عہد شکن لوگ؟ اور امام مہدی کون؟ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو عہد و پیمانے کی وفاداری ، حق پر مستقیم رہنے اور عدل کی شہادت دینے کا حکم دیا تھا ۔ ساتھ ہی اپنی ظاہری و باطنی نعمتوں کو یاد دلایا تھا ۔ تو اب ان آیتوں میں ان سے پہلے کے اہل کتاب سے جو عہد و میثاق لیا تھا ، اس کی حقیقت و کیفیت کو بیان فرما رہا ہے ، پھر جبکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان توڑ ڈالے تو ان کا کیا حشر ہوا ، اسے بیان فرما کر گویا مسلمانوں کو عہد شکنی سے روکتا ہے ۔ ان کے بارہ سردار تھے ۔ یعنی بارہ قبیلوں کے بارہ چودھری تھے جو ان سے ان کی بیعت کو پورا کراتے تھے کہ یہ اللہ اور رسول کے تابع فرمان رہیں اور کتاب اللہ کی اتباع کرتے رہیں ۔ حضرت موسیٰ جب سرکشوں سے لڑنے کیلئے گئے تب ہر قبیلہ میں سے ایک ایک سردار منتخب کر گئے تھے ۔ اوبیل قبیلے کا سردار شامون بن اکون تھا ، شمعونیوں کا چودھری شافاط بن جدی ، یہودا کا کالب بن یوحنا ، فیخائیل کا ابن یوسف اور افرایم کا یوشع بن نون اور بنیامین کے قبیلے کا چودھری قنطمی بن وفون ، زبولون کا جدی بن شوری ، منشاء کاجدی بن سوسی ، دان حملاسل کا ابن حمل ، اشار کا ساطور ، تفتای کا بحر اور یاسخر کالابل ۔ توراۃ کے چوتھے جز میں بنو اسرائیل کے قبیلوں کے سرداروں کے نام مذکور ہیں ۔ جو ان ناموں سے قدرے مختلف ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ موجودہ تورات کے نام یہ ہیں ۔ بنو ادبیل پر صونی بن سادون ، بنی شمعون پر شموال بن صور ، بنو یہود پر حشون بن عمیاذب ، بنو یساخر پر شال بن صاعون ، بنو زبولوں پر الیاب بن حالوب ، بنو افرایم پر منشا بن عنہور ، بنو منشاء پر حمائیل بنو بیبا میں پر ابیدن ، بنودان پر جعیذ ربنو اشاذ نحایل ۔ بون کان پر سیف بن دعوابیل ، بنو نفعالی پر اجذع ۔ یاد رہے کہ لیلتہ العقبہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے بیعت لی اس وقت ان کے سردار بھی بارہ ہی تھے ۔ تین قبیلہ اوس کے ۔ حضرت اسید بن حضیر ، حضرت سعد بنی خیشمہ اور حضرت رفاعہ بن عبد المنذر اور نو سردار قبیلہ خزرج تھے ۔ ابو امامہ ، اسعد بن زرارہ ، سعد بن ربیع ، عبداللہ بن رواحہ ، رافع بن مالک بن عجلان براء بن معرور عبادہ بن صامت ، سعد بن عبادہ ، عبداللہ بن عمرو بن حرام ، منذربن عمرو بن حنیش اجمعین ۔ انہی سرداروں نے اپنی اپنی قوم کی طرف سے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے فرامین سننے اور ماننے کی بیعت کی ، حضرت مسروق فرماتے ہیں ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے تھے ، آپ ہمیں اس وقت قرآن پڑھا رہے تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی پوچھا ہے کہ اس امت کے کتنے خلیفہ ہوں گے؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا میں جب سے عراق آیا ہوں ، اس سوال کو بجز تیرے کسی نے نہیں پوچھا ، ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا ، بارہ ہوں گے ، جتنی گنتی بنو اسرائیل کے نقیبوں کی تھی ۔ یہ روایت سنداً غریب ہے ، لیکن مضمون حدیث بخاری اور مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے ، جابر بن سمرہ فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، لوگوں کا کام چلتا رہے گا ، جب تک ان کے والی بارہ شخص نہ ہو لیں ، پھر ایک لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نہ سن سکا تو میں نے دوسروں سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اب کونسا لفظ فرمایا ، انہوں نے جواب دیا یہ فرمایا کہ یہ سب قریش ہوں گے ۔ صحیح مسلم میں یہی لفظ ہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بارہ خلیفہ صالح نیک بخت ہونگے ۔ جو حق کو قائم کریں گے اور لوگوں میں عدل کرینگے ۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ سب پے درپے یکے بعد دیگرے ہی ہوں ۔ پس چار خلفاء تو پے درپے حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت جن کی خلافت بطریق نبوت رہی ۔ انہی بارہ میں سے پانچویں حضرت عمر بن عبد العزیز ہیں ۔ بنو عباس میں سے بھی بعض اسی طرح کے خلیفہ ہوئے ہیں اور قیامت سے پہلے پہلے ان بارہ کی تعداد پوری ہونی ضروری ہے اور انہی میں سے حضرت امام مہدی ہیں ، جن کی بشارت احادیث میں آ چکی ہے ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہوگا اور ان کے والد کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا ہوگا ، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے حالانکہ اس سے پہلے وہ ظلم و جبر سے پُر ہوگی لیکن اس سے شیعوں کا امام منتظر مراد نہیں ، اس کی تو دراصل کوئی حقیقت ہی نہیں ، نہ سرے سے اس کا کوئی وجود ہے ، بلکہ یہ تو صرف شیعہ کی وہم پرستی اور ان کا تخیل ہے ، نہ اس حدیث سے شیعوں کے فرقے اثنا عشریہ کے ائمہ مراد ہیں ۔ اس حدیث کو ان ائمہ پر محمول کرنا بھی شیعوں کے اس فرقہ کی بناوٹ ہے جو ان کی کم عقلی اور جہالت کا کرشمہ ہے ۔ توراۃ میں حضرت اسمعیل کی بشارت کے ساتھ ہی مرقوم ہے کہ ان کی نسل میں سے بارہ بڑے شخص ہونگے ، اسے مراد بھی یہی مسلمانوں کے بارہ قریشی بادشاہ ہیں لیکن جو یہودی مسلمان ہوئے تھے ، وہ اپنے اسلام میں کچے اور جاہل بھی تھے ، انہوں نے شیعوں کے کان میں کہیں یہ صور پھونک دیا اور وہ سمجھ بیٹھے کہ اس سے مراد ان کے بارہ امام ہیں ، ورنہ حدیثیں اس کے واضح خلاف موجود ہیں ۔ اب اس عہد و پیمان کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے لیا تھا کہ وہ نمازیں پڑھتے رہیں ، زکوٰۃ دیتے رہیں ، اللہ کے رسولوں کی تصدیق کریں ، ان کی نصرت و اعانت کریں اور اللہ کی مرضی کے کاموں میں اپنا مال خرچ کریں ۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت ان کے ساتھ رہے گی ، ان کے گناہ معاف ہونگے اور یہ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے ، مقصود حاصل ہوگا اور خوف زائل ہوگا ، لیکن اگر وہ اس عہد و پیما کے بعد پھر گئے اور اسے غیر معروف کر دیا تو یقینا وہ حق سے دور ہو جائیں گے ، بھٹک اور بہک جائیں گے ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ انہوں نے میثاق توڑ دیا ، وعدہ خلافی کی تو ان پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی ، ہدایت سے دور ہو گئے ، ان کے دل سخت ہو گئے اور وعظ و پند سے مستفید نہ ہو سکے ، سمجھ بگڑ گئی ، اللہ کی باتوں میں ہیر پھیر کرنے لگے ، باطل تاویلیں گھڑنے لگے ، جو مراد حقیقی تھی ، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے ، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے ، جو مراد حقیقی تھی ، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے ، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے جو اللہ کے بتائے ہوئے نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ کی کتاب ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ، وہ اس سے بےعمل چھوٹ جانے کی توجہ سے نہ تو دل ٹھیک رہے ، نہ فطرت اچھی رہی ۔ نہ خلوص و اخلاص رہا ، غداری اور مکاری کو اپنا شیوہ بنا لیا ۔ نت نئے جال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب نبی کے خلاف بنتے رہے ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے کہ آپ ان سے چشم پوشی کیجئے ، یہی معاملہ ان کے ساتھ اچھا ہے ، جیسے حضرت عمر فاروق سے مروی ہے کہ جو تجھ سے اللہ کے فرمان کے خلاف سلوک کرے تو اس سے حکم الٰہی کی بجا آوری کے ماتحت سلوک کر ۔ اس میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ ممکن ہے ان کے دل کھچ آئیں ، ہدایت نصیب ہو جائے اور حق کی طرف آ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ یعنی دوسروں کی بدسلوکی سے چشم پوشی کر کے خود نیا سلوک کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں درگزر کرنے کا حکم جہاد کی آیت سے منسوب ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان نصرانیوں سے بھی ہم نے وعدہ لیا تھا کہ جو رسول آئے گا ، یہ اس پر ایمان لائیں گے ، اس کی مدد کرینگے اور اس کی باتیں مانیں گے ۔ لیکن انہوں نے بھی یہودیوں کی طرح بد عہدی کی ، جس کی سزا میں ہم نے ان میں آپس میں عداوت ڈال دی جو قیامت تک جاری رہے گی ۔ ان میں فرقے فرقے بن گئے جو ایک دوسرے کو کافر و ملعون کہتے ہیں اور اپنے عبادت خانوں میں بھی نہیں آنے دیتے ملکیہ فرقہ یعقوبیہ فرقے کو ، یعقوبیہ ملکیہ کو کھلے بندوں کافر کہتے ہیں ، اسی طرح دوسرے تمام فرقے بھی ، انہیں ان کے اعمال کی پوری تنبیہہ عنقریب ہوگی ۔ انہوں نے بھی اللہ کی نصیحتوں کو بھلا دیا ہے اور اللہ پر تہمتیں لگائی ہیں اس پر بیوی اور اولاد والا ہونے کا بہتان باندھا ہے ، یہ قیامت کے دن بری طرح پکڑے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ واحد واحد فرد و صمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد ہے ۔
1۔ 12 جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر ظاہرا و باطنا ہوئے اور بالخصوص یہ بات کہ انہیں حق وثواب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس مقام پر اس عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا اور جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ گویا بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنو اسرائیل کی طرح عہد ومیثاق کو پامال کرنا شروع نہ کردینا۔ 2۔ 12 اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جبابرہ سے قتال کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں بارہ نقیب مقرر فرما دیے تاکہ وہ انہیں جنگ کے لیے تیار بھی کریں، ان کی قیادت و راہنمائی بھی کریں اور دیگر معاملات کا انتظام بھی کریں۔
[٣٣] بنی اسرائیل کے بارہ نقیب اور ان کی ذمہ داریاں :۔ نقیب کے معنی ہیں نگرانی اور تفتیش کرنے والا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں موجود تھے۔ بنی اسرائیل نے جب موسیٰ (علیہ السلام) سے پانی کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فلاں پتھر پر اپنا عصا مارو تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا اور ہر قبیلہ نے اپنا اپنا چشمہ یا پانی پینے کی جگہ پہچان لی اور اس پر قابض ہوگیا۔ انہیں بارہ قبائل میں سے ہر قبیلہ سے ایک ایک نقیب مقرر کیا گیا۔ جس کا کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کے اخلاق و کردار کی نگرانی کرے اور انہیں بےدینی اور بداخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے۔- [٣٤] اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ معیت چار باتوں سے مشروط تھا۔ (١) بنی اسرائیل نماز کو قائم کرتے رہیں (٢) زکوٰۃ ادا کرتے رہیں (٣) بعد میں جو رسول مبعوث ہوں ان پر ایمان بھی لائیں اور ان کی جان اور مال سے مدد بھی کریں اور (٤) لوگوں کو قرضہ حسنہ دیتے رہیں۔ گویا جو ذمہ داری ان نقیبوں پر ڈالی گئی تھی ان میں سے مذکورہ چار کام سب سے اہم تھے اور ان سے عہد یہ تھا کہ اگر وہ ذمہ داری پوری کرتے رہیں گے تو یقینا اللہ ان کے ساتھ ہوگا اور ان کی ہر معاملہ میں مدد فرمائے گا۔- [٣٥] برائیاں دور کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو شخص نیکی کے مذکورہ بالا بڑے بڑے کاموں میں لگا رہے اس کا ذہن برائیوں کی طرف منتقل ہوتا ہی نہیں اور وہ برائیوں سے بچا رہتا ہے اور برائیاں اس سے دور رہتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر ان سے کچھ برائیاں سرزد ہو بھی جائیں تو وہ ایسی بڑی نیکیوں کے تلے دب جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر گرفت ہی نہیں فرماتے۔- [٣٦] سیدھی راہ اور اس کی صفات :۔ سواء السبیل سے مراد وہ راہ ہے جو متوازن، معتدل اور افراط وتفریط سے پاک ہو۔ کیونکہ یہ راہ اس علیم و حکیم ہستی کی بتلائی ہوئی ہے جو تمام حقائق سے پوری طرح واقف ہے اور سب انسان اس کی نظروں میں یکساں ہیں۔ یہ کسی انسان کی بتائی ہوئی راہ نہیں۔ جس پر اس کے اپنے جذبات، وطن اور قوم کی محبت یا دوسری معاشی اور معاشرتی عوامل اثر انداز ہوجاتے ہیں اور وہ ایسی معتدل، متوازن اور افراط وتفریط سے پاک راہ کا سراغ لگا بھی نہیں سکتا۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے خود ہی انسانون کو یہ راہ بتلا دی جس سے انہیں اس دنیا میں بھی اس راستہ کی تلاش کے لیے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی اور آخرت میں بھی وہ کامرانیوں سے ہمکنار ہوجائے گا۔
وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ ۚ ۔۔ : پیچھے آیت (٧) میں گزرا ہے کہ مسلمانو اپنے آپ پر اللہ کی نعمت اور اپنے اس عہد کو یاد کرو جب تم نے سمع و طاعت کا پختہ عہد کیا تھا، اب فرمایا کہ یہ عہد صرف تم ہی سے نہیں لیا گیا بلکہ تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی اسی قسم کا عہد لیا گیا تھا، مگر انھوں نے عہد توڑ دیا اور ذلت و مسکنت کا شکار ہوئے، لہٰذا تم ان جیسے مت بنو۔ (کبیر) بنی اسرائیل کے کل بارہ قبیلے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھی میں سے ان پر بارہ سردار مقرر کردیے، تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھیں اور انھیں اپنے عہد پر قائم رہنے کی تلقین کرتے رہیں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ نقیب ( سردار) ان جبارین (زبردست لوگوں کی قوم) کی خبر لانے کے لیے مقرر کیے تھے جن کا ذکر آیت (٢١ تا ٢٦) میں آ رہا ہے۔ (ابن کثیر) مگر ظاہر الفاظ سے پہلی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی لیلۃ العقبہ میں جب سمع و طاعت پر بیعت لی تھی تو ان پر بارہ نقیب ہی مقرر فرمائے تھے۔ (قرطبی)
اس آیت میں مسلمانوں سے عہد و میثاق لینے اور ان کے ایفاء عہد پر دنیا و آخرت میں اس کے بیش بہا نتائج کا ذکر کرنے کے بعد معاملہ کا دوسرا رخ سامنے لانے کے لئے دوسری آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ عہد و میثاق لینا صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص نہیں، بلکہ ان سے پہلے دوسری امتوں سے بھی اسی قسم کے میثاق لئے گئے تھے۔ مگر وہ اپنے عہد و میثاق میں پورے نہ اترے۔ اس لئے ان پر طرح طرح کے عذاب مسلط کئے گئے۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی ایک عہد لیا تھا۔ اور ان سے عہد لینے کی یہ صورت اختیار کی گئی تھی کہ پوری قوم بنی اسرائیل جو بارہ خاندانوں پر مشتمل تھی انہیں سے ہر خاندان سے ایک سردار چنا گیا، اور ہر خاندان کی طرف سے اس کے سردار نے ذمہ داری اٹھائی کہ میں اور میرا پورا خاندان اس میثاق الہٰی کی پابندی کرے گا۔ اس طرح ان بارہ سرداروں نے پوری قوم بنی اسرائیل کی ذمہ داری لے لی۔ ان کے ذمہ یہ تھا کہ خود بھی اس میثاق کی پابندی کریں اور اپنے خاندان سے بھی کرائیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عزت و فضیلت کے معاملہ میں اسلام کا اصل اصول تو یہ ہے کہ - بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی - کہ دریں راہ فلاں بن فلاں چیزے نیست - رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجة الوداع کے تاریخی خطبہ میں پوری وضاحت کے ساتھ اس کا اعلان فرمادیا ہے کہ اسلام میں عرب و عجم، کالے گورے اور اونچی نیچی ذات، پات کا کوئی اعتبار نہیں۔ جو اسلام میں داخل ہوگیا وہ سارے مسلمانوں کا بھائی ہوگیا۔ حسب، نسب، رنگ، وطن، زبان کے امتیازات جو جاہلیت کے بت تھے ان سب کو اسلام نے توڑ ڈالا، لیکن اس کے معنیٰ یہ نہیں کہ انتظامی معاملات میں نظم قائم رکھنے کے لئے بھی خاندانی خصوصیات کا لحاظ نہ کیا جائے۔ یہ فطری امر ہے کہ ایک خاندان کے لوگ اپنے خاندان کے جانے پہچانے آدمی پر بہ نسبت دوسروں کے زیادہ اعتماد کرسکتے ہیں۔ اور یہ شخص ان کی پوری نفسیات سے واقف ہونے کی بنا پر ان کے جذبات و خیالات کی زیادہ رعایت کرسکتا ہے۔ اسی حکمت عملی پر مبنی تھا کہ بنی اسرائیل کے بارہ خاندانوں سے جب عہد لیا گیا تو ہر خاندان کے ایک ایک سردار کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔- اور اسی انتظامی مصلحت اور مکمل اطمینان و سکون کی رعایت اس وقت بھی کی گئی جب کہ قوم بنی اسرائیل پانی نہ ہونے کی وجہ سے سخت اضطراب میں تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی اور بح کے لئے علیحدہ علیحدہ جاری کر دئے۔- سورة اعراف میں قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان عظیم کا اس طرح ذکر فرمایا ہے :۔- وقطعنہم اثنتی عشرة اسباطا امما اور فانبجست منہ اثنتا عشرة عینا - ہم نے بانٹ دیئے ان کے بارہ خاندان بارہ جماعتوں میں۔ پھر پھوٹ نکلے پتھر سے بارہ چشمے (ہر ایک خاندان کے لئے جدا جدا) ۔- اور یہ بارہ کا عدد بھی کچھ عجیب خصوصیات اور مقبولیت رکھتا ہے۔- جس وقت انصار مدینہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ کے لئے دعوت دینے کے لیے حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بذریعہ بیعت معاہدہ لیا تو اس معاہدہ میں بھی انصار کے بارہ سرداروں نے ذمہ داری لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک پر بیعت کی تھی ان میں تین سردار قبیلہ اوس کے اور نو قبیلہ خزرج کے تھے (ابن کثیر) ۔- اور صحیحین میں حضرت جابر بن سمرة (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگوں کا کام اور نظام اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کہ بارہ خلیفہ ان کی قیادت کریں گے۔ امام ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ اس حدیث کے کسی لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ بارہ امام یکے بعد دیگرے مسلسل ہوں گے۔ بلکہ ان کے درمیان فاصلہ بھی ہوسکتا ہے۔ چناچہ چار خلفاء صدیق اکبر، فاروق اعظم، عثمان غنی، علی المرتضیٰ (رض) مسلسل ہوئے اور درمیان کی کچھ مدت کے بعد پھر حضرت عمر بن عبد العزیز باجماع خلیفہ برحق مانے گئے۔ - خلاصہ کلام یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے معاہدہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارہ خاندانوں کے بارہ سرداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور ان سے ارشاد فرمایا : انی معکم یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے میثاق کی پابندی کی اور دوسروں سے پابندی کرانے کا عزم کیا تو میری امداد و نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔ اس کے بعد آیت مذکورہ میں اس میثاق کی چند اہم دفعات اور بنی اسرائیل کی عہد شکنی اور ان پر عذاب الہٰی کا ذکر ہے۔ - میثاق کی دفعات کا ذکر کرنے سے پہلے ایک جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ : انی معکم جس میں دو باتیں بتلا دی گئیں ہیں۔ ایک یہ کہ اگر میثاق پر قائم رہے تو میری امداد تمہارے ساتھ رہے گی اور تم ہر قدم پر اس کا مشاہدہ کرو گے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر جگہ تمہارے ساتھ ہے، اور اس میثاق کی نگرانی فرما رہا ہے، تمہارا کوئی عزم و ارادہ اور فکر و خیال یا حرکت و عمل اس کے علم سے باہر نہیں ہے۔ وہ تمہاری خلوتوں کے رازوں کو بھی دیکھتا اور سنتا ہے۔ وہ تمہارے دلوں کی نیتوں اور ارادوں سے بھی واقف ہے۔ میثاق کی خلاف ورزی کرکے تم کسی طرح بھی اس کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ اس کے بعد میثاق کی دفعات میں سب سے پہلے اقامت صلوة کا ذکر ہے۔ اور پھر اداء زکوٰة کا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰة کے فرائض اسلام سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر بھی عائد تھے۔ اور دوسرے قرآنی اشارات و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فرائض صرف بنی اسرائیل ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر پیغمبر اور ہر شریعت میں ہمیشہ عائد رہے ہیں۔ تیسرا نمبر میثاق میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سب رسولوں پر ایمان لائیں اور ان کے مقصد رشدو ہدایت میں ان کی امداد کریں۔- بنی اسرائیل میں چونکہ بہت سے رسول آنے والے تھے، اس لئے ان کو خصوصیت سے اس کی تاکید فرمائی گئی اور اگرچہ ایمانیات کا درجہ عملیات، نماز، زکوٰة سے رتبةً مقدم ہے۔ مگر میثاق میں مقدم اس کو رکھا گیا جس پر بالفعل عمل کرنا تھا۔ آنے والے رسول تو بعد میں آئیں گے، ان پر ایمان لانے اور ان کی امداد کرنے کا وقوع بھی بعد میں ہونے والا تھا اس لئے اس کو موخر بیان فرمایا گیا۔ - چوتھا نمبر میثاق میں یہ ہے کہ : اقرضتم اللّٰہ قرضاً حسناً (یعنی تم اللہ تعالیٰ کو قرض دو ، اچھی طرح کا قرض) ۔ اچھی طرح کے قرض کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ ہو، کوئی دنیوی غرض اس میں شامل نہ ہو، اور اللہ کی راہ میں اپنی محبوب چیز خرچ کرے۔ ردّی اور بیکار چیزیں دے کر نہ ٹالے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو قرض دینے سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ قرض کا بدلہ قانوناً و عرفاً اور اخلاقاً واجب الاداء سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ یقین کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں خرچ کریں کہ اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔ - اور زکوٰة فرض کا ذکر مستقلاً کرنے کے بعد اس جگہ قرض حسن کا ذکر یہ بتلا رہا ہے کہ اس سے مراد زکوٰة کے علاوہ دوسرے صدقات و خیرات ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان صرف زکوٰة ادا کرکے ساری مالی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوجاتا۔ زکوٰة کے علاوہ بھی کچھ اور مالی حقوق انسان کے ذمہ لازم ہیں۔ کسی جگہ مسجد نہیں تو تعمیر مسجد اور دینی تعلیم کے لئے حکومت متکفل نہیں ہے تو دینی تعلیم کا انتظام مسلمانوں ہی پر لازم ہے۔ فرق اتنا ہے کہ زکوٰة فرض عین اور یہ فرض کفایہ ہے - فرض کفایہ کے معنیٰ یہ ہیں کہ قوم کے چند افراد یا کسی جماعت نے ان ضرورتوں کو پورا کردیا تو دوسرے مسلمان سبکدوش ہوجاتے ہیں اور اگر کسی نے بھی نہ کیا تو سب گنہگار ہوتے ہیں۔ آج کل دینی تعلیم اور اس کے مدارس جس کسمپرسی اور بےکسی کے عالم میں ہیں ان کو وہی لوگ جانتے ہیں، جنہوں نے اس کو دین کی اہم خدمت سمجھ کر قائم کیا ہوا ہے۔ زکوٰة ادا کرنے کی حد تک مسلمان جانتے ہیں کہ ہمارے ذمہ فرض ہے۔ اور یہ جاننے کے باوجود بہت کم افراد ہیں جو زکوٰة ادا کرتے ہیں۔ اور ادا کرنے والوں میں بھی بہت کم افراد ہیں جو پورا حساب کرکے پوری زکوٰة ادا کرتے ہیں، اور جو خال خال پوری زکوٰة ادا کرنے والے بھی ہیں تو وہ بالکل یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اب ہمارے ذمہ اور کچھ نہیں۔ ان کے سامنے مسجد کی ضرورت آئے تو زکوٰة کا مال پیش کرتے ہیں اور دینی مدارس کی ضرورت پیش آئے تو صرف زکوٰة کا مال دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ فرائض زکوٰة کے علاوہ مسلمانوں پر عائد ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت اور اس کی امثال بہت سی آیات نے اس کو واضح کردیا ہے۔- میثاق کی اہم دفعات بیان کرنے کے بعد بھی یہ بتلا دیا کہ اگر تم نے میثاق کی پابندی کی تو اس کی جزاء یہ ہوگی کہ تمہارے پچھلے گناہ بھی معاف کر دئے جائیں گے اور دائمی راحت و عافیت کی بےمثال جنت میں رکھا جائے گا اور آخر میں یہ بھی بتلا دیا کہ ان تمام واضح بیانات و ارشادات کے بعد بھی اگر کسی نے کفر و سرکشی اختیار کی تو وہ ایک صاف سیدھی راہ چھوڑ کر اپنے ہاتھوں تباہی کے گڑھے میں جاگرا۔۔
