Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بدترین گروہ اور اس کا انجام حکم ہوتا ہے کہ جو اہل کتاب تمہارے دین پر مذاق اڑاتے ہیں ، ان سے کہو کہ تم نے جو دشمنی ہم سے کر رکھی ہے ، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ پس دراصل نہ تو یہ کوئی وجہ بغض ہے ، نہ سبب مذمت بہ استثناء منقطع ہے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ ) 85 ۔ البروج:8 ) یعنی فقط اس وجہ سے انہوں نے ان سے دشمنی کی تھی کہ وہ اللہ عزیز و حمید کو مانتے تھے ۔ اور جیسے اور آیت میں وما نقموا الا ان اغناھم اللہ و رسولہ من فضلہ ۔ یعنی انہوں نے صرف اس کا انتقام لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مال دے کر غنی کر دیا ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ابن جمیل اسی کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی کر دیا اور یہ کہ تم میں سے اکثر صراط مستقیم سے الگ اور خارج ہو چکے ہیں ۔ تم جو ہماری نسبت گمان رکھتے ہو آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کے ہاں سے بدلہ پانے میں کون بدتر ہے؟ اور وہ تم ہو کہ کیونکہ یہ خصلتیں تم میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ یعنی جسے اللہ نے لعنت کی ہو ، اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہو ، اس پر غصبناک ہوا ہو ، ایسا جس کے بعد رضامند نہیں ہوگا اور جن میں سے بعض کی صورتیں بگاڑ دی ہوں ، بندر اور سور بنا دیئے ہوں ۔ اس کا پورا بیان سورہ بقرہ میں گزر چکا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ یہ بندر و سور وہی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا ، جس قوم پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہوتا ہے ، ان کی نسل ہی نہیں ہوتی ، ان سے پہلے بھی سور اور بندر تھے ۔ روایت مختلف الفاظ میں صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے ۔ مسند میں ہے کہ جنوں کی ایک قوم سانپ بنا دی گئی تھی ۔ جیسے کہ بندر اور سور بنا دیئے گئے ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ۔ انہی میں سے بعض کو غیر اللہ کے پرستار بنا دیئے ۔ ایک قرأت میں اضافت کے ساتھ طاغوت کی زیر سے بھی ہے ۔ یعنی انہیں بتوں کا غلام بنا دیا ۔ حضرت برید اسلمی اسے ( عابد الطاغوت ) پڑھتے تھے ۔ حضرت ابو جعفر قاری سے ( وعبد الطاغوت ) بھی منقول ہے جو بعید از معنی ہو جاتا ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوتا مطلب یہ ہے کہ تم ہی وہ ہو ، جنہوں نے طاغوت کی عبادت کی ۔ الغرض اہل کتاب کو الزام دیا جاتا ہے کہ ہم پر تو عیب گیری کرتے ہو ، حالانکہ ہم موحد ہیں ، صرف ایک اللہ برحق کے ماننے والے ہیں اور تم تو وہ ہو کہ مذکورہ سب برائیاں تم میں پائی گئیں ۔ اسی لئے خاتم پر فرمایا کہ یہی لوگ باعتبار قدر و منزلت کے بہت برے ہیں اور باعتبار گمراہی کے انتہائی غلط راہ پر پڑے ہوئے ہیں ۔ اس افعل التفصیل میں دوسری جانب کچھ مشارکت نہیں اور یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں ۔ جیسے اس آیت میں ( اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا ) 25 ۔ الفرقان:24 ) پھر منافقوں کی ایک اور بدخصلت بیان کی جا رہی ہے کہ ظاہر میں تو وہ مومنوں کے سامنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے باطن کفر سے بھرے پڑے ہیں ۔ یہ تیرے کفر کی حالت میں پاس آتے ہیں اور اسی حالت میں تیرے پاس سے جاتے ہیں تو تیری باتیں ، تیری نصیحتیں ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں ۔ بھلا یہ پردہ داری انہیں کیا کام آئے گی ، جس سے ان کا معاملہ ہے ، وہ تو عالم الغیب ہے ، دلوں کے بھید اس پر روشن ہیں ۔ وہاں جا کر پورا پورا بدلہ بھگتنا پڑے گا ۔ تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ گناہوں پر ، حرام پر اور باطل کے ساتھ لوگوں کے مال پر کس طرح چڑھ دوڑتے ہیں؟ ان کے اعمال نہایت ہی خراب ہو چکے ہیں ۔ ان کے اولیاء اللہ یعنی عابد و عالم اور ان کے علماء انہیں ان باتوں سے کیوں نہیں روکتے؟ دراصل ان کے علماء اور پیروں کے اعمال بدترین ہو گئے ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ علماء اور فقراء کی ڈانٹ کیلئے اس سے زیادہ سخت آیت کوئی نہیں ۔ حضرت ضحاک سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ حضرت علی نے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو تم سے اگلے لوگ اسی بناء پر ہلاک کر دیئے گئے کہ وہ برائیاں کرتے تھے تو ان کے عالم اور اللہ والے خاموش رہتے تھے ، جب یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تو اللہ نے انہیں قسم قسم کی سزائیں دیں ۔ پس تمہیں چاہئے کہ بھلائی کا حکم کرو ، برائی سے روکو ، اس سے پہلے کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائیں جو تم سے پہلے والوں پر آئے ، یقین رکھو کہ اچھائی کا حکم برائی سے ممانعت نہ تو تمہارے روزی گھٹائے گا ، نہ تمہارے موت قریب کر دے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے اور وہ لوگ باوجود روکنے کی قدرت اور غلبے کے اسے نہ مٹائیں تو اللہ تعالیٰ سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا ( مسند احمد ) ابو داؤد میں ہے کہ یہ عذاب ان کی موت سے پہلے ہی آئے گا ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠١] چاہئے تو یہ تھا کہ یہود نصاری مسلمانوں سے محبت رکھتے :۔ یہود کو مسلمانوں سے اور پیغمبر اسلام سے اصل میں تو یہ بیر تھا کہ نبی آخر الزماں ان یہود میں سے ہی کیوں مبعوث نہیں ہوا۔ یہ بات وہ علی الاعلان تو کہہ نہیں سکتے تھے اور اس کے بجائے اپنے دل کی جلن اور بھڑاس نکالنے کے لیے پیغمبر اسلام کو طرح طرح سے مطعون کرتے اور انہیں دکھ پہنچاتے رہتے تھے۔ ان کی اصل تکلیف کا بھی اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر جواب دیا ہے کہ نبوت کے تم اجارہ دار نہیں ہو کہ جتنی بھی بدعہدیاں تم کرتے جاؤ نبوت بہرحال تمہارے ہی خاندان میں رہے۔ نبوت تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے مناسب سمجھتا ہے دے دیتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ ان یہود سے بھلا پوچھو تو کہ آخر ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو مستقل طور پر ہم سے عداوت پر اتر آئے ہو۔ ہم تو تورات پر بھی ایمان لاتے ہیں اور انجیل پر بھی اور تمام انبیاء پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ اس لحاظ سے چاہیے تو یہ تھا کہ ہم تم سے عداوت رکھتے کیونکہ تم نہ قرآن پر ایمان لاتے ہو اور نہ مجھ پر۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ ۙ: یعنی پہلی کتابوں پر، جیسے تورات، انجیل اور زبور وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ تم جانتے ہو کہ ہمارا ایمان انھی چیزوں پر ہے جنھیں تم بھی صحیح مانتے ہو، پھر تم ہم سے کس بات کا انتقام لیتے ہو اور ہمارا کیا عیب ہے جس کی وجہ سے تم ہم سے دشمنی رکھتے ہو ؟ - وَاَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ : اصل بات یہ ہے کہ تم میں سے اکثر لوگ فاسق (نا فرمان) اور بدکار ہیں اور تمہاری ساری مذہبی اجارہ داری گروہی تعصب اور غلط قسم کی روایات پر قائم ہے، اس لیے تم اپنے سوا کسی دوسرے میں کوئی اچھی بات دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ فاسق کی تو روایت ہی قابل قبول نہیں، کیونکہ اسے جھوٹ سے کوئی پرہیز نہیں ہوتا، اس لیے اسلام کے خلاف تمہاری تمام روایات و حرکات بےوقعت ہیں۔ قرآن مجید کا انصاف ملاحظہ فرمائیے کہ شدید غضب کے باوجود ان سب کو نہیں بلکہ اکثر کو فاسق کہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم ہم میں کیا عیب پاتے ہو بجز اس کے کہ ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور اس کتاب پر جو ہمارے پاس بھیجی گئی ہے (یعنی قرآن) اور اس کتاب پر (بھی) جو (ہم سے) پہلے بھیجی جا چکی ہے (یعنی تمہاری کتاب تورات و انجیل) باوجود اس کے کہ تم میں اکثر لوگ ایمان سے خارج ہیں (کہ نہ قرآن کا ایمان ہے جس کا خود ان کو بھی اقرار ہے اور نہ تورات و انجیل پر ایمان ہے، کیونکہ ان پر ایمان ہوتا تو ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان لانے کی ہدایت موجود ہے اس پر بھی ضرور ایمان ہوتا، قرآن کا انکار اس پر شاہد ہے کہ تورات و انجیل پر بھی ان کا ایمان نہیں ہے۔ یہ حال تو تم لوگوں کا ہوا اور ہم اس کے برعکس سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ تو عیب ہم میں نہیں خود تم میں ہے غور کرو) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہہ دیجئے کہ (اگر اس پر بھی تم ہمارے طریقہ کو برا سمجھتے ہو تو آؤ) کیا میں (اچھے برے میں موازنہ کرنے کے لئے) تم کو ایسا طریقہ بتلاؤں جو (ہمارے) اس (طریقہ) سے بھی (جس کو تم برا سمجھ رہے ہو) خدا کے یہاں سزا ملنے میں زیادہ برا ہو، وہ ان اشخاص کا طریقہ ہے جن کو (اس طریقہ کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کردیا ہو اور ان پر غضب فرمایا ہو اور ان کو بندر اور سور بنادیا ہو اور انہوں نے شیطان کی پرستش کی ہو (اب دیکھ لو کہ ان میں کون سا طریقہ برا ہے، آیا وہ طریقہ جس میں غیر اللہ کی عبادت اور اس پر یہ وبال ہوں، یا وہ طریقہ جو سراسر توحید اور نبوت انبیاء کی تصدیق ہو۔ یقینا موازنہ یہی ہے کہ) ایسے اشخاص (جن کا طریقہ ابھی ذکر کیا گیا ہے آخرت میں) مکان کے اعتبار سے بھی (جو ان کو سزا کے طور پر ملے گا) بہت برے ہیں (کیونکہ یہ مکان دوزخ ہے) اور (دنیا میں) راہ راست سے بھی بہت دور ہیں (اشارہ یہ ہے کہ تم لوگ ہم پر ہنستے ہو، حالانکہ استہزاء کے قابل تمہارا طریقہ ہے کیونکہ یہ سب خصلتیں تم میں پائی جاتی ہیں، کہ یہود نے گو سالہ پرستی کی اور نصاریٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا بنا لیا، پھر اپنے علماء و مشائخ کو خدائی کے اختیارات سپرد کر دئے، اسی لئے یہودیوں نے جب یوم سبت کے احکام کی خلاف ورزی کی تو اللہ کا عذاب آیا، وہ بندر بنا دیئے گئے، اور نصاریٰ کی درخواست پر آسمانی مائدہ نازل ہونے لگا۔ انہوں نے پھر بھی ناشکری کی تو ان کو بندر اور سور بنادیا گیا۔ آگے ان کی ایک خاص جماعت کا ذکر ہے جو منافق تھے کہ مسلمانوں کے سامنے اسلام کا اظہار کرتے تھے اور اندرونی طور پر یہودی ہی تھے) اور جب یہ (منافق) لوگ تم لوگوں کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ کفر ہی کو لے کر (مسلمانوں کی مجلس میں) آئے تھے اور کفر ہی لے کر چلے گئے اور اللہ تعالیٰ تو خوب جانتے ہیں جس کو یہ (اپنے دل میں) چھپائے ہوئے ہیں (اس لئے ان کا نفاق اللہ تعالیٰ کے سامنے کام نہیں دے گا اور کفر کی بدترین سزا سے سابقہ پڑے گا) ۔- معارف و مسائل - اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ. میں حق تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے خطاب میں سب کے بجائے اکثر کو خارج از ایمان فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ہر حال میں مومن ہی رہے، جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت نہیں ہوتی تھی وہ احکام تورات و انجیل کے تابع اور ان پر ایمان رکھتے تھے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اور قرآن نازل ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور عمل قرآن کے تابع کرنے لگے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ ہَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ۝ ٠ۙ وَاَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ۝ ٥٩- هَلْ- : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] . وقوله :- هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ- [ البقرة 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته .- ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔- نقم - نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] .- ( ن ق م )- نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان یہودیوں سے فرمادیجیے کہ تم ہماری ہنسی کیوں اڑاتے ہو اور کون سی معیوب بات ہم میں پاتے ہو ماسوا اس کے کہ ہم اللہ وحدہ لاشریک پر اور قرآن کریم پر اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جس قدر رسول ہوئے اور جتنی کتابیں نازل کی گئیں ہم سب پر ایمان لاتے ہیں یعنی سب کو ماننے والے حقیقی مومن ہم (مسلمان) ہیں تم سب اپنے غلط مشرکانہ عقیدہ عمل کی بنا پر سب کافر ہو، پھر یہودی جل کر کہتے تھے کہ تمام دین والوں میں العیاذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپ کے صحابہ کرام (رض) کا رتبہ کم ہے۔- شان نزول : (آیت) ” قل یاھل الکتب ھل تنقمون “۔ (الخ)- حضرت ابن عباس (رض) ہی نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہودیوں کی ایک جماعت آئی، جن میں ابویاسر بن اخطب اور نافع بن ابی نافع اور غازی بن عمر تھا، انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ آپ رسولوں میں سے کن رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا، میں اللہ تعالیٰ پر اور جو کتاب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل کی گئی ہے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) ، یعقوب (علیہ السلام) پر اور ان کی اولاد میں جو کتابیں نازل کی گئی ہیں، ان پر اور جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب دی گئی ہے اور ان کے علاوہ اور دوسرے انبیاء کرام کو جو کتابیں دی گئیں ہیں سب پر ایمان رکھتا ہوں ہم کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا، تو ان لوگوں نے ان کی نبوت کا انکار کیا اور بولے کہ ہم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ اس شخص پر ایمان لاتے ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتا ہو، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani