Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تصدیق رسالت بزبان الہ ان آیتوں میں پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و ثنا بیان ہوئی کہ آپ اللہ کے برحق رسول ہیں پھر آپ کے صحابہ کی صفت و ثنا بیان ہو رہی ہے کہ وہ مخالفین پر سختی کرنے والے اور مسلمانوں پر نرمی کرنے والے ہیں جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اذلتہ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین ) مومنوں کے سامنے نرم کفار کے مقابلہ میں گرم ، ہر مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ مومنوں سے خوش خلقی اور متواضع رہے اور کفار پر سختی کرنیوالا اور کفر سے ناخوش رہے ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ١٢٣؁ ) 9- التوبہ:123 ) ایمان والو اپنے پاس کے کافروں سے جہاد کرو وہ تم میں سختی محسوس کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں آپس کی محبت اور نرم دلی میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر کسی ایک عضو میں درد ہو تو سارا جسم بیقرار ہو جاتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں مومن مومن کے لئے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے اور مضبوط کرتا ہے ، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ملا کر بتائیں پھر ان کا اور وصف بیان فرمایا کہ نیکیاں بکثرت کرتے ہیں خصوصاً نماز جو تمام نیکیوں سے افضل و اعلیٰ ہے پھر ان کی نیکیوں میں چار چاند لگانے والی چیز کا بیان یعنی ان کے خلوص اور اللہ طلبی کا کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں ۔ یہ اپنے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں جو جنت ہے اور اللہ کے فضل سے انہیں ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی بھی انہیں عطا فرمائے گا جو بہت بڑی چیز ہے جیسے فرمایا آیت ( وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ 72؀ۧ ) 9- التوبہ:72 ) اللہ تعالیٰ کی ذرا سی رضا بھی سب سے بڑی چیز ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ چہروں پر سجدوں کے اثر سے علامت ہونے سے مراد اچھے اخلاق ہیں مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں خشوع اور تواضع ہے ، حضرت منصور حضرت مجاہد سے کہتے ہیں میرا تو یہ خیال تھا کہ اس سے مراد نماز کا نشان ہے جو ماتھے پر پڑ جاتا ہے آپ نے فرمایا یہ تو ان کی پیشانیوں پر بھی ہوتا ہے جن کے دل فرعون سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں حضرت سدی فرماتے ہیں نماز ان کے چہرے اچھے کر دیتی ہے بعض سلف سے منقول ہے جو رات کو بکثرت نماز پڑھے گا اس کا چہرہ دن کو خوبصورت ہو گا ۔ حضرت جابر کی روایت سے ابن ماجہ کی ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ نیکی کی وجہ سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے چہرے پر روشنی آتی ہے روزی میں کشادگی ہوتی ہے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے ۔ امیرا لمومنین حضرت عثمان کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے اندرونی پوشیدہ حالات کی اصلاح کرے اور بھلائیاں پوشیدگی سے کرے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کی سلوٹوں پر اور اسکی زبان کے کناروں پر ان نیکیوں کو ظاہر کر دیتا ہے الغرض دل کا آئینہ چہرہ ہے جو اس میں ہوتا ہے اس کا اثر چہرہ پر ہوتا ہے پس مومن جب اپنے دل کو درست کر لیتا ہے اپنا باطن سنوار لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی لوگوں کی نگاہوں میں سنوار دیتا ہے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں جو شخص اپنے باطن کی اصلاح کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی آراستہ و پیراستہ کر دیتا ہے ، طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص جیسی بات کو پوشیدہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اڑھا دیتا ہے اگر وہ پوشیدگی بھلی ہے تو بھلائی کی اور اگر بری ہے تو برائی کی ۔ لیکن اس کا ایک راوی عراقی متروک ہے ۔ مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی ٹھوس چٹان میں گھس کر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو نہ اس میں کوئی سوراخ ہو کوئی عمل کرے گا اللہ اسے بھی لوگوں کے سامنے رکھ دے گا برائی ہو تو یا بھلائی ہو تو ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے نیک طریقہ ، اچھا خلق ، میانہ روی نبوۃ کے پچیسویں حصہ میں سے ایک حصہ ہے ۔ الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیتیں خالص تھیں اعمال اچھے تھے پس جس کی نگاہ ان کے پاک چہروں پر پڑتی تھی اسے ان کی پاکبازی جچ جاتی تھی اور وہ ان کے چال چلن اور ان کے اخلاق اور ان کے طریقہ کار پر خوش ہوتا تھا حضرت امام مالک کا فرمان ہے کہ جن صحابہ نے شام کا ملک فتح کیا جب وہاں کے نصرانی ان کے چہرے دیکھتے تو بےساختہ پکار اٹھتے اللہ کی قسم یہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں سے بہت ہی بہتر و افضل ہیں ۔ فی الواقع ان کا یہ قول سچا ہے اگلی کتابوں میں اس امت کی فضیلت و عظمت موجود ہے اور اس امت کی صف اول ان کے بہتر بزرگ اصحاب رسول ہیں اور خود ان کا ذکر بھی اگلی اللہ کی کتابوں میں اور پہلے کے واقعات میں موجود ہے ۔ پس فرمایا یہی مثال ان کی توراۃ میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے اور ان کی مثال انجیل کی مانند کھیتی کے بیان کی گئی ہے جو اپنا سبزہ نکالتی ہے پھر اسے مضبوط اور قوی کرتی ہے پھر وہ طاقتور اور موٹا ہو جاتا ہے اور اپنی بال پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اب کھیتی والے کی خوشی کا کیا پوچھنا ہے؟ اسی طرح اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ انہوں نے آپ کی تائید و نصرت کی پس وہ آپ کے ساتھ وہی تعلق رکھتے ہیں جو پٹھے اور سبزے کو کھیتی سے تھا یہ اس لئے کہ کفار جھینپیں ۔ حضرت امام مالک نے اس آیت سے رافضیوں کے کفر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ سے چڑتے اور ان سے بغض رکھنے والا کافر ہے ۔ علماء کی ایک جماعت بھی اس مسئلہ میں امام صاحب کے ساتھ ہے صحابہ کرام کے فضائل میں اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی کرنے میں بہت سی احادیث آئی ہیں خود اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریفیں بیان کیں اور ان سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے کیا ان کی بزرگی میں یہ کافی نہیں ؟ پھر فرماتا ہے ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے گناہ معاف اور انکا اجر عظیم اور رزق کریم ثواب جزیل اور بدلہ کبیر ثابت یاد رہے کہ ( منھم ) میں جو ( من ) ہے وہ یہاں بیان جنس کے لئے ہے اللہ کا یہ سچا اور اٹل وعدہ ہے جو نہ بدلے نہ خلاف ہو ان کے قدم بقدم چلنے والوں ان کی روش پر کاربند ہونے والوں سے بھی اللہ کا یہ وعدہ ثابت ہے لیکن فضیلت اور سبقت کمال اور بزرگی جو انہیں ہے امت میں سے کسی کو حاصل نہیں اللہ ان سے خوش اللہ ان سے راضی یہ جنتی ہو چکے اور بدلے پالئے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے صحابہ کو برا نہ کہو ان کی بے ادبی اور گستاخی نہ کرو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے تین پاؤ اناج بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کے اجر کو بھی نہیں پاسکتا ۔ الحمد اللہ سورہ فتح کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 انجیل پر وقف کی صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ان کی یہ خوبیاں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں ان کی یہی خوبیاں تورات و انجیل میں مذکور ہیں اور آگے کزرع میں اس سے پہلے ھم محذوف ہوگا اور بعض فی التوراۃ پر وقف کرتے ہیں یعنی ان کی مذکرورہ صفت تورات میں ہے اور مثلھم فی الانجیل کو کزرع کے ساتھ ملاتے ہیں یعنی انجیل میں ان کی مثال مانند اس کھیتی کے ہے۔ فتح القدیر۔ 29۔ 2 شَطْاَءُ سے پودے کا پہلا ظہور ہے جو دانہ پھاڑ کر اللہ کی قدرت سے باہر نکلتا ہے۔ 29۔ 3 یہ صحابہ کرام کی مثال بیان فرمائی گئی ہے۔ ابتدا میں وہ قلیل تھے، پھر زیادہ اور مضبوط ہوگئے، جیسے کھیتی ابتدا میں کمزور ہوتی ہے، پھر دن بدن قوی ہوتی جاتی ہے حتٰی کہ مضبوط تنے پر وہ قائم ہوجاتی ہے۔ 29۔ 4 یا کافر غیظ وغضب کا باعث تھی اس لیے کہ اس سے اسلام کا دائرہ پھیل رہا اور کفر کا دائرہ سمٹ رہا تھا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ نے صحابہ کرام (رض) سے بغض وعناد رکھنے والوں کو کافر قرار دیا ہے علاوہ ازیں اس فرقہ ضالہ کے دیگر عقائد بھی ان کے کفر پر ہی دال ہیں۔ 29۔ 5 اس پوری آیت کا ایک ایک جز صحابہ کرام کی عظمت و فضیلت، اخروی مغفرت اور اجر عظیم کو واضح کر رہا ہے، اس کے بعد بھی صحابہ کرام کے ایمان میں شک کرنے والا مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے کیوں کر دعوائے مسلمانی میں سچا سمجھا جاسکتا ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٥] تحریر صلح پر اعتراضات :۔ جب صلح نامہ حدیبیہ لکھا جارہا تھا تو رسول اللہ نے یوں لکھوانا شروع کیا : محمد اللہ کے رسول کی جانب سے تو اس پر کفار کے سفیر سہیل بن عمرو نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ یہی بات تو سارے تنازعہ کی بنیاد ہے۔ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسلیم کرلیں تو باقی جھگڑا ہی کیا رہ جاتا ہے ؟ اس کے بجائے، محمد بن عبداللہ لکھو۔ اور آپ چونکہ ہر صورت صلح کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے آپ نے محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبداللہ لکھنے کو کہا۔ اس آیت میں ان کافروں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اللہ ہی نے آپ کو رسول بنا کر اور ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے۔ اگر تم تسلیم نہیں کرتے تو نہ کرو۔ کسی وقت تمہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس رسول کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے۔ اور یہ کام ہو کر رہے گا۔ لہذا اس کے اللہ کا رسول ہونے پر اللہ کی گواہی ہی کافی ہے۔- [٤٦] صحابہ کے خصائل کافروں کے سامنے شان وشوکت کا مظاہرہ درست ہے :۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان کافروں سے تند مزاجی اور سخت کلامی سے پیش آتے ہیں۔ یا انہیں پیش آنا چاہئے۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ کافروں سے کسی صورت دب کر نہیں رہتے، اصول دین کے معاملہ میں نہ وہ ان سے سمجھوتہ کرسکتے ہیں، نہ بک سکتے ہیں، نہ نرم رویہ اختیار کرتے ہیں نہ ان کی دھمکیوں اور سازشوں سے مرعوب ہوتے ہیں بلکہ اس کے بجائے خود انہیں مرعوب رکھتے ہیں اور دور نبوی میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔- خ جنگ احد میں ابو دجانہ کا کردار :۔ جنگ احد میں رسول اللہ نے صحابہ سے پوچھا : آج میری تلوار کا حق کون ادا کرے گا ؟ سیدنا ابو دجانہ جو پہلوان تھے آگے بڑھ کر کہنے لگے : میں کروں گا چناچہ آپ نے انہیں اپنی تلوار دے دی۔ انہوں نے ایک سرخ پٹی اپنے سر پر باندھ رکھی تھی۔ رسول اللہ کی عطا کردہ تلوار لے کر بڑی شان اور فخر کے ساتھ کافروں کی طرف بڑھے اور بہت سے کافروں کو موت کے گھاٹ اتارتے جارہے تھے۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ نے فرمایا : اللہ کو یہ چال ہرگز پسند نہیں، مگر آج ابو دجانہ کی یہ چال اللہ کو بہت پسند ہے جب آپ خود چودہ سو صحابہ کے ہمراہ عمرہ قضا کے لئے آئے۔ تو صحابہ کو طواف میں رمل کا حکم دیا۔ کیونکہ کافروں میں یہ بات مشہور ہوچکی تھی کہ مدینہ کی آب و ہوا نے مسلمانوں کو کمزور بنادیا ہے۔ اس لئے آپ نے طواف میں نوجوانوں کی طرح اکڑ کر آدھی دوڑ کی چال یعنی رمل کا حکم دیا۔ نیز آپ نے فتح مکہ کے موقعہ پر اپنی فوجی قوت اور شان و شوکت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جس سے کفار مکہ اس قدر مرعوب ہوئے کہ مقابلہ کی ہمت ہی نہ کرسکے۔- [٤٧] صحابہ کی دوسری صفت :۔ صحابہ کرام کی اللہ تعالیٰ نے دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ آپس میں رحم دل اور نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کی آپس میں ہمدردی اور غمگساری، تواضع اور خاطر و مدارت سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ آپس میں حقیقی بھائی ہیں۔ بھلا جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی مہربانی سے آپس میں بھائی بنادیا ہو ان کی اخوت اور ایثار و مروت میں کیا شک ہوسکتا ہے ؟ وہی قتل و غارت اور لوٹ مار کے رسیا لوگ جب اسلام لائے تو اسلام نے ان کی ایسی اخلاقی تربیت کی کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں جہاں گرم ہونے کی ضرورت ہوتی فوراً گرم ہوجاتے اور جہاں نرم ہونے کی ضرورت ہوتی نرم پڑجاتے تھے۔ ان کی باہمی محبت اور ایثار کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ یہاں یہ بحث چھیڑنا ممکن نہیں۔- [٤٨] تیسری صفت شب بیداری اور عبادت گزاری :۔ اس سے مراد یہ گٹہ کا نشان نہیں جو بعض نمازیوں کی پیشانیوں پر پڑجاتا ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ ان کے چہرے کو دیکھ کر ایک عام انسان بھی یہ سمجھ جاتا ہے کہ کس قدر اللہ سے ڈرنے والے کریم النفس اور راست باز انسان ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو عبداللہ بن سلام نے جو اس وقت یہود کے بہت بڑے عالم تھے، آپ کا چہرہ دیکھ کر یہ کہہ دیا تھا کہ ایسا چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہوسکتا۔ غرضیکہ چہرہ دراصل انسان کا آئینہ ہوتا ہے اور تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ اکثر عقل مند اور جہاں دیدہ لوگ کسی کا چہرہ دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ فلاں آدمی کس قبیل کا آدمی ہوسکتا ہے۔ صحابہ کے چہروں کو دیکھ کر ہی یہ معلوم ہوجاتا تھا کہ یہ لوگ شب بیدار، عبادت گزار اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ ہیں اور تورات اور انجیل میں رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کی جو صفات مذکور ہیں، وہ بھی ایسی ہی ہیں۔- [٤٩] چوتھی صفت ناگوار حالات میں اسلام کے پودے کو پروان چڑھانے والی جماعت :۔ یعنی مسلمان پہلے صرف ایک تھا اور وہ تھی رسول اللہ کی ذات اقدس جو اپنی نبوت پر سب سے پہلے خود ایمان لائے۔ پھر ایک سے دو ہوئے، دو سے تین، تین سے سات۔ اسی طرح رفتہ رفتہ اسلام کا پودا زمین سے باہر نکل آیا۔ باہر نکل آنے کے بعد اس پر باد مخالف کی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔ جو آہستہ آہستہ مظالم کی تیز آندھیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ مگر یہ پودا مخالف ہواؤں کے باوجود اپنی جگہ پر بر قرار رہا۔ پھلتا پھولتا اور بڑھتا رہا۔ مخالف ہوائیں جتنی تند و تیز ہوتیں اتنا ہی یہ پودا مضبوط جڑیں پکڑتا اور بلند ہوتا گیا حتیٰ کہ فتح مکہ کے دن یہ پودا ایک مضبوط اور تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ جوں جوں یہ پودا بڑھ رہا تھا۔ مخالف قوتیں اسے دیکھ کر جل بھن جاتی تھیں۔ مگر اس پودے کو لگانے والے، اس کی آبیاری اور نگہداشت کرنے والے اسے دیکھ کر اتنا ہی خوش ہوجاتے تھے اور پھولے نہ سماتے تھے اور جب یہ مضبوط درخت بن کر اپنی جڑوں پر استوار ہوگیا۔ اس وقت مخالف طاقتوں کو پوری طرح معلوم ہوگیا کہ اب وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ بلکہ اس کے سایہ تلے پناہ لینے کے بغیر اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا۔ اس درخت کی آبیاری اور نگہداشت کرنے والی صحابہ کرام کی وہ مقدس جماعت تھی جو نبی اخر الزمان پر ایمان لائے تھے پھر عمر بھر دل و جان سے اس کی اطاعت کرتے اور اس کے اشاروں پر چلتے رہے۔ ایسے لوگوں کا اللہ کے ہاں اجر بھی بہت زیادہ ہے جو ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں کو معاف کرکے انہیں جنت کے بلند درجات عطا فرمائے گا۔ اس آیت سے بعض علماء نے یہ استنباط کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) سے جلنے والا اور ان کے متعلق بغض اور کینہ رکھنے والا شخص کبھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) محمد رسول اللہ : ابن کثیر (رح) نے فرمایا :” لفظ “” محمد “ مبتدا اور ” رسول اللہ “ خبر ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” رسول اللہ “ کہنے کے بعد اور کسی تعریف کی ضرورت نہیں سمجھی، کیونکہ اس میں تمام انسانی کمال اور خوبیاں آجاتی ہیں۔ اس لئے آگے ” والذین معہ “ کی صفت بیان فرمائی ہے۔ “ اس مقام پر اس جملے سے کئی باتیں واضح ہو رہی ہیں، ایک یہ کہ قرآن مجید میں عموماً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب یا آپ کا ذکر خیر آپ کے نام کے بجائے آپ کے القاب کے ساتھ ہوا ہے، مثلاً یا یھا النبی “ ، ” یایھا الرسول “ ، ” شاھداً “ ، ” مبشراً “ ، ” نذیراً “ ، ”’ اعیاً الی اللہ “ اور ” سراجاً منیراً “ وغیرہ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم گرامی ” محمد “ صرف چار جگہ آیا ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٤٤) ، احزاب (٤٠) ، سوروہ محمد (٢) اور زیر تفسیر آیت ۔ انچ اورں مقامات میں آپ کا نام لانے میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ یہاں حکمت یہ ہے ہ اس بات کا اعلان کردیا جائے کہ اگر کفار مکہ نے حمیت جاہلیت میں آکر اصرار کیا ہے کہ معاہدے میں ” محمد رسول اللہ “ نہ لکھو اور ان کے اصرار پر صلح کی خاطر ” محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب “ لکھ دیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، کفار کے نہ ماننے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ دوسرا مقصد اس سوال کا جواب دینا ہے کہ تمام ادیان پر یہ دین کیسے غالب ہوگا ؟ فرمایا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تمام دینوں پر غلبہ اپنے ذاتی کمال یا ذاتی جدوجہد کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ اس لئے ہوگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” رسول اللہ “ ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں، جنہیں اس نے بھیجا ہی اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرنے کے لئے ہے، پھر اللہ کے بھیجے ہوئے کو غالب آنے سے کون روک سکتا ہے ؟- (٢) والذین معہ : اس میں ان پاکباز ہستیوں کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس ہدیات اور دین حق کو روئے زمین پر غالب کرنے والا تھا۔” والذین معہ “ (وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں) اس لفظ میں تمام صحابہ کرام شامل ہیں، خواہ انہیں آپ کے ساتھ رہنے کی لمبی مدت ملی ہو یا تھوڑی۔ حدیبیہ میں جو لوگ آپ کیساتھ تھے وہ اس لفظ کا اولین مصداق ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت ایسی اکسیر تھی کہ جس مومن کو حاصل ہوگئی اس کی طبیعت کا رنگ ہی بدل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شادت اور جنت کا ایسا شوق عطا فرمایا، انہیں ایسی شجاعت بخشیا ور ان میں ایسی برکت رکھی کہ جب وہ حملہ آور ہوتے تو دشمن چند لمحوں میں بھاگ کھڑا ہوتا ، کسی لشکر میں ایک صحابی کی موجودگی اس کی فتح کی ضمانت سمجھی جاتی۔ ان سیم لنے والوں میں بھی یہی برکت تھی۔ ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یاتی زمان یغرو مثام من الناس ، فیقال فیکم من صحب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ فیقال نعم، فیفتح علیہ ، ثم یاتی زمان فیقال فیکم من صحب اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ فیقال نعم، فیفتح ، ثم یاتی زمان فیقال فیکم من صحب صاحب اصحاب التی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ فیقال نعم، فیفتح) (بخاری، الجھاد والسیر، باب من استعان بالضعقا، والصالحین فی الحرب :2998)” لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگو کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا :” کیا تم میں کوئی شخص ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہا ہو ؟ “ وہ کہیں گے :” ہاں “ تو انہیں فتح عطا کی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا :” کیا تم میں کوئی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کے ساتھ رہا ہو ؟ “ وہ کہیں گے : ” ہاں “ تو انہیں فتح عطا کی جائے گی۔ “- (٣) والذین معہ : جیسا کہ پچھلے فائدے میں گزرا کہ ” والذین معہ “ (وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں) سے مراد سب سے پہلے وہ صحابہ ہیں جنہوں نے بیعت رضوان کی، پھر تمام صحابہ کرام (رض) ہیں خواہ انہیں ایک لمحہ کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا ہو۔ مفسر بقاعی نے فرمایا :” والذین معہ “ میں وہ تمام مسلمان بھی شامل ہیں جنہیں احسان اور نیکی کیساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرنے کی وجہ سے آپ کے ساتھ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ “ پچھلے فائدے میں مذکور حدیث سے مفسر بقاعی کی اس بات کی تائید ہوتی ہے اور قرآن مجید میں صاف الفاظ میں احسان اور نیکی کے ساتھ اتباع کرنے والوں کو سابقون اولون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت میں داخلے کی بشارت دی ہے۔ مزید وضاحت کے لئے سورة توبہ کی آیت (١٠٠) (والسبقون الاولون من المجرین والانصار والذین اثبعوھم باحسان (رض) عنم و رضواعنہ) کی تفسیر پر نظر ڈال لیں۔ زیر تفسیر آیت میں کھیتی کی مثال صحابہ کے ساتھ قیامت تک ان کے پیروک اورں کو بھی ملانے سے پوری طرح مکمل ہوتی ہے۔- (٤) اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم : ان الفاظ میں صحابہ کرام اور امت مسلمہ کی تعریف فرمایء ہے کہ ان کا اللہ اور اس کے رسول پر ایسا ایمان ہے کہ ان کی دوستی اور دشمین کے جذبات بھی ان کے ایمان کے تابع ہوگئے ہیں۔ کوئی کافر ہے تو وہ اس کے دشمن اور اس کے مقابلے میں نہایت سخت ہیں اور اگر کوئی مومن ہے تو وہ اس کے دلی دوست اور اس پر بےحد مہربان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار پر سختی کرنے اور ان کے ساتھ جہاد کا حکم دیا، فرمایا :(یایھا النبی جامد الکفار والمنفقین واغلظ علیھم وما و لھم جھنم) (التوبۃ : ٨٣)” اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ “ اور مسلمانوں کو بھی یہی حکم دیا، فرمایا :(یایھا الذین امنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولیجدوا فیکم غلظۃ) (التوبۃ : ١٢٣)” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ان لوگوں سے لڑو جو کافروں میں سے تمہارے قریب ہیں اور لازم ہے کہ وہ تم میں کچھ سختی پائیں۔ “ اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ ایمان والوں کا کفار کے ساتھ تعلق ان کے ایمان لانے تک ابدی عداوت و بغض کا ہے، خواہ وہ کفار ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا قریبی رشتہ دار ہوں۔ دیکھیے سورة ممتحنہ کی پہلی چار آیات اور سورة مجادلہ کی آخری آیت۔- اس کے مقابلے میں ایمان والوں پر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےحد مہربان اور شفیق تھے، جیسا کہ فرمایا :(لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنثم حریص علیکم بالمومنین رء وف رحیم) (التوبۃ : ١٢٨)” بلاشبہ یقینا تمہارے پاس تمھی سے ایک رسول آیا ہے، اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے، مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا ، نہایت مہربان ہے۔ “ اور ایمان والوں کی صفت بھی یہی ہے، فرمایا :(یایھا الذین امنوا من یرتدمنکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلۃ علی الممونین اعزۃ علی الکفرین، یجاھدون فی سبیل اللہ ولایخافون لومۃ لآیم ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء واللہ واسع علیم) (المائدۃ : ٥٣)” اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ عنقریب ایسے لوگ لائے گا کہ وہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت، اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ اسے دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(تری المومنین فی تراحمھم وتوادھم وتعاطفھم کمثل الجسد اذا اشتکی غصوا تداعی لہ سائر جسدہ بالسھر والحمی) (بخاری، الادب، باب رحمۃ الناس والبھائم : ٦٠١١)” تو ایمان والوں کو ان کے ایک دوسرے پر رحم ایک دوسرے سے دوستی اور ایک دوسرے پر شفقت میں ایک جسم ک طرح دیکھے گا، جب اس کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم اس کی وجہ سیب یداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ “ اور ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا) (بخاری، المظالم، باب نصر المظلوم :2336)” مومن مومن کے لئے ایک دیوار کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ “- (٥) واضح رہے کہ کافروں پر سخت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کبھی کسی کافر پر رحم نہیں کرتے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس موقع کا اللہ اور اس کے رسول کا حکم کفار پر سختی کرنے کا ہوتا ہے وہاں ان کو رشتے ناتے یا دوستی وغیرہ کے علاقے اس کام میں مانع نہیں اور جہاں تک ان کے ساتھ رحم و کرم کے معاملے کا تعلق ہے تو خود قرآن نے اس کا فیصلہ کردیا ہے، فرمایا :(لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الذین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوآ الیھم، ان اللہ یحب المقسطین انما ینھکم اللہ عن الذین قتلوکم فی الذین و اخرجوکم من دیارکم و ظھروا علی اخراجکم ان تولو ھم، ومن یتولھم فاؤلئک ھم الظلمون) (الممتحنۃ : ٨، ٩)” اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کردیا اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تو تمہیں انھی لوگوں سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی کہ تم ان سے دوستی کرو۔ اور جو ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ “ یعنی جو کفار مسلمانوں کے لئے باعث آزار اور ان کے ساتھ برسر جنگ نہیں ان کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنے سے اللہ تعالیٰ منع نہیں کرتا۔ چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے بیشمار واقعات ہیں جن میں ضعیف و مجبور یا ضرورت مند کفار کے ساتھ احسان و کرم کے معاملات کئے گئے ہیں۔ ان کے معاملہ میں عدل و انصاف کو برقرار رکھنا تو اسلام کا عام حکم ہے، عین میدان کار زار میں بھی عدل و انصاف کے خلاف کوئی کارروائی جائز نہیں۔- (٦) تریھم رکعاً سجداً : پچھلے جملے ” اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم “ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کا لوگوں کے ساتھ معاملہ ذکر فرمایا اور اس جملے میں ان کا اللہ کے ساتھ تعلق بیان فرمایا کہ تو انہیں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا۔ ان کے اکثر اوقات نماز کے مبارک عمل میں گزرتے ہیں جو آدمی کو اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب کرنے والا عمل ہے، کیوان کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اقرب مایکون العبد من ربہ و ھو ساجد فاکتبر والداعئ) (مسلم، الصلاۃ باب مایقال فی الرکوع و السجود ١: ٣٨٢)” بندہ اپنے رب کے سب سے قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے۔ تو بہت زیادہ داع کیا کرو۔ “ ان کے دل مسجد کے ساتھ ہی معلق ہوتے ہیں، روزانہ پانچ مرتبہ اللہ کے گھر میں آکر یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور وہاں سے نکلتے ہیں تو دھیان ادھر ہی رہتا ہے، پھر رات کو بھی قیام کرتے ہیں۔- (٧) یبتغون فضلاً من اللہ و رضواناً : چونکہ رکوع و سجود ریا کے لئے بھی ہوسکتے ہیں اس لئے اس جملے میں صحابہ کرام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیرو کار ساتھیوں کے اخلاص کی شہادت دی ہے کہا ن کے رکوع و سجود ریا یا دکھلا دے کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتوں اور اس کی رضا کی طلب کے لئے ہوتے ہیں۔ اس میں ان کی ہمت کی بلندی کا بھی بیان ہے کہ وہ اعلیٰ چیز کے طلبگار ہیں جس سے بڑی کوئی چیز نہیں ، جیسا کہ فرمایا :(ورضوان من اللہ اکبر) (التوبۃ : ٨٢)” اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنودی اور رضا سب سے بڑی چیز ہے۔ “ دنیائے دنی یا دوسری ادنیٰ چیزیں ان کی بلند نگاہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔- (٨) سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود : بعض لوگوں نے سجدے کے اثر سے مراد پیشانی پر پڑنے والا گٹا لیا ہے، جسے عام طور پر محراب کہا جاتا ہے۔ کسی مخلص مسلمان کے ماتھے پر سجدے کی رگڑ سے پڑنے اولا نشان بھی یقیناً اس شناخت میں شامل ہے، مگر یہاں اس سے مراد وہ رونق اور حسن و شرافتکے آثار ہیں جو اخلاص، حسن نیت، خشیت و خشوع اور نماز کی کثرت سے چہرے پر نمایاں ہتوے ہیں۔ اگر دو آدمی رات بھر بیدار رہیں، ایک شراب نشویا ور گناہ کے کاموں میں مصروف رہے، دوسرا نماز یا قرآن کی تالوتا ور ذکر میں مصروف رہے تو صبح دونوں کے چہروں میں صاف قر نظر آئے گا۔ یہی فرق سچے و جھوٹے، دغا باز و باوفا، ظالم و عادل، بدکار و پاک دامن اور مکتبر و متواضع کے چہروں پر نمایاں ہوتا ہے۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے :” سیما ھم فی وجوھھم “ یعنی السمت الحسن) ( (طبری :31891)” یعنی اس سے مراد خوبصورت انداز اور ہئیت ہے۔ “ ابن کثیر میں ہے، منصور نے مجاہد سے سنا کہ اس سے مراد خشوع ہے۔ منصور کہتے ہیں، میں نے کہا : میں تو اس سے مراد وہی نشان سمجھتا تھا جو چہرے پر پڑجاتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کے چہروں پر، صحابہ ہوں یا ان کے متعبین، خاص قسم کا نور اور روقن ہوتی ہے جس سے وہ دوسرے تمام لوگوں سے الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہاں بعض مفسرین نے ایک روایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے قنل کی ہے :(من کثر صلاتہ باللیل حسن وجھہ بالھار)” جو شخص رات کو کثرت سے نماز پڑھے دن کو اس کا چہرہ خوبصورت ہوگا۔ “ مگر اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں، بلکہ یہ ایک راوی شریک کا قول ہے۔ - (٩) ذلک مثلھم فی الثورتہ : ” مثل “ کا معنی مثال بھی ہوتا ہے اور وصف بھی، یہاں مراد وصف ہے، یعنی ان کا یہ وصف کہ سجدے اور عبادت کی تاثیر سے ان کی شناخت ان کے چہروں سے ظاہر ہوتی ہے، یہ تورات میں بیان ہوا ہے۔ اس وقت یہود و نصاریٰ کے ہاتھ میں جو تورات ہے اگرچہ انہوں نے اس میں کئی طرح کی تحریف کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کی صفات اکثرح ذف کردی ہیں اور بعض تبدیلی کردی ہے، اس کے باوجود اس کی پانچویں کتاب ” استثنا “ کے باب (٣٣) اور فقرہ (٢) میں ہے :” خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلع ہوا، فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کیلئے تھی۔ “ اس پیش گوئی کا مصداق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ اس میں جبل فاران سے جلوہ گر ہونے اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آنے کا صاف حوالہ موجود ہے اور یہ مسلم بات ہے کہ فارانا حجاز کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس ہزار صحابہ کے ساتھ آئے تھے۔ ظاہر ہے قدوسیوں سے مراد اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ صفاتا ور عبادت گزار بندے ہیں، قرآن مجید میں اس کی جگہ ” تریھم رکعاً سجداً یبتغون فضلاً من اللہ ورضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود “ کے الفاظ میں اور آتشیں شریعت کے بجائے ” اشدآء علی الکفار “ کہہ کر جہادی شریعت کا ذکر فرمایا ہے۔- تنبیہ :”’ س ہزار “ کے الفاظ بائبل کے سابقہ ایڈیشنوں میں موجود ہیں، حلایہ ایڈیشنوں میں تحریف کر کے بعض سے یہ عدد نکال دیا گیا ہے اور بعض میں سے اسے ” لاکھوں ‘ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔- (١٠) ومثلھم فی الانجیل کزرع اخرج…: تو رات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کے تقویٰ و تقدس ، جہادی شریعت اور ان کے غلبہ و اقتدار کی صفت بیان ہؤی ہے اور انجیل میں امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتدریج قلت سے کثرت کی طرف اور کمزوری سے قوت کی طرف بڑھنے کو مثال کے ساتھ واضح فرمایا ہے کہ ان کی ابتدا اگرچہ کمزور ہوگی لیکن آخر کار وہ ایسے تنا ور درخت کی شکل اختیار کر جائیں گے جس کے سائے میں بڑی بڑی قومیں پناہ لیں گی۔ چناچہ انجیل متی، باب (١٣) ، فقرہ (٣ تا ٩) میں یہ مثال اس طرح بیان ہوئی ہے :” اس (مسیح) نے ایک اور تمثیل ان کے سامنے پیش کر کے کہا کہ آسمان کی بادشاہت اس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بودیا، وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے لیکن جب بڑھ جاتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا ہوتا ہے اور ایسا درخت ہوجاتا ہے کہ ہوا کے پرندے اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں۔ “ یہی مثال الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ انجیل مرقس، باب (٤) ، فقرہ (٣-٩) اور انجیل لوقا، باب (١٣) ، فقرہ (١٨-٢١) میں بھی آئی ہے۔ (منقول از تفسیر ثنائی)- قرآن مجید میں کھیتی کی مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر حدیبیہ والے سال تم مکہ میں داخل نہیں ہو سکے تو اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں اور تمہیں یہ سبق سکھانا بھی مقصود ہے کہ اسلام کا عروج و کمال یک لخت نہیں بلکہ تدریج کے ساتھ ہوگا، جیسا کہ کھیتی بتدریج کمال کو پہنچتی ہے۔ پہلے وہ بیج سے نازک سی کو پنل یا سوئی نکالتی ہے، پھر اسے مضبوط کرتی ہے، پھر خوب موٹی ہوجاتی ہے، پھر اس کا پودا اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوجاتا ہے، پھر اس کے ساتھ اور پودے اگتے چلے جاتے ہیں اور کھیت بھر جاتا ہے جس سے کاشت کرنے والوں کا دل خوش ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک دن آنے والا ہے کہ ہدایت اور دین حق کی یہ کھیتی جو اول اول سر زمین عرب میں کاشت کی گئی، اپنے کمال کو پہنچے گی، مشرق و مغرب اس سے بھر جائیں گے، اپنی آبیاری اور دیکھ بھال کرنے والوں کے دلوں کو خوش کرے گی اور ان لوگوں کے دلوں کو غم و غصہ سے جلائے گی جنہوں نے اس کی نشو و نما کو روکنے کے لئے ایڑیچ وٹیک ا زور لگایا۔- (١١) لیغیظ بھم الکفار :” لیغیظ “ کالام فعل مقدر کے متعلق ہے جو گزشتہ عبارت سے خود بخود سمجھ میں آرہا ہے :” ای جعلھم اللہ کذلک لیغیظ بھم الکفار “ یعنی اللہ تعالیٰ صحابہ کرام اور ان کے متبعین کو اس طرح بتدریج کمال و عروج تک پہنچائے گا، تاکہ ان کے ساتھ کفار کو غصہ دلائے اور ان کے دلوں کو جلائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دعوت حق لے کر آئے اسے قبول کرنے والے اور اسے پوری دنیا پر غالب کرنے کے لئے اپنی جان، اپنا مال اور سب کچھ قربان کرنے والے صحابہ کرام تھے اور ان کے بعد ان سے محبت رکھنے والے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے تابعین اور بعد کے لوگ تھے جن کے ذریعے سے یہ دین حق ساری دنیا میں پھیلا اور غالب ہوا۔ ایمان والوں کے دل صحابہ کرام اور ان کے متعبین کے حالات دیکھ کر اور سن کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کے دل انہیں دیکھ کر اور ان کے حالات سن کر غصے سے بھر جاتے ہیں اور جل اٹھتے ہیں۔ تفسیر التحریر والتنویر (٢٦ ١٧٧) میں ہے کہ امام مالک رحہ اللہ نے فرمایا :(من اصبح من الناس فی قلبہ غیظ علی احد من اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقد اصابتہ ھذہ الایۃ)” لوگوں میں سے جس شخص کے دل میں اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے کسی ایک پر بھی غصہ اور جلن ہو، یہ آیت اس پر یقینا لاگو ہوتی ہے۔ “ ابن عاشور نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ امام مالک پر رحم کرے، ان کا استنباط کس قدر باریک ہے۔ “- (١٢) وعد اللہ الذین امنوا و عملوا الصلحت منھم…: شاہ عبدالقادر (رح) لکھتے ہیں :” اور کھیتی کی کہاوت یہ کہ اول ایک آدمی تھا اس دین پر ، پھر دو ہوئے پھر قوت بڑھتی گئی حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت اور خلیفوں کے اور یہ وعدہ دیا ان کو جو ایمان لائے اور بھلے کام کرتے ہیں۔ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب اصحاب ایسے ہی تھے، مگر خاتمہ کا اندیشہ رکھا۔ حق تعالیٰ بندوں کو ایسی خوش خبری نہیں دیتا کہ نڈر ہوجائیں، مالک سے اتنی شاباش بھی غنیمت ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ، پورے قرآن میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام مبارک لینے کے بجائے عموماً آپ کا ذکر اوصاف و القاب کے ساتھ کیا گیا خصوصاً ندا کے موقع پر یایھا النبی، یایھا الرسول، یایھا المزمل وغیرہ بخلاف دوسرے انبیاء کے کہ ان کے نام کے ساتھ ندا کی گئی، یا ابراہیم یا موسیٰ یا عیسیٰ پورے قرآن میں صرف چار جگہ آپ کا نام مبارک محمد ذکر فرمایا ہے جہاں اس نام کے ذکر ہی میں کوئی مصلحت تھی اس مقام پر مصلحت یہ تھی کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں آپ کے نام کے ساتھ جب حضرت علی نے محمد رسول اللہ لکھا تو کفار قریش نے اس کو مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھنے پر اصرار کیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحکم ربانی اس کو منظور کرلینا قبول کیا۔ حق تعالیٰ نے اس مقام پر خصوصیت سے آپ کے نام مبارک کے ساتھ رسول اللہ کا لفظ قرآن میں لا کر اس کو دائمی بنادیا جو قیامت تک اسی طرح پڑھا لکھا جائے گا۔- وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ، یہاں سے آپ کے صحابہ کرام کے فضائل کا بیان ہے، اگرچہ اس کے پہلے مخاطب حضرات صحابہ ہیں جو حدیبیہ اور بیعت رضوان میں شریک تھے لیکن الفاظ کے عموم میں سبھی صحابہ کرام شامل ہیں کیونکہ صحبت و معیت سب کو حاصل ہے۔- صحابہ کرام کے اوصاف و فضائل اور خاص علامات :- اس مقام پر حق تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کے دین کو سب دینوں پر غالب کرنے کا بیان فرما کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اوصاف و فضائل اور خاص علامات کا ذکر تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے، اس میں ان کے اس سخت امتحان کا انعام بھی ہے جو صلح حدیبیہ کے وقت لیا گیا تھا کہ ان کے قلبی یقین اور قلبی جذبات کے خلاف صلح ہو کر بغیر دخول مکہ وغیرہ کے ناکام واپسی کے باوجود ان کے قدم متزلزل نہیں ہوئے اور بےنظیر اطاعت رسول اور قوت ایمانی کا ثبوت دیا، نیز صحابہ کرام کے فضائل اور علامات کی تفصیل بیان فرمانے میں یہ حکمت بھی ہو تو بعید نہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی اور نبی و رسول تو مبعوث ہونے والا نہیں تھا آپ نے اپنے بعد امت کے لئے کتاب اللہ کے ساتھ اپنے اصحاب ہی کو بطور نمونہ کے چھوڑا ہے اور ان کی اقتداء و اتباع کے احکام دیئے ہیں، اس لئے قرآن نے بھی ان کے کچھ فضائل اور علامات کا بیان فرما کر مسلمانوں کو ان کے اتباع کی ترغیب و تاکید فرما دی ہے۔ اس مقام پر صحابہ کرام کا سب سے پہلا وصف تو یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں مہربان ہیں۔ کفار کے مقابلہ میں سخت ہونا ان کا ہر موقع پر ثابت ہوتا رہا ہے کہ نسبی رشتے ناتے سب اسلام پر قربان کردیئے اور حدیبیہ کے موقع پر خصوصیت سے اس کا اظہار ہوا اور آپس میں مہربان اور ایثار پیشہ ہونا صحابہ کرام کا اس وقت خصوصیت سے ظاہر ہوا جبکہ مہاجرین و انصار میں مواخات ہوئی اور انصار نے اپنی سب چیزوں میں مہاجرین کو شریک کرنے کی دعوت دی۔ قرآن نے صحابہ کرام کے اس وصف کو مقدم بیان فرمایا کیونکہ درحقیقت اس کا حاصل یہ ہے کہ ان کی دوستی اور دشمنی، محبت یا عداوت کوئی چیز اپنے نفس کے لئے نہیں بلکہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے ہوتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ایمان کامل کا اعلیٰ مقام ہے صحیح بخاری وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ من احب للہ و ابغض للہ فقد استکمل ایمانہ یعنی جو شخص اپنی محبت اور بغض و عداوت دونوں کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دے اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔ اسی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ صحابہ کرام کے کفار کے مقابلہ پر سخت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کبھی کسی کافر پر رحم نہیں کرتے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس موقع پر اللہ و رسول کا حکم کفار پر سختی کرنے کا ہوتا ہے وہاں ان کو اپنے رشتے ناتے یا دوستی وغیرہ کے علاقے اس کام میں مانع نہیں اور جہاں تک ان کے ساتھ رحم و کرم کے معاملہ کا تعلق ہے وہ تو خود قرآن نے اس کا فیصلہ کردیا ہے کہ (آیت) لاینھکم اللہ (الیٰ ) ان تبروھم وتقسطوآ الیھم، یعنی جو کفار مسلمانوں کے درپے آزار اور مقاتلہ پر نہیں ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرنے سے اللہ تعالیٰ منع نہیں کرتا، چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے بیشمار واقعات ہیں جن میں ضعیف و مجبور یا ضرورت مند کفار کے ساتھ احسان و کرم کے معاملات کئے گئے ہیں اور ان کے معاملہ میں عدل و انصاف کو برقرار رکھنا تو اسلام کا عام حکم ہے۔ عین میدان کار زار میں بھی عدل و انصاف کے خلاف کوئی کارروائی جائز نہیں۔- دوسرا وصف صحابہ کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کا عام حال یہ ہے کہ وہ رکوع و سجدہ اور نماز میں مشغول رہتے ہیں ان کو دیکھنے والے اکثر ان کو اسی کام میں مشغول پاتے ہیں۔ پہلا و صف کمال ایمان کی علامت تھی دوسرا وصف کمال عمل کا بیان ہے کیونکہ اعمال میں سب سے افضل نماز ہے (آیت) سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ، یعنی نماز ان کا ایسا وظیفہ زندگی بن گیا ہے کہ نماز اور سجدہ کے مخصوص آثار ان کے چہروں سے نمایاں ہوتے ہیں۔ مراد ان آثار سے وہ انوار ہیں جو عبدیت اور خشوع و خضوع سے ہر متقی عبادت گزار کے چہرہ پر مشاہدہ کئے جاتے ہیں، پیشانی میں جو نشان سجدہ کا پڑجاتا ہے وہ مراد نہیں۔ خصوصاً نماز تہجد کا یہ اثر بہت زیادہ واضح ہوتا ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں بروایت جابر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من کثر صلوٰة بالیل حسن وجھہ بالنھار یعنی جو شخص رات میں نماز کی کثرت کرتا ہے دن میں اس کا چہرہ حسین پر نور نظر آتا ہے اور حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اس سے مراد نمازیوں کے چہروں کا وہ نور ہے جو قیامت میں نمایاں ہوگا۔- (آیت) ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ ٻوَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ ، صحابہ کرام کی جو علامت اوپر بیان فرمائی ہے کہ سجدوں اور نمازوں کا نور ان کی پیشانیوں کی علامت ہے اس آیت میں فرمایا کہ ان کی یہی مثال تورات میں بیان کی گئی ہے پھر فرمایا کہ انجیل میں ان کی ایک اور مثال یہ دی گئی ہے کہ وہ ایسے ہیں جیسے کوئی کاشتکار زمین میں بیج اگائے تو اول وہ ایک ضعیف سی سوئی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے پھر اس میں شاخیں نکلتی ہیں پھر وہ اور قوی ہوتا ہے پھر اس کا مضبوط تنہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب شروع میں بہت کم تھے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا صرف تین مسلمان تھے مردوں میں صدیق اکبر، عورتوں میں حضرت خدیجہ، بچوں میں حضرت علی پھر رفتہ رفتہ ان کی قوت بڑھتی رہی یہاں تک کہ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج میں شریک ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب بتلائی گئی ہے۔ اس آیت میں تین احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ فی التوراة پر وقف کیا جائے اور پچھلی مثال یعنی چہروں کا نور، یہ علامت تورات کے حوالہ سے بیان ہوئی آگے مثلھم فی الانجیل پر وقف نہ کریں بلکہ ملا کر پڑھیں تو معنی یہ ہوں گے کہ صحابہ کی مثال انجیل میں اس کھیتی یا درخت کی ہے جو شروع میں نہایت کمزور ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ قوی تناور ہوجاتا ہے۔- دوسرا احتمال یہ ہے کہ فی التورتہ پر وقف نہ ہو بلکہ فی الانجیل پر وقف کیا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ سابقہ نشانی چہروں کے نور کی تورات میں بھی ہے انجیل میں بھی اور آگے کزرع کی مثال کو ایک الگ مثال قرار دیا جائے۔ تیسرا احتمال یہ ہے کہ فی التورتہ پر کلام ختم ہو نہ فی الانجیل پر اور لفظ ذلک اگلی مثال کی طرف اشارہ ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ تورات و انجیل دونوں میں صحابہ کی مثال زرع یعنی کھیتی کی دی گئی ہے۔ اگر اس زمانہ میں تورات و انجیل اپنی اصلی حالت میں ہوتیں تو ان کو دیکھ کر مراد قرآنی متعین ہوجاتی لیکن ان میں تحریفات کا سلسلہ بےحد و بیشمار رہا ہے اس لئے کوئی یقینی فیصلہ نہیں ہوسکتا، مگر اکثر حضرات مفسرین نے پہلے احتمال کو ترجیح دی ہے جس میں پہلی مثال تورات میں اور دوسری انجیل میں ہونا معلوم ہے۔ امام بغوی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کی یہ مثال انجیل میں ہے کہ شروع میں قلیل ہوں گے پھر بڑھیں گے اور قوی ہوں گے جیسا کہ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ صحابہ کرام کی یہ مثال انجیل میں لکھی ہوئی ہے کہ ” ایک قوم ایسی نکلے گی جو کھیتی کی طرح بڑھے گی اور وہ نیک کاموں کا حکم اور برے کاموں سے منع کیا کرے گی (مظہری) موجودہ زمانہ کی تورات و انجیل میں بھی بیشمار تحریفات کے باوجود اس کی پیشین گوئی کے حسب ذیل الفاظ موجود ہیں، تورات باب استثناء 123 ۔ 1 تا 3 کے یہ الفاظ ہیں۔- ” خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکارا ہوا وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا، دس ہزار مقدسوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لئے تھی وہ اپنے لوگوں سے بڑی محبت رکھتا ہے اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں اور وہ تیرے قدموں کے پاس بیٹھے ہیں تیری بات مانیں گے “- یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ فتح مکہ کے وقت صحابہ کرام کی تعداد دس ہزار تھی جو فاران سے طلوع ہونے والے اس نورانی پیکر کے ساتھ شہر خلیل میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے ہاتھ میں آتشیں شریعت ہوگی کے لفظ سے اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے لوگوں سے محبت کرے گا کے لفظ سے رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ کا مضمون سمجھا جاتا ہے اس کی پوری تفصیل مع دوسرے حوالوں کے اظہار الحق جلد سوم باب ششم ص 256 میں ہے یہ کتاب عیسائیت کی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے پادری فنڈر کے مقابلہ پر تحریر فرمائی تھی اس کتاب میں انجیل کی تمثیل کا اس طرح ذکر ہے۔ انجیل متی باب 13 آیت 31 میں یہ الفاظ ہیں۔ اس نے ایک اور تمثیل ان کے سامنے پیش کر کے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اس رائی کے دانہ کے مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بو دیا، وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے مگر جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہوجاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آ کر اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں اور انجیل مرقس 26:4 کے یہ الفاظ ہیں جو الفاظ قرآنی کے زیادہ قریب ہیں ” اس نے کہا کہ خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے دن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح آگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے، پہلے پتی پھر بالیں پھر بالوں میں تیار دانے پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آپہنچا (اظہار الحق جلد 3) باب ششم ص 310 آسمان کی بادشاہی سے مراد نبی آخر الزماں کا ہونا انجیل کے متعدد مقامات سے ظاہر ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔- (آیت) لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو ان صفات کمال کے ساتھ مزین فرمایا اور ان کو ضعف کے بعد قوت، قلت کے بعد کثرت بخشی، یہ سب کام اس لئے ہوا تاکہ ان کو دیکھ کر کافروں کو غیظ ہو اور وہ حسد کی آگ میں جلیں، حضرت ابوعروہ زبیری فرماتے ہیں کہ ہم حضرت امام مالک کی مجلس میں حاضر تھے ایک شخص نے بعض صحابہ کرام کی تنقیص کے کچھ کلمات کہے تو امام مالک یہ آیت پوری تلاوت کر کے جب لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ پر پہنچے تو فرمایا کہ جس شخص کے دل میں صحابہ کرام میں سے کسی کے ساتھ غیظ ہو تو اس آیت کی وعید اس کو ملے گی (قرطبی) حضرت امام مالک نے یہ تو نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہوجاوے گا مگر یہ فرمایا کہ یہ وعید اس کو بھی پہنچے گی۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کافروں جیسا کام کرنے والا ہوجائے گا۔- (آیت) وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا، منھم کا حرف من اس جگہ باتفاق مفسرین بیانیہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ سب صحابہ کرام ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان سب سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ ہے اور یہ من بیانیہ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے جیسے ارشاد ہے (آیت) فاجتنبوالرجس من الاوثان تو من الاوثان، بیان ہے لفظ رجس کا، اسی طرح یہاں منھم بیان ہے الذین امنوا کا اور روافض نے جو اس جگہ حرف من کو تبعیض کے لئے یہ کہہ کر مطلب نکالا ہے کہ ان میں سے جو بعض لوگ ایمان و عمل صالح پر ہیں ان سے یہ وعدہ ہے یہ سراسر سیاق کلام اور اوپر کی آیات کے منافی ہے کیونکہ اس آیت کے مفہوم میں وہ صحابہ کرام تو بلاشبہ داخل اور آیت کے پہلے مصداق ہیں جو سفر حدیبیہ اور بیعت رضوان میں شریک تھے ان سب کے متعلق اوپر کی آیات میں حق تعالیٰ نے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرما دیا ہے (آیت) لقد (رض) عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرة اور رضائے الٰہی کا یہ اعلان اس کی ضمانت ہے کہ یہ سب مرتے دم تک ایمان و عمل صالح پر قائم رہیں گے کیونکہ اللہ تو علیم وخبیر ہے اگر کسی کے متعلق اس کو یہ معلوم ہو کہ یہ کسی وقت ایمان سے پھرجانے والا ہے تو اس سے اپنی رضا کا اعلان نہیں فرما سکتے۔ ابن عبدالبر نے مقدمہ استیعاب میں اسی آیت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ ومن (رض) لم یسخط علیہ ابدًا یعنی اللہ جس سے راضی ہوجائے پھر اس پر کبھی ناراض نہیں ہوتا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی آیت کی بنا پر ارشاد فرمایا کہ بیعت رضوان میں شریک ہونے والوں میں سے کوئی آگ میں نہ جائے گو یہ وعدہ اصالةً انہی کے لئے کیا گیا ہے ان میں سے بعض کا مستثنیٰ ہونا قطعاً باطل ہے اسی لئے امت کا اس پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل و ثقہ ہیں۔- صحابہ کرام سب کے سب اہل جنت ہیں ان کی خطائیں مغفور ہیں ان کی تنقیص گناہ عظیم ہے :- قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں اس کی تصریحات ہیں جن میں چند آیات تو اسی سورت میں آ چکی ہیں (آیت) لقد (رض) عن المومنین اور الزمھم کلمتہ التقوی و کانوا احق بھا واھلھا، ان کے علاوہ اور بہت سی آیات میں یہ مضمون مذکور ہے (آیت) یوم لا یخزی اللہ النبی والذین امنوا معہ والسبقون الاولون من المھجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان (رض) و رضواعنہ واعدلھم جنت تجری تحتھا الانھر اور سورة حدید میں حق تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا ہے (آیت) وکلا وعداللہ الحسنیٰ یعنی ان سب سے اللہ نے حسنیٰ کا وعدہ کیا ہے پھر سورة انبیاء میں حسنیٰ کے متعلق فرمایا (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولٓئک عنھا مبعدون یعنی جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے حسنیٰ کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے وہ جہنم کی آگ سے دور رکھے جائیں گے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- خیر الناس قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم (بخاری)- یعنی تمام زمانوں میں میرا زمانہ بہتر ہے اس کے بعد اس زمانے کے لوگ بہتر ہیں جو میرے زمانے کے متصل ہیں پھر وہ جو ان کے متصل ہیں۔- اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ ( ان کی قوت ایمان کی وجہ سے ان کا حال یہ ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی شخص اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کی برابر سونا خرچ کر دے تو وہ ان کے خرچ کئے ہوئے ایک مد کی برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ نصف مد کی برابر۔ مد عرب کا ایک پیمانہ ہے جو تقریباً ہمارے آدھے سیر کی برابر ہوتا ہے (بخاری) اور حضرت جابر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے صحابہ کو سارے جہان میں سے پسند فرمایا ہے پھر میرے صحابہ میں میرے لئے چار کو پسند فرمایا ہے۔ ابوبکر، عمر، عثمان علی (رض) (رواہ البزار بسند صحیح) اور ایک حدیث میں ارشاد ہے۔- اللہ للہ فی اصحابی لا تتخذو ھم غرضا من بعدی فمن احبھم فبجی احبہم و من ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اذاھم فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللہ ومن اذی اللہ فیوشک ان یاخذہ (رواہ الترمذی عن عبداللہ بن المغفل از جمع الفوائد)- اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملے میں میرے بعد ان کو طعن تشنیع کا نشانہ مت بناؤ کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی اور جو اللہ کو ایذا پہنچانے کا قصد کرے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑے گا۔- آیات و احادیث اس کے متعلق بہت ہیں جن کو احقر نے اپنی کتاب مقام صحابہ میں جمع کردیا ہے یہ کتاب شائع ہوچکی ہے۔ تمام صحابہ کرام کے عدل و ثقہ ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے اور صحابہ کے مابین جو اختلافات جنگ و قتال تک پہنچے ان کے متعلق بحث و تمحیص اور تنقید و تحقیق یا سکوت کا مسئلہ بھی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیا گیا ہے اور اس میں سے بقدر ضرورت سورة محمد کی تفسیر میں آ چکا ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان - تمت بحمد اللہ وعونہ سورة الفتح للتاسع والعشرین من شعبان سن 1392 ھ وللہ الحمد اولہ واخرہ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا۝ ٠ ۡسِيْمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ۝ ٠ ۚۖۛ وَمَثَلُہُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ۝ ٠ ۚ ۣۛ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِہٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِہِمُ الْكُفَّارَ۝ ٠ ۭ وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۝ ٢٩ ۧ- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - ركع - الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع - ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں - (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور آگے جو آپ کے صحبت یافتہ ہیں جن میں سب سے پہلا مقام حضرت ابوبکر صدیق کا ہے جو سب سے پہلے مشرف بااسلام ہوئے اور کفار کو آپ کے ساتھ دین الہی کی طرف بلایا ان کے اوصاف یہ ہیں کہ وہ کفار کے مقابلہ میں تیز ہیں۔ چناچہ حضرت عمر فاروق جو اللہ کے دشمنوں پر بہت سخت ہیں دین الہی اور نصرت رسول میں طاقت ور ہیں۔- اور آپس میں مسلمانوں کے ساتھ مہربان ہیں، چناچہ حضرت عثمان جو مسلمانوں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کرنے میں بڑھ کر ہیں اور اے مخاطب تو ان کو دیکھے گا کہ وہ نمازوں میں بکثرت مصروف ہیں، یہ نمایاں صفت حضرت علی میں ہے، آپ بہت نمازیں پڑھا کرتے تھے، اور یہ حضرات جہاد کے ذریعہ اللہ کے ثواب اور اس کی رضا مندی کی جستجو میں لگے ہیں یہ جہاد کی نمایاں صفت حضرت طلحہ اور حضرت زبیر میں تھی کہ اللہ کے دشمنوں پر بہت ہی سخت تھے اور ان کے عبدیت کے آثار جو بوجہ تاثیر ان کے سجدہ اور عبادات کے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں اور یہ سلمان، بلال، صہیب وغیرہ ہیں، ان کے یہی اوصاف توریت میں موجود ہیں اور انجیل میں ان کا یہ وصف موجود ہے۔- جیسے کھیتی کہ اس نے اپنی سوئی نکالی، چناچہ رسول اکرم کو مبعوث فرمایا اور سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق آپ پر ایمان لائے اور آپ کے دشمنوں کے مقابلہ میں آپ کے ساتھ نکلے اور پھر اس نے اس سوئی کو قوی کیا وہ حضرت عمر فاروق ہیں کہ اللہ کے دشمنوں کے مقابلہ میں ان کی تلوار نے رسول اکرم کی ہر مقام پر مدد فرمائی پھر وہ کھیتی اور موٹی ہوئی وہ حضرت عثمان غنی ہیں کہ ان کے مال و دولت نے جہاد فی سبیل اللہ میں قوت پیدا کی پھر وہ کھیتی اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی یعنی آپ حضرت علی کی وجہ سے قریش میں تبلیغ کے لیے کھڑے ہوگئے۔- اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے مشرف بااسلام ہونے سے رسول اکرم کو صحابہ کرام کی یہ جماعت اچھی معلوم ہونے لگی اور ان کا اسلام لانا کفار کو جلانے لگا۔- کہا گیا ہے کہ والذین معہ یہاں تک یہ آیت اصحاب بیعۃ الرضوان اور تمام مخلص صحابہ کرام کی فضیلت میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو کہ ایمان لائے اور نیک کام کر رہے ہیں دنیا و آخرت میں ان کے گناہوں کی مغفرت اور جنت میں اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں ‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں “- آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ دو طرح سے کیا جاتا ہے۔ اگر پہلا فقرہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط پر مکمل کردیا جائے اور وَالَّذِیْنَ سے دوسرا فقرہ شروع کیا جائے تو آیت کا مفہوم وہی ہوگا جو اوپر ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھی ہیں وہ کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں۔ لیکن اگر پہلے فقرے کو وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ تک پڑھا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ایک وحدت اور ایک جماعت ہیں۔ اس طرح دوسرے فقرے میں بیان کی گئی دو خصوصیات اس جماعت کی خصوصیات قرار پائیں گی۔ یعنی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت شفیق و مہربان ہیں۔ - اہل ایمان کی اس شان کا ذکر زیر مطالعہ آیت کے علاوہ سورة المائدۃ آیت ٥٤ میں بھی ہوا ہے۔ وہاں مومنین صادقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا : اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَز ” وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے ‘ کافروں پر بہت بھاری ہوں گے “۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے اس شعر میں اسی مضمون کی ترجمانی کی ہے : ؎- ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن - یہاں پر یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ یہ آیت بیعت کے تذکرے کے بعد آئی ہے۔ اس ترتیب سے گویا یہ یاددہانی کرانا مقصود ہے کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ کے الفاظ میں جس جماعت کا ذکر ہوا ہے وہ بیعت کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ اس حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت سے جو تفصیلات ملتی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بیعت لیتے تھے ‘ یہ ایمان کی بیعت تھی۔ لیکن سیرت کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اہل مکہ میں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی سے ایمان کی بیعت کبھی نہیں لی ‘ بلکہ اہل مکہ میں سے جو کوئی ایمان لانا چاہتا وہ کلمہ شہادت پڑھتا اور بس حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔ اس کے لیے کسی علامتی اقدام کی کبھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ہاں اگر کوئی شخص باہر سے آتا تو اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایمان کی بیعت لیتے تھے۔- اس کے علاوہ مکی دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو بیعتوں کا خصوصی طور پر اہتمام فرمایا تھا۔ یعنی بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ۔ ان میں بیعت عقبہ ثانیہ وہ بیعت ہے جس کی بنیاد پر مسلمان باقاعدہ ایک ” جماعت “ بنے تھے۔ اس بات کی گواہی اس بیعت کے الفاظ بھی دیتے ہیں۔ یہ الفاظ ایک متفق علیہ روایت کے مطابق حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے اس طرح نقل ہوئے ہیں : - بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ، فِی الْعُسْرِ والْیُسْرِ ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ ، وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا ، وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ، وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا ، لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ (١)- ” ہم نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے ‘ خواہ آسانی ہو یا مشکل ‘ خواہ ہماری طبیعت آمادہ ہو یا ہمیں اس پر جبر کرنا پڑے ‘ اور خواہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دے دی جائے۔ ہم اصحابِ اختیار سے جھگڑیں گے نہیں ‘ لیکن سچ بولیں گے جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے ‘ اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بےخوف رہیں گے۔ “- غور کیجئے ‘ اس بیعت کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ کس قدر اہم اور سبق آموز ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر حکم سنیں گے اور مانیں گے۔ خواہ مشکل ہو ‘ خواہ آسانی ہو ‘ خواہ اس کے لیے ہماری طبیعتیں آمادہ ہوں ‘ خواہ ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے اور خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے…یعنی ہم کبھی شکایت نہیں کریں گے کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پرانے ساتھی ہیں جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے اوپر ایک نوواردکو امیر کیوں مقرر کر رہے ہیں ؟ بس یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اختیار ہوگا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کو چاہیں امیر مقرر کریں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو فیصلہ چاہیں کریں… اور یہ کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ امیر سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے…اس بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بھی بہت واضح ہے : - (مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ ) (١)- ” جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ “- اطاعت امیر کے حوالے سے یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ جماعتی زندگی میں ” امیر “ صرف ایک نہیں ہوتابل کہ مختلف سطحوں پر اوپر نیچے بہت سے ” اُمراء “ ہوتے ہیں۔ جیسے فوج کا ایک سپہ سالار ہوتا ہے ‘ اس کے نیچے مختلف رجمنٹس ‘ بٹالینز ‘ کمپنیز اور پلاٹونز کے اپنے اپنے کمانڈرز ہوتے ہیں ‘ اسی طرح ایک تنظیم کا ایک مرکزی امیر ہوگا ‘ پھر صوبائی اُمراء ‘ ڈویثرنل امراء ‘ ضلعی امراء ہوں گے اور ان سب امراء کا سلسلہ وار سمع وطاعت کا نظام ہوگا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مذکورہ بیعت کی یہ آخری شق بھی بہت اہم ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے حق بات ضرور کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے۔ یعنی مشورہ مانگا جائے گا تو بےلاگ مشورہ دیں گے ‘ اپنی رائے کو چھپا کر نہیں رکھیں گے ۔ - ۔ اس حوالے سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایک مامور کی ذمہ داری صرف مشورہ دینے کی حد تک ہے۔ اس کے بعد امیر جو فیصلہ بھی کرے اسے دل و جان سے تسلیم کرنا اس پر لازم ہے ‘ جیسا کہ سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آیت ٢١ کے الفاظ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُقف سے واضح ہوتا ہے کہ جب فیصلہ ہوجائے تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت لازم ہے۔- بہر حال جب منہج ِانقلاب نبوی میں اقدام کا مرحلہ آنے کو تھا ‘ تبدیل ہورہی تھی میں ‘ تو مسلمانوں میں ایک باقاعدہ جماعت کا نظم وجود میں آیا اور اس نظم کی بنیاد بیعت عقبہ ثانیہ بنی۔ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ میں اسی جماعت اور اسی نظم کی طرف اشارہ ہے۔- تَرٰٹہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّـبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًاز ” تم دیکھو گے انہیں رکوع کرتے ہوئے ‘ سجدہ کرتے ہوئے ‘ وہ (ہر آن) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی رہتے ہیں “- سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ” ان کی پہچان ان کے چہروں پر (ظاہر) ہے سجدوں کے اثرات کی وجہ سے۔ “- سجدوں کے نشان سے عام طور پر پیشانی کا گٹہ ّمراد لے لیا جاتا ہے جو بعض نمازیوں کے چہروں پر کثرت سجود کی وجہ سے پڑجاتا ہے۔ لیکن یہاں اس سے اصل مراد ایک نمازی اور متقی مومن کے چہرے کی وہ نورانیت اور خاص کیفیت ہے جو اس کے عمل و کردار کی غمازی کرتی محسوس ہوتی ہے۔- ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰٹۃِ ” یہ ہے ان کی مثال تورات میں۔ “- یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) کی یہ تمثیل تورات میں بیان ہوئی ہے۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ نے تورات اور انجیل میں قطع و برید کر کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) کے بارے میں پیشین گوئیوں کو بالکل مسخ کردیا ہے ‘ تاہم آج بھی تورات اور انجیل دونوں میں ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا مصداق نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ مثلاً کتاب استثناء ‘ باب ٣٣ ‘ آیت ٢ ملاحظہ ہو : ” خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا ‘ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔ “ - وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَـہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ ” اور انجیل میں ان کی مثال یوں ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے نکالی اپنی کو نپل ‘ پھر اس کو تقویت دی ‘ پھر وہ سخت ہوئی ‘ پھر وہ اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی ۔ “- یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ ” یہ کا شتکار کو بڑی بھلی لگتی ہے “- یہ ایک کھیتی کی مثال ہے۔ بیج کو جب زمین میں دبایا جاتا ہے تو اس سے ایک چھوٹی سی نرم و نازک کو نپل پھوٹتی ہے ‘ پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے ‘ پھر اس کا تنا بنتا ہے اور اس کے بعد وہ ایک مضبوط پودے کی صورت میں بغیر کسی سہارے کے کھڑی ہوجاتی ہے۔ اس طرح جب ایک کھیتی کے تمام پودے اپنے جوبن پر ہوں اور فصل خوب لہلہا رہی ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر کاشتکار کا دل بھی خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔- لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ” تاکہ ان سے کافروں کے دل جلائے۔ “- اس آخری جملے میں گویا واضح کردیا گیا کہ اس مثال یا تشبیہہ کے پردے میں جس کھیتی کی بات ہو رہی ہے وہ دراصل صحابہ کرام (رض) کی جماعت ہے اور اس کھیتی کا کاشتکار خود اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ چشم تصور سے اس جماعت کے ماضی میں جھانکیں تو ہمیں چند سال پہلے کا وہ نقشہ نظر آئے گا جب سر زمین مکہ میں دعوت کے بیج سے ایک ایک کر کے اس کھیتی کی نرم و نازک کو نپلیں نمودار ہو رہی تھیں۔ اس وقت ان کو نپلوں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنے بل پر کھڑی ہوسکتیں۔ جناب ابو طالب کے انتقال کے وقت مکہ میں بمشکل ڈیڑھ سو مسلمان تھے۔ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبیلے نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعلق توڑ لیا تھا اور قبیلے کی حمایت کے بغیر مکہ میں رہنا بھی بظاہر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعوت اور تحریک کے متبادل مرکز کی تلاش میں طائف تشریف لے گئے تھے۔ لیکن وہاں سے بہت تکلیف دہ حالت میں خالی ہاتھ واپس آنا پڑا تھا۔ طائف سے واپسی تک صورت حال اس حد تک گھمبیر ہوچکی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ میں داخل ہونے کے لیے ایک مشرک مطعم بن عدی کی امان لیناپڑی تھی۔ ایک صورت حال وہ تھی جو ُ کل سرزمین مکہ میں اہل ایمان کو برداشت کرنا پڑی تھی اور ایک منظر یہ تھا جس کا نظارہ آج حدیبیہ کا میدان کر رہا تھا ‘ جہاں چودہ سو یا اٹھارہ سو مجاہدین کی سربکف جمعیت سر کٹانے کے لیے بےتاب و بےقرار تھی۔ ان کا نظم و ضبط ‘ ان کا جذبہ ایثار ‘ بیعت علی الموت کے لیے ان کا جوش و خروش ‘ پھر جنگ کے ٹل جانے اور جانوں کے بچ جانے پر ان کا ملال اور بظاہر دب کر صلح کرنے پر ان کا رنج۔ غرض ان کی ہر ادا نرالی اور ان کا ہر انداز انوکھا تھا۔ یہ تھی وہ کھیتی جو آج حدیبیہ کے میدان میں لہلہاتی ہوئی دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھی۔ اس کھیتی کے جوبن کی اس نرالی شان کو آج ملائکہ مقربین بھی رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوں گے اور اس کے ” نگہبان “ کے اندازِ نگہبانی کی تحسین کے لیے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کے ترانے الاپتے ہوں گے۔- ” لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ “ کے الفاظ میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس کھیتی پر جس کا دل جلتا ہو قرآن حکیم اس کے ایمان کی نفی کر رہا ہے۔ صحابہ (رض) سے بغض ہو اور دعویٰ ایمان کا ہو تو اس دعویٰ میں کوئی صداقت نہیں۔- وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا ” اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ‘ مغفرت اور اجر عظیم کا۔ “- تفسیر عثمانی میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام صحابہ (رض) ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کرچکے تھے ‘ پھر بھی یہاں مِنْہُمْ کی قید لگا کر ان پر واضح کردیا گیا کہ اس کیفیت پر موت تک قائم رہنا بھی ضروری ہے ‘ مبادا کہ بعد میں کسی کے اندر کسی قسم کا کوئی تزلزل پیدا ہوجائے۔ انسان چونکہ طبعاً کمزور واقع ہوا - ہے ‘ اس لیے اگر اس کو کامیابی کا یقین دلادیا جائے تو اطمینان کی وجہ سے اس میں تساہل پیدا ہوجاتا ہے ‘ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے ہاں بلند مقام حاصل کرلینے کے باوجود بھی انسان آخری دم تک ” بین الخوف و الرجاء “ کی کیفیت میں رہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :52 اصل الفاظ میں اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّار ، ۔ عربی زبان میں کہتے ہیں فُلانٌ شَدِیْدٌ عَلَیْہِ ، فلاں شخص اس پر شدید ہے ، یعنی اس کو رام کرنا اور اپنے مطلب پر لانا اس کے لیے مشکل ہے ۔ کفار پر اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ درشتی اور تند خوئی سے پیش آتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی ، اصول کی مضبوطی ، سیرت کی طاقت ، اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلے میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں ۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں ۔ وہ نرم نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں ۔ انہیں کسی خوف سے دبایا نہیں جاسکتا ۔ انہیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جاسکتا ۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انہیں اس مقصد عظیم سے ہٹا دیں جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :53 یعنی ان کی سختی جو کچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے ، اہل ایمان کے لیے نہیں ہے ۔ اہل ایمان کے مقابلے میں وہ نرم ہیں ، رحیم و شفیق ہیں ، ہمدرد و غمگسار ہیں ۔ اصول اور مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی و ساز گاری پیدا کر دی ہے ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :54 اس سے مراد پیشانی کا وہ گٹہ نہیں ہے جو سجدے کرنے کی وجہ سے بعض نمازیوں کے چہرے پر پڑ جاتا ہے ۔ بلکہ اس سے مراد خدا ترسی ، کریم النفسی ، شرافت اور حسن اخلاق کے وہ آثار ہیں جو خدا کے آگے جھکنے کی وجہ سے فطرۃ آدمی کے چہرے پر نمایاں ہو جاتے ہیں ۔ انسان کا چہرہ ایک کھلی کتاب ہوتا ہے جس کے صفحات پر آدمی کے نفس کی کیفیات بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں ۔ ایک متکبر انسان کا چہرہ ایک متواضع اور منکسرالمزاج آدمی کے چہرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ ایک بد اخلاق آدمی کا چہرہ ایک نیک نفس اور خوش خلق آدمی کے چہرے سے الگ پہچانا جاتا ہے ۔ ایک لفنگے اور بدکار آدمی کی صورت اور ایک شریف پاک باز آدمی کی سورت میں نمایاں فرق ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ساتھی تو ایسے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی ایک آدمی بیک نظر یہ معلوم کر سکتا ہے کہ یہ خیر الخلائق ہیں ، کیونکہ خدا پرستی کا نور ان کے چہروں پر چمک رہا ہے ۔ یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فوجیں شام کی سر زمین میں داخل ہوئیں تو شام کے عیسائی کہتے تھے کہ مسیح کے حواریوں کی جو شان ہم سنتے تھے یہ تو اسی شان کے لوگ نظر آتے ہیں ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :55 غالبا یہ اشارہ کتاب استثناء ، باب 33 ، آیات 2 ۔ 3 کی طرف ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد مبارک کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے صحابہ کے لیے قدسیوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کے سوا اگر صحابہ کرام کی کوئی صفت توراۃ میں بیان ہوئی تھی تو وہ اب موجودہ محرف توراۃ میں نہیں ملتی ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :56 یہ تمثیل حضرت عیسی علیہ السلام کے ایک وعظ میں بیان ہوئی ہے جسے بائیبل کے عہد نامہ جدید میں اس طرح نقل کیا گیا ہے ۔ اور اس نے کہا خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے اور دن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح اگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے ۔ زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے ۔ پتی ، پھر بالیں ، پھر بالوں میں تیار دانے ، پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رائی کے دانے کے مانند ہے کہ جب زمین میں بویا جاتا ہے تو زمین کے سب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے ۔ مگر جب بو دیا گیا تو اگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتا ہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندے اس کے سائے میں بسیرا کر سکتےہیں ۔ ( مرقس ، بابا4 ، آیات 26 تا 32 ۔ اس وعظ کا آخری حصہ انجیل متی ، باب13 ، آیات 31 ۔ 32 میں بھی ہے ) ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :57 ایک گروہ اس آیت میں مِنْھُمْ کی مِنْ کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ان میں سےجو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اس طرح یہ لوگ صحابہ کرام پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے صحابہ کرام میں سے بہت سے لوگ مومن و صالح نہ تھے ۔ لیکن یہ تفسیر اسی سورۃ کی آیات 4 ۔ 5 ۔ 18 اور 26 کے خلاف پڑتی ہے ، اور خود اس آیت کے ابتدائی فقروں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ آیات 4 ۔ 5 ۔ میں اللہ تعالی نے ان تمام صحابہ کے دلوں میں سکنیت نازل کیے جانے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے جو حدیبیہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، اور بالا استثناء ان سب کو جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ہے ۔ آیت 18 میں اللہ تعالی نے ان سب لوگوں کے حق میں اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی ، اور اس میں بھی کوئی استثناء نہیں ہے ۔ آیت 26 میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ساتھیوں کے لیے مومنین کا لفظ استعمال کیا ہے ، ان کے اوپر اپنی سکنیت نازل کرنے کی خبر دی ہے ، اور فرمایا ہے کہ یہ لوگ کلمہ تقوی کی پابندی کے زیادہ حق دار اور اسکے اہل ہیں ۔ یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے جو مومن ہیں صرف ان ہی کے حق میں یہ خبر دی جا رہی ہے ۔ پھر خود اس آیت کے بھی ابتدائی فقروں میں جو تعریف بیان کی گئی ہے وہ ان سب لوگوں کے لیے ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ الفاظ یہ ہیں کہ جو لوگ بھی آپ کے ساتھی ہیں وہ ایسے اور ایسے ہیں ۔ اس کے بعد یکایک آخری فقرے پر پہنچ کر یہ ارشاد فرمانے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ مومن و صالح تھے اور کچھ نہ تھے ۔ اس لیے یہاں منْ کو تبعیض کے معنی میں لینا نظم کلام کے خلاف ہے ۔ درحقیقت یہاں مِنْ بیان کے لیے ہے جس طرح آیت فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاوثَانِ ( بتوں کی گندگی سےبچو ) میں مِنْ تبعیض کے لیے نہیں بلکہ لازما بیان ہی کے لیے ہے ، ورنہ آیت کے معنی یہ ہو جائیں گے کہ بتوں میں سےجو ناپاک ہیں ان سے پرہیز کرو ، اور اس سے نتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ بت پاک بھی قرار پائیں گے جن کی پرستش سےپرہیز لازم نہ ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

31: جیسا کہ پیچھے حاشیہ نمبر 27 میں گذرا ہے، کافروں نے صلح نامہ لکھواتے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام مبارک محمد رسول اللہ لکھوانے سے انکار کیا تھا، اور صرف محمد بن عبداللہ لکھوایا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آپ کو محمد رسول اللہ فرماکر اشارہ دیا ہے کہ کافر لوگ اس حقیقت سے چاہے کتنا انکار کریں، اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت تک قرآن کریم میں ثبت فرمادیا ہے۔ 32: اگرچہ تورات میں بہت سی تبدیلیاں ہوچکی ہیں، لیکن بائبل کے جن صحیفوں کو آج کل یہودی اور عیسائی مذہب میں تورات کہا جاتا ہے، ان میں سے ایک یعنی استثناء :2، 3 میں ایک عبارت ہے جس کے بارے میں یہ احتمال ہے کہ شاید قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہو۔ وہ عبارت یہ ہے : خداوند سینا سے آیا، اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا، اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا، اور وہ دس ہزار قدسیوں میں سے آیا۔ اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشیں شریعت تھی۔ وہ بیشک قوموں سے محبت رکھتا ہے، اس کے سب مقدس لوگ تیرے ہاتھ میں ہیں، اور وہ تیرے قدموں میں بیٹھے ایک ایک تیری باتوں سے مستفیض ہوگا۔ (استثناء :2، 3) واضح رہے کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا آخری خطبہ ہے، جس میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی وحی کوہ سینا پر اتری، جس سے مراد تورات ہے، پھر کوہ شعیر پر اترے گی، جس سے مراد انجیل ہے، کیونکہ کوہ شعیر وہ پہاڑ ہے، جسے آج جبل الخلیل کہتے ہیں، اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ پھر فرمایا گیا ہے کہ تیسری وحی کوہ فاران پر اترے گی، جس سے مراد قرآن کریم ہے، کیونکہ فاران اس پہاڑ کا نام ہے جس پر غار حرا واقع ہے۔ اور اس ی میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی تعداد دس ہزار تھی، لہذا ’’ دس ہزار قدسیوں میں سے آیا‘‘ سے ان صحابہ کی طرف اشارہ ہے۔ (واضح رہے کہ قدیم نسخوں میں دس ہزار کا لفظ ہے، اب بعض نسخوں میں اسے لاکھوں سے تبدیل کردیا گیا ہے)۔ نیز قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ صحابہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں۔ استثناء کی مذکورہ عبارت میں ہے کہ : اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشیں شریعت تھی۔ قرآن کریم میں ہے کہ : وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ اور وہ استثناء کی مذکورہ عبارت میں ہے کہ : وہ بیشک قوموں سے محبت رکھتا ہے۔ اس لیے بات دور از قیاس نہیں ہے کہ قرآن کریم نے اس عبارت کا حوالہ دیا ہو، اور وہ تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ استثناء کی عبارت کی شکل میں رہ گئی ہو۔ 33: انجیل مرقس میں بالکل یہی تشبیہ ان الفاظ میں مذکور ہے۔ خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے اور دن کو جاگے، اور وہ بیج اس طرح اگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے پہلے پتی، پھر بالیں، پھر بالوں میں تیار دانے۔ پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا۔ (مرقس : 26 تا 29) یہی تشبیہ انجیل لوقا : 18، 19 اور انجیل متی : 31 میں بھی موجود ہے۔