علمی بددیانت فرماتا ہے کہ رب العلی نے اپنے عالی قدر رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تمام مخلوق کی طرف بھیج دیا ہے ، معجزے اور روشن دلیلیں انہیں عطا فرمائی ہیں جو باتیں یہود و نصاریٰ نے بدل ڈالی تھیں ، تاویلیں کر کے دوسرے مطلب بنا لئے تھے اور اللہ کی ذات پر بہتان باندھتے تھے ، کتاب اللہ کے جو حصے اپنے نفس کے خلاف پاتے تھے ، انہیں چھپا لیتے تھے ، ان سب علمی بد دیانتیوں کو یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بےنقاب کرتے ہیں ۔ ہاں جس کے بیان کی ضرورت ہی نہ ہو ، بیان نہیں فرماتے ۔ مستدرک حاکم میں ہے جس نے رجم کے مسئلہ کا انکار کیا ، اس نے بےعملی سے قرآن سے انکار کیا چنانچہ اس آیت میں اسی رجم کے چھپانے کا ذکر ہے ، پھر قرآن عظیم کی بابت فرماتا ہے کہ اسی نے اس نبی کریم پر اپنی یہ کتاب اتاری ہے ، جو جویائے حق کو سلامتی کی راہ بتاتی ہے ، لوگوں کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتی ہے اور راہ مستقیم کی رہبر ہے ۔ اس کتاب کی وجہ سے اللہ کے انعاموں کو حاصل کر لینا اور اس کی سزاؤں سے بچ جانا بالکل آسان ہو گیا ہے یہ ضلالت کو مٹا دینے والی اور ہدایت کو واضح کر دینے والی ہے ۔
15۔ 1 یعنی انہوں نے تورات و انجیل میں جو تبدیلیاں اور تحریفات کیں، انہیں طشت ازبام کیا اور جن کو وہ چھپاتے تھے، ظاہر کیا، جیسے سزائے رجم۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ 15۔ 2 نور اور کِتَابُ مُّیْن دونوں سے مراد قرآن کریم ہے، ان کے درمیان واو مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لیے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے اگر نور اور کتاب یہ الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ (یَّھدِیبِھِمَا اللّٰہَ ) ہوتے، یعنی اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے، قرآن کریم کی اس خاص آیات سے واضح ہوگیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک یہ چیز یعنی قرآن کریم ہے۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ جیسا کہ وہ اہل بدعت باور کراتے ہیں جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت نور من نور اللہ کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح اس خانہ ساز عقیدے کے اثبات کے لیے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نور پیدا کیا اور پھر اس نور سے ساری کائنات پیدا کی۔ حالانکہ یہ حدیث، حدیث کے کسی بھی مستند مجموعے میں موجود نہیں ہے علاوہ ازیں یہ اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا محدث البانی لکھتے ہیں " فالحدیث صحیح بلا ریب، وھو من الادلۃ الظاھرۃ علی بطلان الحدیث المشھور " اول ماخلق اللہ نور نبیک یا جابر " مشہور حدیث جابر کہ اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا کیا باطل ہے۔
[٤١] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے بیشمار آیات کی یا تو تاویل کر ڈالی تھی یا پھر انہیں لوگوں سے چھپایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی آیات کا علم عطا کیا ہوا تھا۔ پھر ان میں بہت سی آیات ایسی تھیں جن کا آپ نے یہود سے ذکر ہی نہیں کیا۔ کیونکہ انہیں بتانے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں تھی اور جن آیات کا ذکر کیا وہ بھی بہت تھیں تھوڑی نہیں تھیں جن کا بتانا دین حق کے قیام کے لیے ناگزیر تھا۔ جیسا کہ انہوں نے رجم کی آیت کو چھپانے کی کوشش کی تھی اور یہ بات درج ذیل حدیث سے صاف واضح ہے۔- یہود کا آیات اللہ کو چھپانا :۔ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آپ کے پاس ایک یہودی مرد اور عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ نے یہود سے پوچھا تم اپنی کتاب میں اس کا کیا حکم پاتے ہو ؟ وہ کہنے لگے ہمارے علماء ایسے لوگوں کا منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرتے اور گشت کراتے ہیں عبداللہ بن سلام نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے علماء کو تورات سمیت بلائیے۔ جب تورات لائی گئی تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے سے پڑھنا شروع کردیا۔ عبداللہ بن سلام نے اسے کہا اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ، اس نے ہاتھ اٹھایا تو اس کے نیچے سے رجم کی آیت نکلی۔ چناچہ آپ نے انہیں رجم کا حکم دے دیا اور وہ سنگسار کیے گئے۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب الرجم بالبلاط۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہود اہل الذمۃ فی الزنیٰ ) یا جیسے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے متعلق سب آیات کو چھپا جاتے تھے۔- [٤٢] اگرچہ اس آیت میں بعض علماء نے نور سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات با برکات بھی لی ہے تاہم اکثر مفسرین نور کو کتاب مبین ہی کی صفت قرار دیتے ہیں اور واؤ کو عطف مغائرت کے بجائے عطف تفسیری سمجھتے ہیں اور اسکی وجہ درج ذیل ہیں۔- ١۔ اس آیت کی ابتدا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر پہلے ہی آچکا ہے۔ یہ آیت یوں شروع ہوتی ہے۔ (يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ڛ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ 15ۙ ) 5 ۔ المآئدہ :15)- ٢۔ اگر نور اور کتاب مبین دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو بعد والی آیت میں (یَھْدِی بِہِ اللّٰہُ ) کے بجائے (یَھْدِیْ بِھِمَا اللّٰہُ ) آنا چاہیے تھا۔- ٣۔ قرآن میں قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کو ہی بہت سے مقامات پر نور کہا گیا ہے مثلاً- ١۔ (وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا ١٧٤۔ ) 4 ۔ النسآء :174) اور ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا (قرآن کے لیے)- ٢۔ ( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ 44) 5 ۔ المآئدہ :44) ہم نے ہی تورات اتاری جس میں ہدایت اور نور تھا (تورات کے لیے)- ٣۔ (وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَّنُوْرٌ 46ۭ ) 5 ۔ المآئدہ :46) اور ہم نے (سیدنا عیسیٰ ) کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا (انجیل کے لیے)- ٤۔ (مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَهَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا 91) 6 ۔ الانعام :91) وہ کتاب کس نے اتاری تھی جو موسیٰ لائے تھے جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی (تورات کے لیے)- ٥۔ ( وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْ اَنْزَلَ مَعَہُ ) (٧ : ١٥٧) اور اس نور کی پیروی کی جسے ہم نے آپ کے ساتھ اتارا ہے (قرآن کے لیے)- ٦۔ (وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّھْدِیْ بِہِ مَنْ نَشَاءُ ) (٤٢ : ٥٢) لیکن ہم نے اس کو نور بنایا جس سے ہم جسے چاہیں ہدایت دیتے ہیں (قرآن کے لیے)- ٧۔ (فَامَنِوُاْ باللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَالنُّوْرِ الَّذِیْ اَنْزَلْنَا) (٦٤ : ٨) تو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس نور پر بھی جسے ہم نے اتارا ہے۔ (قرآن کے لیے)- نور وبشر کی بحث :۔ اس کے برعکس تمام انبیاء کو ہر مقام پر بشر ہی کہا گیا ہے البتہ ایک مقام پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سراجاً منیراً (روشنی دینے والا چراغ) بھی کہا گیا ہے (٣٣ : ٤٦) تاہم اگر یہاں نور سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی لیا جائے تو اس سے مراد نور نبوت اور نور ہدایت ہوگا نہ کہ وہ نور جس کی آج کل کے بریلوی حضرات نے رٹ لگا رکھی ہے کیونکہ مولانا احمد رضا خاں کا ترجمہ قرآن (کنز الایمان) اور اس پر مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی کا حاشیہ (خزائن العرفان) یوں ہے : بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب (کنز الایمان) اور اس پر حاشیہ یہ ہے کہ سید عالم کو نور فرمایا۔ کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی (خزائن العرفان)- خ اکابر بریلوی علماء کی شہادت :۔ اسی طرح ( وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا 46) 33 ۔ الأحزاب :46) کا ترجمہ یوں ہے اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا ہے اور چمکا دینے والا نور ہے (کنز الایمان) اور حاشیہ یوں ہے درحقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نور نبوت نے پہنچائی اور کفر و ضلالت کے ظلمات شدیدہ کو اپنے نور حقیقت افروز سے دور کردیا اور خلق کے لیے معرفت الٰہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کردیں اور ضلالت کی تاریک وادیوں میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے نور ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نور نبوت سے ضمائر اور قلوب و ارواح کو منور کیا۔ (خزائن العرفان)- اگر یہ معاملہ یہیں تک محدود رہتا تو پھر بھی اختلاف کی کوئی بات نہ تھی۔ بھلا کون مسلمان ہے جو آپ کو نور نبوت اور نور ہدایت ماننے کو تیار نہ ہوگا۔ اختلاف اس وقت واقع ہوا جب کچھ غالی قسم کے حضرات نے یہ مسئلہ پیدا کردیا کہ آیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نور ہیں یا بشر ؟ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ آپ بشر نہیں تھے بلکہ نور تھے اور جو لوگ آپ کو بشر کہتے تھے انہیں گستاخان رسول کا لقب دیا گیا۔ اور جو آپ کو نور تسلیم کریں انہیں عاشقان رسول کا۔- خ لفظی تحریف :۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ قرآن میں آپ کو بیشمار مقامات پر بشر قرار دیا گیا ہے بلکہ آپ کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہی ہوں۔ اس کا کیا جواب دیا جائے ؟ اس سوال کے دو طرح سے جواب تیار کیے گئے۔ ایک تو تحریف لفظی اور معنوی دونوں کے ضمن میں آتا ہے یعنی ( قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ١١٠ ) 18 ۔ الكهف :110) میں لفظ انما کے دو الگ الگ لفظ ان ما پڑھے گئے اور ما کو نافیہ قرار دے لیا گیا اور اس کا ترجمہ یوں کرلیا گیا کہ تحقیق نہیں ہوں میں تمہاری طرح کا بشر اس طرح یہ حضرات لفظی تحریف کے مرتکب ہوئے اور دوسرا جواب یہ سوچا گیا کہ آپ نے یہ جواب کافروں کو دیا تھا۔ جو آپ کو بشر کہتے اور سمجھتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ چلو انہیں کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہی ہوں مگر رسول بھی ہوں۔ یعنی یہ جواب صرف کافروں کے لیے مخصوص تھا مسلمانوں کے لیے نہیں تھا کیونکہ حقیقتاً آپ بشر نہیں بلکہ نور تھے یہ معنوی تحریف ہوئی۔ اس جواب سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے متعلق جو تصور قائم ہوتا ہے وہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بایں ہمہ یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ آپ نے بارہا صحابہ کرام کے سامنے بھی اپنے بشر ہونے کا برملا اعتراف کیا تھا۔ ایسی تین مثالیں سورة کہف کی آیت نمبر ١١٠ کے تحت درج کردی گئی ہیں یعنی تین مستند اور صحیح احادیث معہ مکمل حوالہ لکھ دی گئی ہیں۔ جس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے صرف تین بار اپنے لیے بشر ہونے کا اعتراف کیا تھا بلکہ صرف تین مثالیں اس لیے درج کی ہیں کہ ثبوت مدعا کے لیے یہ تین مثالیں بہت کافی ہیں۔- خ آپ کا کس قسم کے نور تھے ؟ آپ کی بشریت سے انکار کے بعد آپ کے نور ہونے میں بھی اختلاف ہے کہ آپ کس قسم کا نور ہیں۔ بریلوی اکابرین کے کچھ اقتباسات تو اوپر دیئے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ مفتی احمد یار صاحب بریلوی لکھتے ہیں کہ حضور کے رب کے نور ہونے کے نہ تو یہ معنی ہیں کہ (ا) حضور خدا کے نور کا ٹکڑا ہیں (ب) نہ یہ کہ رب کا نور حضور کے نور کا مادہ ہے (ج) نہ یہ کہ حضور خدا کی طرح ازلی، ابدی، ذاتی نور ہیں اور (د) نہ یہ کہ رب تعالیٰ حضور میں سرایت کر گیا ہے تاکہ کفر اور شرک لازم آئے بلکہ آپ ایسے ہی نور ہیں جیسے اسلام اور قرآن نور ہیں۔ (رسالہ نور ص ٧ مصنفہ مولانا احمد رضا خاں صاحب)- لیکن غالی حضرات اپنے اکابرین کی بات بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ ان میں (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہ) کا عقیدہ راسخ ہوگیا ہے یا کردیا گیا ہے۔ اور یہ الفاظ اس درود کا باقاعدہ حصہ ہیں جو بریلوی حضرات مساجد میں اکثر لاؤڈ سپیکر پر پڑھتے ہیں۔ اگر یہ لوگ (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ ) کی بجائے (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ ) یا (نُوْرٌ مِنْ انُوْار اللّٰہِ ) کہتے تو پھر بھی اس کی کچھ توجیہہ کی جاسکتی تھی۔ لیکن (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ ) تو ایسا واضح کفر و شرک ہے جسے مولانا احمد رضا خاں صاحب نے بھی کفر و شرک تسلیم کیا ہے۔- رہی یہ بات کہ ان لوگوں کے پاس آپ کے نور ہونے کا کیا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس نظریہ کا ماخذ چند موضوع احادیث ہیں جو یہ ہیں :- ١۔ آپ کو نور ثابت کرنے کے لئے موضوع احادیث کا سہارا :۔ سیدنا (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا : اِنَّ اَوْلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرٌنَبِیُّکَ یَا جَابِرُ (اے جابر اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نور کو پیدا کیا) اسی حدیث کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا اِنَّ اَوَّلَ مَاخَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِی (بےشک پہلی چیز جو اللہ نے پیدا کی وہ میرا نور تھا) یہ حدیث مصنف عبدالرزاق کی ہے اور بلاسند ہے۔ مصنف عبدالرزاق چوتھے درجہ کی حدیث کی کتاب ہے جس میں ضعیف اور موضوع احادیث کی بھرمار ہے۔ پھر بلا سند حدیث ویسے بھی محدثین کے نزدیک مردود اور ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔- ٢۔ حکیم ترمذی کی کتاب نوادر الاصول میں ذکوان سے روایت کی گئی ہے کہ سورج اور چاند کی روشنی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سایہ نہیں ہوتا تھا اب نوادر الاصول کی حدیث کی کتابوں میں جو قدر و قیمت ہے وہ سب جانتے ہیں۔ حکیم ترمذی خود طبقہ صوفیاء سے تعلق رکھتے تھے۔ جن سے محدثین اَخَذَتْہُ غَفْلَۃُ الصَّالِحِیْنَ کہہ کر کوئی حدیث قبول کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ اور یہ ذکوان خود تابعی ہیں (صحابی نہیں ہیں) پھر جب انہوں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہی نہیں تو ان کے متعلق ایسی محیر العقول بات کیسے کہہ سکتے ہیں اور اگر کسی صحابی سے سنا تھا تو اس کا نام کیوں نہیں بتاتے۔ غرض یہ حدیث بھی ہر لحاظ سے ساقط الاعتبار اور موضوع ہے۔ علاوہ ازیں اس حدیث کے باقی راوی بھی کذاب اور مفتری قسم کے ہیں۔- ٣۔ تیسری حدیث یوں ہے سیدہ عائشہ (رض) کے ہاتھ سے سوئی گرگئی تو آپ کے آنے کے بعد چہرہ یا مسکراہٹ کی روشنی کی وجہ سے وہ مل گئی۔ اس حدیث کو اور اس سے پہلی سایہ والی حدیث دونوں پر تبصرہ کرنے کے بعد سید سلیمان ندوی نے موضوع قرار دیا ہے۔ (سیرۃ النبی ج ٣ ص ٧٧٥، ٧٧٦)- پھر یہ احادیث عقلی لحاظ سے بھی ساقط الاعتبار ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ آپ کی سورج سے بھی زیادہ روشنی تھی اور اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم مکہ اور مدینہ میں رات کا اور تاریکی کا وجود ہی باقی نہ رہتا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے آرام کے لیے بنایا اور اپنی عظیم نعمتوں سے شمار کیا ہے۔ پھر یہ بھی غور فرمائیے کہ جب آپ کی روشنی سورج جیسی تھی تو پھر گھر میں داخل ہونے پر گمشدہ سوئی ملنے کا کیا مطلب ؟ سورج کی روشنی تو از خود ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔ اب ان موضوع احادیث کے مقابلہ میں صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ صحیح احادیث سے موضوعات کا رد :۔ سیدنا عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ قلم ہے۔ پھر قلم سے کہا لکھو قلم نے پوچھا کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہر اس چیز کی تقدیر لکھو جو ہوچکی یا تاقیامت تک ہونے والی ہے (وجود میں آنے والی ہے) اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ (ترمذی ابو اب القدر۔ باب بلا عنوان)- اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کے نور کو نہیں بلکہ قلم کو پیدا فرمایا تھا۔- ٢۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پاس نہ پایا۔ میں نے گمان کیا کہ شاید وہ کسی دوسری بیوی کے ہاں چلے گئے ہوں پھر جب میں نے ٹٹولنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ آپ سجدہ میں تھے۔ (نسائی جلد ٢ ص ٨٦)- اس حدیث سے ان لوگوں کے اس نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے کہ آپ نور تھے یا آپ سے سورج اور چاند جیسی روشنی پھوٹتی تھی جس سے گم شدہ سوئی بھی نظر آسکے۔- ٣۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں رات کو جب آپ نماز (تہجد) ادا کرتے تو میں آپ کے سامنے پاؤں دراز کئے پڑی ہوتی۔ جب آپ سجدہ کرنے لگتے تو مجھے ہاتھ لگاتے تو میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ قیام فرماتے تو میں پاؤں لمبے کرلیتی (بخاری۔ کتاب التہجد۔ باب مایجوز من العمل من الصلوۃ )- اس حدیث سے اس نظریہ نور کی تردید ہوجاتی ہے۔ آپ کے نماز پڑھنے کے دوران بھی گھر میں اندھیرا ہی رہتا تھا۔ اور آپ ہاتھ لگا کر سیدہ عائشہ (رض) کو متنبہ کرتے تھے کہ اب آپ سجدہ کرنے والے ہیں۔- نظریہ نور والی حدیث دراصل یونانی فلسفہ سے متاثر ہو کر گھڑی گئی۔ فلاسفر جس چیز کو عقل دوم کہتے ہیں صوفیاء اسے ہی نور محمدی کہتے ہیں۔ اب اس موضوع حدیث کی مزید تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیے۔- سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے جابر تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کا نور پیدا کیا۔ پھر وہ نور قدرت الٰہیہ ہے جہاں اللہ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا اور اس وقت نہ لوح تھی، نہ قلم، نہ بہشت نہ دوزخ، نہ آسمان و زمین، نہ سورج چاند، نہ جن اور نہ انسان۔ پھر جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کیے۔ حصہ اول کا قلم بنایا۔ حصہ دوم کی لوح، تیسرے حصہ کا عرش اور چوتھے سے کل کائنات (شرح قصیدہ حمزیہ ١٥ بحوالہ ریاض السالکین ص ٢٤٨)- یہ حدیث سننے کے بعد ممکن ہے آپ کو یہ معلوم کرنے کی خواہش ہو کہ اس نور نبی کو پیدا ہوئے کتنی مدت ہوچکی تھی ؟ تو لیجئے اس کے لیے بھی ایک موضوع حدیث حاضر خدمت ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے جبرئیل سے پوچھا کہ تمہاری عمر کتنی ہے ؟ جبرئیل نے عرض کی آقا میں اپنی عمر ٹھیک طرح سے نہیں جانتا مگر اتنا جانتا ہوں کہ چوتھے حجاب میں ایک ستارہ تھا جو ستر ہزار سال کے بعد طلوع ہوا کرتا تھا اور میں نے اس کو بہتر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔ تو آپ نے فرمایا مجھے پروردگار کے عزت و جلال کی قسم وہ ستارہ میں ہی ہوں۔ - اب دیکھئے کہ جبرئیل سے اپنی عمر ٧٠٠٠٠ ٢٠٠٠ ٧ پانچ ارب چون کروڑ سال بتائی ہے اور یہ ستارہ یعنی نور نبی اس سے بہرحال مدتوں پہلے کا تھا۔ اس موضوع حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے نور کی عمر نہیں بتائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث تراش کو اس سے زیادہ حساب آتا ہی نہ تھا۔- پھر یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اس نور نبی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے چہرے کے نور سے پیدا کیا تھا۔ کیونکہ اس بات کا اقرار اللہ تعالیٰ خود ان الفاظ میں فرما رہے ہیں (گویا یہ موضوع حدیث حدیث قدسی ہے) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے چہرے کے نور سے پیدا کیا۔ اور چہرہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس ہے (سر الاسرار ١١٦ سطر ٨ بحوالہ ریاض السالکین ص ٩٠)- پھر اللہ تعالیٰ نے اس موضوع قدسی حدیث کی تائید ایک اور موضوع قدسی حدیث سے فرما دی جو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو میں ہوں اور میں تو ہے (جواہر غیبی ٢٨٢ بحوالہ ریاض السالکین ص ٩٢)- اسی موضوع قدسی حدیث کی تائید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمائی کہ (میں اللہ کے نور سے ہوں اور کل میرے نور سے ہیں) (مدارج النبوت ج ٢ ص ٦٠ بحوالہ ریاض السالکین ص ٢٤٩)- اب بات یوں ہوئی کہ اللہ نے سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا اور یہ نور ایک ستارہ تھا یا ایک ستارہ میں تھا۔ جس سے سیدنا جبریل نے اپنی عمر کا حساب بتلایا تھا۔ اب اس نور محمدی یا ستارہ سے ہی عرش، لوح و قلم، کرسی، بہشت دوزخ اور شمس و قمر اور باقی ساری کائنات پیدا کیے جا رہے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز میں نور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہے اب اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور موضوع اور قدسی حدیث گھڑی گئی جو یہ ہے۔- سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری عزت اور جلال کی قسم اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا۔ (ریاض السالکین ص ٢٤٤)- اور ایک دوسری موضوع قدسی حدیث یوں بھی آئی ہے لَوْلاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الاَفْلاَکَ (ریاض السالکین ص ١٩١) یعنی اگر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم نہ ہوتے تو میں کائنات کی کوئی چیز بھی پیدا نہ کرتا۔ - پھر اس کی تائید میں ایک اور موضوع حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے : جب سیدنا آدم جنت سے نکال کر دنیا میں بھیجے گئے تو ہر وقت روتے اور استغفار کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو عرض کی اے باری تعالیٰ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے مغفرت چاہتا ہوں۔ وحی نازل ہوئی کہ بتاؤ تو محمد کون ہیں ؟ عرض کی جب آپ نے مجھے پیدا کیا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں سمجھ گیا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی اونچی ہستی نہیں ہے۔ جس کا نام آپ نے اپنے نام کے ساتھ لکھ رکھا ہے۔ وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ تمہاری اولاد میں سے ہیں لیکن وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے۔ (ریاض السالکین ص ٣٠٢)- اب دیکھئے کہ ان موضوع حدیث میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پھر سیدنا آدم کی توبہ قبول بھی ہوئی تھی یا نہیں۔ الٹا اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر سیدنا آدم کو اور بھی مایوس کردیا کہ اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے۔ غور فرمائیے کہ اگر کسی سائل مغفرت کو ایسا جواب دیا جائے تو اس کے دل پر کیا بیتتی ہے ؟- البتہ اس حدیث نے اور کئی مسئلے حل کردیئے مثلاً (١) خواہ کتنے ہی برس اللہ سے رو رو کر مغفرت چاہیں قبول نہیں ہوتی جب تک کسی کا وسیلہ نہ پکڑیں اور یہ بات قرآن کی تعلیم ( وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ 60 ) 40 ۔ غافر :60) کے بالکل برعکس ہے۔- ٢۔ پھر یہ وسیلہ اپنے نیک اعمال یا کسی زندہ بزرگ ہستی کا نہیں بلکہ ایسی ہستی کا بھی ہوسکتا ہے جو ابھی تک وجود میں نہ آئی ہو۔ یا پاس موجود نہ ہو۔ کاش یہ باتیں سیدنا آدم کو اتنی مدت رونے سے پہلے ہی معلوم ہوجاتیں۔- خ آپ کو نور ثابت کرنے کی ضرورت اور فوائد :۔ پھر آپ کے نور سے نور ثابت کرنے کے اور بھی کئی فوائد ہیں۔ پہلا یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ حاضر و ناظر ہے آپ بھی اسی طرح حاضر و ناظر ہوئے۔ چناچہ عرشی صاحب نے مندرجہ ذیل قرآنی آیت سے اس کا ثبوت بھی مہیا فرما دیا ہے (وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ١٤٣۔ ) 2 ۔ البقرة :143) اور رسول تم پر گواہ یعنی حاضر و ناظر رہتے ہیں۔ جب رسول پاک ہر وقت گواہ رہتے ہیں تو پھر اپنے امتی کے اعمال سے باخبر ہیں کہ فلاں کے اعمال کیسے ہیں اور دین کے کس درجہ میں ہے ؟ (ریاض السالکین ص ٢٣٤)- حاضر و ناظر کی یہ دلیل تو خوب ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس آیت کا اگلا حصہ یوں ہے (لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ١٤٣۔ ) 2 ۔ البقرة :143) پھر کیا تمام صحابہ کرام (رض) بھی حاضر و ناظر ہیں جو دوسرے لوگوں کے گواہ اور ان کے اعمال کے نگران ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کی خصوصیت کیا رہی ؟- البتہ اس کھینچا تانی سے رسول اللہ کو حاضر و ناظر ثابت کرنے کا ایک فائدہ ضرور ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ تمام پیروں فقیروں یعنی اولیاء اللہ کے حاضر و ناظر ہونے اور اپنے مریدوں کے اعمال پر نگران بنے رہنے کا راستہ صاف ہوجاتا ہے۔- اور آپ کو اللہ کے نور سے نور ثابت کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ یا نور کو موت نہیں اسی طرح رسول اللہ کے لیے بھی دائمی زندگی ثابت کی جاتی ہے اور تصرف فی الامور بھی۔ اگر یہ کام نہ کیا جاتا تو پیروں، فقیروں اور بزرگوں یعنی اولیاء کرام کی موت کے بعد دائمی زندگی اور تصرف فی الامور کا راستہ کبھی بھی صاف نہ ہوسکتا تھا۔