وَلَقَدْ اَخَذَ اللہُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ٠ۚ وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا ٠ۭ وَقَالَ اللہُ اِنِّىْ مَعَكُمْ ٠ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَـيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَـنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ ٠ۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ١٢- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منیی پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .(إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - نقب - النَّقْبُ في الحائِطِ والجِلْدِ کا لثَّقْبِ في الخَشَبِ ، يقال : نَقَبَ البَيْطَارُ سُرَّةَ الدَّابَّةِ بالمِنْقَبِ ، وهو الذي يُنْقَبُ به، والمَنْقَبُ : المکانُ الذي يُنْقَبُ ، ونَقْبُ الحائط، ونَقَّبَ القومُ :- سَارُوا . قال تعالی: فَنَقَّبُوا فِي الْبِلادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] وکلب نَقِيبٌ: نُقِبَتْ غَلْصَمَتُهُ لِيَضْعُفَ صَوْتُه . والنَّقْبَة : أوَّلُ الجَرَبِ يَبْدُو، وجمْعُها : نُقَبٌ ، والنَّاقِبَةُ : قُرْحَةٌ ، والنُّقْبَةُ :- ثَوْبٌ كالإِزَارِ سُمِّيَ بذلک لِنُقْبَةٍ تُجْعَلُ فيها تِكَّةٌ ، والمَنْقَبَةُ : طریقٌ مُنْفِذٌ في الجِبَالِ ، واستُعِيرَ لفعل الکريمِ ، إما لکونه تأثيراً له، أو لکونه مَنْهَجاً في رَفْعِهِ ، والنَّقِيبُ : الباحثُ عن القوم وعن أحوالهم، وجمْعه : نُقَبَاءُ ، قال : وَبَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيباً [ المائدة 12] .- ( ن ق ب ) النقب - کے معنی دیوار یا چمڑے میں سوراخ کرنے کے ہیں اور ثقب کے معنی لکڑی میں سوراخ کرنے کے محاورہ ہے ۔ نقب البیطار سر ۃ الدابۃ بیطار نے جانور کی ناف میں منقب نشتر کے ساتھ سوراخ کردیا منقب سوراخ کرنے کی جگہ ۔ نقب الحائط دیوار میں تقب لگائی گئی نقب القوم قوم کا چلنا پھرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَنَقَّبُوا فِي الْبِلادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] وہ شہروں میں گشت کرنے لگے کیا کہیں بھا گنے کی جگہ ہے کلب نقیب کتا جس کے گلے میں آواز کمزور کرنے کے لئے سوراخ کردیا گیا ہو ۔ النقبۃ ابتائی خارش ج نقب الناقبۃ ناسور زخم جو کئی روز تک ایک پہلو پر لیٹے رہنے کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے النقبۃ ازار کی مثل ایک قسم کا کپڑا جس میں سوراخ ہونے کی وجہ سے تکہ لگایا جاتا ہے المنقبۃ اصل میں پہاڑ کے درہ کو کہتے ہیں ۔ اور بطور استعارہ شر یفانہ کارنامہ کو منقبۃ کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ اس کا اچھا اثر باقی رہ جاتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ بھی اس کی رفعت کے لئے بمنزلہ منہاج کے ہے ۔ النقیب کسی قوم کے حالات جاننے والا ج نقباء قرآن پاک میں ہے ۔ وَبَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيباً [ المائدة 12] اور ان میں ہم نے بارہ سر دار مقرر کئے ۔- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] - ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ - - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - عزر - التَّعْزِيرُ : النّصرة مع التّعظیم . قال تعالی: وَتُعَزِّرُوهُ [ الفتح 9] ، وقال عزّ وجلّ وَعَزَّرْتُمُوهُمْ- [ المائدة 12] ، والتَّعْزِيرُ : ضربٌ دون الحدّ ، وذلک يرجع إلى الأوّل، فإنّ ذلک تأديب، والتّأديب نصرة ما لکن الأوّل نصرة بقمع ما يضرّه عنه، والثاني : نصرة بقمعه عمّا يضرّه . فمن قمعته عما يضرّه فقد نصرته . وعلی هذا الوجه قال صلّى اللہ عليه وسلم : «انصر أخاک ظالما أو مظلوما، قال : أنصره مظلوما فكيف أنصره ظالما ؟ فقال : كفّه عن الظّلم» «5» .- وعُزَيْرٌ في قوله : وَقالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] ، اسمُ نبيٍّ.- ( ع ز ر ) التعزیر اس مدد کو کہتے ہو جو حزیہ تعظیم کے ساتھ ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتُعَزِّرُوهُ [ الفتح 9] اور اس کی مدد کرو ۔ وَعَزَّرْتُمُوهُمْ [ المائدة 12] اور ان کی مدد کرو گے التعزیر ( ایضا ) کسی کو حد شرعی سے کم سزا دینا یہ بھی دراصل پہلے معنی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کیونکہ تادیبی سزا بھی در حقیقت اس شخص کی اصلاح کے لئے ایک قسم کی مدد ہوتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ پہلے معنی کا تعلق کیسی مضر چیز کو روکنے سے ہوتا ہے اور تادیب میں کسی کو مضر چیز سے روکا جاتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ کسی کو مضر چیز سے روک دینا بھی اس کی مدد میں شامل ہے اسی بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انصر اخاک ظالما او مظلوما ) اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم یا مظلوم یہ سنکر ایک شخص نے عرض کی اے اللہ کے رسول مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ آتا ہے مگر اس کے ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کرنے کے کیا معنی ہیں آنحضرت نے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا اسے ظلم سے روک کر اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں ۔ میں عزیر (علیہ السلام) ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- قرض - القَرْضُ : ضرب من القطع، وسمّي قطع المکان وتجاوزه قَرْضاً ، كما سمّي قطعا . قال : وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 17] ، أي : تجوزهم وتدعهم إلى أحد الجانبین، وسمّي ما يدفع إلى الإنسان من المال بشرط ردّ بدله قَرْضاً ، قال : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة 245] ، وسمّي المفاوضة في الشّعر مُقَارَضَةً ، والقَرِيضُ للشّعر، مستعار استعارة النّسج والحوک .- ( ق ر ض ) القرض - ( کرتا ) یہ قطع کی ایک قسم ہے پھر جس طرح کسی جگہ سے گزر نے اور تجاوز کر نیکے لئے قطع المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس طرح قرض المکان بھی کہتے بھی ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 17] اور جب غروب ہو تو اس سے بائیں طرف کترا جائے ۔ یعنی غروب کے وقت انہیں ایک جانب چھوڑتا ہو اگزر جاتا ہے ۔ اور قرض اس مال کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائیگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة 245] کوئی ہے خدا کو قرض حسنہ دے ؟ اور شعر گوئی ۔۔۔ کو بھی مقارضۃ کہا جاتا ہے اور شعر کو بطور استعارہ قریض کہا جاتا ہے جس طرح کہ تسبیح اور حو ک کے الفاظ اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا)- والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] - والتَّكْفِيرُ- : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر - «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی:- كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] .- الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : - التکفیرۃ - اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- الجَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- جَرْي - : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے - تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- نهر - النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، - ( ن ھ ر ) النھر - ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ - سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔
قول باری ہے (ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل و بعثنا منھم اثنی عشو نقیب۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کئے تھے) اس مقام پر نقیب سے کیا مراد ہے اس میں اختلاف ہے حسن کا قول ہے کہ اس سے ضمین یعنی کفیل اور ذمہ دار مراد ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جو اپنی قوم کا نگران ہو۔- ایک قول ہے کہ لفظ نقیب نقب سے ماخوذ ہے جس کے معنی بڑے سوراخ کے ہیں۔ کسی کو نقیب القوم اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے احوال پر نظر رکھتا ہے اور ان کے پوشیدہ خیالات و امور سے مطلع رہتا ہے۔ اسی مفہوم کی بنا پر قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والوں کے سردار کو نقیب کہا جاتا ہے۔- حسن کا قول ہے کہ نقیب کفیل اور ذمہ دار کو کہتے ہیں انہوں نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ نقیب اس کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ وہ اپنے متعلقہ لوگوں کے احوال، ان کے امور، ان کے صلاح و فساد اور ان کی استقامت اور کج روی سے باخبر رہ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع فراہم کرے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار پر بارہ نقیب اسی معنی میں مقرر فرمائے تھے۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ امین کو نقیب کہتے ہیں۔- قتادہ کا یہ قول کہ اس سے نگران مراد ہے حسن کے قول سے قریب ہے۔ اس لئے کہ نقیب اپنے متعلقہ لوگوں پر امین ہوتا ہے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا اور ان کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نقیبوں کا دو باتوں کی بنا پر تقرر فرمایا تھا۔ ایک تو یہ کہ اس کے ذریعے لوگوں کے احوال اور ان کے امور سے رابطہ رہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاعات ملتی رہیں تاکہ آپ اپنی صوابدید کے مطابق ان کے متعلق تدابیر اختیار کریں۔- دوسری بات یہ تھی کہ جب لوگوں کو اس کا علم ہوتا کہ ان پر ایک نگران نقیب کی صورت میں مقرر ہے تو وہ سلامت روی سے زیادہ قریب ہوجاتے کیونکہ انہیں معلوم ہوجاتا کہ ان کے تمام معاملات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا دیئے جائیں گے۔- نیز یہ کہ ہر شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے معاملات اور ضروریات کے سلسلے میں براہ راست مخاطب ہونے سے جھجکتا تھا اس لئے اس کی طرف سے نقیب اس کی معروضات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیتا تھا۔ یہ جائز نہیں کہ نقیب ان کے کئے ہوئے وعدوں اور میثاق کو پورا کرنے کا ضامن اور ذمہ دار بن جاتا اس لئے کہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس میں نقیب کی ضمانت درست نہیں ہوتی نہ ہی ضمین یہ کام کرسکتا اور نہ ہی اسے قائم رکھ سکتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ نقیب پہلے معنی پر محمول ہوتا ہے۔- اس آیت میں خبر واحد یعنی ایک آدمی کے ذریعے دی گئی خبر کو قبول کرل ینے کی دلالت موجود ہے اس لئے کہ ہر گروہ اور قوم پر نقیب اس لئے مقرر کیا جاتا تھا کہ وہ ان کے حالات کی اطلاع حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا وقت امام المسلمین تک پہنچا دے۔ اگر اس ایک فرد کی دی گئی خبر قابل قبول نہ ہوتی تو اسے اس منصب پر مقرر کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔- اگر یہ کہا جائے کہ آیت کی رو سے بارہ افراد کی دی گئی خبر قابل قبول ہوسکتی ہے ایک فرد کی نہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بارہ افراد بنی اسرائیل کی پوری قوم پر نقیب نہیں بنائے گئے تھے بلکہ ہر نقیب صرف اپنی قوم اور اپنے قبیلے کا نقیب مقرر کیا گیا تھا۔ بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔
(١٢) بنی اسرائیل سے رسول اکرم کی رسالت کے بارے میں توریت میں اقرارلیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور بارہ قاصد یا بارہ سردار مقرر کیے تھے، ہر ایک قبیلہ کے لیے ایک سردار اور ان سرداروں سے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا تھا کہ میری مدد تمہارے ساتھ ہے۔- اگر تم ان نمازوں کو جو میں نے تم پر فرض کی ہیں ادا کرتے رہو اور اپنے اموال کی زکوٰۃ دیتے رہو، اور جو رسول تمہارے پاس آئیں، ان کی تصدیق کرتے رہو اور بذریعہ تلوار ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرتے رہو تو میں کبیرہ کے علاوہ صغیرہ گناہوں کو بھی معاف کردوں گا اور ایسے باغات میں داخل کروں گا، جہاں درختوں اور محلات کے نیچے سے دودھ، شہد، پانی اور پاکیزہ شراب کی نہریں جاری ہوں گی جو اس اقرار اور عہد و پیمان کے بعد سرتابی کرے گا میں اس سے ناراض رہوں گا، چناچہ پانچ سرداروں کے علاوہ سب راہ راست سے ہٹ گئے۔
