اس نیت سے بھیجے کہ اگر ان کو موقع مل جائے تو دھوکے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ اکرام کے خلاف کاروائی کریں چناچہ یہ مسلح جتھہ جبل تغیم کی طرف سے حدیبیہ میں آیا جس کا علم مسلمانوں کو بھی ہوگیا اور انہوں نے ہمت کر کے تمام آدمیوں کو گرفتار کرلیا اور بارگاہ رسالت میں پیش کردیا۔ ان کا جرم شدید تھا اور ان کو جو بھی سزا دی جاتی، صحیح ہوتی۔ لیکن اس میں خطرہ یہی تھا پھر جنگ ناگزیر ہوجاتی۔ جب کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس موقعے پر جنگ کے بجائے صلح چاہتے تھے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا مفاد تھا۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو معاف کر کے چھوڑ دیا (صحیح مسلم)
[٣٤] صلح حدیبیہ کی مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ : صبح کی نماز کے قریب آپ اور صحابہ تنعیم کے پہاڑ سے اترے۔ کافر لوگ یہ چاہتے تھے کہ آپ کو مار ڈالیں مگر سب کے سب پکڑے گئے۔ پھر آپ نے ان سب کو آزاد کردیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- ٢۔ حدیبیہ کے مقام پر آپ کا معجزہ اور پانی کی مشکل کا حل :۔ مسور بن مخرمہ اور مروان دونوں روایت کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ مکہ سے نکلے۔ ابھی راہ میں ہی تھے کہ آپ نے فرمایا : خالد بن ولید دو سو سواروں کا ہر اول دستہ لئے غمیم تک آچکا ہے۔ لہذا تم داہنی طرف کا رستہ لو خالد کو مسلمانوں کی آمد کی اس وقت خبر ہوئی جب اس نے سواروں کی گرد اڑتی دیکھی تو وہ قریش کو ڈرانے کے لئے دوڑا۔ جب آپ اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے مکہ کو اترتے ہیں تو آپ کی اونٹنی قصواء اَڑ گئی۔ آپ نے فرمایا : قصواء کو اسی اللہ نے روکا ہے جس نے اصحاب الفیل کو روکا تھا۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اہل مکہ مجھ سے کوئی ایسی بات چاہیں جس میں اللہ کے حرم کی تعظیم ہو تو میں اسے مان لوں گا۔ چناچہ آپ وہاں سے مڑ کر گئے اور حدیبیہ کے پرلے کنارے پر ڈیرے ڈال دیئے۔ وہاں ایک گڑھا تھا جس میں پانی بہت کم تھا۔ لوگوں نے آپ سے پیاس کا شکوہ کیا آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر صحابہ سے کہا کہ اسے گڑھے میں گاڑ دو تیر گاڑتے ہی پانی جوش مارنے لگا۔ پھر آپ کی وہاں سے واپس تک کسی کو پانی کی کمی کی شکایت نہیں ہوئی۔- خ صلح کی تفصیل :۔ اس دوران بدیل بن ورقاء خزاعی اپنے کئی آدمیوں سمیت وہاں پہنچا۔ وہ تہامہ والوں میں سے آپ کا خیرخواہ اور محرم راز تھا۔ وہ کہنے لگا کہ کعب بن لوئی اور عامربن لوئی نے حدیبیہ پہنچ کر زیادہ پانی والے چشموں پر ڈیرہ ڈال دیا ہے اور وہ آپ سے لڑنا اور آپ کو مکہ جانے سے روکنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا : ہم لڑنے نہیں آئے صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں۔ قریش بھی لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو میں ایک مقررہ مدت تک ان سے صلح کرنے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہ دوسروں کے معاملہ میں دخل نہ دیں۔ اگر دوسرے لوگ مجھ پر غالب آجائیں تو ان کی مراد برآئی۔ اور اگر میں غالب ہوا پھر اگر وہ چاہیں تو اسلام لے آئیں ورنہ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے دین کے معاملہ میں لڑوں گا۔ یہاں تک میری جان چلی جائے اور اللہ ضرور اپنے دین کو پورا کرکے رہے گا، بدیل نے کہا : میں آپ کا یہ پیغام قریش کو پہنچا دیتا ہوں - بدیل بن ورقاء کا آپ کا پیغام پہنچانا اور اس کا جواب :۔ چناچہ بدیل قریش کے پاس آئے اور کہنے لگے : محمد نے ایک بات کہی ہے اتنی بات کہنے پر ہی کچھ جلد باز بیوقوف کہنے لگے۔ ہمیں کوئی بات سننے کی ضرورت نہیں۔ مگر جو عقل والے تھے وہ کہنے لگے کہ بتاؤ تو سہی وہ کیا کہتے ہیں۔ چناچہ بدیل نے وہ سب کچھ بیان کردیا جو انہوں نے آپ سے سنا تھا۔ - قریش کے پہلے سفیر عروہ بن مسعود کی رپورٹ :۔ یہ سن کر عروہ بن مسعود ثقفی قریش سے کہنے لگے۔ اگر مجھ پر اعتماد کرتے ہو تو محمد کے پاس جانے دو ۔ قریش نے کہا۔ اچھا جاؤ۔ عروہ آیا تو آپ نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل کو کہی تھی۔ عروہ کہنے لگا : محمد اگر تم نے اپنی قوم کو تباہ کردیا تو یہ اچھی بات نہ ہوگی اور قریش غالب آگئے تو تمہارے یہ ساتھی تمہیں چھوڑ کر چلتے بنیں گے اس بات پر ابوبکر صدیق (رض) غصہ میں آگئے اور عروہ کو کہا : جا جاکر لات کی شرمگاہ چوس۔ کیا ہم آپ کو چھوڑ جائیں گے ؟ عروہ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : ابوبکر صدیق (رض) عروہ نے کہا اگر تمہارا مجھ پر احسان نہ ہوتا تو میں تمہیں اس کا جواب دیتا پھر عروہ باتیں کرتا تو آپ کی داڑھی تھام لیتا اور مغیرہ بن شعبہ تلوار کے دستے سے اس کا ہاتھ پیچھے ہٹا دیتے۔ پھر وہ آپ کے صحابہ کو بغور ملاحظہ کرنے لگا۔ پھر اپنے ساتھیوں کے پاس جاکر کہنے لگا : میں بادشاہوں کے پاس کئی بار جا چکا ہوں۔ روم، ایران اور حبش کے بادشاہوں کے ہاں گیا۔ اللہ کی قسم میں نے نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے تھوکا تو کوئی اپنے ہاتھ میں لیتا اور اپنے منہ اور بدن پر مل لیتا ہے۔ وہ کوئی حکم دیتا ہے تو لپک کر اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔ وہ وضو کریں تو وضو کا پانی حاصل کرنے کے لئے قریب ہوتے تھے کہ لڑ مریں گے وہ بات کریں تو اپنی آواز پست کرلیتے ہیں اور از راہ ادب انہیں نظر بھر کر دیکھتے بھی نہیں۔ لہذا محمد نے جو بات کی ہے وہ تمہارے فائدے کی ہے۔ اس کو مان لو - خ دوسرے سفیر کی رپورٹ :۔ اب بنی کنانہ کا ایک شخص بولا مجھے ان کے پاس جانے دو لوگوں نے کہا : اچھا جاؤ جب وہ آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے فرمایا : اب جو شخص آرہا ہے۔ یہ بیت اللہ کی قربانی کی عظمت کرنے والوں سے ہے۔ لہذا قربانی کے جانور اس کے آگے کردو چناچہ وہ جانور اس کے سامنے لائے گئے اور صحابہ نے لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہ کہہ اٹھا سبحان اللہ ایسے لوگوں کو کعبے سے روکنا مناسب نہیں وہ واپس چلا گیا اور جاکر کہا : میں نے اونٹوں کے گلے میں ہار اور ان کے کوہان چرے خود دیکھے ہیں۔ میں تو انہیں بیت اللہ سے روکنا درست نہیں سمجھتا - خ تیسرا سفیر سہیل بن عمرو اس کے اعتراضات اور صلح کی شرائط :۔ اس کے بعد قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو (سفیر بن کر) آیا۔ اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا : اب تمہارا کام سہل ہوگیا سہیل کہنے لگا : اچھا لائیے، ہمارے اور تمہارے درمیان ایک صلح نامہ لکھا جائے۔ آپ نے منشی (سیدنا علی (رض) کو بلایا اور فرمایا : لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل کہنے لگا : عرب کے دستور کے موافق باسمک اللّٰھم لکھوائیے۔ آپ نے کاتب سے فرمایا : اچھا باسمک اللّٰھم ہی لکھ دو ۔ پھر آپ نے لکھوایا : محمد اللہ کے رسول۔۔ اس پر سہیل نے فوراً اعتراض کردیا اور کہا محمد بن عبداللہ لکھوایا جائے آپ نے فرمایا : اچھا محمد بن عبداللہ ہی لکھ دو ۔ اور لکھو محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی کہ تم لوگ انہیں بیت اللہ جانے دو گے ہم وہاں طواف کریں گے سہیل نے کہا۔ اگر ہم ابھی تمہیں جانے دیں تو سارے عرب میں چرچا ہوجائے گا کہ ہم دب گئے۔ لہذا تم آئندہ سال آؤ۔ (دوسری شرط) سہیل نے یہ لکھوائی۔ اگر ہم میں سے کوئی شخص خواہ وہ مسلمان ہوگیا ہو تمہارے پاس (مدینہ) چلا جائے تو تم اس کو ہمارے پاس لوٹاد و گے صحابہ کہنے لگے : سبحان اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور اسے مشرکوں کے حوالے کردیا جائے ؟ - خ ابو جندل کا قصہ :۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اتنے میں سہیل بن عمرو کا اپنا بیٹا ابو جندل (جو مسلمان ہوچکا تھا) پابہ زنجیر مکہ سے فرار ہو کر مسلمانوں کے پاس جاپہنچا۔ سہیل کہنے لگا : محمد یہ پہلا شخص ہے جو شرط کے موافق واپس کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا : ابھی تو صلح نامہ پورا لکھا بھی نہیں گیا سہیل کہنے لگا : اچھا تو پھر میں صلح ہی نہیں کرتا آپ نے فرمایا : اچھا خاص ابو جندل کی پروانگی دے دو سہیل کہنے لگا : میں کبھی نہ دوں گا آخر ابو جندل کہنے لگے : میں مسلمان ہو کر آیا ہوں اور کافروں کے حوالہ کیا جارہا ہوں۔ دیکھو مجھ پر کیا کیا سختیاں ہوئی ہیں - خ سیدنا عمر کی دینی غیرت :۔ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ یہ صورت حال دیکھ کر میں آپ کے پاس آیا اور کہا آپ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں ؟ آپ نے فرمایا، کیوں نہیں میں نے کہا، کیا ہم حق پر اور دشمن ناحق پر نہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں میں نے کہا : تو پھر ہم اپنے دین کو ذلیل کیوں کریں آپ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول اور اس کی نافرمانی نہیں کرتا وہ میری مدد کرے گا میں نے کہا : آپ نے تو کہا تھا کہ ہم کعبہ کے پاس پہنچ کر طواف کریں گے ؟ آپ نے فرمایا : مگر میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ اسی سال ہوگا اس کے بعد میں نے ابوبکر صدیق (رض) کے پاس جاکر وہی سوال کئے جو آپ سے کئے تھے اور انہوں نے بھی بالکل وہی جواب دیئے جو آپ نے دیئے تھے۔ اس موقعہ پر مجھ سے جو بےادبی کی گفتگو ہوئی اس گناہ کو دور کرنے کے لئے میں نے کئی نیک عمل کئے - خ صحابہ پر مایوسی کا عالم اور قربانی کرنے سے گریز جب صلح نامہ پورا ہوگیا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا : اٹھو اور اونٹوں کو نحر کرو اور سر منڈاؤ آپ نے یہ کلمات تین بار کہے مگر صحابہ (اتنے افسردہ دل تھے کہ کسی نے اس پر عمل نہ کیا) یہ صورت حال دیکھ کر آپ نے ام سلمہ کے پاس جاکر ساری صورت حال بیان کی تو انہوں نے کہا : یارسول اللہ آپ کسی سے کچھ نہ کہئے۔ بلکہ اپنے اونٹ نحر کیجئے اور حجامت بنوالیجئے چناچہ آپ نے ایسا ہی کیا تو آپ کو دیکھ کر سب صحابہ نے بھی اپنے اونٹ نحر کئے اور ایک دوسرے کے سر مونڈنے لگے - خ ابو بصیر اور ابو جندل کا قصہ آپ واپس مدینہ پہنچ گئے تو مکہ سے ایک شخص ابو بصیر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آگیا۔ قریش نے اسے واپس لانے کے لئے دو آدمی مدینہ بھیجے اور کہا کہ معاہدہ کی رو سے ابو بصیر کو واپس کیجئے آپ نے ابو بصیر کو ان کے حوالے کردیا۔ ابو بصیر نے راستہ میں ایک شخص کو تو قتل کردیا اور دوسرا بھاگ نکلا اور بھاگ کر مدینہ آپ کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا : اللہ کی قسم میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی نہ بچوں گا اتنے میں ابو بصیر بھی وہاں پہنچ گئے اور کہا : یارسول اللہ آپ نے اپنا عہد پورا کرتے ہوئے مجھے واپس کردیا تھا۔ اب اللہ نے مجھے اس سے نجات دلائی ہے آپ نے فرمایا : تیری ماں کی خرابی ہو اگر کوئی تیرا ساتھ دے تو تو لڑائی کو بھڑکانا چاہتا ہے یہ سن کر ابو بصیر سمجھ گیا کہ آپ پھر اسے لوٹا دیں گے چناچہ وہ سیدھا نکل کر سمندر کے کنارے پہنچا اور ابو جندل بن سہیل بھی مکہ سے بھاگ کر ابو بصیر کے ساتھ آملا۔ اب قریش کا جو آدمی مسلمان ہو کر مکہ سے نکلتا وہ ابو بصیر کے پاس چلا جاتا یہاں تک ان کی ایک جماعت بن گئی اور قریش کا جو قافلہ شام کو جاتا اسے روک لیتے اور لوٹ مار کرتے۔ آخر قریش نے تنگ آکر آپ کو اللہ اور رشتہ ناطہ کی قسمیں دے کر کہلا بھیجا کہ آپ ابو بصیر کو اپنے ہاں بلالیں اور آئندہ جو مسلمان آپ کے پاس آئے وہ ہمیں واپس نہ کریں۔ چناچہ آپ نے ابو بصیر کو اپنے پاس بلالیا (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ۔۔ )
(١) وھو الذی کف ایدیھم عنکم و ایدیکم عنھم …: جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) حدیبیہ میں تھے تو صلح کی بات چیت کے دوران اور صلح ہوجانے کے بعد بھی مشرکین نے کوششیں کیں کہ کسی طرح لڑائی چھڑ جائے اور صلح نہ ہو سکے۔ ان کے متعدد گروہ چھپ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے خلاف کارروائی کے لئے آئے، مگر کوئی نقصان نہ پہنچا سکے، بلکہ ہر مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ انہیں قتل بھی کیا جاسکتا تھا مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں چھوڑ دیا، کیونکہ سزا دینے کی صورت میں جنگ ناگزیر ہوجاتی جب کہ مسلمانوں کی مصلحت صلح میں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے اس احسان کی یاد دہانی کروائی ہے۔ یہاں کفار کی ان کوششوں کے تین واقعات درج کئے جاتے ہیں۔- (١) سلمہ بن اکوع (رض) کہتے ہیں، میں طلحہ بن عبید اللہ (رض) کے ساتھ رہتا تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا ، اس کی مالش کرتا، ان کی خدمت کرتا اور انھی کے ہاں کھانا کھایا کرتا تھا اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے اپنا اہل و مال چھوڑ آیا تھا۔ پھر جب ہماری اور اہل مکہ کی صلح ہوگئی اور ہم ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے تو میں ایک درخت کے نیچے کانٹے وغیرہ صاف کر کے اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ اہل مکہ میں چار مشرک میرے پاس آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بد زبانی کرنے لگے۔ میں ان سے نفرت کی وجہ سے ایک اور درخت کے نیچے چلا گیا اور وہ اپنا اسلحہ درخت کے ساتھ لٹکا کر لیٹ گئے۔ اسی دوران وادی کے نیچے سے کسی نے آواز دی :” او مہاجرو ابن زینم کو ق تل کردیا گیا۔ “ میں نے اپنی تلوار لی اور انچ اورں پر حملہ کردیا، وہ سوئے ہوئے تھے، میں نے ان کا اسلحہ لے کر اپنی مٹھی میں اکٹھا کرلیا اور ان سے کہا :” قسم اس ذات کی جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کو عزت بخشی ہے تم میں سے جو بھی سر اٹھائے گا میں اس کا سر اڑا دوں گا جس میں اس کی آنکھیں ہیں۔ “ خیر میں انہیں ہانکتا ہوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا اور میرا چچا عامر عبلات میں سے ” مکرز “ نامی ایک مشرک کو کھینچتا ہوا لایا۔ یہاں تک ہم نے انہیں ستر (٧٠) مشرکین سمیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لا کھڑا کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طسرف دیکھا اور فرمایا :(دعوھم یکن لھم بدء الفجور و ثناہ)” انہیں چھوڑ دو ، تاکہ عہد شکنی کی ابتدا اور دہرائی انھی کے ذمے رہے۔ “ غرض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم و ایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفر کم علیھم) (الفتح : ٢٣)” اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح دے دی۔ “ (مسلم الجھاد، باب غزوۃ ذی فرد وغیرھا :1808)- (٢) انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل مکہ میں سے اسی (٨٠) مسلح آدمی جبل تنعیم سے اتر کر آئے۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کی غفلت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، مگر آپ نے انہیں زندہ سلامت گرفتار کرلیا۔ پھر انہیں زندہ ہی رہنے دیا تو اللہ عزو جل نے یہ آیت اتاری :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفرکم علیھم) (الفتح : ٢٣)” اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح دے دی۔ “ (مسلم، الجھاد، باب قول اللہ تعالیٰ :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم ):1808- (٣) عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حدیبیہ میں اس درخت کے نیچے موجود تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔ اس کی ٹہنیاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کمر سے لگ رہی تھیں اور علی بن ابی طالب (رض) اور سہیل بن عمرو آپ کے سامنے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (رض) نے علی (رض) سے فرمایا :” لکھو، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ “ تو سہیل نے ملان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا :” ہم نہیں جانتے رحمان کیا ہوتا ہے، ہمارے معاملے میں وہی لکھو جو ہمارے ہاں معروف ہے۔ “ اس نے کہا : ” یہ لکھو :” باسمک اللھم۔ “ پھر انہوں نے لکھا :” یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ سے صلح کی ہے۔ “ تو سہیل بن عمرو نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا :” اللہ کی قسم اگر آپ اللہ کے رسول ہوں تو ہم نے آپ پر ظلم کیا، ہمارے معاملے میں وہ لکھو جو ہمارے ہاں معروف ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” لکھو، یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب نے صلح کی ہے اور میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ “ یہ معاملہ ہو رہا تھا کہ تیس مسلح نوجوان نکل کر ہمارے سامنے آگئیا ور ہمارے سامنے آکر مشتعل ہوگئے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر بد دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھا کردیا، ہم نے بڑھ کر انہیں گرفتار کرلیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا :” کیا تم کسی کے عہد میں آئے ہو یا کسی نے تمہیں امان دی ہے ؟ “ انہوں نے کہا :” نہیں “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں رہا کردیا، اس پر اللہ عزو جل نے یہ آیت نازل فرمائی :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم بب طن مکۃ من بعد ان اظفر کم علیھم وکان اللہ بما تعملون بصیراً ) (الفتح : ٢٣)” اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پرف تح دے دی اور اللہ اس کو جو تم کرتے ہو ، ہمیشہ سے خوب دیکھنے والا ہے۔ “ (مسند احمد : ٣ ٨٦، ٨٨، ح : ١٦٨٠٥) مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔- (٢) یہاں بیت اللہ والے شہر کا نام ” مکہ “ بیان فرمایا ہے، جب کہ سورة آل عمران (٩٦) میں اس کا نام ” بکہ “ قرار دیا ہے، معلوم ہوا اس شہر کے دونوں نام ہیں۔- (٣) وکان اللہ بما تعملون بصیراً : یعنی اللہ تعالیٰ کفار کی سرا سر زیادتی اور تمہارے صبر اور اطاعت کو خوب دیکھ رہا تھا، اس کے باوجود اس نے بہت سی مصلحتوں کے پیش نظر ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے۔
معارف و مسائل - بِبَطْنِ مَكَّةَ ، اس لفظ کے اصلی معنی عین مکہ کے ہیں مگر یہاں اس سے مراد مقام حدیبیہ ہے اس کو مکہ مکرمہ سے بہت متصل ہونے کی بناء پر بطن مکہ سے تعبیر کردیا گیا ہے اور اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے جو حنفیہ نے اختیار کی ہے کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ حرم میں داخل ہے (آیت) ان یبلغ محلہ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محصر عن الحج و العمرہ یعنی جس کو احرام باندھنے کے بعد کسی وجہ سے دخول مکہ سے روک دیا گیا ہو اس پر باتفاق یہ تو لازم ہے کہ قربانی کر کے احرام سے حلال ہو لیکن اس میں اختلاف ہے کہ یہ قربانی اسی جگہ ہو سکتی ہے جہاں وہ روک دیا گیا ہے، یا دوسری قربانیوں کی طرح اس کے لئے بھی حدود حرم کے اندر ہونا شرط ہے حنفیہ کے نزدیک اس کے لئے بھی حدود حرم شرط ہیں اس آیت سے ان کا استدلال ہے کہ یہاں اس قربانی کے لئے قرآن نے ایک خاص محل قرار دیا ہے جس سے کفار نے مسلمانوں کو روک دیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ اس قربانی کے لئے حدود حرم میں ہونا شرط ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ خود حنفیہ ہی کا یہ قول بھی ہے کہ حدیبیہ کے بعض حصے حرم میں داخل ہیں تو پھر حرم سے روکنا کیسے ثابت ہوا، تو جواب یہ ہے کہ اگرچہ اس قربانی کا حدود حرم میں کسی بھی جگہ کردینا شرعاً کافی ہے مگر اس خاص جگہ میں جو منیٰ کے اندر منحر کے نام سے موسوم ہے اس میں ہونا افضل ہے۔ کفار مکہ نے اس وقت مسلمانوں کو اس افضل مقام تک قربانی کا جانور لے جانے سے روک دیا تھا۔
وَہُوَالَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَہُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَكَّۃَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْہِمْ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا ٢٤- كف - الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله :- وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی.- ( ک ف ف ) الکف - کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - بطن - أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر :- 58-- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس - «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر :- ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن .- قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» .- وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته .- ( ب ط ن )- البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔- مكك - اشتقاق مكّة من : تمكّكت العظم : أخرجت مخّه، وامتکّ الفصیل ما في ضرع أمّه، وعبّر عن الاستقصاء بالتّمكّك وروي أنه قال عليه الصلاة والسلام : «لا تمكّوا علی غرمائكم» وتسمیتها بذلک لأنها کانت تمكّ من ظلم بها . أي : تدقّه وتهلكه قال الخلیل : سمّيت بذلک لأنها وسط الأرض کالمخّ الذي هو أصل ما في العظم، والمَكُّوك : ط اس يشرب به ويكال کالصّواع .- ( م ک ک ) مکۃ یہ ایک مشہور شہر کا نام ہے اور تمککت العظم سے مشتق ہے جس کے معنی ہڈی سے گودا اور مغز نکالنے کے ہیں ۔ امتک الفصیل مافی ضر ع امہ اونٹ کے بچے نے اپنی ماں کے تھنوں سا را دودھ چوس لیا ۔ اسی سے تمکک بمعنی استقصا استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ حدیث میں ہے اپنے قر ضداروں سے مطالبہ میں اصرار نہ کرو ۔ اور مکۃ کو مکۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی حد دو کے اندر ظلم کرنے والوں کو ہلاک کردیتا ہے خلیل کا قول ہے کہ روئے زمین کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے اسے مکہ کہا گیا ہے جیسا کہ مغز ہڈی کے درمیان میں ہوتا ہے ۔ المکوک ( والجمع مکا کی صواع کی طرح ایک ط اس جو پانی پینے اور غلہ ماپنے کے کام آتا ہے ( یہ صاع ہوتا ہے )- ظفر - الظُّفْرُ يقال في الإنسان وفي غيره، قال تعالی: وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ- [ الأنعام 146] ، أي : ذي مخالب، ويعبّر عن السّلاح به تشبيها بِظُفُرِ الطائرِ ، إذ هو له بمنزلة السّلاح، ويقال : فلان كَلِيلُ الظُّفُرِ ، وظَفَرَهُ فلانٌ: نشب ظُفُرَهُ فيه، وهو أَظْفَرُ : طویلُ الظُّفُرِ ، والظَّفَرَةُ : جُلَيْدَةٌ يُغَشَّى البصرُ بها تشبيها بِالظُّفُرِ في الصّلابة، يقال : ظَفِرَتْ عينُهُ ، والظَّفَرُ : الفوزُ ، وأصله من : ظَفِرَ عليه . أي : نشب ظُفْرُهُ فيه . قال تعالی: مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ [ الفتح 24] .- ( ظ ف ر ) الظفر ( ناخن ) یہ لفظ انسان اور دوسرے جانوروں کے ناخن پر بھی بولا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] تمام ناخن دار جانور میں ذی ظفر سے ذی مخلب یعنی پختہ دار شکار ی جانور مراد ہیں اور پرندہ کا ناخن چونکہ اس کا اوزار ہوتا ہے اس منا سبت سے ظفر کا لفظ سلاح یعنی ہتھیار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان کلیل الظفر فلاں کند ہتھیار یعنی کمزور ہے ۔ ظفر ہ فلان فلاں نے اس میں اپنے ناخن گاڑ دیئے ۔ الاظفر لمبے ناخن والا ۔ الظفرۃ ( ناخنہ چشم ایک قسم کی جھلی جو آنکھ کو ڈھانپ لیتی ہے اور ماخن کی طرح سخت ہوتی ہے ۔ ظفرت عینہ اس کی آنکھ پر ناخنہ چھا گیا ۔ الظفر : کامیاب ہونا یہ مفہوم دراصل ظفرہ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ناخن گاڑ دینے کے ہیں ۔ اطفرہ کامیاب کردینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ [ الفتح 24] اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح یاب کردیا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے
اسی نے مکہ والوں کے ہاتھ تمہارے قتل سے اور تمہارے ہاتھ مکہ والوں کے قتل سے عین مکہ مکرمہ کے نزدیک روک دیے، گو پتھر تو برسے بعد اس کے کہ تمہیں ان پر قابو دے دیا تھا یہاں تک صحابہ کرام نے ان کو مار کر بھگا دیا کہ وہ مکہ مکرمہ میں جا گھسے اور اللہ تعالیٰ تمہارے ان کاموں کو دیکھ رہا تھا۔- شان نزول : وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ (الخ)- امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ حدیبیہ کے دن رسول اکرم اور صحابہ پر اسی آدمیوں نے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر تنعیم پہاڑ کی طرف سے حملہ کیا وہ رسول اکرم کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ چناچہ ان سب کو پکڑ لیا گیا پھر آپ نے ان سب کو آزاد کردیا اسی کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ہے۔ اور امام مسلم نے اسی طرح سلمہ بن اکوع سے بھی روایت نقل کی ہے۔- امام احمد و نسائی نے عبداللہ بن مغفل سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ابن اسحاق نے بھی ابن عباس سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
آیت ٢٤ وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ ” اور وہی ہے جس نے روک دیے ان کے ہاتھ تمہاری طرف بڑھنے سے اور تمہارے ہاتھ ان کی طرف بڑھنے سے مکہ کی وادی میں “- مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ ” اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر فتح دے دی تھی۔ “- یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے قریش ِمکہ ّکے حوصلے پست کردیے گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے لیے مسلمانوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہ رہا اور انہوں نے اپنی تمام تر طاقت کے باوجود مسلمانوں کو اپنے برابر کا فریق تسلیم کرتے ہوئے ان سے صلح کرلی۔ اس صلح میں اگلے سال مسلمانوں کے عمرہ کرنے اور اس دوران مکہ شہر کو تین دن کے لیے مکمل طور پر خالی کردینے جیسی شرائط بھی شامل تھیں۔ دیکھا جائے تو قریش مکہ کے لیے مسلمانوں کو اپنا ہم ‘ پلہ ّسمجھتے ہوئے صلح کرنا اور پھر ایسی شرائط تسلیم کرلینا موت کا سامنا کرنے سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ بہر حال اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اندرونی طور پر اس قدر کمزور کردیا تھا کہ وہ یہ سب کچھ قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اس کے مقابلے میں وہ مسلمانوں سے صرف ایک یہ بات منوا سکے کہ اس سال عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں تاکہ وقتی طور پر ان کی ” ناک “ مکمل طور پر کٹنے سے بچ جائے۔ - وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا ” اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ “
22: جب حضرت عثمان (رض) مکہ مکرمہ جاکر قریش کے لوگوں کو صلح کا پیغام دے رہے تھے، اس وقت مکہ مکرمہ کے کافروں نے پچاس آدمی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس غرض سے بھیجے تھے کہ وہ خفیہ طور سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کرکے (معاذاللہ) آپ کو شہید کردیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار کرادیا، دوسری طرف جب قریش نے ان آدمیوں کی گرفتاری کی خبر سنی تو انہوں نے حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کو روک لیا، اس وقت اگر مسلمان ان پچاس آدمیوں کو قتل کردیتے تو جواب میں قریش کے لوگ حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرتے، اور مکمل جنگ چھڑ جاتی، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ان قیدیوں کو قتل نہ کریں، اور مسلمانوں کے ہاتھوں کو ان کے قتل سے روک دیا، حالانکہ وہ ان کے قابو میں آچکے تھے، اور دوسری طرف قریش کے ہاتھوں کو مسلمانوں سے لڑنے سے اس طرح روک دیا کہ ان کے دل میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ صلح پر راضی ہوگئے، حالانکہ حضرت عثمان (رض) سے وہ صاف انکار کرچکے تھے۔