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا ۔۔ : یہود و نصاریٰ کے عہد توڑنے اور حق سے منہ موڑنے کا ذکر کرنے کے بعد اب ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ (کبیر) اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ بہت سے احکام جو وہ چھپایا کرتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بیان کرتے ہیں، جیسے رجم کی آیت، سبت والوں کا قصہ جن کی صورتیں مسخ کر کے بندر اور خنزیر بنادیا گیا تھا، اسی طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات سے متعلق آیات، الغرض یہود ان تمام باتوں کو چھپایا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک یہودی مرد اور عورت کو لایا گیا، جنھوں نے زنا کیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : ” تم اپنی کتاب میں اس کے بارے میں کیا حکم پاتے ہو ؟ “ انھوں نے کہا : ” ہمارے علماء نے (اس کی سزا) چہرے کو سیاہ کرنا اور گدھے پر گشت کروانا تجویز کی ہوئی ہے۔ “ عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا : ” اے اللہ کے رسول ان (کے علماء) کو تورات سمیت بلائیے۔ “ چناچہ تورات لائی گئی تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے سے پڑھنا شروع کردیا، عبداللہ بن سلام (رض) نے اس سے کہا : ” اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ “ اس نے ہاتھ اٹھایا تو اس کے نیچے سے رجم کی آیت نکلی۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اور وہ دونوں سنگسار کردیے گئے۔ [ بخاری، الحدود، باب الرجم فی البلاط : ٦٨١٩ ]- قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْن : نور سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب ہی ہے۔ واؤ عاطفہ دونوں کو الگ الگ بتانے کے لیے نہیں بلکہ تفسیر کے لیے ہے، یعنی کتاب مبین اس نور کی تفسیر ہے، جس کی واضح دلیل ایک تو اس سے بعد والی یہ آیت ہے : (يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ ) یعنی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیچھے چلیں، سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے۔ اب اس آیت میں اگر نور اور کتاب مبین الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ ” یَہْدِیْ بِہِمَا اللّٰہُ “ (اللہ ان دونوں کے ساتھ ہدایت دیتا ہے) ہوتے۔ دوسری جگہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نور قرار دیا ہے، چناچہ ارشاد فرمایا : (فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) [ الأعراف : ١٥٧ ] ” سو وہ لوگ جو اس رسول پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ “ معلوم ہوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اترنے والی کتاب ہی نور ہے۔ اسی طرح فرمایا : (فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا ۭ ) [ التغابن : ٨ ] ” سو تم اللہ اور اس کے رسول اور اس نور پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کیا۔ “ قرآن مجید کے لیے نور کا لفظ سورة نساء اور دوسرے مقامات میں بھی آیا ہے، فرمایا : (يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا) [ النساء : ١٧٤ ] ” اے لوگو بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک واضح نور نازل کیا ہے۔ “ - بعض مفسرین نے نور سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کتاب مبین سے مراد قرآن مجید لیا ہے۔ اس صورت میں بھی معنی یہ ہوگا کہ اللہ کی طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک روشنی بن کر اور قرآن ایک کتاب مبین بن کر آئے ہیں، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے، یعنی آپ ایک تو ہدایت کا نور ہیں، دوسرا ” نُوْرٌ مِنَ اللّٰہِ “ یعنی اللہ کی طرف سے آنے والے نور ہیں جو اللہ کی مخلوق ہیں نہ کہ ” نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ “ یعنی اللہ کے نور میں سے نور کا ایک ٹکڑا ہیں کہ اللہ کا حصہ ہوں یا خود ہی اللہ ہوں۔ یہ تو وہی نصرانیوں والا عقیدہ ہے کہ انھوں نے مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنایا اور ان حضرات نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا ٹکڑا بنادیا۔ سورة اخلاص اس گندے اور شرکیہ عقیدے کی خوب تردید کرتی ہے۔
خلاصہ تفسیر - اے اہل کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ ) تمہارے پاس ہمارے یہ رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے ہیں (جن کے کمال علمی کا تو یہ حال ہے کہ) کتاب (کے مضامین) سے جن چیزوں کو تم چھپالیتے ہو، ان میں سے بہت سی باتوں کو (جن کے اظہار میں کوئی شرعی مصلحت ہو ظاہراً تحصیل علوم نہ فرمانے کے باوجود خالص وحی کے ذریعہ واقف ہوکر) تمہارے سامنے صاف صاف کھول دیتے ہیں اور (کمال علمی و اخلاقی کا یہ عالم ہے کہ جن چیزوں کو تم نے چھپالیا تھا ان میں سے) بہت سے امور کو (جاننے اور باخبر ہونے کے باوجود اخلاقاً ان کے اظہار سے) درگزر فرماتے ہیں (جبکہ ان کے اظہار میں کوئی شرعی مصلحت نہ ہو، صرف تمہاری رسوائی ہی ہوتی ہو۔ اور یہ کمال علمی دلیل نبوت ہے اور کمال اخلاقی اس کا مؤ ید اور مؤ کد ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے معجزات کے علاوہ خود تمہارے ساتھ آپ کا یہ برتاؤ آپ کی نبوت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ اور اسی رسول کے ذریعہ) تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور (وہ) ایک کتاب واضح (ہے) کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو رضائے حق کے طالب ہوں۔ سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں (یعنی جنت میں جانے کے طریقے جو خاص عقائد و اعمال ہیں تعلیم فرماتے ہیں کیونکہ در حقیقت مکمل سلامتی تو جنت ہی میں ہو سکتی ہے کہ نہ اس میں کوئی کمی ہوتی ہے اور نہ زوال کا خطرہ) اور ان کو اپنی توفیق سے (کفر و معصیت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و اطاعت کے) نور کی طرف لے آتے ہیں اور ان کو (ہمیشہ) راہ راست پر قائم رکھتے ہیں۔ بلاشبہ وہ لوگ کافر ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عین مسیح بن مریم ہے، آپ ان سے یوں پوچھئے کہ اگر ایسا ہے تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم (جن کو تم اللہ کا عین سمجھتے ہو) اور ان کی اولاد (حضرت مریم) کو اور جتنے زمین میں آباد ہیں۔ ان سب کو (موت سے) ہلاک کرنا چاہیں تو (کیا) کوئی شخص ایسا ہے جو خدا تعالیٰ سے ذرا بھی ان کو بچا سکے۔ (یعنی اتنی بات کو تو تم بھی مانتے ہو کہ ان کو ہلاک کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے، تو جس ذات کا ہلاک کرنا دوسرے کے قبضہ میں ہو وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے۔ اس سے عقیدہ الوہیت مسیح کا باطل ہوگیا) اور (جو حقیقتا خدا اور سب کا معبود ہے یعنی) اللہ تعالیٰ (اس کی یہ شان ہے کہ اس) ہی کے لئے خاص ہے حکومت آسمانوں پر اور زمین پر اور جتنی چیزیں ان دونوں کے درمیان ہیں ان پر اور وہ جس چیز کو (جس طرح) چاہیں پیدا کردیں۔ اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے اور یہود و نصاریٰ (دونوں فریق) دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں۔ (مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں ہماری ایک خصوصیت ہے کہ ہم گناہ بھی کریں تو اس پر اتنی ناراضی نہیں ہوتی جتنی دوسروں پر ہوتی ہے جیسے باپ کو اپنے بیٹے کی نافرمانی پر اتنا اثر نہیں ہوتا، جتنا کسی غیر آدمی کے ایسے ہی فعل پر ہوتا ہے۔ ان کے اس خیال باطل کے ابطال کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ) آپ (ان سے) یہ پوچھئے کہ اچھا پھر تم کو تمہارے گناہوں کے عوض (آخرت میں) عذاب کیوں دیں گے (جس کے تم بھی قائل ہو جیسا کہ یہود کا قول تھا (آیت) لن تمسنا النار الا ایاما معدودة یعنی اگر ہمیں عذاب جہنم ہوا بھی تو چند روز ہی ہوگا اور خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کا قول قرآن میں مذکور ہے۔ (آیت) انہ من یشرک باللّٰہ فقد حرم اللّٰہ علیہ الجنة۔ یعنی جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردیتے ہیں۔ جو بوجہ التزام کے مثل اقرار نصاریٰ کے ہے) ۔- خلاصہ یہ ہے کہ آخرت کے عذاب کا جب تمہیں خود بھی اقرار ہے تو یہ بتلاؤ کہ کیا کوئی باپ اپنے بیٹے یا محبوب کو عذاب بھی دیا کرتا ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو خدا کی اولاد کہنا باطل ہے۔ - یہاں یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات باپ بھی اپنی اولاد کی اصلاح و تربیت کے لئے تادیباً سزا دیتا ہے تو سزا ہونا بیٹا ہونے کے منافی نہیں۔ کیونکہ باپ کی سزا تادیب کے لئے ہوئی ہے تاکہ وہ آئندہ ایسا کام نہ کرے۔ اور آخرت میں تادیب کا کوئی مقام نہیں۔ کیونکہ وہ دار العمل نہیں دار الجزاء ہے۔ وہاں آگے کوئی کام کرنے، یا کسی کام سے روکنے کا کوئی احتمال نہیں۔ جس کو تادیب کہا جائے، اس لئے وہاں جو سزا ہوگی وہ خالص سزا اور تعذیب ہی ہو سکتی ہے۔ جو اولاد یا محبوب ہونے کے قطعاً منافی ہے، اس لئے معلوم ہوا کہ تمہاری کوئی خصوصیت اللہ کے یہاں نہیں) ۔ بلکہ تم بھی منجملہ دوسری مخلوقات کے ایک معمولی آدمی ہو۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گے بخشیں گے جس کو چاہیں گے سزا دیں گے اور اللہ تعالیٰ ہی کی ہے سب حکومت آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی اور جو کچھ ان کے درمیان ان میں بھی اور اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے (اس کے سوا کوئی پناہ نہیں) ۔ - معارف ومسائل - اس آیت میں نصاریٰ کے ایک ہی قول کی تردید کی گئی ہے جو ان کے ایک فرقہ کا عقیدہ ہے یعنی یہ کہ حضرت مسیح (معاذ اللہ) عین اللہ تعالیٰ ہیں۔ مگر تردید جس دلیل سے کی گئی ہے، وہ تمام فرقوں کے عقائد باطلہ پر حاوی ہے جو بھی توحید کے خلاف ہیں۔ خواہ وہ خدا کا بیٹا ہونے کا عقیدہ ہو یا تین خداؤوں میں سے ایک خدا ہونے کا عقیدہ فاسد ہو۔ اس سے سب کا رد اور ابطال ہوگیا۔- اور اس جگہ حضرت مسیح اور ان کی والدہ کا ذکر فرمانے میں دو حکمتیں ہو سکتی ہیں اول تو یہ کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا حق تعالیٰ کے سامنے یہ عجز کہ وہ اپنے آپ کو اللہ سے بچا سکتے ہیں نہ اپنی ماں کو جن کی خدمت و حفاظت کو شریف بیٹا اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں اس فرقہ کے خیال کی بھی تردید ہوگئی، جو حضرت مریم کو تین خداؤں میں سے ایک خدا مانتے ہیں۔ - اور اس جگہ حضرت مسیح اور مریم (علیہما السلام) کی موت کو بطور فرض کے ذکر فرمایا ہے۔ حالانکہ نزول قرآن کے وقت حضرت مریم کی موت محض فرضی نہیں تھی بلکہ واقع ہوچکی تھی۔ اس کی وجہ یا تو تغلیب ہے۔ یعنی اصل میں موت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بطور فرض کے بیان کرنا تھا، ماں کا ذکر بھی اسی عنوان کے ضمن میں کردیا گیا اگرچہ ان کی موت واقع ہوچکی تھی اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مراد یہ ہے کہ جس طرح حضرت مریم پر ہم موت مسلط کرچکے ہیں۔ حضرت مسیح اور دوسری سب مخلوق پر بھی اسی طرح مسلط کردینا ہمارے قبضہ میں ہے۔ اور (آیت) یخلق ما یشآء میں عیسائیوں کے اسی عقیدہ باطلہ کے منشاء کو باطل کرنا ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا بنانے کا اصل منشاء ان کے یہاں یہ ہے کہ ان کی پیدائش ساری دنیا کے قاعدوں کے خلاف بغیر باپ کے صرف ماں سے ہوئی ہے۔ اگر وہ بھی انسان ہوتے تو قاعدہ کے مطابق ماں اور باپ دونوں کے ذریعہ پیدا ئش ہوتی۔- اس جملہ میں اس کا جواب دے دیا کہ اللہ تعالیٰ کو سب طرح قدرت کاملہ حاصل ہے کہ جو چاہے، جس طرح چاہے پیدا کر دے۔ جیسا کہ (آیت ):- ان مثل عیسیٰ عند اللّٰہ کمثل آدم - میں اسی شبہ کا ازالہ فرمایا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تخلیق عام قانون قدرت سے الگ ہونا ان کی خدائی کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ - دیکھو حضرت آدم (علیہ السلام) کو تو حق تعالیٰ نے ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا فرما دیا تھا۔ ان کو سب قدرت ہے، وہی خالق ومالک اور لائق عبادت ہیں۔ دوسرا کوئی ان کا شریک نہیں ہوسکتا۔
يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُـبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ٠ۥۭ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ ١٥ۙ- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔
(١٥) اے اہل کتاب تم ہمارے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت اور آیت رجم وغیرہ کو چھپاتے ہو حالانکہ ہم تمہارے بہت سے گناہ معاف کردیتے ہیں جو تم سے بیان نہیں کرتے۔- شان نزول : (آیت) ” یاھل الکتب قد جآئکم رسولنا “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود کے پاس رجم کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے آئے اور ان سے پوچھا کہ تم میں سب سے بڑا عالم کون ہے سب نے ابن صوریا کی طرف اشارہ کیا، آپ نے اس کو اس ذات کی قسم دے کر جس نے توریت کو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا اور اور کوہ طور کو ان پر اٹھایا اور ان سے تمام عہد لیے۔ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زنا کی سزا کے حوالے سے) پوچھا تو کہنے لگا جب زنا ہم میں زیادہ ہوتا ہے تو سو کوڑے مارتے ہیں اور سر مونڈ دیتے ہیں چناچہ آپ نے ان پر رجم کا فیصلہ کیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے ہیں الخ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٥ ( یٰٓاَ ہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا) (یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ ) (وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍط ) (قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ ) ۔ - یہاں نور سے مراد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت بھی ہوسکتی ہے۔ سورة النساء آیت ١٧٤ میں جو فرمایا گیا : (وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا) اور نازل کردیا ہے ہم نے تمہاری طرف ایک روشن نور وہاں نور سے مراد قرآن ہے ‘ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے فعل اَنْزَلْنَادرست نہیں۔ لیکن یہاں زیادہ احتمال یہی ہے کہ نور سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارکہ ہے ‘ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح پر نور ‘ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح اور روحانیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پورے وجود پر غالب تھی ‘ چھائی ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نور مجسم بھی کہا جاسکتا ہے۔ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استعارۃً نور کہا گیا ہے۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں نور بھی قرآن پاک ہی کو کہا گیا ہو اور و اس میں واؤ تفسیری ہو۔ اس صورت میں مفہوم یوں ہوگا : آگیا ہے تمہارے پاس نور یعنی کتاب مبین۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :37 یعنی تمہاری بعض چوریاں اور خیانتیں کھول دیتا ہے جن کا کھولنا دین حق کو قائم کرنے لیے ناگزیر ہے ، اور بعض سے چشم پوشی اختیار کرلیتا ہے جن کے کھولنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہے ۔
17: مطلب یہ ہے کہ یہود ونصاری نے یوں تو اپنی آسمانی کتابوں کی بہت سی باتوں کو چھپا رکھا تھا ؛ لیکن آنحضرتﷺ نے صرف ان باتوں کو ظاہر فرمایا جن کی وضاحت دینی اعتبار سے ضروری تھی، بہت سی باتیں ایسی بھی تھیں جو انہوں نے چھپائی ہوئی تھیں مگر ان کے پوشیدہ رہنے سے کوئی عملی یا اعتقادی نقصان نہیں تھا اور اگر ان کو ظاہر کیا جاتا تو یہود ونصاری کی رسوائی کے سوا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا، آنحضرتﷺ نے ایسی باتوں سے درگزر فرمایا ہے اور ان کی حقیقت واضح کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