اب یہاں سے بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند واقعات آ رہے ہیں۔ - آیت ١٢ (وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ج) - یعنی اے مسلمانو جس طرح آج تم سے یہ میثاق لیا گیا ہے اور اللہ نے تمہیں شریعت کے میثاق میں باندھ لیا ہے ‘ بالکل اسی طرح کا میثاق اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی لیا تھا۔- (وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط) ۔- بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ‘ ہر قبیلے میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک نقیب مقرر کیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انصار میں بارہ نقیب فرمائے تھے ‘ نو خزرج میں سے اور تین اوس سے۔- (وَقَال اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ ط) ۔ - میری مدد ‘ میری تائید ‘ میری نصرت تمہارے ساتھ شامل حال رہے گی ۔- (لَءِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ ) (وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ ) (وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ ) - یہ جن رسولوں کا ذکر ہے وہ پے در پے بنی اسرائیل میں آتے رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تو رسالت کا یہ سلسلہ ایک تار کی مانند تھا جو چھ سو برس تک ٹوٹا ہی نہیں۔ پھر ذرا سا وقفہ چھ سوبرس کا آیا اور پھر اس کے بعد نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ - (وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ) - یعنی اللہ کے دین کے لیے مال خرچ کرتے رہے ۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :31 نقیب کے معنی نگرانی اور تفتیش کرنے والے کے ہیں ۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر قبیلہ پر ایک ایک نقیب خود اسی قبیلہ سے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں بے دینی و بد اخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے ۔ بائیبل کی کتاب گنتی میں بارہ ”سرداروں“ کا ذکر موجود ہے ، مگر ان کی وہ حیثیت جو یہاں لفظ ”نقیب“ سے قرآن میں بیان کی گئی ہے ، بائیبل کے بیان سے ظاہر نہیں ہوتی ۔ بائیبل انہیں صرف رئیسوں اور سرداروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور قرآن ان کی حیثیت اخلاقی و دینی نگران کار کی قرار دیتا ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :32 یعنی جو رسول بھی میری طرف سے آئیں ، ان کی دعوت پر اگر تم لبیک کہتے اور ان کی مدد کرتے رہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :33 یعنی خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے رہے ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اس ایک ایک پائی کو ، جو انسان اس کی راہ میں خرچ کرے ، کئی گنا زیادہ انعام کے ساتھ واپس کرنے کا وعدہ فرماتا ہے ، اس لیے قرآن میں جگہ جگہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے کو ”قرض “ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ بشرطیکہ وہ”اچھا قرض“ ہو ، یعنی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت خرچ کی جائے ، خدا کے قانون کے مطابق خرچ کی جائے اور خلوص وحسن نیت کے ساتھ خرچ کی جائے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :34 کسی سے اس کی برائیاں زائل کر دینے کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ راہ راست کو اختیار کرنے اور خدا کی ہدایت کے مطابق فکر و عمل کے صحیح طریقے پر چلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کا نفس بہت سی برائیوں سے ، اور اس کا طرز زندگی بہت سی خرابیوں سے پاک ہوتا چلا جائے ۔ دوسرے یہ کہ اس اصلاح کے باوجود اگر کوئی شخص بحیثیت مجموعی کمال کے مرتبے کو نہ پہنچ سکے اور کچھ نہ کچھ برائیاں اس کے اندر باقی رہ جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان پر مواخذہ نہ فرمائے گا اور ان کو اس کے حساب سے ساقط کر دے گا ، کیونکہ جس نے اساسی ہدایت اور بنیادی اصلاح قبول کرلی ہو اس کی جزئی اور ضمنی برائیوں کا حساب لینے میں اللہ تعالیٰ سخت گیر نہیں ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :35 یعنی اس نے”سَوَاء السّبیل“ کو پا کر پھر کھو دیا اور وہ تباہی کے راستوں میں بھٹک نکلا ۔ ”سَوَاء السّبیل“ کا ترجمہ ”توسط و اعتدال کی شاہراہ“ کیا جا سکتا ہے مگر اس سے پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا ۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں اصل لفظ ہی کو جوں کا توں لے لیا ہے ۔ اس لفظ کی معنویت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان بجائے خود اپنی ذات میں ایک عالم اصغر ہے جس کے اندر بے شمار مختلف قوتیں اور قابلیتیں ہیں ، خواہشیں ہیں ، جذبات اور رحجانات ہیں ، نفس اور جسم کے مختلف مطالبے ہیں ، روح اور طبیعت کے مختلف تقاضے ہیں ۔ پھر ان افراد کے ملنے سے جو اجتماعی زندگی بنتی ہے وہ بھی بے حد و حساب پیچیدہ تعلقات سے مرکب ہوتی ہے اور تمدن و تہذیب کے نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ پھر دنیا میں جو سامان زندگی انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس سے کام لینے اور اس کو انسانی تمدن میں استعمال کرنے کا سوال بھی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بکثرت شاخ در شاخ مسائل پیدا کرتا ہے ۔ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اس پورے عرصہ حیات پر بیک وقت ایک متوازن نظر نہیں ڈال سکتا ۔ اس بنا پر انسان اپنے لیے خود زندگی کا کوئی ایسا راستہ بھی نہیں بنا سکتا جس میں اس کی ساری قوتوں کے ساتھ انصاف ہو ، اس کی تمام خواہشوں کا ٹھیک ٹھیک حق ادا ہو جائے ، اس کے سارے جذبات و رحجانات میں توازن قائم رہے ، اس کے سب اندرونی و بیرونی تقاضے تناسب کے ساتھ پورے ہوں ، اس کی اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کی مناسب رعایت ملحوظ ہو اور ان سب کا ایک ہموار اور متناسب حل نکل آئے ، اور مادی اشیاء کو بھی شخصی اور تمدنی زندگی میں عدل ، انصاف اور حق شناسی کے ساتھ استعمال کیا جا تا رہے ۔ جب انسان خود اپنا رہنما اور اپنا شارع بنتا ہے تو حقیقت کے مختلف پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو ، زندگی کی ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت ، حل طلب مسئلوں میں سے کوئی ایک مسئلہ اس کے دماغ پر اس طرح مسلط ہو جاتا ہے کہ دوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ وہ بالارادہ یا بلا ارادہ بے انصافی کرنے لگتا ہے ۔ اور اس کی اس رائے کے زبردستی نافذ کیے جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ بے اعتدالی کی کسی ایک انتہا کی طرف ٹیڑھی چلنے لگتی ہے ۔ پھر جب یہ ٹیڑھی چال اپنے آخری حدود پر پہنچتے پہنچتے انسان کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو وہ پہلو اور وہ ضروریات اور وہ مسائل جن کے ساتھ بے انصافی ہوئی تھی ، بغاوت شروع کر دیتے ہیں اور زور لگانا شروع کر تے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہو ۔ مگر انصاف پھر بھی نہیں ہو تا ۔ کیونکہ پھر وہی عمل رونما ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ، جو سابق بے اعتدالی کی بدولت سب سے زیادہ دبا دیا گیا تھا ، انسانی دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے مخصوص مقتضاء کے مطابق ایک خاص رخ پر بہا لے جاتا ہے جس میں پھر دوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ بے انصافی ہونے لگتی ہے ۔ اس طرح زندگی کو کبھی سیدھا چلنا نصیب نہیں ہوتا ۔ ہمیشہ وہ ہچکولے ہی کھاتی رہتی ہے اور تباہی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف ڈھلکتی چلی جاتی ہے ۔ تمام وہ راستے جو خود انسان نے اپنی زندگی کے لیے بنائے ہیں ، خط منحنی کی شکل میں واقع ہیں ، غلط سمت سے چلتے ہیں اور غلط سمت پر ختم ہو کر پھر کسی دوسری غلط سمت کی طرف مڑ جاتے ہیں ۔ ان بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو ، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ ، اس کے تمام جذبات و رحجانات کے ساتھ ، اور اس کی روح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ ، اور اس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا گیا ہو ، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ ، کوئی کجی ، کسی پہلو کی بے جا رعایت اور کسی دوسرے پہلو کے ساتھ ظلم اور بے انصافی نہ ہو ، انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء اور اس کی کامیابی و بامرادی کے لیے سخت ضرورت ہے ۔ انسان کی عین فطرت اس راہ کی طالب ہے ، اور مختلف ٹیڑھے راستوں سے بار بار اس کے بغاوت کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس سیدھی شاہراہ کو ڈھونڈتی ہے ۔ مگر انسان خود اس شاہراہ کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہے ۔ اس کی طرف صرف خدا ہ راہنمائی کر سکتا ہے اور خدا نے اپنے رسول اسی لیے بھیجے ہیں کہ اس راہ راست کی طرف انسان کی راہنمائی کریں ۔ قرآن اسی راہ کو سَوَاء السّبیل اور صراط مستقیم کہتا ہے ۔ یہ شاہراہ دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی دوسری زندگی تک بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے ۔ جو اس پر چلا ، وہ یہاں راست رو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے ، اور جس نے اس راہ کو گم کر دیا ، وہ یہاں غلط ہیں ، غلط رو اور غلط کار ہے ، اور آخرت میں لامحالہ اسے دوزخ میں جانا ہے ، کیونکہ زندگی کے تمام ٹیڑھے راستے دوزخ ہی کی طرف جاتے ہیں ۔ موجودہ زمانہ کے بعض نادان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے در پے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتی چلی جا رہی ہے ، یہ غلط نتیجہ نکال لیا کہ ”جَدَلی عمل“ ( ) انسانی زندگی کے ارتقاء کا فطری طریق ہے ۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقاء کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ ( ) اسے ایک رخ پر بہا لے جائے ، پھر اس کے جواب میں دوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ ( ) اسے دوسری انتہا کی طرف کھینچے ، اور پھر دونوں کے امتزاج ( ) سے ارتقاء حیات کا راستہ بنے ۔ حالانکہ دراصل یہ ارتقاء کی راہ نہیں ہے بلکہ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء میں بار بار مانع ہو رہے ہیں ۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتا ہے اور اسے کھینچے لیے چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاء السّبیل سے بہت دور جا پڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دوسری حقیقتیں ، جن کے ساتھ بے انصافی ہو رہی تھی ، اس کے خلاف بغاوت شروع کر دیتی ہیں اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کر کے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کر تی ہے ۔ جوں جوں سَوَاءالسّبیل قریب آتی ہے ان متصادم دعوؤں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو انسانی زندگی میں نافع ہیں ۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاء السّبیل کے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے زور میں اسے دوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ میں ایک دوسری بغاوت اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انہوں نے سَوَاء السّبیل کو دیکھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ انسان کے لیے ارتقاء کا صحیح راستہ یہی سواء السّبیل ہے کہ خط منحنی پر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا ۔
13: بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔ چنانچہ جب ان سے یہ عہد لیا گیا تو ہر قبیلے کے سردار کو اپنے قبیلے کا نگراں بنایا گیا تاکہ وہ عہد کی پابندی کی نگرانی کریں۔ 14: اچھے قرض یا قرضِ حسن کا اصل مطلب تو وہ قرض ہے جو کوئی شخص کسی کو اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے دے، لیکن اﷲ تعالیٰ کو اچھا قرض دینے کا مطلب یہ ہے کہ کسی غریب کی مدد کی جائے یا کسی اور نیک کام میں پیسے خرچ کئے جائیں۔