Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧١] اس آیت میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور سیدہ مریم دونوں کی الوہیت کی تردید کی دلیل ہے کیونکہ جو چیز کسی کی ملکیت ہو وہ اس کی مملوک یا غلام تو ہوسکتی ہے اس کی شریک نہیں ہوسکتی۔ نہ اسے اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شریک سمجھا جاسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سورت کے آخر میں نصاریٰ کی تردید کے سلسلہ میں یہ خاتمہ نہایت مناسب ہے، یعنی اکیلا وہی زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا (جن میں انسان بھی ہیں) بادشاہ ہے اور یہ حق بھی اسی کا ہے کہ اس کی بندگی کی جائے، عیسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا ان کی والدہ یا روح القدس، سب اس کے بندے ہیں، جو کسی طرح معبود ہونے میں اس کے شریک قرار نہیں دیے جاسکتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِيْہِنَّ۝ ٠ۭ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ١٢٠ۧ- ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٠) آسمان و زمین کے تمام خزانے مثلا بارش اور ہر قسم کے پھل اور تمام مخلوقات اور عجائب اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت میں داخل ہیں اور رب ذوالجلال کو آسمان و زمین کے پیدا کرنے اور ثواب و عذاب دینے پر پوری قدرت حاصل ہے، لہٰذا اسی ذات کی تعریف بیان کرو جو کہ آسمان و زمین کا خالق ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٠ (لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِیْہِنَّ ط) (وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) - یہاں پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے سورة المائدۃ کے اختتام کے ساتھ ہی مکی اور مدنی سورتوں کے گروپس ( ) میں سے پہلا گروپ ختم ہوگیا ہے ‘ جس میں ایک مکیّ سورة یعنی سورة الفاتحہ اور چارمدنی سورتیں ہیں۔ سورة الفاتحہ اگرچہ حجم میں بہت چھوٹی ہے لیکن یہ اپنی معنوی عظمت کے لحاظ سے پورے قرآن کے ہم وزن ہے۔ سورة الحجر کی آیت : (وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ) مفسرین کی رائے کے مطابق سورة الفاتحہ ہی کے بارے میں ہے۔ اس گروپ کی چار مدنی سورتیں البقرۃ ‘ آل عمران ‘ النساء اور المائدۃ دو دو کے جوڑوں کی شکل میں ہیں۔ ان تمام سورتوں کے مضامین کا عمود ایک دفعہ پھر ذہن میں تازہ کرلیں۔ مکمل شریعت آسمانی ‘ اہل کتاب سے خطاب اور ردّوقدح ‘ ان پر الزامات کا تذکرہ ‘ ان کے غلط عقائد کی نفی ‘ انہیں ایمان کی دعوت ‘ ان کی تاریخ کے اہم واقعات کی تفصیلات ‘ ان کا امت مسلمہ کے منصب سے معزول کیا جانا ‘ جس پر وہ دو ہزار برس سے فائز تھے اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس منصب پر فائز کیا جانا۔ یہ موضوعات آخری درجے میں اس گروپ کی سورتوں میں مکمل ہوگئے ہیں۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani