Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ وحدہ شریک ہے اللہ تبارک و تعالیٰ عیسائیوں کے کفر کو بیان فرماتا ہے کہ انہوں نے اللہ کی مخلوق کو الوہیت کا درجہ دے رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے ، تمام چیزیں اس کی محکوم اور مقدور ہیں ، ہر چیز پر اس کی حکومت اور ملکیت ہے ۔ کوئی نہیں جو اسے کسی ارادے سے باز رکھ سکے ، کوئی نہیں جو اس کی مرضی کے خلاف لب کشائی کی جرأت کر سکے ۔ وہ اگر مسیح کو ، ان کی والدہ کو اور روئے زمین کی تمام مخلوق کا موجد و خالق وہی ہے ۔ سب کا مالک اور سب کا حکمراں وہی ہے ۔ جو چاہے کر گزرے کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں ، اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا ، اس کی سلطنت و مملکت بہت وسیع ہے ، اس کی عظمت ، عزت بہت بلند ہے ، وہ عادل و غالب ہے ۔ جسے جس طرح چاہتا ہے بناتا بگاڑتا ہے ، اس کی قدرتوں کی کوئی انتہاء نہیں ۔ نصرانیوں کی تردید کے بعد اب یہودیوں اور نصرانیوں دونوں کی تردید ہو رہی ہے کہ انہوں نے اللہ پر ایک جھوٹ یہ باندھا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ، ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور وہ اللہ کے لاڈلے فرزند ہیں ، اپنی کتاب سے نقل کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کو کہا ہے ( انت ابنی بکری ) پھر تاویلیں کر کے مطلب الٹ پلٹ کر کے کہتے کہ جب وہ اللہ کے بیٹے ہوئے تو ہم بھی اللہ کے بیٹے اور عزیز ہوئے حالانکہ خود ان ہی میں سے جو عقلمند اور صاحب دین تھے وہ انہیں سمجھاتے تھے کہ ان لفظوں سے صرف بزرگی ثابت ہوتی ہے ، قرابت داری نہیں ۔ اسی معنی کی آیت نصرانی اپنی کتاب سے نقل کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا ( انی ذاھب الی ابی وابیکم ) اس سے مراد بھی سگا باپ نہ تھا بلکہ ان کے اپنے محاورے میں اللہ کیلئے یہ لفظ بھی آتا تھا پس مطلب اس کا یہ ہے کہ میں اپنے اور تمہارے رب کی طرف جا رہا ہوں اور عبادت کا مفہوم واضح بتا رہا ہے کہ یہاں اس آیت میں جو نسبت حضرت عیسیٰ کی طرف سے ، وہی نسبت ان کی تمام امت کی طرف ہے لیکن وہ لوگ اپنے باطل عقیدے میں حضرت عیسیٰ کو اللہ سے جو نسبت دیتے ہیں ، اس نسبت کا اپنے اپنے اوپر اطلاق نہیں مانتے ۔ پس یہ لفظ صرف عزت و وقعت کیلئے تھا نہ کہ کچھ اور ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ اگر یہ صحیح ہے تو پھر تمہارے کفر و کذب ، بہتان و افتراء پر اللہ تمہیں سزا کیوں کرتا ہے؟ کسی صوفی نے کسی فقیہ سے دریافت فرمایا کہ کیا قرآن میں یہ بھی کہیں ہے کہ حبیب اپنے حبیب کو عذاب نہیں کرتا ؟ اس سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو صوفی نے یہی آیت تلاوت فرما دی ، یہ قول نہایت عمدہ ہے اور اسی کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ راہ سے گزر رہے تھے ۔ ایک چھوٹا سا بچہ راستہ میں کھیل رہا تھا ، اس کی ماں نے جب دیکھا کہ اسی جماعت کی جماعت اسی راہ آ رہی ہے تو اسے ڈر لگا کہ بچہ روندا نہ جائے میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی ہوئی آئی اور جھٹ سے بچے کو گود میں اٹھا لیا اس پر صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ عورت تو اپنے پیارے بچے کو کبھی بھی آگ میں نہیں ڈال سکتی آپ نے فرمایا ٹھیک ہے ، اللہ تعالیٰ بھی اپنے پیارے بندوں کو ہرگز جہنم میں لے جائیگا ۔ یہودیوں کے جواب میں فرماتا ہے کہ تم بھی منجملہ اور مخلوق کے ایک انسان ہو تمہیں دوسروں پر کوئی فوقیت و فضیلت نہیں ، اللہ سبحان و تعالیٰ اپنے بندوں پر حاکم ہے اور وہی ان میں سچے فیصلے کرنے والا ہے ، وہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے پکڑے ، وہ جو چاہے کر گزرتا ہے ، اس کا کوئی حاکم نہیں ، اسے کوئی رد نہیں کر سکتا ، وہ بہت جلد بندوں سے حساب لینے والا ہے ۔ زمین و آسان اور ان کے درمیان کی مخلوق سب اس کی ملکیت ہے اس کے زیر اثر ہے ، اس کی بادشاہت تلے ہے ، سب کا لوٹنا اس کی طرف ہے ، وہی بندوں کے فیصلے کریگا ، وہ ظالم نہیں عادل ہے ، نیکوں کو نیکی اور بدوں کو بدی دے گا ، نعمان بن آصا ، بحربن عمرو ، شاس بن عدی جو یہودیوں کے بڑے بھاری علماء تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ نے انہیں سمجھایا بجھایا ، آخرت کے عذاب سے ڈرایا تو کہنے لگے سنئے ، حضرت آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں ، ہم تو اللہ کے بچے اور اس کے پیارے ہیں ، یہی نصرانی بھی کہتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ ان لوگوں نے ایک بات یہ بھی گھڑ کر مشہور کر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسرائیل کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تیرا پہلو نٹھا بیٹا میری اولاد میں سے ہے ۔ اس کی اولاد چالیس دن تک جہنم میں رہے گی ، اس مدت میں آگ انہیں پاک کر دے گی اور ان کی خطاؤں کو کھا جائے گی ، پھر ایک فرشتہ منادی کرے گا کہ اسرائیل کی اولاد میں سے جو بھی ختنہ شدہ ہوں ، وہ نکل آئیں ، یہی معنی ہیں ان کے اس قول کے جو قرآن میں مروی ہے وہ کہتے ہیں ہمیں گنتی کے چند ہی دن جہنم میں رہنا پڑے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور ملکیت تامہ کا بیان فرمایا ہے۔ مقصد عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح کا رد وابطال ہے۔ حضرت عیسیٰ کے عین اللہ ہونے کے قائل پہلے تو کچھ ہی لوگ تھے یعنی ایک ہی فرقہ۔ یعقوبیہ کا یہ عقیدہ تھا لیکن اب تمام عیسائی الوہیت مسیح کے کسی نہ کسی انداز سے قائل ہیں۔ اس لئے مسیحیت میں اب عقیدہ تثلیث یا اقانیم ثلاثہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بہرحال قرآن نے اس مقام پر تصریح کردی کہ کسی پیغمبر اور رسول کو الٰہی صفات سے متصف قرار دینا کفر صریح ہے۔ اس کفر کا ارتکاب عیسائیوں نے، حضرت مسیح کو اللہ قرار دے کر کیا، اگر کوئی اور گروہ یا فرقہ کسی اور پیغمبر کو بشریت و رسالت کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کرے گا تو وہ بھی اسی کفر کا ارتکاب کرے گا،

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٥] نصاریٰ کا قول کہ عیسیٰ ہی عین اللہ ہے اور اس کا رد :۔ یہ کافر لوگ عیسائی یا نصاریٰ ہیں جنہوں نے عیسیٰ کی بشریت میں الوہیت کو ضم کرنے کی کوشش کی۔ یہ انداز فکر چونکہ سراسر گمراہی اور شرک پر مبنی تھا۔ اس لیے گمراہی کی کئی راہیں پیدا ہوگئیں۔ ایک فرقے نے الوہیت کے پہلو کو نمایاں کیا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ کے جسم میں حلول کر گیا لہذا وہ اللہ تعالیٰ کا عین ہے یا عین اللہ تعالیٰ ہے اور جنہوں نے بشریت کے پہلو کو نمایاں کیا انہوں نے کہا کہ عیسیٰ عین اللہ تو نہیں البتہ ابن اللہ ضرور ہیں۔ اور جنہوں نے درمیانی تیسری گمراہی کی راہ اختیار کی انہوں نے کہا کہ اللہ ایک نہیں بلکہ تین ہیں اور تینوں ہی ازلی ابدی ہیں۔ ایک اللہ دوسرے عیسیٰ (علیہ السلام) اور تیسرے روح القدس پھر یہ تین مل کر بھی ایک الہ بنتا ہے۔ پھر مدتوں بعد سیدہ مریم کو بھی الوہیت میں شریک سمجھا جانے لگا (وغیرہ من الخرافات )- [٤٢] عیسائی حضرات عیسیٰ (علیہ السلام) اور سیدہ مریم دونوں کو الوہیت میں شریک بناتے ہیں جبکہ سیدنا عیسیٰ اپنے آپ کو (بقول نصاریٰ ) صلیب پر چڑھنے سے اور سیدہ مریم یہود کی تہمت سے اپنے آپ کو بچا نہ سکے تو پھر ان کی الوہیت کیسی تھی ؟ اور اگر اللہ ان دونوں کو اور ان کے علاوہ جتنے بھی انسان اس زمین پر موجود ہیں سب کو آن کی آن میں نیست و نابود کر دے تو کوئی ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے ؟ کیونکہ ان تمام چیزوں کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور مالک بھی وہی ہے۔ اور مالک کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ملکیت کی چیز میں جیسے چاہے تصرف کرے۔- [٤٧] یعنی اس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور حوا کو ماں کے بغیر اور سیدنا آدم کی وساطت سے پیدا کیا اور سیدنا آدم کو ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا کیا اور چوتھی اور سب سے عام شکل یہ ہے کہ وہ مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر طرح سے پیدا کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔- [٤٨] یہود و نصاری کا یہ قول کہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں :۔ یعنی وہ سزا جو انہیں اس دنیا میں ہی مل رہی ہے اگر وہ فی الواقع اللہ کے محبوب ہیں تو یہ سزا اور رسوائی کیوں ہو رہی ہے۔ سابقہ ادوار میں دو دفعہ تمہیں تباہ و برباد کیا گیا اور آج تمہاری کیا حالت ہے ؟ کیا کوئی اپنے محبوب یا پیاروں کو بھی سزا دیتا اور رسوا کرتا ہے ؟ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان کا یہ دعویٰ بالکل باطل اور بےبنیاد ہے۔ دوسرا دعویٰ ان کا یہ تھا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اس لحاظ سے اللہ کے محبوب ہیں اور اخروی عذاب ہمیں نہیں ہوگا۔ اس دعویٰ کی تردید اللہ نے یوں فرمائی کہ اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر تو تمہیں جلد از جلد مرنے کی آرزو کرنی چاہیے جس سے معلوم ہوا کہ صرف انسان کے اعمال ہی اس کی نجات اخروی کا ذریعہ بن سکتے ہیں حسب و نسب وہاں کچھ کام نہ آسکے گا۔- خ قیامت کے دن حسب ونسب کچھ کام نہ آئے گا :۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے کردیا اس کا نسب اسے آگے نہ کرسکے گا (مسلم کتاب الذکر۔ باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن اور جب سورة شعراء کی آیت (وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤؀ۙ ) 26 ۔ الشعراء :214) نازل ہوئی تو آپ نے اپنے رشتہ داروں کو بلایا اور ان کے نام لے لے کر کہا مثلاً اے عباس بن عبدالمطلب میں تیرے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے صفیہ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی) میں آپ کے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے مال میں سے جو تم چاہو مجھ سے (دنیا میں) طلب کرلو۔ میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورة شعرائ۔ مسلم کتاب الایمان۔ باب۔ وانذر عشیر تک الاقربین )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا ۔۔ : یعنی جنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور مسیح ایک ہی چیز ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ پرانے زمانے میں یہ صرف نصرانیوں کے ایک فرقے یعقوبیہ کا عقیدہ تھا، مگر اس زمانے میں نصرانیوں کے جو تین فرقے پروٹسٹنٹ، کیتھولک اور آرتھوڈیکس پائے جاتے ہیں وہ سب کے سب اگرچہ تثلیث کے قائل ہیں لیکن ان کا اصل مقصد مسیح (علیہ السلام) کو الٰہ ( خدا) ماننا ہے، گویا وہ سب کے سب خدا اور مسیح کے ایک چیز ہونے کے قائل ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان سب پر کافر ہونے کا فتویٰ لگایا ہے۔ (المنار) مسلمانوں میں الحمد للہ توحید الٰہی پر قائم لوگ کثرت سے موجود ہیں، مگر کئی ایسے گمراہ بھی ہیں جنھوں نے صاف کہہ دیا :- وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر - اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفیٰ ہو کر - یہ بعینہ اوپر مذکور شرکیہ عقیدہ ہے، اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو توحید الٰہی کا عقیدہ رکھنے کی ہدایت اور اس پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین - قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَـيْـــًٔـا۔۔ : یعنی وہ مالک کل اور مختار کل ہے اور سب چیزوں پر اسے قدرت اور برتری حاصل ہے، وہ چاہے تو سب کو آن کی آن میں فنا کرسکتا ہے، اگر مسیح (علیہ السلام) خدا ہوتے تو کم از کم خود کو اور اپنی والدہ کو تو بچا سکتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ کو فوت کرلیا اور ان کو بھی مقرر وقت پر فوت کرے گا، وہ موت سے بچ نہیں سکیں گے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ نہ تو خدا ہیں اور نہ خدا کے بیٹے، بلکہ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ (کبیر، قرطبی) - يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۭ: یعنی وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور جس کو جیسے چاہتا ہے بناتا ہے، آدم (علیہ السلام) کو اس نے ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا کیا تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کردینا اس کے لیے کیا مشکل تھا، محض باپ کے بغیر پیدا ہونے سے کوئی بندہ خدا نہیں بن جاتا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ انبیاء کے حق میں ایسی بات فرماتے ہیں تاکہ ان کی امت والے ان کو بندگی کی حد سے زیادہ نہ چڑھائیں۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۝ ٠ۭ قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ مِنَ اللہِ شَـيْـــًٔـا اِنْ اَرَادَ اَنْ يُّہْلِكَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّہٗ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا۝ ٠ۭ وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا۝ ٠ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۝ ٠ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ١٧- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- ملك ( مالک)- فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] ، وقال :- أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] وفي غيرها من الآیات - ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

کفر کی تشریح - قول باری ہے (لقد کفوالذین قالوا ان اللہ ھو المسیح بن مریم قل فمن یملک من اللہ شیئا ان اراد ان یھلک المسیح ابن مریم، یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو ہلاک کردینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس ارادے سے باز رکھ سکے) ۔- ان لوگوں کو کفر کا نشان اس لئے لگ گیا کہ انہوں نے یہ بات اس بنا پر کہی تھی کہ وہ اسے اپنا دین سمجھتے تھے، انہیں اس کا اعتقاد تھا اور اس کی صحت کا اقرار کرتے تھے۔ اس لئے کہ اگر وہ یہ بات دوسرے لوگوں کے عقیدے کی حکایت کے طور پر کہتے اور خود اس کا انکار کرتے تو کافر قرار نہ دیئے جاتے۔- کفر چھپا لینے اور پردہ ڈال دینے کو کہتے ہیں۔ ہم نے ان کی جو بات نقل کی ہے اس میں دو وجوہ سے ڈھانپ لینے اور چھپا لینے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ ایک تو نعمت کا انکار کر کے کفران نعمت کرنا نعمت عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے لیکن اس نعمت کو کسی اور کی طرف منسوب کردینا جس کی الوہیت کے یہ دعوے دار تھے۔- دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے جاہل ہونے کی بنا پر اس کا انکار کردینا۔ اللہ کی ذات سے جاہل کافر ہوتا ہے، اس لئے کہ وہ اس جہل کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا حق ضائع کردیتا ہے اور اس طرح اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوجاتی ہے جو ان نعمتوں کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرتا ہے۔- کفر کی تشریح - قول باری ہے (لقد کفوالذین قالوا ان اللہ ھو المسیح بن مریم قل فمن یملک من اللہ شیئا ان اراد ان یھلک المسیح ابن مریم، یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو ہلاک کردینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس ارادے سے باز رکھ سکے) ۔- ان لوگوں کو کفر کا نشان اس لئے لگ گیا کہ انہوں نے یہ بات اس بنا پر کہی تھی کہ وہ اسے اپنا دین سمجھتے تھے، انہیں اس کا اعتقاد تھا اور اس کی صحت کا اقرار کرتے تھے۔ اس لئے کہ اگر وہ یہ بات دوسرے لوگوں کے عقیدے کی حکایت کے طور پر کہتے اور خود اس کا انکار کرتے تو کافر قرار نہ دیئے جاتے۔- کفر چھپا لینے اور پردہ ڈال دینے کو کہتے ہیں۔ ہم نے ان کی جو بات نقل کی ہے اس میں دو وجوہ سے ڈھانپ لینے اور چھپا لینے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ ایک تو نعمت کا انکار کر کے کفران نعمت کرنا نعمت عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے لیکن اس نعمت کو کسی اور کی طرف منسوب کردینا جس کی الوہیت کے یہ دعوے دار تھے۔- دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے جاہل ہونے کی بنا پر اس کا انکار کردینا۔ اللہ کی ذات سے جاہل کافر ہوتا ہے، اس لئے کہ وہ اس جہل کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا حق ضائع کردیتا ہے اور اس طرح اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوجاتی ہے جو ان نعمتوں کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرتا ہے۔- قول باری (فمن یملک من اللہ شیئا ان اراد ان یھلک المسیح ابن مریم) کے معنی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور ان کی ماں کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتا تو اللہ کو اپنے اس ارادے سے باز رکھنے کی مجال کس کو ہوتی۔- یہ قول حضرت مسیح (علیہ السلام) کے الہ نہ ہونے کی واضح ترین اور بین ترین دلیل ہے اس لئے کہ اگر حضرت مسیح (علیہ السلام) الہ ہوتے تو وہ اللہ کو اس ارادے سے باز رکھ سکتے لیکن جب حضرت مسیح (علیہ السلام) اور دوسری تمام مخلوقات اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ سب پر موت اور ہلاکت کا درود ممکن ہے تو یہ بات درست ہوگئی کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) الہ نہیں ہیں کیونکہ تمام لوگ الہ نہیں ہیں اور حضرت مسیح (علیہ السلام) فنا، موت اور ہلاکت کے جواز کے لحاظ سے دوسرے لوگوں کی طرح ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ط) - حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں عیسائیوں کے ہاں جودو عقیدے رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ ہی مسیح ( علیہ السلام) ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد اس نظریہ پر قائم ہے کہ خدا خود ہی انسانی شکل میں ظہور کرلیتا ہے۔ اس عقیدے کو کہا جاتا ہے ‘ یعنی اوتار کا عقیدہ جو ہندوؤں میں بھی ہے۔ جیسے رام چندر جی ‘ کرشن جی مہاراج ان کے ہاں خدا کے اوتار مانے جاتے ہیں۔ چناچہ عیسائیوں کا فرقہ خاص طور پر کے عقیدے کا سختی سے قائل رہا ہے ‘ کہ اصل میں اللہ ہی نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی شکل میں دنیا میں ظہور فرمایا۔ جیسے ہمارے ہاں بھی بعض لوگ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت و عقیدت اور عظمت کے اظہار میں غلو سے کام لے کر حد سے تجاوز کرتے ہوئے یہاں تک کہہ جاتے ہیں : ؂- وہی جو مستوئ عرش تھا خدا ہو کر - اُتر پڑا وہ مدینے میں مصطفیٰ ہو کر - عیسائیوں کے اسی عقیدے کا ابطال اس آیت میں کیا گیا ہے۔- (وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) ۔- وہ جو چاہتا ہے ‘ جیسے چاہتا ہے ‘ تخلیق فرماتا ہے۔ اس نے آدم ‘ عیسیٰ اور یحییٰ ( ) کو تخلیق فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اعجاز تخلیق کی مختلف مثالیں ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :39 عیسائیوں نے ابتداءً مسیح علیہ السلام کی شخصیت کو انسانیت اور الوہیت کا مرکب قرار دے کر جو غلطی کی تھی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے لیے مسیح علیہ السلام کی حقیقت ایک معما بن کر رہ گئی جسے ان کے علماء نے لفاظی اور قیاس آرائی کی مدد سے حل کرنے کی جتنی کوشش کی اتنے ہی زیادہ الجھتے چلے گئے ۔ ان میں سے جس کے ذہن پر اس مرکب شخصیت کے جزو انسانی نے غلبہ کیا اس نے مسیح علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے اور تین مستقل خداؤں میں سے ایک ہونے پر زور دیا ۔ اور جس کے ذہن پر جزو الوہیت کا اثر زیادہ غالب ہوا اس نے مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا جسمانی ظہور قرار دے کر عین اللہ بنا دیا اور اللہ ہونے کی حیثیت ہی سے مسیح علیہ السلام کی عبادت کی ۔ ان کے درمیان بیچ کی راہ جنہوں نے نکالنی چاہی انہوں نے سارا زور ایسی لفظی تعبیریں فراہم کرنے پر صرف کر دیا جن سے مسیح علیہ السلام کو انسان بھی کہا جاتا رہے اور اس کے ساتھ خدا بھی سمجھا جا سکے ، خدا اور مسیح علیہ السلام الگ الگ بھی ہوں اور پھر ایک بھی رہیں ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ نساء ، حاشیہ نمبر ۲۱۲ ، ۲۱۳ و ۲۱۵ ) ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :40 اس فقرے میں ایک لطیف اشارہ ہے اس طرف کہ محض مسیح علیہ السلام کی اعجازی پیدائش اور ان کے اخلاقی کمالات اور محسوس معجزات کو دیکھ کر جو لوگ اس دھوکہ میں پڑ گئے کہ مسیح علیہ السلام ہی خدا ہے وہ درحقیقت نہایت نادان ہیں ۔ مسیح علیہ السلام تو اللہ کے بے شمار عجائب تخلیق میں سے محض ایک نمونہ ہے جسے دیکھ کر ان ضعیف البصر لوگوں کی نگاہیں چوندھیا گئیں ۔ اگر ان لوگوں کی نگاہ کچھ وسیع ہوتی تو انہیں نظر آتا کہ اللہ نے اپنی تخلیق کے اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز نمونے پیش کیے ہیں اور اس کی قدرت کسی حد کے اندر محدود نہیں ہے ۔ پس یہ بڑی بے دانشی ہے کہ مخلوق کے کمالات کو دیکھ کر اسی پر خالق ہونے کا گمان کر لیا جائے ۔ دانشمند وہ ہیں جو مخلوق کے کمالات میں خالق کی عظیم الشان قدرت کے نشانات دیکھتے ہیں اور ان سے ایمان کا نور حاصل کرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani