وضو اور غسل کے احکامات اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ حکم وضو اس وقت ہے جب کہ آدمی بےوضو ہو ۔ ایک جماعت کہتی ہے جب تم کھڑے ہو یعنی نیند سے جاگو یہ دونوں قول تقریباً ایک ہی مطلب کے ہیں اور حضرات فرماتے ہیں آیت تو عام ہے اور اپنے عموم پر ہی رہے گی لیکن جو بےوضو ہو اس پر وضو کرنے کا حکم وجوباً ہے اور جو باوضو ہو اس پر استحباباً ۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ ابتداء اسلام میں ہر صلوۃ کے وقت وضو کرنے کا حکم تھا پھر منسوخ ہو گیا ۔ مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کیلئے تازہ وضو کیا کرتے تھے ، فتح مکہ والے دن آپ نے وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا اور اسی ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کیں ، یہ دیکھ کر حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج آپ نے وہ کام کیا جو آج سے پہلے نہیں کرتے تھے ۔ آپ نے فرمایا ہاں میں نے بھول کر ایسا نہیں کیا بلکہ جان بوجھ کر قصداً یہ کیا ہے ، ابن ماجہ وغیرہ میں کہ حضرت جابر بن عبداللہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھا کرتے تھے ہاں پیشاب کریں یا وضو ٹوٹ جائے تو نیا وضو کر لیا کرتے اور وضو ہی کے بچے ہوئے پانی سے جرابوں پر مسح کر لیا کرتے ۔ یہ دیکھ کر حضرت فضل بن مبشر نے سوال کیا کہ کیا آپ اسے اپنی رائے سے کرتے ہیں؟ فرمایا نہیں بلکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ، مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر کو ہر نماز کیلئے تازہ وضو کرتے دیکھ کر خواہ وضو ٹوٹا ہو یا نہ ٹوٹا ہو ان کے صاحبزادے عبید اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ اس کی کیا سند ہے؟ فرمایا اس سے حضرت اسماء بنت زید بن خطاب نے کہا ہے کہ ان سے حضرت عبداللہ بن حنظلہ نے جو فرشتوں کے غسل دئیے ہوئے کے صاحبزادے تھے بیان کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کیلئے تازہ وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس حالت میں وضو باقی ہو تو بھی اور نہ ہو تو بھی ، لیکن اس میں قدرے مشقت معلوم ہوئی تو وضو کے حکم کے بدلے مسواک کا حکم رکھا گیا ہاں جب وضو ٹوٹے تو نماز کیلئے نیا وضو ضروری ہے اسے سامنے رکھ کر حضرت عبداللہ کا خیال ہے کہ چونکہ انہیں قوت ہے اس لئے وہ ہر نماز کے وقت وضو کرتے ہیں ۔ آخری دم تک آپ کا یہی حال رہا ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعن والدہ ۔ اس کے ایک راوی حضرت محمد بن اسحاق ہیں لیکن چونکہ انہوں نے صراحت کے ساتھ حدثنا کہا ہے اس لئے تدلیس کا خوف بھی جاتا رہا ۔ ہاں ابن عساکر کی روایت میں یہ لفظ نہیں اللہ اعلم ۔ حضرت عبداللہ کے اس فعل اور اس پر ہمیشگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مستحب ضرور ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ خلفاء ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کرتے تھے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ یوم القیامہ ہر نماز کیلئے وضو کرتے اور دلیل میں یہ آیت تلاوت فرما دیتے ایک مرتبہ آپ نے ظہر کی نماز ادا کی پھر لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما تھے پھر پانی لایا گیا اور آپ نے منہ دھویا ہاتھ دھوئے پھر سر کا مسح کیا اور پھر پیر کا ۔ اور فرمایا یہ وضو ہے اس کا جو بےوضو نہ ہوا ہو ، ایک مرتبہ آپ نے خفیف وضو کر کے بھی یہی فرمایا تھا ۔ حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ابو داؤد طیالسی میں حضرت سعید بن مسیب کا قول ہے کہ وضو ٹوٹے بغیر وضو کرنا زیادتی ہے ۔ اولاً تو یہ فعل سنداً بہت غریب ہے ، دوسرا یہ کہ مراد اس سے وہ شخص ہے جو اسے واجب جانتا ہو اور صرف مستحب سمجھ کر جو ایسا کرے وہ تو عامل بالحدیث ہے ، بخاری سنن وغیرہ میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کیلئے نیا وضو کرتے تھے ، ایک انصاری نے حضرت انس سے یہ سن کر کہا اور آپ لوگ کیا کرتے تھے؟ فرمایا ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھتے تھے جب تک وضو ٹوٹے نہیں ، ابن جریر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ جو شخص وضو پر وضو کرے اس کیلئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے اور امام ترمذی نے اسے ضعیف کہا ہے ایک جماعت کہتی ہے کہ آیت سے صرف اتنا ہی مقصود ہے کہ کسی اور کام کے وقت وضو کرنا واجب نہیں صرف نماز کیلئے ہی اس کا وجوب ہے ۔ یہ فرمان اس لئے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ وضو ٹوٹنے پر کوئی کام نہ کرتے تھے جب تک پھر وضو نہ کرلیں ، ابن ابی حاتم وغیرہ کی ایک ضعیف غریب روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب پیشاب کا ارادہ کرتے ہم آپ سے بولتے لیکن آپ جواب نہ دیتے ہم سلام علیک کرتے پھر بھی جواب نہ دیتے یہاں تک کہ یہ آیت رخصت کی اتری ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پاخانے سے نکلے اور کھانا آپ کے سامنے لایا گیا تو ہم نے کہا اگر فرمائیں تو وضو کا پانی کا حاضر کریں فرمایا وضو کا حکم تو مجھے صرف نماز کیلئے کھڑا ہونے کے وقت ہی کیا گیا ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن بتاتے ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے کچھ نماز تھوڑا ہی پڑھنی ہے جو میں وضو کروں ۔ آیت کے ان الفاظ سے کہ جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو وضو کر لیا کرو علماء کرام کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ وضو میں نیت واجب ہے ، مطلب کلام اللہ شریف کا یہ ہے کہ نماز کیلئے وضو کر لیا کرو ۔ جیسے عرب میں کہا جاتا ہے ، جب تو امیر کو دیکھے تو کھڑا ہو جا تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ امیر کیلئے کھڑا ہو جا ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کیلئے صرف وہی ہے جو وہ نیت کرے اور منہ کے دھونے سے پہلے وضو میں بسم اللہ کہنا مستحب ہے ۔ کیونکہ ایک پختہ اور بالکل صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کا وضو نہیں جو اپنے وضو میں بسم اللہ نہ کہے ( حدیث کے ظاہری الفاظ تو نیت کی طرح بسم اللہ کہنے پر بھی وجوب کی دلالت کرتے ہیں واللہ اعلم ۔ مترجم ) یہ بھی یاد رہے کہ وضو کے پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے کا ان کا دھو لینا مستحب ہے اور جب نیند سے اٹھا ہو تب تو سخت تاکید آتی ہے بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ تم میں سے کوئی نیند سے جاگ کر برتن میں ہاتھ نہ ڈالے جب تک کہ تین مرتبہ دھو نہ لے ، اسے نہیں معلوم کہ اس کے ہاتھ رات کے وقت کہاں رہے ہوں؟ منہ کی حد فقہاء کے نزدیک لمبائی میں سر کے بالوں کی اگنے کی جو جگہ عموماً ہے وہاں سے داڑھی کی ہڈی اور تھوڑی تک ہے اور چوڑائی میں ایک کان سے دوسرے کان تک ۔ اس میں اختلاف ہے کہ دونوں جانب کی پیشانی کے اڑے ہوئے بالوں کی جگہ سر کے حکم میں ہے یا منہ کے؟ اور داڑھی کے لکٹتے ہوئے بالوں کا دھونا منہ کے دھونے کی فرضیت میں داخل ہے یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں ، ایک تو یہ کہ ان پر پانی کا بہانا واجب ہے اس لئے کہ منہ سامنے کرنے کے وقت اس کا بھی سامنا ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو داڑھی ڈھانپے ہوئے دیکھ کر فرمایا اسے کھول دے یہ بھی منہ میں داخل ہے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں عرب کا محاورہ بھی یہی ہے کہ جب بچے کے داڑھی نکلتی ہے تو وہ کہتے ہیں طلع وجھہ پس معلوم ہوتا ہے کہ کلام عرب میں داڑھی منہ کے حکم میں ہے اور لفظ وجہہ میں داخل ہے ۔ داڑھی گھنی اور بھری ہوئی ہو تو اس کا خلال کرنا بھی مستحب ہے ۔ حضرت عثمان کے وضو کا ذکر کرتے ہوئے راوی کہتا ہے کہ آپ نے منہ دھوتے وقت تین دفعہ داڑھی کا خلال کیا ۔ پھر فرمایا جس طرح تم نے مجھے کرتے دیکھا اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے ( ترمذی وغیرہ ) اس روایت کو امام بخاری اور امام ترمذی حسن بتاتے ہیں ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے وقت ایک چلو پانی لے کر اپنی تھوڑی تلے ڈال کر اپنی داڑھی مبارک کا خلال کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے میرے رب عزوجل نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔ حضرت امام بیہقی فرماتے ہیں داڑھی کا خلال کرنا حضرت عمار حضرت عائشہ حضرت ام سلمہ حضرت علی سے مروی ہے ، اور اس کے ترک کی رخصت ابن عمر حسن بن علی اور تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے صحاح وغیرہ میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے بیٹھتے کلی کرتے اور ناک میں پانی دیئے ۔ ائمہ کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ دونوں وضو اور غسل میں میں واجب ہیں یا مستحب؟ امام احمد بن حنبل کا مذہب تو وجوب کا ہے اور امام شافعی اور امام مالک مستحب کہتے ہیں ان کی دلیل سنن کی وہ صحیح حدیث ہے جس میں جلدی جلدی نماز پڑھنے والے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا مروی ہے کہ وضو کر جس طرح اللہ نے تجھے حکم دیا ہے ، امام حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ غسل میں واجب اور وضو میں نہیں ، ایک روایت امام احمد سے مروی ہے کہ ناک میں پانی دینا تو واجب اور کلی کرنا مستحب ، کیونکہ بخاری و مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو وضو کرے وہ ناک میں پانی ڈالے اور روایت میں ہے تم میں سے جو وضو کرے وہ اپنے دونوں نتھنوں میں پانی ڈالے اور اچھی طرح وضو کرے ۔ مسند احمد اور بخاری میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس وضو کرنے بیٹھے تو منہ دھویا ایک چلو پانی کا لے کر کلی کی اور ناک کو صاف کیا پھر ایک چلو لے کر داہنا ہاتھ دھویا پھر ایک چلو لے کر اسی سے بایاں ہاتھ دھویا ۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا ۔ پھر پانی کا ایک چلو لے کر اپنے داہنے پاؤں پر ڈال کر اسے دھویا پھر ایک چلو سے بایاں پاؤں دھویا ۔ پھر فرمایا میں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے ۔ ( الی المرافق ) سے مراد ( مع المرافق ) ہے ، جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓى اَمْوَالِكُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِيْرًا ) 4 ۔ النسآء:2 ) یعنی یتیموں کے مالوں کو اپنے مالوں سمیت نہ کھا جایا کرو یہ بڑا ہی گناہ ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے کہ ہاتھوں کو کہنیوں تک نہیں ، بلکہ کہنیوں سمیت دھونا چاہئے ۔ دار قطنی وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے ہوئے اپنی کہنیوں پر پانی بہاتے تھے ، لیکن اس کے دو راویوں میں کلام ہے ۔ واللہ اعلم ۔ وضو کرنے والے کیلئے مستحب ہے کہ کہنیوں سے آگے اپنے شانے کو بھی وضو میں دھوئے کیونکہ بخاری مسلم میں حدیث ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت وضو کے نشانوں کی وجہ سے قیامت کے دن چمکتے ہوئے اعضاؤں سے آئے گی پس تم میں سے جس سے وہ ہو سکے وہ اپنی چمک کو دور تک لے جائے صحیح مسلم میں ہے مومن کو وہاں تک زیور پہنائے جائیں گے جہاں تک اس کے وضو کا پانی پہنچتا تھا ۔ ( برؤسکم ) میں جواب ہے اس کا الحاق یعنی ملا دینے کیلئے ہونا تو زیادہ غالب ہے اور تبعیض یعنی کچھ حصے کیلئے ہونا تامل طلب ہے ۔ بعض اصولی حضرات فرماتے ہیں چونکہ آیت میں اجمال ہے اس لئے سنت نے جو اس کی تفصیل کی ہے وہی معتبر ہے اور اسی کی طرف لوٹنا پڑے گا ، حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم صحابی سے ایک شخص نے کہا آپ وضو کر کے ہمیں بتلایئے ۔ آپ نے پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ دو دو دفعہ دھوئے ، پھر تین بار کلی کی اور ناک میں پانی دیا ، تین ہی دفعہ اپنا منہ دھویا ، پھر کہنیوں سمیت اپنے دونوں ہاتھ دو مرتبہ دھوئے ، پھر دونوں ہاتھ سے سر کا مسح کیا سر کے ابتدائی حصے سے گدی تک لے گئے ، پھر وہاں سے یہیں تک واپس لائے ، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے ( بخاری و مسلم ) حضرت علی سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ اسی طرح منقول ہے ۔ ابو داؤد میں حضرت معاویہ اور حضرت مقداد سے بھی اسی طرح مروی ہے ، یہ حدیثیں دلیل ہیں اس پر کہ پورے سر کا مسح فرض ہے ۔ یہی مذہب حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا ہے اور یہی مذہب ان تمام حضرات کا ہے جو آیت کو مجمل مانتے ہیں اور حدیث کو اس کی وضاحت جانتے ہیں حنیفوں کا خیال ہے کہ چوتھائی سر کا مسح فرض ہے جو سر کا ابتدائی حصہ ہے اور ہمارے ساتھی کہتے ہیں کہ فرض صرف اتنا ہے جتنے پر مسح کا اطلاق ہو جائے ، اس کی کوئی حد نہیں ۔ سر کے چند بالوں پر بھی مسح ہو گیا تو فرضیت پوری ہو گئی ، ان دونوں جماعتوں کی دلیل حضرت مغیرہ بن شعبہ والی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے رہ گیا جب آپ قضائے حاجت کر چکے تو مجھ سے پانی طلب کیا میں لوٹا لے آیا آپ نے اپنے دونوں پہنچے دھوئے پھر منہ دھویا پھر کلائیوں پر سے کپڑا ہٹایا اور پیشانی سے ملے ہوئے بالوں اور پگڑی پر مسح کر کے باقی پگڑی پر پورا کر لیا اور اس کی بہت سی مثالیں احادیث میں ہیں ۔ آپ صافے پر اور جرابوں پر برابر مسح کیا کرتے تھے ، پس یہی اولی ہے اور اس میں ہرگز اس بات پر کوئی دلالت نہیں کہ سر کے بعض حصے پر یا صرف پیشانی کے بالوں پر ہی مسح کر لے اور اس کی تکمیل پگڑی پر نہ ہو ۔ واللہ اعلم ۔ پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ سر کا مسح بھی تین بار ہو یا ایک ہی بار؟ امام شافعی کا مشہور مذہب اول ہے اور امام احمد اور ان کے متبعین کا دوم ۔ دلائل یہ ہیں حضرت عثمان بن عفان وضو کرنے بیٹھتے ہیں اپنے دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالتے ہیں ، انہیں دھو کر پھر کلی کرتے ہیں اور ناک میں پانی دیتے ہیں ، پھر تین مرتبہ منہ دھوتے ہیں ، پھر تین تین بار دونوں ہاتھو کہنیوں سمیت دھوتے ہیں ، پہلے دایاں پھر بایاں ۔ پھر اپنے سر کا مسح کرتے ہیں پھر دونوں پیر تین تین بار دھوتے ہیں پہلے داہنا پھر بایاں ۔ پھر آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا اور وضو کے بعد آپ نے فرمایا جو شخص میرے اس وضو جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے جس میں دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں ( بخاری و مسلم ) سنن ابی داؤد میں اسی روایت میں سر کے مسح کرنے کے ساتھ ہی یہ لفظ بھی ہیں کہ سر کا مسح ایک مرتبہ کیا ، حضرت علی سے بھی اسی طرح مروی ہے اور جن لوگوں نے سر کے مسح کو بھی تین بار کہا ہے انہوں نے حدیث سے دلیل لی ہے ۔ جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین بار اعضاء وضو کو دھویا ۔ حضرت عثمان سے مروی ہے کہ آپ نے وضو کیا پھر اسی طرح روایت ہے اور اس میں کلی کرنی اور ناک میں پانی دینے کا ذکر نہیں اور اس میں ہے کہ پھر آپ نے تین مرتبہ سر کا مسح کیا اور تین مرتبہ اپنے دونوں پیر دھوئے ۔ پھر فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا اور آپ نے فرمایا جو ایسا وضو کرے اسے کافی ہے ۔ لیکن حضرت عثمان سے جو حدیثیں صحاح میں مروی ہیں ان سے تو سر کا مسح ایک بار ہی ثابت ہوتا ہے ( ارجلکم ) لام کی زبر سے عطف ہے جو ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا ) 5 ۔ المائدہ:6 ) پر ماتحت ہے دھونے کے حکم کے ۔ ابن عباس یونہی پڑھتے تھے اور یہی فرماتے تھے ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عروہ ، حضرت عطاء ، حضرت عکرمہ ، حضرت حسن ، حضرت مجاہد ، حضرت ابراہیم ، حضرت ضحاک ، حضرت سدی ، حضرت مقاتل بن حیان ، حضرت زہری ، حضرت ابراہیم تیمی وغیرہ کا یہی قول اور یہی قرأت ہے ، اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ پاؤں دھونے چاہئیں ، یہی سلف کا فرمان ہے اور یہیں سے جمہور نے وضو کی ترتیب کے وجوب پر استدلال کیا ہے ، صرف ابو حنیفہ اس کے خلاف ہیں ، وہ وضو میں ترتیب کو شرط نہیں جانتے ۔ ان کے نزدیک اگر کوئی شخص پہلے پیروں کو دھوئے پھر سر کا مسح کرے پھر ہاتھ دھوئے پھر منہ دھوئے جب بھی جائز ہے اس لئے کہ آیت نے ان اعضاء کے دھونے کا حکم دیا ہے ۔ واؤ کی دلالت ترتیب پر نہیں ہوتی ، اس کے جواب جمہور نے کئی ایک دیئے ہیں ، ایک تو یہ کہ ف ترتیب پر دلالت کرتی ہے ، آیت کے الفاظ میں نماز پڑھنے والے کو منہ دھونے کا حکم لفظ ( فاغسلوا ) سے ہوتا ہے ۔ تو کم از کم منہ کا اول اول دھونا تو لفظوں سے ثابت ہو گیا اب اس کے بعد کے اعضاء میں ترتیب اجماع سے ثابت ہے جس میں اختلاف نظر نہیں آتا ۔ پھر جبکہ ف جو تعقیب کیلئے ہے اور جو ترتیب کی مقتضی ہے ایک پر داخل ہو چکی تو اس ایک کی ترتیب مانتے ہوئے دوسری کی ترتیب کا انکار کوئی نہیں کرتا بلکہ تو سب کی ترتیب کے قائل ہیں یا کسی ایک کی بھی ترتیب کے قائل نہیں ۔ پس یہ آیت ان پر یقینا حجت ہے جو سرے سے ترتیب کے منکر ہیں ، دوسرا جواب یہ ہے کہ واؤ ترتیب پر دلالت نہیں کرتا اسے بھی ہم تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ ترتیب پر دلالت کرتا ہے جیسے کہ نحویوں کی ایک جماعت کا اور بعض فقہاء کا مذہب ہے پھر یہ چیز بھی قابل غور ہے کہ بالفرض لغتاً اس کی دلالت پر ترتیب پر نہ بھی ہوتا ہم شرعاً تو جن چیزوں میں ترتیب ہو سکتی ہے ان میں اس کی دلالت ترتیب پر ہوتی ہے ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کر کے باب صفا سے نکلے تو آپ آیت ( اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِاللّٰهِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا ۭ وَمَنْ تَـطَوَّعَ خَيْرًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِـرٌ عَلِــيْمٌ ) 2 ۔ البقرۃ:158 ) کی تلاوت کر رہے تھے اور فرمایا میں اسی سے شروع کروں گا جسے اللہ نے پہلے بیان فرمایا ، چنانچہ صفا سے سعی شروع کی ، نسائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم دینا بھی مروی ہے کہ اس سے شروع کرو جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ۔ اس کی اسناد بھی صحیح ہے اور اس میں امر ہے پس معلوم ہوا کہ جس کا ذکر پہلے ہو اسے پہلے کرنا اور اس کے بعد اسے جس کا ذکر بعد میں ہو کرنا واجب ہے ۔ پس صاف ثابت ہو گیا کہ ایسے مواقع پر شرعاً ترتیب مراد ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم ، تیسری جماعت جواباً کہتی ہے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونے کے حکم اور پیروں کو دھونے کے حکم کے درمیان سر کے مسح کے حکم کو بیان کرنا اس امر کی صاف دلیل ہے کہ مراد ترتیب کو باقی رکھنا ہے ، ورنہ نظم کلام کو یوں الٹ پلٹ نہ کیا جاتا ۔ ایک جواب اس کا یہ بھی ہے کہ ابو داؤد وغیرہ میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضاء وضو کو ایک ایک بار دھو کر وضو کیا پھر فرمایا یہ وضو ہے کہ جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نے نماز کو قبول نہیں کرتا ۔ اب دو صورتیں ہیں یا تو اس وضو میں ترتیب تھی یا نہ تھی؟ اگر کہا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وضو مرتب تھا یعنی باقاعدہ ایک کے پیچھے ایک عضو دھویا تھا تو معلوم ہوا کہ جس وضو میں تقدیم تاخیر ہو اور صحیح طور پر ترتیب نہ ہو وہ نماز نامقبول لہذا ترتیب واجب و فرض اور اگر یہ مان لیا جائے کہ اس وضو میں ترتیب نہ تھی بلکہ بےترتیب تھا ، پیر دھو لئے پھر کلی کر لی پھر مسح کر لیا پھر منہ دھو لیا وغیرہ تو عدم ترتیب واجب ہو جائے گی حالانکہ اس کا قائل امت میں سے ایک بھی نہیں پس ثابت ہو گیا کہ وضو میں ترتیب فرض ہے ، آیت کے اس جملے کی ایک قرأت اور بھی ہے یعنی ( وارجلکم ) لام کے زیر سے اور اسی سے شیعہ نے اپنے اس قول کی دلیل لی ہے کہ پیروں پر مسح کرنا واجب ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس کا عطف سر کے مسح کرنے پر ہے ۔ بعض سلف سے بھی کچھ ایسے اقوال مروی ہیں جن سے مسح کے قول کا وہم پڑتا ہے ، چنانچہ ابن جریر میں ہے کہ موسیٰ بن انس نے حضرت انس سے لوگوں کی موجودگی میں کہا کہ حجاج نے اہواز میں خطبہ دیتے ہوئے طہارت اور وضو کے احکام میں کہا کہ منہ ہاتھ دھوؤ اور سر کا مسح کرو اور پیروں کو دھویا کرو عموماً پیروں پر ہی گندگی لگتی ہے ۔ پس تلوؤں کو اور پیروں کی پشت کو اور ایڑی کو خوب اچھی طرح دھویا کرو ۔ حضرت انس نے جواباً کہا کہ اللہ سچا ہے اور حجاج چھوٹا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا ) 5 ۔ المائدہ:6 ) اور حضرت انس کی عادت تھی کہ پیروں کا جب مسح کرتے انہیں بالکل بھگو لیا کرتے ، آپ ہی سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں پیروں پر مسح کرنے کا حکم ہے ، ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پیروں کا دھونا ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ وضو میں دو چیزوں کا دھونا ہے اور دو پر مسح کرنا ۔ حضرت قتادہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ آیت میں پیروں پر مسح کرنے کا بیان ہے ۔ ابن عمر ، علقمہ ، ابو جعفر ، محمد بن علی اور ایک روایت میں حضرت حسن اور جابر بن زید اور ایک روایت میں مجاہد سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حضرت عکرمہ اپنے پیروں پر مسح کر لیا کرتے تھے شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل کی معرفت مسح کا حکم نازل ہوا ہے ، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ جن چیزوں کے دھونے کا حکم تھا ان پر تو تیمم کے وقت مسح کا حکم رہا اور جن چیزوں پر مسح کا حکم تھا تیمم کے وقت انہیں چھوڑ دیا گیا عامر سے کسی نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں حضرت جبرائیل پیروں کے دھونے کا حکم لائے ہیں آپ نے فرمایا جبرائیل مسح کے حکم کے ساتھ نازل ہوئے تھے ۔ پس یہ سب آثار بالکل غریب ہیں اور محمول ہیں اس امر پر کہ مراد مسح سے ان بزرگوں کی ہلکا دھونا ہے ، کیونکہ سنت سے صاف ثابت ہے کہ پیروں کا دھونا واجب ہے ، یاد رہے کہ زیر کی قرأت یا تو مجاورت اور تناسب کلام کی وجہ سے ہے جیسے عرب کا کلام حجر ضب خرب میں اور اللہ کے کلام آیت ( عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُـنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ ۡ وَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ ۚ وَسَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا ) 76 ۔ الدہر:21 ) میں لغت میں عرب میں پاس ہونے کی وجہ سے دونوں لفظوں کو ایک ہی اعراب دے دینا یہ اکثر پایا گیا ہے ۔ حضرت امام شافعی نے اس کی ایک توجیہہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب پیروں پر جرابیں ہوں بعض کہتے ہیں مراد مسح سے ہلکا دھو لینا ہے جیسے کہ بعض روایتوں میں سنت سے ثابت ہے ۔ الغرض پیروں کا دھونا فرض ہے جس کے بغیر وضو نہ ہوگا ۔ آیت بھی یہی ہے اور احادیث میں بھی یہی ہے جیسے کہ اب ہم انہیں وارد کریں گے ، انشاء اللہ تعالیٰ بیہقی میں ہے حضرت علی بن ابو طالب ظہر کی نماز کے بعد بیٹھک میں بیٹھے رہے پھر پانی منگوایا اور ایک چلو سے منہ کا ، دونوں ہاتھوں سر کا اور دونوں پیروں کا مسح کیا اور کھڑے ہو کر بچا ہوا پانی پی لیا پھر فرمانے لگے کہ لوگ کھڑے کھڑے پانی پینے کو مکروہ کہتے ہیں اور میں نے جو کیا یہی کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور فرمایا یہ وضو ہے اس کا جو بےوضو نہ ہوا ہو ( بخاری ) شعیوں میں سے جن لوگوں نے پیروں کو مسح اسی طرح قرار دیا جس طرح جرابوں پر مسح کرتے ہیں ان لوگوں نے یقینا غلطی کی اور لوگوں کو گمراہی میں ڈالا ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی خطا کار ہیں جو مسح اور دھونا دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور جن لوگوں نے امام ابن جریر کی نسبت یہ خیال کیا ہے کہ انہوں نے احادیث کی بنا پر پیروں کے دھونے کو اور آیت قرآنی کی بنا پر پیروں کے مسح کو فرض قرار دیا ہے ۔ ان کی تحقیق بھی صحیح نہیں ، تفسیر ابن جریر ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ پیروں کو رگڑنا واجب ہے اور اعضاء میں یہ واجب نہیں کیونکہ پیر زمین کی مٹی وغیرہ سے رگڑتے رہتے ہیں تو ان کو دھونا ضروری ہے تا کہ جو کچھ لگا ہو ہٹ جائے لیکن اس رگڑنے کیلئے مسح کا لفظ لائے ہیں اور اسی سے بعض لوگوں کو شبہ ہو گیا ہے اور وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مسح اور غسل جمع کر دیا ہے حالانکہ دراصل اس کے کچھ معنی ہی نہیں ہوتے مسح تو غسل میں داخل ہے چاہے مقدم ہو چاہے مؤخر ہو پس حقیقتاً امام صاحب کا ارادہ یہی ہے جو میں نے ذکر کیا اور اس کو نہ سمجھ کر اکثر فقہاء نے اسے مشکل جان لیا ، میں نے مکرر غورو فکر کیا تو مجھ پر صاف طور سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امام صاحب دونوں قرأتوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں پس زیر کی قرأت یعنی مسح کو تو وہ محمول کرتے ہیں دلک پر یعنی اچھی طرح مل رگڑ کر صاف کرنے پر اور زبر کی قرأت کو غسل پر یعنی دھونے پر دلیل ہے ہی پس وہ دھونے اور ملنے دونوں کو واجب کہتے ہیں تا کہ زیر اور زبر کی دونوں قرأت وں پر ایک ساتھ ہو جائے اب ان احادیث کو سنئے جن میں پیروں کے دھونے کا اور پیروں کے دھونے کے ضروری ہونے کا ذکر ہے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان امیر المومنین حضرت علی بن ابو طالب حضرت ابن عباس حضرت معاویہ حضرت عبداللہ بن زید عاصم حضرت مقداد بن معدی کرب کی روایات پہلے بیان ہو چکی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے اپنے پیروں کو دھویا ، ایک بار یا دو بار یا تین بار ، عمرو بن شعیب کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے دونوں پیر دھوئے پھر فرمایا یہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتا ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے تھے جب آپ آئے تو ہم جلدی جلدی وضو کر رہے تھے کیونکہ عصر کی نماز کا وقت کافی دیر سے ہو چکا تھا ہم نے جلدی جلدی اپنے پیروں پر چھوا چھوئی شروع کر دی تو آپ نے بہت بلند آواز سے فرمایا وضو کو کامل اور پورا کرو ایڑیوں کو خرابی سے آگ کے لگنے سے ، ایک اور حدیث میں ہے ویل ہے ایڑیوں کیلئے اور تلوں کیلئے آگ سے ( بیہقی و حاکم ) اور روایت میں ہے ٹخنوں کو ویل ہے آگ سے ( مسند امام احمد ) ایک شخص کے پیر میں ایک درہم کے برابر جگہ بےدھلی دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرابی ہے ایڑیوں کیلئے آگ سے ( مسند ) ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ کچھ لوگوں کو وضو کرتے ہوئے دیکھ کر جن کی ایڑیوں پر اچھی طرح پانی نہیں پہنچا تھا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان ایڑیوں کو آگ سے خرابی ہو گی ، مسند احمد میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ وارد ہیں ۔ ابن جریر میں دو مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ان الفاظ کو کہنا وارد ہے راوی حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں پھر تو مسجد میں ایک بھی شریف و وضیع ایسا نہ رہا جو اپنی ایڑیوں کو بار بار دھو کر نہ دیکھتا ہو اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جس کی اڑی یا ٹخنے میں بقدر نیم درہم کے چمڑی خشک رہ گئی تھی تو یہی فرمایا پھر تو یہ حالت تھی کہ اگر ذرا سی جگہ پیر کی کسی خشک رہ جاتی تو وہ پورا وضو پھر سے کرتا ، پس ان احادیث سے کھلم کھلا ظاہر ہے کہ پیرو کا دھونا فرض ہے ، اگر ان کا مسح فرض ہوتا تو ذرا سی جگہ کے خشک رہ جانے پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وعید سے اور وہ بھی جہنم کی آگ کی وعید سے نہ ڈراتے ، اس لئے کہ مسح میں ذرا ذرا اسی جگہ پر ہاتھ کا پہنچانا داخل ہی نہیں ۔ بلکہ پھر تو پیر کے مسح کی وہی صورت ہوتی ہے جو پیر کے اوپر جراب ہونے کی صورت میں مسح کی صورت ہے ۔ یہی چیز امام ابن جریر نے شیعوں کے مقابلہ میں پیش کی ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص نے وضو کیا اور اس کا پیر کسی جگہ سے ناخن کے برابر دھلا نہیں خشک رہ گیا تو آپ نے فرمایا لوٹ جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو ۔ بیہقی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ، مسند میں ہے کہ ایک نمازی کو آپ نے نماز میں دیکھا کہ اس کے پیر میں بقدر درہم کے جگہ خشک رہ گئی ہے تو اسے وضو لوٹانے کا حکم کیا ۔ حضرت عثمان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا وضو کا طریقہ جو مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے انگلیوں کے درمیان خلال بھی کیا ۔ سنن میں ہے حضرت صبرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کی نسبت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا وضو کامل اور اچھا کرو انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی اچھی طرح دھو ہاں روزے کی حالت میں ہو تو اور بات ہے ، مسند و مسلم وغیرہ میں ہے حضرت عمرو بن عنبسہ کہتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وضو کی بابت خبر دیجئے آپ نے فرمایا جو شخص وضو کا پانی لے کر کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی دیتا ہے اس کے منہ سے نتھنوں سے پانی کے ساتھ ہی خطائیں جھڑ جاتی ہیں جبکہ وہ ناک جھاڑتا ہے پھر جب وہ منہ دھوتا ہے جیسا کہ اللہ کا حکم ہے تو اس کے منہ کی خطائیں داڑھی اور داڑھی کے بالوں سے پانی کے گرنے کے ساتھ ہی جھڑ جاتی ہیں پھر وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے کہنیوں سمیت تو اس کے ہاتھوں کو گناہ اس کی پوریوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں ، پھر وہ مسح کرتا ہے تو اس کے سر کی خطائیں اس کے بالوں کے کناروں سے پانی کے ساتھ ہی جھڑ جاتی ہیں پھر جب وہ اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت حکم الٰہی کے مطابق دھوتا ہے تو انگلیوں سے پانی ٹپکنے کے ساتھ ہی اس کے پیروں کے گناہ بھی دور ہو جاتے ہیں ، پھر وہ کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ کے لائق جو حمد وثنا ہے اسے بیان کر کے دو رکعت نماز جب ادا کرتا ہے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ تولد ہوا ہو ۔ یہ سن کر حضرت ابو امامہ نے حضرت عمرو بن عنبسہ سے کہا خوب غور کیجئے کہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے اسی طرح سنا ہے؟ کیا یہ سب کچھ ایک ہی مقام میں انسان حاصل کر لیتا ہے؟ حضرت عمرو نے جواب دیا کہ ابو امامہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، میری ہڈیاں ضعیف ہو چکی ہیں ، میری موت قریب آپہنچی ہے ، مجھے کیا فائدہ جو میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولوں ، ایک دفعہ نہیں ، دو دفعہ نہیں ، تین دفعہ نہیں ، میں نے تو اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سات بار بلکہ اس سے بھی زیادہ سنا ہے ، اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ۔ صحیح مسلم کی دوسری سند والی حدیث میں ہے پھر وہ اپنے دونوں پاؤں کو دھوتا ہے جیسا کہ اللہ نے اسے حکم دیا ہے ۔ پس صاف ثابت ہوا کہ قرآن حکیم کا حکم پیروں کے دھونے کا ہے ۔ ابو اسحاق سبیعی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فی الجنہ سے بواسطہ حضرت حارث روایت میں حضرت علی سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں قدم جوتی میں ہی بھگو لئے اس سے مراد جوتیوں میں ہی ہلکا دھونا ہے اور چپل جوتی پیر میں ہوتے ہوئے پیر دھل سکتا ہے غرض یہ حدیث بھی دھونے کی دلیل ہے البتہ اس سے ان وسواسی اور وہمی لوگوں کی تردید ہے جو حد سے گزر جاتے ہیں ، اسی طرح وہ دوسری حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کے کوڑا ڈالنے کی جگہ پر پیشاب کیا پھر پانی منگوا کر وضو کیا اور اپنے نعلین پر مسح کر لیا ، لیکن یہی حدیث دوسری سندوں سے مروی ہے اور ان میں سے کہ آپ نے اپنی جرابوں پر مسح کیا اور ان میں مطابقت کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جرابیں پیروں میں تھیں اور ان پر نعلین تھے اور ان دونوں پر آپ نے مسح کر لیا ۔ یہی مطلب اس حدیث کا بھی ہے ، مسند احمد میں اوس ابو اوس سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دیکھتے ہوئے وضو کیا اور اپنے نعلین پر مسح کیا اور نماز کیلئے کھڑے ہو گئے ، یہی روایت دوسری سند سے مروی ہے اس میں آپ کا کوڑے پر پیشاب کرنا پھر وضو کرنا اور اس میں نعلین اور دونوں قدموں پر مسح کرنا مذکور ہے ، امام ابن جریر اسے بیان کرتے ہیں ، پھر فرمایا ہے کہ یہ محمول اس پر ہے کہ اس وقت آپ کا پہلا وضو تھا ( یا یہ محمول ہے اس پر کہ نعلین جرابوں کے اوپر تھے ۔ مترجم ) بھلا کوئی مسلمان یہ کیسے قبول کر سکتا ہے کہ اللہ کے فریضے میں اور پیغمبر کی سنت میں تعارض ہو اللہ کچھ فرمائے اور پیغمبر کچھ اور ہی کریں؟ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیشہ کے فعل سے وضو میں پیروں کے دھونے کی فرضیت ثابت ہے اور آیت کا صحیح مطلب بھی یہ ہے جس کے کانوں تک یہ دلیلیں پہنچ جائیں اس پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی ۔ چونکہ زیر کی قرأت سے پیروں کا دھونا اور زیر کی قرأت کا بھی اسی پر محمول ہونا فرضیت کا قطعی ثبوت ہے اس سے بعض سلف تو یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ اس آیت سے جرابوں کا مسح ہی منسوخ ہے ، گو ایک روایت حضرت علی سے بھی ایسی مروی ہے لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں بلکہ خود آپ سے صحت کے ساتھ اس کے خلاف ثابت ہے اور جن کا بھی یہ قول ہے ان کا یہ خیال صحیح نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے ۔ مسند احمد میں حضرت جریر بن عبداللہ بجلی کا قول ہے کہ سورہ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد ہی میں مسلمان ہوا اور اپنے اسلام کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جرابوں پر مسح کرتے دیکھا ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت جریر نے پیشاب کیا پھر وضو کرتے ہوئے اپنی جرابوں پر مسح کیا ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کرتے ہیں؟ تو فرمایا یہی کرتے ہوئے میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ۔ راوی حدیث حضرت ابراہیم فرماتے ہیں لوگوں کو یہ حدیث بہت اچھی لگتی تھی اس لئے کہ حضرت جریر کا اسلام لانا سورہ مائدہ کے نازل ہو چکنے کے بعد کا تھا ۔ احکام کی بڑی بڑی کتابوں میں تواتر کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے ۔ اب مسح کی مدت ہے یا نہیں؟ اس کے ذکر کی یہ جگہ نہیں احکام کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے ، رافضیوں نے اس میں بھی گمراہی اختیار کی ہے ۔ خود حضرت علی کی روایت سے صحیح مسلم میں یہ ثابت ہے ، لیکن روافض اسے نہیں مانتے ، جیسے کہ حضرت علی کی ہی روایت سے بخاری مسلم میں نکاح متعہ کی ممانعت ثابت ہے لیکن تاہم شیعہ اسے مباح قرار دیتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح یہ آیہ کریمہ دونوں پیروں کے دھونے پر صاف دلالت کرتی ہے اور یہی امر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا متواتر احادیث سے ثابت ہے لیکن شیعہ جماعت اس کی بھی مخالف ہے ۔ فی واقع ان مسائل میں ان کے ہاتھ دلیل سے بالکل خالی ہیں ۔ وللہ الحمد ۔ اسی طرح ان لوگوں نے آیت کا اور سلف صالحین کا مسح کے بارے میں بھی الٹ مفہوم لیا ہے وہ کہتے ہیں کہ قدم کی پشت ابھار کعبین ہے پس ان کے نزدیک ہر قدم میں ایک ہی کعب یعنی ٹخنہ ہے اور جمہور کے نزدیک ٹخنے کی وہ ہڈیاں جو پنڈلی اور قدم کے درمیان ابھری ہوئی ہیں اور وہ کعبین ہیں ۔ امام شافعی کا فرمان ہے کہ جن کعبین کا یہاں ذکر ہے یہ ٹخنے کی دو ہڈیاں ہیں جو ادھر ادھر قدرے ظاہر دونوں طرف ہیں ، ایک ہی قدم میں کعبین ہیں لوگوں کے عرض میں بھی یہی ہے اور حدیث کی دلالت بھی اسی پر ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ حضرت عثمان نے وضو کرتے ہوئے اپنے داہنے پاؤں کو کعبین سمیت دھویا پھر بائیں کو بھی اسی طرح ۔ بخاری میں تعلیقاً بصیغہ جزم اور صحیح ابن خزیمہ میں اور سنن ابی داؤد میں ہے کہ ہماری طرف متوجہ ہو کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی صفیں ٹھیک ٹھیک درست کر لو تین بار یہ فرما کر فرمایا قسم اللہ کی یا تو تم اپنی صفوں کو پوری طرح درست کرو گے یا اللہ تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا ۔ حضرت نعمان بن بشیر راوی حدیث فرماتے ہیں پھر تو یہ ہو گیا کہ ہر شخص اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ اور گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے کندھا ملا لیا کرتا تھا ۔ اس روایت سے صاف معلوم ہو گیا کہ کعبین اس ہڈی کا نام نہیں جو قدم کی پشت کی طرف ہے کیونکہ اس کا ملانا دو پاس پاس کے شخصوں میں ممکن نہیں بلکہ وہی دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جو پنڈلی کے خاتمے پر ہیں اور یہی مذہب اہلسنت کا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں یحییٰ بن حارث تیمی سے منقول ہے کہ زید کے جو ساتھی شیعہ قتل کئے گئے تھے انہیں میں نے دیکھا تو ان کا ٹخنہ قدم کی پشت پر پایا انہیں قدرتی سزا تھی جو ان کی موت کے بعد ظاہر کی گئی اور مخالفت حق اور کتمان حق کا بدلہ دیا گیا ۔ اس کے بعد تیمم کی صورتیں اور تیمم کا طریقہ بیان ہوا ہے اس کی پوری تفسیر سورہ نساء میں گزر چکی ہے لہذا یہاں بیان نہیں کی جاتی ۔ آیت تیمم کا شان نزول بھی وہیں بیان کر دیا گیا ہے ۔ لیکن امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری نے اس آیت کے متعلق خاصتًا ایک حدیث وارد کی ہے اسے سن لیجئے حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین کا بیان ہے کہ میرے گلے کا ہار بیداء میں گر گیا ہم مدینہ میں داخل ہونے والے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری روکی اور میری گود میں سر رکھ کر سو گئے اتنے میں میرے والد حضرت ابو بکر صدیق میرے پاس تشریف لائے اور مجھ پر بگڑنے لگے کہ تو نے ہار کھو کر لوگوں کو روک دیا اور مجھے کچو کے مارنے لگے ۔ جس سے مجھے تکلیف ہوئی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں خلل اندازی نہ ہو ، اس خیال سے میں ہلی جلی نہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب جاگے اور صبح کی نماز کا وقت ہو گیا اور پانی کی تلاش کی گئی تو پانی نہ ملا ، اس پر یہ پوری آیت نازل ہوئی ۔ حضرت اسید بن حفیر کہنے لگے اے آل ابو بکر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کیلئے تمہیں بابرکت بنا دیا ہے تم ان کیلئے سرتاپا برکت ہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تم پر حرج ڈالنا نہیں چاہتا اسی لئے اپنے دین کو سہل آسان اور ہلکا کر دیا ہے ۔ بوجھل سخت اور مشکل نہیں ۔ حکم تو اس کا یہ تھا کہ پانی سے وضو کرو لیکن جب میسر نہ ہو یا بیماری ہو تو تمہیں تیمم کرنے کی رخصت عطا فرماتا ہے ، باقی احکام احکام کی کتابوں میں ملاحظہ ہوں ۔ بلکہ اللہ کی چاہت یہ ہے کہ تمہیں پاک صاف کر دے اور تمہیں پوری پوری نعمتیں عطا فرمائے تا کہ تم اس کی رحمتوں پر اس کی شکر گزاری کرو اس کی توسیع احکام اور رأفت و رحمت آسانی اور رخصت پر اس کا احسان مانو ۔ وضو کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا تعلیم فرمائی ہے جو گویا اس آیت کے ماتحت ہے ۔ مسند ، سنن اور صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ ہم باری باری اونٹوں کو چرایا کرتے تھے میں اپنی باری والی رات عشاء کے وقت چلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں سے کچھ فرما رہے ہیں میں بھی پہنچ گیا اس وقت میں نے آپ سے یہ سنا کہ جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے دلی توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرے اس کیلئے جنت واجب ہے ۔ میں نے کہا واہ واہ یہ بہت ہی اچھی بات ہے ۔ میری یہ بات سن کر ایک صاحب نے جو میرے آگے ہی بیٹھے تھے فرمایا اس سے پہلے جو بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہے ۔ میں نے جو غور سے دیکھا تو وہ حضرت عمر فاروق تھے آپ مجھ سے فرمانے لگے تم ابھی آئے ہو ، تمہارے آنے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عمدگی اور اچھائی سے وضو کرے پھر کہے دعا ( اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ ) ۔ اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس میں سے چاہے داخل ہو ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب ایمان و اسلام والا وضو کرنے بیٹھتا ہے اس کے منہ دھوتے ہوئے اس کی آنکھوں کی تمام خطائیں پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ جھڑ جاتی ہے ہیں اسی طرح ہاتھوں کے دھونے کے وقت ہاتھوں کی تمام خطائیں اور اسی طرح پیروں کے دھونے کے وقت پیروں کی تمام خطائیں دھل جاتی ہیں وہ گناہوں سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے ۔ ابن جریر میں ہے جو شخص وضو کرتے ہوئے جب اپنے ہاتھ یا بازوؤں کو دھوتا ہے تو ان سے ان کے گناہ دور ہو جاتے ہیں ، منہ کو دھوتے وقت منہ کے گناہ الگ ہو جاتے ہیں ، سر کا مسح سر کے گناہ جھاڑ دیتا ہے پیر کا دھونا ان کے گناہ دھو دیتا ہے ۔ دوسری سند میں سر کے مسح کا ذکر نہیں ۔ ابن جریر میں ہے جو شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہے اس کے کانوں سے آنکوں سے ہاتھوں سے پاؤ سے سب گناہ الگ ہو جاتے ہیں ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے وضو آدھا ایمان ہے ، الحمد للہ کہنے سے نیکی کا پلڑا بھر جاتا ہے ۔ قرآن یا تو تیری موافقت میں دلیل ہے یا تیرے خلاف دلیل ہے ، ہر شخص صبح ہی صبح اپنے نفس کی فروخت کرتا ہے پس یا تو اپنے تئیں آزاد کرا لیتا ہے یا ہلاک کر لیتا ہے اور حدیث میں ہے مال حرام کا صدقہ اللہ قبول نہیں فرماتا اور بےوضو کی نماز بھی غیر مقبول ہے ( صحیح مسلم ) یہ روایت ابو داؤد ، طیالسی ، مسند احمد ، ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔
6۔ 1 منہ دھوؤ، یعنی ایک ایک دو دو یا تین تین مرتبہ دونوں ہتھیلیاں دھونے، کلی کرنے، ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کے بعد۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ منہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا جائے۔ 6۔ 2 مسح پورے سر کا کیا جائے۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے اپنے ہاتھ آگے سے پیچھے گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے آگے کو لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ اسی کے ساتھ کانوں کا مسح کرلے۔ 6۔ 3 ارجلکم کا عطف وجوھکم پر ہے یعنی اپنے پیر ٹخنوں تک دھوؤ 6۔ 4 جنابت سے مراد وہ ناپاکی ہے جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اسی حکم میں حیض اور نفاس بھی داخل ہے۔ جب حیض اور نفاس کا خون بند ہوجائے تو پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے طہارت یعنی غسل ضروری ہے۔ البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے (فتح القدیر) 6۔ 5 اس کی مختصر تشریح اور تیمم کا طریقہ سورة نساء کی آیت نمبر 23 میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ ایک سفر میں بیداء کے مقام پر حضرت عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں پر رکنا یا رہنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لئے لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہیں ہوا اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت اسید بن حضیر (رض) نے آیت سن کر کہا اے آل ابی بکر تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لئے برکتیں نازل فرمائی ہیں یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ (تم لوگوں کے لئے سراپا برکت ہو) (صحیح بخاری) 6۔ 6 اس لئے تیمم کی اجازت فرما دی ہے۔ 6۔ 7 اسی لئے حدیث میں وضو کرنے کے بعد دعا کرنے کی ترغیب ہے۔ دعاؤں کی کتابوں سے دعا یاد کرلی جائے
[٢٦] حلت وحرمت کے احکام سے مقصود نفس کی طہارت تھا۔ اب جسم کی طہارت کے احکام بیان ہو رہے ہیں۔ اس آیت میں وضو، تیمم اور غسل جنابت کا ذکر آیا ہے۔ تیمم اور غسل جنابت کے متعلق احادیث تو پہلے سورة نساء کی آیت نمبر ٣۔ ٤ کے تحت درج کی جا چکی ہیں وہاں سے دیکھ لی جائیں اور وضو اور طہارت کے متعلق احادیث یہاں درج کی جا رہی ہیں :- ١۔ ایک دفعہ سیدنا عثمان (رض) نے پانی کا برتن منگوایا۔ پھر پہلے اپنی ہتھیلیوں پر تین بار پانی ڈال کر انہیں دھویا پھر داہنا ہاتھ برتن میں ڈالا، پھر کلی کی، پھر ناک جھاڑی، پھر تین بار اپنا منہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں تک تین بار دھوئے، پھر ایک ہی بار سر کا مسح کیا، پھر دونوں پاؤں ٹخنوں تک تین بار دھوئے پھر کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی میرے اس وضو کی طرح وضو کرے پھر (تحیۃ الوضوء کی) دو رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ اس کے دل میں کوئی دنیوی خیال نہ ہو اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب الوضوء ثلثا ثلثا )- ٢۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ آپ جب بیت الخلاء میں جاتے تو کہتے اللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ اے اللہ میں بھوتوں اور بھتنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب مایقول عندالخلائ)- ٣۔ ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ آن سیدنا نے فرمایا تم میں سے جب کوئی قضائے حاجت یعنی پاخانہ کرنے کے لیے آئے تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرے نہ پیٹھ بلکہ مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف منہ کرو۔ (بخاری۔ کتاب الوضوء باب۔ استقبال القبلۃ لغائط او بول )- ٤۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ مدینہ کے کسی باغ پر سے گزرے وہاں دو آدمیوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا۔ آپ نے فرمایا انہیں کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا۔ پھر فرمایا ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا پھرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک ہری ٹہنی منگوائی۔ اس کے دو ٹکڑے کر کے ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ فرمایا جب تک یہ سوکھیں نہیں شاید ان کے عذاب میں کچھ کمی ہو۔ (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب من الکبائر ان لایستترمن بولہ)- ٥۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی کھڑے پانی میں جو جاری نہ ہو پیشاب نہ کرے پھر اس میں نہائے۔ (بخاری۔ کتاب الوضو۔ باب البول فی الماء الدائم)- ٦۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جس شخص کو حدث ہو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک وضو نہ کرلے۔ حضرموت کے ایک آدمی نے مجھ سے پوچھا ابوہریرہ حدث کیا ہوتا ہے ؟ میں نے کہا پھسکی یا پاد (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب لاتقبل الصلٰوۃ بغیر طہور)- ٧۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ آپ ایک صاع پانی سے پانچ مد تک پانی سے غسل کرلیا کرتے اور ایک مد پانی سے وضو کرلیا کرتے۔ (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب الوضوء بالمد)- ٨۔ سیدنا علی فرماتے ہیں کہ میری مذی بہت نکلتی تھی میں نے آپ سے یہ مسئلہ پوچھنے میں شرم محسوس کی اور مقداد بن اسود سے کہا، تم پوچھ دو ۔ مقداد نے آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا اس میں وضو ہے۔ بخاری کتاب الوضوئ۔ باب من لم یرالوضوء الا من المخرجین القبل والدبر۔ نیز کتاب العلم۔ باب من استحیا۔۔ )- ٩۔ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے وضو کیا اور اپنے قدم پر ناخن بھر جگہ (خشک) چھوڑ دی۔ آپ نے دیکھا تو اسے فرمایا واپس جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو۔ چناچہ وہ شخص واپس ہوا۔ پھر (وضو کر کے) نماز پڑھی (مسلم۔ کتاب الطہارۃ۔ باب وجوب استیعاب جمیع اجزاء محل الطہارۃ)- ١٠۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرم سے پیچھے رہ گئے۔ آپ نے ہمیں اس حال میں پایا کہ نماز کا وقت ہوگیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے اور اپنے پاؤں پر مسح کر رہے تھے تو آپ نے تین مرتبہ بلند آواز سے پکارا وَیْلٌ للاَعْقَابِ مِنَ النَّار یعنی ان خشک ایڑیوں کے لیے بربادی ہے۔- اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ وضو مکمل کرو (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب غسل الرجلین ولا یمسح علی القدمین)- ١١۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں آپ کے پاس آیا تو دیکھا کہ آپ ہاتھ میں مسواک لیے ہوئے مسواک کر رہے تھے۔ آپ اع اع کی آواز نکال رہے تھے اور مسواک آپ کے منہ میں تھی گویا قے کر رہے ہیں۔ (بخاری کتاب الوضوئ۔ باب السواک)- ١٢۔ عروہ بن مغیرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک سفر ( غزوہ تبوک) میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا (آپ وضو کر رہے تھے) میں جھکا کہ آپ کے موزے اتار دوں۔ آپ نے فرمایا رہنے دو میں نے انہیں باوضو پہنا ہے۔ پھر ان پر مسح کیا۔ (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب اذا ادخل رجلیہ و ہما طاہرتان )- ١٣۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے دودھ پیا اور پھر کلی کی اور فرمایا کہ دودھ میں چکنائی ہوتی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الوضوء باب ھل یمضمض من اللبن)- واضح رہے کہ اس آیت میں جن اعضاء کے دھونے کا ذکر آیا ہے۔ ان کو دھونا فرض ہے یا بالفاظ دیگر وہ وضو کے فرائض ہیں جن کے بغیر وضو ناتمام رہتا ہے اور وہ یہ ہیں۔ (١) اپنے چہرہ کو دھونا (٢) اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا اور کہنیاں اس میں شامل ہیں۔ (٣) اپنے سر کا مسح کرنا اور (٤) اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھونا اور ٹخنے ان میں شامل ہیں۔- قرآن میں ان اعضاء کو دھونے یا سر کے مسح کی اجمالی کیفیت بیان ہوئی ہے جس کی تفصیل آپ کی سنت سے یا احادیث سے ملتی ہے ایسی کچھ احادیث اوپر ذکر کردی گئی ہیں جن سے وضو کی سنتیں معلوم ہوتی ہیں۔ یعنی ایسے افعال جو صرف آپ کی سنت سے معلوم ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند افعال کا ذکر مندرجہ بالا احادیث میں آچکا۔ باقی افعال یا مذکورہ افعال کی کچھ مزید وضاحت ذیل میں درج کی جاتی ہے :- ١۔ وضو کی ابتدا میں سب سے پہلے ہاتھوں کو گٹوں تک دھونا، پھر کلی کرنا، پھر ناک میں پانی چڑھانا اور ناک جھاڑنا، وضو سے پہلے یا ہاتھ دھونے کے بعد کلی کرتے وقت مسواک کرنا۔ ہاتھ اور پاؤں دھوتے وقت ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں میں خلال کرنا۔ منہ دھوتے وقت داڑھی اگر گھنی ہو تو بالوں میں خلال کرنا اور ہلکی ہو تو جڑوں تک دھونا، سر کے مسح کی ترکیب اور ساتھ ہی کانوں اور گردن کا مسح کرنا۔ یہ سب باتیں سنت سے معلوم ہوتی ہیں۔- ٢۔ جن اعضاء کو دھونے کا قرآن میں ذکر ہے انہیں ایک بار دھونے سے بھی فرض کی ادائیگی ہوجاتی ہے اور سنت یہ ہے کہ انہیں دو بار یا تین بار دھویا جائے۔ تین بار دھونا افضل ہے۔ اسی طرح کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی تین بار افضل اور تین بار سے زیادہ دھونا مکروہ ہے۔- ٣۔ پہلے دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں۔ اسی طرح پاؤں میں بھی یہی ترتیب ملحوظ رکھنی چاہیے۔ دائیں سے شروع کرنا اور اسے ترجیح دینا آپ کی سنت ہے۔- ٤۔ ہر نماز کے لیے نئے سرے سے وضو کرنا واجب نہیں بلکہ ایک ہی وضو سے (یعنی اگر حدث نہ ہوا ہو) تو متعدد نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں۔- ٥۔ سفر میں ایک وضو کر کے موزے یا جرابیں پہننے کے بعد ان پر تین دن تک مسح کیا جاسکتا ہے اور حضر میں اس کی مدت صرف ایک دن ہے۔- ٦۔ اگر کوئی عضو زخمی ہو جسے دھونے سے نقصان کا اندیشہ ہو تو اس پر پٹی باندھ کر اس پر مسح کیا جاسکتا ہے۔- پاؤں دھونے میں شیعہ حضرات کا اختلاف :۔ پاؤں کے دھونے میں شیعہ حضرات نے اختلاف کیا ہے اور اس اختلاف کی وجہ قرائت کا اختلاف ہے آیت کے الفاظ یہ ہیں (وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ ) 5 ۔ المآئدہ :6) (یعنی ایڑیاں نہ دھونے کی خرابی یہ ہے کہ انہیں آگ کا عذاب چھوئے گا لہذا ( اَرْجُلَکُمْ ) میں لام پر فتحہ والی قراءت کو ہی راجح قرار دیا جاسکتا ہے اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر اَرْجُلَکُمْ میں لام پر کسرہ کی قراءۃ کو بھی درست قرار دیا جائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ (اَرْجُلَکُمْ ) پر (بِِرءُ َوُسِکُمْ ) کا عطف تسلیم کیا جائے کیونکہ لام پر کسرہ عطف کی وجہ سے نہیں بلکہ جر جوار کے طور پر آیا ہے اور اس کی مثالیں قرآن کریم میں متعدد جگہ موجود ہیں جیسے سورة ہود میں ہے (عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍ 84) 11 ۔ ھود :84) اور سورة ئواقعہ میں ہے ( وَحُوْرٌ عِيْنٌ 22 ۙ ) 56 ۔ الواقعة :22) مطلب یہ ہے کہ عربی گرامر کے مطابق حرکات بسا اوقات قریب کے لفظ کے مطابق آجاتی ہیں اس لحاظ سے (اَرْجُلَکُمْ کا برءُ َوُسْکُمْ ) پر عطف نہیں بلکہ بِرَوُسِکُمْ سے قریب ہونے کی وجہ سے کسرہ یا جر میں شریک ہے، مسح کرنے میں نہیں۔ اور تیسرا جواب عقلی ہے جو یہ ہے کہ سر چونکہ بدن کا سب سے اعلیٰ حصہ ہے لہذا وہ اکثر نجاست اور غلاظت سے محفوظ رہتا ہے پھر بسا اوقات ڈھکا ہوا بھی ہوتا ہے لہذا اسے دھونے کے بجائے اس کا مسح ہی کافی سمجھا گیا ہے جبکہ پاؤں بدن کا سب سے نچلا حصہ ہے جو نجاست اور کثافت سے اکثر متاثر ہوتا رہتا ہے لہذا زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ پاؤں پر مسح کرنے کے بجائے انہیں دھویا جائے۔- [٢٧] دین میں آسانی :۔ یعنی تمہاری مجبوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے تمہیں رخصتیں عطا کردیتا ہے مثلاً جس مریض کو پانی کے استعمال سے تکلیف کا یا تکلیف کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو اسے خواہ حدث اصغر (پھسکی یا پاد وغیرہ) لاحق ہو یا حدث اکبر (یعنی جنبی ہو خواہ احتلام سے یا صحبت سے) وہ وضو یا غسل کی بجائے تیمم کرسکتا ہے یا ایسا مسافر جسے وضو یا غسل کے لیے پانی مل ہی نہ رہا ہو اس کے لیے بھی یہی رعایت ہے۔- [٢٨] اتمام نعمت کیا ہے ؟ :۔ یعنی اتمام نعمت اسی شکل میں ہوسکتی ہے کہ نفس کی پاکیزگی کے احکام کے ساتھ ساتھ جسم کی پاکیزگی کے احکام بھی دیئے جائیں۔ ایک مسلمان کے لیے جسم کی صفائی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی نفس کی پاکیزگی اور صفائی۔ چناچہ آپ نے فرمایا ہے کہ جسمانی صفائی ایمان کا حصہ یا آدھا ایمان ہے (مسلم۔ کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء)
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ ۔۔ : اوپر کی آیات میں ” اَوْفُوْا بالْعُقُوْدِ “ کے تحت حلال و حرام چیزیں بتائی گئی تھیں، اب اس آیت میں اسی کے تحت وضو اور تیمم کے احکام بیان فرمائے ہیں جو عقود میں شامل ہیں اور سہولت پر مشتمل ہونے کے اعتبار سے اتمام نعمت (نعمت پوری کرنا) بھی ہیں۔ (کبیر، قرطبی) غزوۂ مریسیع (٥ یا ٦ ہجری) میں عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا تھا، ہار کی تلاش میں صبح ہوگئی اور پانی موجود نہ تھا، لوگ فکر مند ہوئے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [ بخاری، التیمم، باب : ٣٣٤ ] اس آیت سے چونکہ صحابہ (رض) کو پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی رخصت ملی، اس لیے علماء نے اس آیت کو آیت وضو کے بجائے آیت تیمم بھی کہا ہے۔ (قرطبی) - نماز سے پہلے وضو نہ ہو تو وضو فرض ہے ورنہ مستحب، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک وضو کے ساتھ کئی نمازیں پڑھی ہیں۔ [ مسلم، الطہارۃ، باب جواز الصلوات کلہا بوضوء واحد : ٢٧٧ ] اس آیت میں وضو کا بیان ہے، وضو میں سب سے پہلے نیت ضروری ہے، کیونکہ حدیث میں ہے : ( إِنَّمَا الْأَعْمَال بالنِّیَّاتِ ) ” تمام اعمال ( عبادات) کے لیے نیت ضروری ہے۔ “ [ بخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی إلی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١ ] اس لیے امام بخاری (رض) فرماتے ہیں : ” اس میں ایمان، وضو، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ الغرض تمام اعمال داخل ہیں۔ “ قرآن نے چار اعضا کا ذکر کیا ہے، مگر اس کا عملی طریقہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل کے مطابق ہونا چاہیے۔ - فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ : منہ دھونے میں کلی کرنا اور ناک میں پانی داخل کرکے جھاڑنا اور داڑھی کا خلال بھی شامل ہے۔ [ ابن ماجہ، الطہارۃ، باب ما جاء فی تخلیل اللحیۃ : ٤٣١ ] ” کہنیوں تک “ میں کہنیاں بھی شامل ہیں، انھیں بھی دھونا لازم ہے۔ نعیم مجمر فرماتے ہیں میں نے ابوہریرہ (رض) کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انھوں نے چہرہ دھویا اور مکمل وضو کیا، پھر اپنا دایاں ہاتھ دھویا یہاں تک کہ کہنی سے اوپر والے حصے تک لے گئے، پھر بایاں ہاتھ یہاں تک کہ کہینیوں سے اوپر تک لے گئے پھر اپنا دایاں پاؤں دھویا یہاں تک کہ پنڈلی تک پہنچا دیا، پھر بایاں پاؤں دھویا یہاں تک کہ پنڈلی تک لے گئے، پھر فرمایا : ” میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔ “ [ مسلم، الطہارۃ، باب استحباب اطالۃ - الغرۃ۔۔ : ٢٤٦ ]- وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ : گو بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ سارے سر کا مسح فرض نہیں بلکہ سر کے کچھ حصے کا مسح کرلیا جائے تو بھی کافی ہے، مگر قرآن کے ظاہر اور احادیث کی رو سے سارے سر کا مسح کرنا چاہیے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک دفعہ بھی پگڑی کے بغیر سر کے کچھ حصے کا مسح ثابت نہیں، آپ دونوں ہاتھ آگے سے گدی تک لے جاتے، پھر واپس لے آتے، ہاں پگڑی ہونے کی صورت میں سر کے سامنے والے حصے کے بعد پگڑی پر مسح کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم (٨١؍٢٧٤) میں ہے، پوری پگڑی پر بھی مسح کرسکتا ہے۔ [ أبو داوٗد : ١٤٦ ] سر کے مسح کے ساتھ کانوں کا مسح حدیث سے ثابت ہے۔ [ نسائی : ١٠٣۔ ابن ماجہ : ٤٣٩ ] سر کے مسح کے بعد گردن کا الگ مسح یا الٹے ہاتھوں مسح کرنے کا ثبوت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا صحابہ کرام (رض) سے نہیں ملتا، لہٰذا یہ بدعت ہے۔ - وَاَرْجُلَكُمْ : اس میں ” لام “ کے زبر اور زیر کے ساتھ دو قراءتیں مروی ہیں۔ فتح والی قراءت کی رو سے تو ظاہر ہے کہ ” ِ فَاغْسِلُوْا “ کا مفعول ہونے کی بنا پر پاؤں دھونا ثابت ہے۔ زیر والی قراءت میں قریب ہونے کی وجہ سے جر ہے، یعنی پہلا لفظ ” بروسکم “ مجرور ہونے کی موافقت کے لیے ” وَاَرْجُلَكُمْ “ کو کسرہ دے دیا ورنہ ” فاغسلوا “ کا مفعول ہونے کی وجہ سے دراصل منصوب ہے۔ تمام علمائے اہل سنت کا یہی مذہب ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی احادیث میں ثابت ہے کہ آپ پاؤں دھویا کرتے تھے، ان پر مسح نہیں فرماتے تھے۔ عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے پیچھے رہ گئے، پھر آپ نے ہمیں پا لیا، نماز کا وقت ہوگیا تھا، ہم وضو کر رہے تھے اور ( جلدی میں) اپنے پاؤں پر گیلا ہاتھ پھیر رہے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلند آواز میں تین مرتبہ فرمایا : ” ان ایڑیوں کے لیے آگ میں بڑی ہلاکت ہے۔ “ [ بخاری، العلم، باب من رفع صوتہ بالعلم : ٦٠ ] اگر موزے یا جرابیں باوضو ہونے کی حالت میں پہنی ہوں تو ان پر صحیح احادیث کے مطابق مسح کیا جاسکتا ہے۔ وضو میں ترتیب بھی ضروری ہے، جیسا کہ ” فَاغْسِلُوْا “ کی ” فاء “ سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ پہلے دھویا جائے گا، باقی اعضاء میں بھی ترتیب ہوگی، مسح راس کے بعد غسل رجلین کے ذکر میں بھی ترتیب کی طرف اشارہ ہے، یعنی ” فَاغْسِلُوْا “ کا مفعول بعد میں ذکر ہوا ہے اور ہمیشہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی ترتیب سے وضو کیا ہے، کبھی اس کے خلاف نہیں کیا۔ اعضاء کو کم از کم ایک مرتبہ اور زیادہ سے زیادہ تین دفعہ دھونا ثابت ہے، اس سے زیادہ جائز نہیں۔ - فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ ۭ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء (٤٣) ۔ - مَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ ۔۔ : تنگی میں نہ ڈالنے کی وجہ سے اور پانی نہ ہونے کی صورت میں مٹی کے ساتھ مکمل طہارت ہی کے لیے اس نے تیمم کا حکم نازل فرمایا ہے، تاکہ تم پر نعمت تمام ہو اور تم شکر ادا کرو۔
ربط آیات - پچھلی آیات میں کچھ احکام شرعیہ وہ ذکر کر کیے گئے جن کا تعلق انسان کی دنیوی زندگی اور کھانے پینے سے ہے۔ اس آیت میں چند احکام شرعیہ متعلق عبادات کے ذکر کئے گئے ہیں۔- خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو جب تم نماز کو اٹھنے لگو (یعنی نماز پڑھنے کا ارادہ کرو اور تم کو اس وقت وضو نہ ہو) تو (وضو کرلو یعنی) اپنے چہروں کو دھوؤ اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت (دھوؤ) اور اپنے سروں پر (بھیگا) ہاتھ پھیرو۔ اور اپنے پیروں کو بھی ٹخنوں سمیت (دھوؤ) اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو (نماز سے پہلے) سارا بدن پاک کرلو اور اگر تم بیمار ہو (اور پانی کا استعمال مضر ہو) یا حالت سفر میں ہو (اور پانی نہیں ملتا جیسا آگے آتا ہے، یہ تو عذر کی حالت ہوئی) یا (اگر مرض و سفر کا عذر بھی نہ ہو بلکہ ویسے ہی وضو یا غسل ٹوٹ جاوے اس طرح سے کہ مثلاً ) تم میں سے کوئی شخص (پیشاب یا پائخانہ کے) استنجے سے (فارغ ہو کر) آیا ہو (جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے) یا تم نے بیبیوں سے قربت کی ہو (جس سے غسل ٹوٹ گیا ہو اور) پھر (ان ساری صورتوں میں) تم کو پانی (کے استعمال کا موقع) نہ ملے (خواہ بوجہ ضرر کے یا پانی نہ ملنے کے) تو (ان سب حالتوں میں) تم پاک زمین سے تیمم کرلیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر پھیرلیا کرو۔ اس زمین (کی جنس) پر سے (ہاتھ مار کر) اللہ تعالیٰ کو (ان احکام کے مقرر فرمانے سے) یہ منظور نہیں کہ تم پر کوئی تنگی ڈالیں (یعنی یہ منظور ہے کہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے، چناچہ احکام مذکورہ میں خصوصاً اور جمیع احکام شرعیہ میں عموماً رعایت سہولت و مصلحت کی ظاہر ہے) لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تم کو پاک صاف رکھے (اس لئے طہارت کے قواعد اور طرق مشروع کئے اور کسی ایک طریق پر بس نہیں کیا گیا کہ اگر وہ نہ ہو تو طہارت ممکن ہی نہ ہو، مثلاً صرف پانی کو مطہر رکھا جاتا تو پانی نہ ہونے کے وقت طہارت حاصل نہ ہوسکتی، یہ طہارت ابدان تو خاص احکام طہارت ہی میں ہے۔ اور طہارت قلوب تمام اطاعات میں عام ہے پس یہ تطہیر دونوں کو شامل ہے اور اگر یہ احکام نہ ہوتے تو کوئی طہارت حاصل نہ ہوتی) اور یہ (منطور ہے) کہ تم پر اپنا انعام تام فرما دے۔- (اس لئے احکام کی تکمیل فرمائی تاکہ ہر حال میں طہارت بدنی و قلبی جس کا ثمرہ رضا و قرب ہے جو اعظم نعم ہے حاصل کرسکو) تاکہ تم (اس عنایت کا) شکر ادا کرو (شکر میں امتثال بھی داخل ہے) اور تم لوگ اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو (جس میں بڑا انعام یہ ہے کہ تمہاری فلاح کے طریقے تمہارے لئے شروع کر دئے) اور اس کے اس عہد کو بھی (یاد کرو) جس کا تم سے معاہدہ کیا ہے جبکہ تم نے (اس کا التزام بھی کرلیا تھا کہ عہد لینے کے وقت تم نے) کہا تھا کہ ہم نے (ان احکام کو) سُنا اور مان لیا (کیونکہ اسلام لانے کے وقت ہر شخص اسی مضمون کا عہد کرتا ہے) اور اللہ تعالیٰ (کی مخالفت) سے ڈرو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں کی پوری خبر رکھتے ہیں (اس لئے جو کام کرو اس میں اخلاص و اعتقاد بھی ہونا چاہیے صرف منافقانہ امتثال کافی نہیں۔ مطلب یہ کہ ان احکام میں اول تو تمہارا ہی نفع پھر تم نے اپنے سر بھی رکھ لیا ہے۔ پھر مخالفت میں ضرر ان وجوہ سے امتثال ہی ضروری ہوا اور وہ بھی دل سے ہونا چاہیے ورنہ مثل عدم امتثال ہی کے ہے) ۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ ٠ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا ٠ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْہُ ٠ۭ مَا يُرِيْدُ اللہُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَہِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ٦- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- غسل - غَسَلْتُ الشیء غَسْلًا : أَسَلْتُ عليه الماءَ فأَزَلْتُ دَرَنَهُ ، والْغَسْلُ الاسم، والْغِسْلُ : ما يُغْسَلُ به . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ ... الآية [ المائدة 6] ، والِاغْتِسَالُ : غَسْلُ البدنِ ، قال : حَتَّى تَغْتَسِلُوا[ النساء 43] ، والمُغْتَسَلُ : الموضعُ الذي يُغْتَسَلُ منه، والماء الذي يُغْتَسَلُ به، قال : هذا مُغْتَسَلٌ بارِدٌ وَشَرابٌ [ ص 42] . والْغِسْلِينُ : غُسَالَةُ أبدانِ الكفّار في النار قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] .- غ س ل ) غسلت الشئی غسلا کے معنی کسی چیز پر پانی بہا کر اسے میل کچیل سے پاک کرنے کے ہیں اسی سے غسل اسم ہے اور غسل وہ چہرہ ہے جس کے ساتھ کپڑے کو دھو یا یا نہا یا جاتا ہے ( جیسے صابن وغیرہ ) قرآن میں ہے : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ ... الآية [ المائدة 6] تو چہرے اور ہاتھ دھولیا کرو ۔ الاغتسال ( افتعال ) کے معنی نہا کے اور تمام بدن کو دھونے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَغْتَسِلُوا[ النساء 43] جب تک کہ غسل نہ کرلو ۔ المغتسل نہانے کی جگہ یا نہانے کا پانی قرآن میں ہے : ۔ هذا مُغْتَسَلٌ بارِدٌ وَشَرابٌ [ ص 42] یہ چشمہ نہانے کو ٹھنڈا اور پینے شیریں ۔ الغسلین کے معنی دو زخیوں کے اجسام کا غسالہ ( پیپ ) کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ان کے لئے کھانا ہے ۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - ( المرافق)- جمع المرفق، اسم للعضو المعروف وزنه مفعل بکسر المیم وفتح العین أو بفتح المیم وکسر العین، ووزن المرافق مفاعل .- مسح - المَسْحُ : إمرار الید علی الشیء، وإزالة الأثر عنه، وقد يستعمل في كلّ واحد منهما . يقال :- مسحت يدي بالمندیل، وقیل للدّرهم الأطلس : مسیح، وللمکان الأملس : أمسح، ومسح الأرضَ : ذرعها، وعبّر عن السّير بالمسح کما عبّر عنه بالذّرع، فقیل : مسح البعیرُ المفازةَ وذرعها، والمسح في تعارف الشرع : إمرار الماء علی الأعضاء . يقال : مسحت للصلاة وتمسّحت، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] . ومسحته بالسیف : كناية عن الضرب، كما يقال : مسست، قال تعالی: فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص 33] ، وقیل سمّي الدّجّال مَسِيحاً ، لأنّه ممسوح أحد شقّي وجهه، وهو أنه روي «أنه لا عين له ولا حاجب» «3» ، وقیل : سمّي عيسى عليه السلام مسیحا لکونه ماسحا في الأرض، أي : ذاهبا فيها، وذلک أنه کان في زمانه قوم يسمّون المشّاء ین والسّيّاحین لسیرهم في الأرض، وقیل : سمّي به لأنه کان يمسح ذا العاهة فيبرأ، وقیل : سمّي بذلک لأنه خرج من بطن أمّه ممسوحا بالدّهن . وقال بعضهم «4» : إنما کان مشوحا بالعبرانيّة، فعرّب فقیل المسیح وکذا موسیٰ کان موشی «5» . وقال بعضهم : المسیح : هو الذي مسحت إحدی عينيه، وقد روي : «إنّ الدّجّال ممسوح الیمنی» «1» و «عيسى ممسوح الیسری» «2» . قال : ويعني بأنّ الدّجّال قد مسحت عنه القوّة المحمودة من العلم والعقل والحلم والأخلاق الجمیلة، وأنّ عيسى مسحت عنه القوّة الذّميمة من الجهل والشّره والحرص وسائر الأخلاق الذّميمة . وكنّي عن الجماع بالمسح، كما کنّي عنه بالمسّ واللّمس، وسمّي العرق القلیل مسیحا، والمِسْحُ : البِلَاسُ. جمعه :- مُسُوح وأَمساح، والتِّمْسَاح معروف، وبه شبّه المارد من الإنسان .- ( م س ح ) المسح ( ف ) کے معنی کسی چیز پر ہاتھ پھیرنے اور اس سے نشان اور آلائش صاف کردینے کے ہیں اور کبھی صرف کسی چیز پر ہاتھ پھیرنا اور کبھی اذالہ اثر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ مسحت یدی با لمندیل : میں نے رو مال سے ہاتھ پونچھا اور گھسے ہوئے چکنے در ہم ( سکہ ) کو مسیح کہا جاتا ہے اور ہموار اور چکنی جگہ کو مکان امسح کہہ دیتے ہیں ۔ مسح الارض اس نے زمین کی پیمائش کی ۔ پھر جس طرح ( مجازا ) ذرع ( ناپن ا) کے معنی چلنا اور مسافت طے کرنا آجاتے ہیں ۔ اسی طرح مسح کا لفظ بھی چلنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے : ۔ مسح البعیر المفا ذۃ وذرعھا : اونٹ نے بیا باں کو عبور کیا ۔ اصطلاح شریعت میں مسح کے معنی اعضاء پر پانی گذار نے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ مسحت للصلوۃ وتمسحت میں نے نماز کے لئے مسح کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] اور سر کا مسح کرلیا کرو اور پاؤں دھو لیا کرو ۔ اور کبھی مسیست کی طرح مسحتہ باسیف کے معنی بھی تلوار سے مارنا کے آجاتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گر دنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے بعض نے کہا ہے کہ دجال کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس کے چہرے کی ایک جانب مسخ ہوچکی ہوگی ۔ چناچہ مروی ہے انہ لاعین لہ ولا حاجب کہ اس کے ایک جانب کی آنکھ اور بھویں کا نشان تک نہیں ہوگا ۔ اور عیسٰی (علیہ السلام) کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ زمین میں سیاست کرتے تھے ۔ اور ان کے زمانہ میں ایک گر وہ تھا جنہیں زمین میں سیاست کی وجہ سے مشائین اور سیا حین کہا جاتا تھا بعض کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے مس کرنے سے چونکہ کوڑھی تندرست ہوجاتے تھے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسیح کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ بعض نے اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بطن م اور سے پیدا ہوئے تو یوں معلوم ہوتا تھا ان کے بدن پر تیل کی مالش کی گئی ہے ۔ اس لئے انہیں مسیح کہا گیا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ یہ عبرانی لفظ مشوح سے معرب ہے جیسا کہ موسٰی عبرانی لفظ موشیٰ سے معرب ہے بعض کا قول یہ ہے کہ مسیح اسے کہتے ہیں جس کی ایک آنکھ مٹی ہوئی ہو اور مردی ہے ان الدجال ممسوح الینمی وان عیسیٰ ممسوح الیسری ٰ کہ دجال کی دائیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی اس کے معنی یہ ہیں کہ دجال علم وعقل حلم اور دیگر اخلاق جہلیہ سے کلیۃ محروم ہوگا اس کے بر عکس عیسیٰ (علیہ السلام) کی بائیں آنکھ مٹنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہالت حرص اور دیگر اخلاق مذمومہ سے پاک تھے ۔ پھر جس طرح مس اور لمس کے الفاظ کنایۃ مجامعت کے لئے آجاتے ہیں اسی طرح مسح بھی مجامعت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ معمولی پسینے پر بھی مسیح کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اور مسیح ٹاٹ کر کہتے ہیں اس کی جمع مسود ومساح آتی ہے التمساح مگر مچھ کو کہتے ہیں اور تشبیہ کے طور پر سر کشی آدمی کو بھی تمساح کہہ دیتے ہیں - رأس - الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه .- ( ر ء س ) الراس - سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔- رِّجْلُ- : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
نماز کے لئے طہارت کا بیان - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم، اے ایمان لانے والو جب تم نماز کے لئے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے چہرے دھو لو) تا اخر آیت۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت نماز کے لئے اٹھنے کے بعد وجوب طہارت کا مقتضی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے لئے اٹھنے کو طہارت کے عمل کے لئے شرط قرار دیا ہے۔ نحوی لحاظ سے جزا کا حکم یہ ہوتا ہے کہ وہ شرط سے متاخر ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص اپنی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ ” اگر تو گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق “ تو اس صورت میں گھر کے اندر داخل وہنے کے بعد اس پر طلاق واقع ہوگی۔ جب کسی سے یہ کہا جائے کہ ” جب زید سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کا اکرام کرو “۔ تو اس صورت میں قائل کا یہ قول ملاقات کے بعد اکرام کا موجب ہے۔ اس بارے میں اہل لغت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہی مفہوم لفظ کا مقتضی اور اس کی حقیقت ہے۔ سلف سے لے کر خلف تک اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نماز کے لئے اٹھنا طہارت کے ایجاب کا سبب نہیں ہے بلکہ طہارت کا وجوب اس کے سوا کسی اور سبب کے ساتھ متعلق ہے۔ اس لئے نماز کی خاطر اٹھنے کے بعد ایجاب طہارت کے لئے اس لفظ میں عموم نہیں ہے کیونکہ حکم عا تعلق قیام الی الصلوۃ کے ساتھ نہیں بلکہ ایک ضمیر یعنی پوشیدہ لفظ کے ساتھ ہے جو یہاں مذکور نہیں ہے۔ لفظ کے اندر بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے جو نماز کے لئے اٹھنے کے بعد طہارت کے وجوب کی تکرار کی موجب بن سکے۔- اس کے دو وجوہ ہیں۔ ایک وجہ تو وہ ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ حکم کا تعلق ایک پوشیدہ لفظ کے ساتھ ہے جو عبارت میں مذکور نہیں ہے بلکہ اس پر کسی اور لفظ کے ذریعے دلالت حاصل کرنے یک ضرورت ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عربی زبان میں حرف اذا تکرار کو واجب نہیں کرتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب ایک شخص کسی دوسرے سے یہ کہتا ہے۔ جب زید گھر میں داخل ہو تو اسے ایک درہم دے دینا “ تو گھر میں ایک دفعہ داخل ہونے پر زید ایک درہم کا مستحق ہوجاتا ہے لیکن دوسری مرتبہ داخل ہونے پر وہ کسی چیز کا مستحق نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب ایک شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے ” جب تو گھر میں داخل ہوگی تو تجھ پر طلاق “ تو گھر میں ایک دفعہ داخل ہونے پر اسے طلاق ہوجائے گی اور اگر وہ دوسری دفعہ داخل ہوگی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نماز کے لئے قیام کی تکرار کی وجہ سے طہارت کے وجوب کی تکرار پر آیت میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی توجیہ کی بناء پر یہ ضروری قرار پایا کہ ایک شخص آیت کے حکم کے تحت صرف ایک ہی دفعہ ضو و کرے اس کے جواب میں ہا جائے گا کہ ہم نے یہ وضاح کردیا ہے کہ آیت اس وقت تک طہارت کے ایجاب کے سلسلے میں خود مکتفی نہیں ہوسکتی جب تک اس کی عبارت میں پوشیدہ لفظ کی مراد کو بیان نہ کردیا جائے۔- اس لئے معترض کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ آیت سے تو صرف ایک ہی مرتبہ وضو کرنا لازم ہوتا ہے کیونکہ آیت معنی کے لحاظ سے مجمل ہے اسے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے پس جس وقت بیان وارد ہوجائے گا ایجاب طہارت کے سلسلے میں اسے ہی مراد قرار دیا جائے گا۔ اور اسی کے ساتھ ایک دفعہ یا تکرار کی صورت میں بیان مراد کے منشا اور تقاضے کے مطابق حکم کا تعلق ہوگا۔ اگر آیت کا لفظ ایسا عموم ہوتا جو اس امر میں حکم کا مقتضی قرار پاتا جس کے بارے میں اس کا درود ہوا ہے اور اسے بیان کی ضرورت نہ ہوتی تو اس صورت میں بھی آیت لفظی جہت سے قیام الی لصلوۃ کے وقت طہارت کی تکرار کی موجب نہ ہوتی۔ بلکہ صرف معنی کی جہت سے جس کے ساتھ وجوب طہارت کو متعلق کیا گیا ہے، یہ تکرار کی موجب ہوتی اور وہ معنی ہے حدث نہ کیا کہ الی الصلوۃ۔- ہمیں اس شخص نے روایت بیان کی ہے جس پر روایت کے سلسلے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں، انہیں ابو مسلم کرخی نے، انہیں ابو عاصم نے سفیان سے، انہوں نے علقمہ بن مرشد سے، انہوں نے سلیمان بن بریدہ سے انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن ایک وضو سے پانچ نمازیں ادا کیں اور موزوں پر مسح کیا۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : ” اللہ کے رسول آپ نے آج ایک ایسا کام کیا جو اس سے پہلے نہیں کرتے تھے “۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں نے عمداً ایسا کیا ہے۔ “ ہمیں ایک ایسے شخص نے روایت بیان کی جس کی روایت پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، انہیں محمد بن یحییٰ الذہلی نے، انہیں احمد بن خالد الوہبی نے، انہیں محمد بن اسحاق نے محمد بن یحییٰ حبان سے، انہوں نے عبداللہ بن عبداللہ عمر (رض) سے یحییٰ بن حبان کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ سے پوچھا کہ آیا آپ کے خیال میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ہر نماز کے لئے وضو کرتے خواہ با وضو ہوتے یا نہ ہوتے۔- وہ کہنے لگے مجھے اسماء بنت زید بن الخطاب نے بیان کیا کہ انہیں عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر الغسیل نے بتایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر نماز کے لئے وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا خواہ آپ باوضو ہوتے یا نہ ہوتے لیکن یہ حکم جب آپ کے لئے مشقت کا سبب بن گیا تو آپ کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم ملا اور وضو کرنے کی اپنے اندر طاقت محسوس کرتے تھے اس لئے موت تک وہ اس پر عمل پیرا رہے۔ پہلی روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ قیام الی الصلوۃ طہارت کی موجب نہیں ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر نماز کے لئے وضو کی تجدید نہیں یک تھی اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت کی عبارت میں ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جس کے ساتھ ایجاب طہارت کا حکم متعلق ہوتا ہے۔ دوسری روایت میں بہ بیان ہوا کہ وہ پوشیدہ لفظ حدث ہے کیونکہ راوی کے الفظا ہیں : ” ووضع عنہ الوضوء الا من حدث “ (وضو کرنے کا حکم ختم کردیا گیا الا یہ کہ حدث لاحق ہوچکا ہو) ۔- آیت کی عبارت میں پوشیدہ لفظ حدث ہے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے سفیان نے جابر سے اور انہوں نے عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے نقل کی ہے، انوہں نے عبداللہ بن علقمہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب پانی بہاتے یعنی پیشاب کرتے تو ہماری گفتگو کے جواب میں گفتگو نہ کرتے، ہم آپ کو سلام کہتے آپ پھر بھی کلام نہ فرماتے حتیٰ کہ گھر میں داخل ہوجاتے اور پھر نماز کے وضو کی طرح وضو فرماتے۔ جب رخصت کی آیت (یا ایھالذین امنو اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم تا اخر آیت نازل ہوئی تو ہم نے اس کے متعلق آپ سے گفتگو کی۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ’ دیہ آیت حدث کی صورت میں نماز کے لئے اٹھنے پر وضو کے ایجاب کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے “۔ ہمیں اس شخص نے روایت بیان کی جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، انہیں محمد بن علی بن زید نے بتایا کہ سعید بن منصور نے انہیں روایت بیان کی، انہیں اسماعیل بن ابراہیم نے، انہیں ایوب نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت الخلاء سے باہر آئے۔ آپ کے سامنے کھانا رکھا گیا اور ایک نے عرض کیا کہ وضو کا پانی نہ لا دوں۔ اس پر آپ نے فرمایا (انما امرت بالوضوء اذا قمت الی الصلوۃ مجھے اس وقت وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب میں نماز کے لئے اٹھوں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس روایت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ لوگوں نے آپ سے حدث لاحق ہونے کی صورت میں کھانے کے وقت وضو کرنے کے متعلق پوچھا تھا۔ آپ نے انہیں بتایا کہ حدث کی صورت میں نماز کے لئے اٹھنے کے وقت وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔- ابومعشر المدنی نے سعید بن ابی سعید المقبری سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لولا ان اشق علی امتی لامرت لکل صلوۃ بوضوء و مع کل وضوء بسواک۔ اگر یہ بات نہ ہوتی میرے اس حکم سے امت مشقت میں پڑجاتی تو میں ہر نماز کے لئے وضو کا اور ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا) یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت ہر نماز کے لئے وضو کے ایجاب کی مقتضی نہیں۔ اس دلالت کے دو وجوہ ہیں اول یہ کہ اگر آیت اس بات کی موجب ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نہ فرماتے کہ (لامرت فی کل صلوۃ بوضوء) دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ نے بتادیا کہ اگر آپ وضو کا حکم دے دیتے تو آپ کے حکم سے نہ کہ آیت کی رو سے ہر نماز کے لئے وضو واجب ہوجاتا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ آیت میں ہر نماز کے لئے وضو کے وجوب کا پہلو موجود نہیں تھا۔- امام مالک بن انس نے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ ” جب تم بستر سے اٹھو یعنی نیند سے بیدار ہو “ طہارت کے بغیر سلام کا جواب دینا بھی ممنوع تھا۔ قتادہ نے حسن سے، انہوں نے ابو ساسان حضین سے اور انہوں نے حضرت مہاجرین امیہ (رض) سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا آپ اس وقت وضو کر رہے تھے۔ میں نے سلام کیا، جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو فرمایا (ما منعنی ان ارد علیک السلام الا انی کنت علی غیر وضوء میں نے تمہارے سلام کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ میں باوضو نہیں تھا) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن شاذان نے، انہیں معلی بن منصور نے، انہیں محمد بن ثابت العیدری نے، انہیں نفع نے کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ کسی ضرورت کے سلسلے میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس گیا۔ جب آپ حضرت ابن عباس (رض) کے ساتھ کام ختم کرچکے تو بعد میں اس دن جو گفتگو ہوئی اس میں درج ذیل بات بھی شامل تھی۔ ایک دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینے کی ایک گلی سے گزر رہے تھے آپ ابھی قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تھے۔ ایک شخص نے آپ کو سلام کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا بلکہ ایک دیوار پر اپنی ہتھیلیاں مار کر چہرے کا مسح کیا پھر دوسری دفعہ دیوار پر ہتھیلیاں مار کر دونوں بازوئوں کو کہنیوں سمیت مسح کیا۔ پھر اس شخص کے سلام کا جواب دیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ میں نے صرف اس لئے جواب نہیں دیا کہ میں باوضو نہیں تھا۔ “ یا یہ فرمایا : ” میں طہارت پر نہیں تھا۔ “ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ سلام کا جواب دینے میں بھی طہارت شرط تھی۔ تاہم اس میں یہ گنجائش ہے کہ شاید یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہو اس لئے کہ آپ سے کوئی ایسی روایت منقول نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ آپ نے طہارت کے بغیر سلام کا جواب دینے سے منع فرمایا ہو۔ اس معاملے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جب آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں سلام کا جواب نہ رہ جائے تو آپ نے تیمم کر کے سلام کا جواب دے دیا اس لئے کہ سلام کے جواب میں تاخیر جواب نہ دینے کے مترادف ہے، جواب وہی ہوتا ہے جو فوری طور پر دیا جائے۔ جس طرح ایک شخص کو اگر یہ اندیشہ ہو کہ وضو میں مصروف ہوجانے کی صورت میں اس سے عید یا جنازے کی نماز رہ جائے گی تو اس کے لئے وضو کی بجائے تیمم کرلینا جائز ہوتا ہے۔- اس میں یہ بھی گنجائش ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حکم منسوخ ہوچکا ہو اور یہ بھی گنجائش ہے کہ وفات تک آپ پر یہ حکم لازم رہا ہو۔ حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) کے متعلق روایت ہے کہ یہ تمام حضرات ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے۔ یہ روایت اس پر محمول ہے کہ ان حضرات کا وضو استحباب کے طور پر ہوتا تھا۔ حضرت سعد سے ان کا یہ قول مروی ہے ” جب تم وضو کرلو تو جب تک وضو ٹوٹ نہ جائے نماز پڑھتے رہو “۔ ابن ابی ذویب نے حضرت ابن عباس (رض) کے آزاد کردہ غلام شعبہ سے روایت کی ہے کہ عید بن عمیر ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے اور قول باری (اذا قمتم الی الصلوۃ) کا یہی مفہو لیتے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) کو جب اس بات کا پتہ چلا تو آپ نے اسے ناپسند کیا۔ ہر نماز کے لئے حدوث کے بغیر وضو کے ایجاب کی نفی کی تائید میں حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت ابوموسیٰ (رض) حضرت جابر بن عبداللہ، عبیدہ السلمانی، ابو العالیہ، سعید بن المسیب، ابراہیم نخفی اور حسن بصری سے روایتیں منقول ہیں۔ فقاء کے مابین اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تجدید وضو یعنی تازہ وضو کرنے کی فضیلت میں بہت سی احادیث منقول ہیں۔- ایک روات وہ ہے جو ہمیں ایک ثقہ شخص نے سنائی ہے۔ انہیں محمد بن زید نے۔ انہیں سعید نے، انہیں سلام الطویل نے زید العتمی سے، انہوں نے معاویہ بن قبرہ سے، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ وضو کے لئے پانی منگوایا، اور ایک ایک مرتبہ وضو کے تمام اعضاء دھوئے اور پھر فرمایا (ھذا وظیفۃ الوضوء، وضوء من لا یقبل اللہ لہ صلوۃ الا بہ۔ یہ وظیفہ، وضو ہے، یعنی وضو کا معین عمل، یہ اس شخص کا وضو ہے جس کی کوئی نماز اس کے بغیر اللہ قبول نہیں کرتا) پھر آپ ایک گھڑی باتیں کرتے رہے اور اس کے بعد پانی منگوا کر وضو کیا، اس دفعہ آپ نے ہر عضو دو دو مرتبہ دھویا اور فرمایا (نذا وضو، من توضابہ ضاعف اللہ لہ الاجر مرتین۔ یہ وضو ایسا ہے کہ اس کے کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دو مرتبہ اجر عطا کرے گا)- پھر کچھ دیر تک گفتگو فرماتے رہے اور اس کے بعد پانی منگوا کر وضو کیا۔ اس مرتبہ ہر عضو تین تین مرتبہ دھویا اور فرمایا (نذا وضو فی ودضوء النبیین من قبلی یہ میرا اور مجھ سے پہلے انبیاء کا وضو ہے) آپ سے یہ قول بھی مروی ہے (الوضوء علی الوضوء نور علی نور، وضو رہت ہوئے وضو کرنا نور علی نور ہے) آپ کا یہ ارشاد بھی ہے (لولا ان اشق علی امتی لامرتھم بالوضوء عند کل صلوۃ اگر یہ بات میری امت کو مشقت میں مبتلا کرنے کی باعث ہوتی تو میں انہیں ہر نماز کے لئے وضو کرنے کا حکم دیتا) یہ تمام روایات ہر نماز کے لئے وضو کے استحباب پر دلالت کرتی ہیں خواہ پہلے سے ایک شخص کا وضو باقی کیوں نہ ہو۔ سلف سے ہر نماز کے لئے تجدید وضو کی جو روایات منقول ہیں انہیں بھی اسی مفہوم پر محمول کیا جائے گا۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کرنے کے بعد فرمایا : ’ دیہ اس شخص کا وضو ہے جسے حدث لاحق نہ ہوا ہو۔ “ حضرت علی (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کی روایت کی۔- درج بالا وضاحتوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری (اذا قمتم الی الصلوۃ) ہر نماز کے لئے وضو کا موجب نہیں ہے اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ آیت اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل نہیں بلکہ اس کی عبارت میں ایک پوشیدہ لفظ بھی ہے جس کے ساتھ ایجاب طہارت کا حکم متعلق ہے اور یہ آیت ایک مجمل فقرے کی مانند ہے جسے بیان اور تفصیل کی رورت ہے نیز اس کے عموم سے صرف ان ہی صورتوں می استدلال درست ہوسکتا ہے جن کے لئے اس کی مراد کی تانید میں دلیل موجود ہے۔ نوم یعنی نیند کی وجہ سے وضو کے ایجاب پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کی حد تک روایات منقول ہیں۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نماز کے لئے قیام وضو کا موجب نہیں ہے، اس لئے کہ جب نیند کی وجہ سے وضو واجب ہوجائے گا تو پھر اس کے بعد قیام الی الصلوۃ وضو کا موجب نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب نیند کی وجہ سے وضو واجب ہوجائے تو اس کے بعد اگر اس نے وضو نہ کیا ہو تو کسی اور حدث کی وجہ سے اس پر دوسرا وضو واجب نہیں ہوگا۔- اگر قیام الی الصلوۃ وضو کا موجب وہتا تو نماز کے ارادیسے اٹھنے پر نیند کے سبب وضو واجب نہ ہوتا۔ جس طرح کسی دو اسباب میں سے ہر سبب اگر موجب وضو ہو اور ایک شخص پہلے سبب کی بناء پر وضو کرلے تو دوسرے سبب کی بنا پر اس پر وضو واجب نہیں ہوگا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ” من النوم “ وہ لفظ ہے جو آیت میں پوشیدہ ہے اس لئے اس کی عبارت اس طرح ہوگی۔ ” جب تم نیند سے اٹھ کر نماز کے لئے چلو “ جیسا کہ زید بن اسلم سے یہ قول منقول ہے۔ یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وضو واجب کردینے والی نیند سے مراد وہ معتاد نیند ہے جس سے بیدار ہونے پر یہ کہنا درست وہ سکتا ہو کہ ” فلاں شخص نیند سے اٹھا ہے “۔ اس لئے جو شخص بیٹھے بیٹھے یا رکوع اور سجدے کی حالت میں سو گیا ہو اس کے متعلق یہ کہنا درست ہیں ہوتا کہ یہ نیند سے اٹھا ہے۔ وضو کی موجب اس نیند کا اطلاق لیٹ کر سوجانے والے پر ہوتا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ نیند دث نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے طہارت صرف اس لئے واجب ہوتی ہے کہ اس حالت میں حدث لاحق ہونے کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس تاویل کی صورت میں آیت ہوا خارج ہونے کی وجہ سے طہارت کے وجوب پر دلالت کرے گی۔ اگر بات ہمارے بیان کے مطابق درست ہے تو پھر آیت کے ضمن میں نیند اور ریح خارج ہونے کی بناء پر ایجاب وضو پر دلالت موجود ہے۔ اس سے پیشاب پاخانے یک وجہ سے وضو کا ایجاب بھی مراد لیا گیا ہے۔ جو آیت میں ایک پوشیدہ لفظ کی بنا پر ہے اس لئے کہ ایجاب وضو کا حکم اس قول باری میں مذکور ہے۔ (اوجاء احدکم من الغائط، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو)- غائط پست زمین کو کہتے ہیں۔ لوگ جو ائج ضروریہ سے فراغت کے لئے اس کا رخ کرتے تھے۔ یہ بات پیشاب، پاخانہ، سلسل البول، مذی، دم اسحاضہ اور ان تمام امور کی وجہ سے ایجاب وضو پر مشتمل ہے جن سے فراغت کے لئے ایک انسان دوسرے انسان کی نگاہوں سے اوٹ میں چلا جاتا ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجانے اور قضائے حاجت کو ان سے چھپانے کے لئے پست مقام پر چلے جاتے تھے۔ جسم سے خارج ہونے والی ان اشیاء کے اختلاف کی وجہ سے جنہیں عادۃً لوگوں کی نظروں س ے پوشیدہ رکھا جاتا ہے، اس طریق کار میں کوئی فرق نہیں پڑتا، ان اشیاء میں سلسل البول، مذی اور استحاضے کا خون وغیرہ سب شامل ہیں۔ یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ تمام اشیاء حدی کے اندر داخل ہیں اور آیت میں پوشیدہ لفظ ان سب پر مشتمل ہے۔ سلف اور فقاء امصار کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص ٹیک لگائے بغیر بیٹھے بیٹھے سو جائے۔ اس پر وضو واجب نہیں ہوتا۔ عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک رات عشاء کی نماز میں تاخیر کردی حتیٰ کہ لوگوں کو نیند آ گئی۔ جب لوگ بیدار ہوئے تو حضرت عمر (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے لئے کہا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے اور نماز پڑھائی، اس روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ لوگوں نے دوبارہ وضو کیا تھا۔- حضرت انس (رض) سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : ہم مسجد نبوی میں آ کر جماعت کا انتظار کرتے رہتے کچھ لوگوں کو تو اونگھ آ جاتی اور کچھ لوگ سو جاتے لیکن ہم وضو کا اعادہ نہ کرتے۔ ” نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص پر سونے کی وجہ سے اس وقت تک وضو واجب نہیں ہوتا جب تک وہ پہلو کے بل زمین پر لیٹ نہ جائے اس بارے میں فقاء کے اختلاف کا ہم نے دوسری جگہ ذکر کردیا ہے۔ امام ابو یوسف نے محمد بن عبداللہ سے روایت کی ہے، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز ادا کرتے اور وضو نہ کرتے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان لست کا حدکم انہ تنام علینای ولا ینام قلبی لواحدثت لعلمتہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میری آنکھوں کو نیند آ جاتی ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔ اگر مجھے حدث لاحق ہوت تو مجھے اس کا پتہ چل جاتا) یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نیند فی نفسہ حدث نہیں ہے، اس کی وجہ سے ایجاب وضو اس بنا پر ہوتا ہے کہ اس حالت میں یہ عین ممکن ہے کہ سونے والے کو کوئی حدث لاحق ہوگیا ہو اور اسے اس کا احساس نہ ہوسکا ہو کیونکہ لوگوں کی عام الت اسی طرح کی ہوتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ قول مروی ہے کہ (العین دکاء السہ فاذا نامت العین استطلق لو کاء آنکھ سرین کا بندھن ہے۔ جب آنکھ لگ جائے تو بندھن کھل جاتا ہے)- چونکہ نیند کے اندر جسم بوجھل ہونے کی وجہ سے اکثر حدث لاحق ہوجاتا ہے اس لئے نیند کو حدث کا حکم لگا دیا گیا لیکن یہ بات صرف نوم معتاد کے اندر ہوتی ہے جس میں سونے والا اپنا پہلو زمین سے لگا دیتا ہے اور لیٹ جانے کے بعد اسے اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی کہ جس سے کیا چیز خارج ہوئی اور اسے کون سا حدث لاحق ہوا۔ لیکن اگر وہ بیٹھا ہوا ہو یا بلا ضرور تنماز کی کسی حالت مثلاً قیام، رجوع یا سجدہ کے اندر ہو تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا اس لئے کہ ان احوال کے اندر انسان کو کچھ نہ کچھ شعور اور احساس رہتا ہے اگر اس حالت میں کوئی حدث لاحق ہوجائے تو اسے اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ یزید بن عبدالرحمن نے قتادہ سے روایت کی ہے۔ انہوں نے ابوالعالیہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رح) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (لیس علی من نام ساجد وضوء حتی یضطجع فاذا اضطجع استرخت م فاصلہ جو شخص سجدے کی حالت میں سو جائے اس پر وضو لازم نہیں ہوتا جب تک لیٹ نہ جائے جب لیٹ جائے گا تو اس کے مفاصل یعنی جوڑ ڈھیلے پڑجائیں گے۔ - فصل - طہارت کے مزید مسائل - ارشاد باری تعالیٰ ہے (اذا قمتم الی الصلوۃ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ گزشتہ سطور میں ہمارے بیان کے مطابق آیت کے اندر پوشیدہ لفظ موجود ہے یعنی ” القیام من النوم “ یا ” ارادۃ القیام “ (نیند سے قیام، یا قیام کا ارادہ) یعنی نماز کے ارادے سے حدث کی حالت میں قیام وغیرہ۔ اس سے یہ بات واجب ہوتی ہے کہ حدث کی تمام صورتوں سے پاک ہونا نماز پر مقدم ہے۔ صلوۃ کا لفظ اسم جنس ہے اور یہ نماز کی تمام صورتوں کو شامل ہے خواہ وہ فرض نمازیں ہوں یا نوافل، اس لئے یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ طہارت نماز یک صحت کی ایک شرط قرار دی جائے خواہ وہ جس قسم کی بھی۔ کیونکہ آیت نے نماز کی کسی صورت میں بھی کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد سے اس کی تاکید بھی کی ہے چناچہ آپ نے فرمایا لا یقبل اللہ صلوۃ بیر طھور اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں کرتا) قول باری (فاغسلوا وجوھکم اپنے چہرے دھو لو) غسل یعنی دھونے کے ایجاب کا مقتضی ہے۔ غسل کسی جگہ سے پانی گزارنے کا نام ہے بشرطیکہ وہاں نجاست نہ لگی ہو۔ اگر نجاست لگی ہو تو اس کا غسل پانی یا اس جیسی کوئی اور چیز گزار کر اسے دور کرنے کا ذریعہ ہوگا۔- قول باری (فاغسلوا وجوھکمض کا مقصد کسی جگہ سے پانی گزارنا ہے کیونکہ اس جگہ پر ایسی نجاست نہیں لگی ہوتی جسے ور کرنا ضروری ہو۔ اس لئے دھونے والے پر اس جگہ کو ہاتھ سے ملنا ضروری نہیں ہے۔ اس پر یہ ضروری ہے کہ پانی اس طرح ڈالا جائے کہ اس کا گزر اس جگہ سے ہوجائے۔ اس مسئلے میں اختلاف یک تین صورتیں ہیں۔ امام مالک کا قول ہے کہ وضو کرنے والے پر اس جگہ سے پانی گزارنا اسے اپنے ہاتھ سے ملنا ضروری ہے۔ ورنہ یہ غسل نہیں کہلائے گا۔ ہمارے اصحاب اور عامتہ الفقاء کا یہ قول ہے کہ بس پانی بہا دیا جائے، ہاتھ سے ملنا ضروری نہیں ہے۔ ہشام نے امام ابو یوسف سے روایت کی ہے کہ اگر ہمارے اصحاب اور عامتہ الفقاء کا یہ قول ہے کہ بس پانی بہا دیا جائے، ہاتھ سے ملنا ضروری نہیں ہے۔ ہشام نے امام ابو یوسف سے روایت کی ہے کہ اگر وضو کی جگہ پر پانی اس طرح لگالے جیسے تیل لگایا جاتا ہے تو بھی کافی ہوگا۔- جو لوگ وضو کی جگہ پر پانی بہانے کے ساتھ اسے ہاتھ سے ملنا بھی ضروری سمجھتے ہیں ان کے قول کے بطلان کی دلیل یہ ہے کہ غسل کسی جگہ سے اسے ملے بغیر پانی گزارنے کا نام ہے۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اگر جسم پر نجاست لگی ہو اور اس پر مسلسل پانی بہا کر اسے دور کردیا جائے تو یہ غسل کہلائے گا خواہ ہاتھ سے اسے ملا نہ بھی گیا ہو۔ جب ملے بغیر پانی گزارنے کی وجہ سے اس پر غسل کا اطلاق ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے بھی (فاغسلوا) کے ذریعے غسل کا حکم دیا ہے تو وضو کرنے والا جب اس پر پانی بہا دے گا۔- آیت کے مقتضی اور اس کے موجب پر اس کا عمل ہوجائے گا اس لئے کہ جو شخص اس جگہ کو ہاتھ سے ملنے کی شرط لگائے گا وہ غسل یعنی دھونے کے مفہوم میں ایسی چیز کے اضافے کا سبب بنے گا جو اس کا جزو نہیں ہے جبکہ نص میں اضافہ جائز نہیں ہوتا الا یہ کہ اس جیسا کوئی نص موود ہو جس کے ذریعے اس نص کے نسخ کا جواز پیدا ہوسکتا ہو۔ نیز جب اس جگہ پر کوئی ایسی چیز نہ لگی ہو جسے دلک یعنی ملنے کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہو تو اس صورت میں اس جگہ کو ملنے اور اس پر ہاتھ پھیرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس عمل کی کوئی حیثیت ہے۔ اس صورت میں اگر اس جگہ پر صرف پانی بہا دے یا اس پر ہاتھ پھیر کر اسے ملے تو اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تمام اصول کے اندر طہارت کے لئے ایک جگہ کو ہاتھ سے ملنے کے عمل کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس لئے اس اختلافی مسئلے میں بھی اس کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی کہے کہ جب غسل یعنی دھونے کا حکم اس مقصد کے لئے نہیں ہے کہ وضو کی جگہ میں لگی ہوئی کوئی چیز دور کردی جائے تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ غسل ایک امر تعبدی ہے اس لئے غسل میں جب پانی گزارنا شرط ہے تو اس جگہ کو اپنے ہاتھ سے ملا بھی شرط ہونا چاہیے ورنہ پانی گزارنے کے عمل کی حیثیت ثابت ہوچکی ہے لیکن اس مقام کو دلک کرنے یعنی ہاتھ سے ملنے کے عمل کی کوئی حیثیت ثابت نہیں ہوئی بلکہ نجاست کے ازالے کے سلسلے میں دلک یعنی ہاتھ سے ملنے کا حکم ساقط الاعتبار ہے۔ اس لئے کہ اگر اس کا کوئی حکم ہوتا تو نجاست کے ازالے میں اس کا اعتبار اولیٰ ہوتا۔ اس لئے حدث کی طہارت کے اندر بھی اس کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ - جو لوگ ان اعضاء کے مسح کے جواز کے قائل ہیں جنہیں وضو کے اندر دھونے کا حکم دیا گیا ہے ان کا یہ قول ظاہر آیت کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں بعض اعضاء کے دھونے اور بعض کے مسح کی شرط عائد کی ہے۔ اس لئے جن اعضاء کے دھونے کا حکم ہے ان کا مسح کافی نہیں ہوگا کیونکہ غسل اس امر کا مقتضی ہے کہ اس جگہ پر پانی گزارا اور بہایا جائے۔ اگر یہ عمل نہیں وہ گا تو وہ شخص غاسل یعنی دھونے والا نہیں کہلائے گا۔ دوسری طرف مسح اس عمل کا مقتضی نہیں ہے وہ تو صرف پانی کے لگ جانے کے مفہوم کا مقتضی ہے پانی کا گزارنا اس کے مفہوم میں داخل نہیں ہے۔ اس لئے غسل کو ترک کر کے مسح کا قائل ہوجانا درست نہیں ہے۔ اگر غسل سے مراد مسح ہی ہوتا تو آیت میں ان دونوں کے درمیان فرق کرنے کا فائدہ باطل ہوجاتا۔ اگر ان دونوں کے درمیان فرق کرنا واجب ہے تو پھر یہ بھی واجب ہوگا کہ مسح غسل کے علاوہ کوئی اور چیز تسلیم کی جائے۔ اس لئے جب کوئی شخص وضو کرنے کے لئے جسم سے پانی لگا دے گا اور اسے دھوئے گا نہیں تو اس کا یہ عمل کافی نہیں ہوگا اس لئے کہ اس نے وہ کام سرانجام ہ ی نہیں دیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ وضو کے اندر سر کے مسح میں وضو کرنے والے کے لئے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ بالوں کی ظاہری سطح کا مسح کرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ غسل جنابت میں بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر غسل اور مسح دونوں کا مفہوم امیک ہوجائے تو غسل جنابت میں بالوں کا مسح ہی کافی ہوجائے۔ جس طرح وضو میں یہ کافی ہوتا ہے۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ غسل میں جس چیز کی شرط ہے مسح اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتا۔- اگر یہ کہا جائے کہ جب اعضائے وضو میں کوئی ایسی نجاست نہ لگی ہو جو دھونے کے ساتھ زائل ہوسکتی ہو تو اس صورت مقصود پانی لگانا ہوتا ہے اس لئے ان اعضاء کو دھونے اور انہیں پانی لگانے یعنی مسح کرنے میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ چیز تو ہمارے قول یک صحت پر دلالت کرتی ہے وہ اس طرح کہ جب ایسی کوئی نجاست موجود نہ ہو جس کی وجہ سے غسل یعنی دھونا واجب ہوتا ہے تو اس صورت میں غسل کا وجوب ایک تعبدی امر ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت کے اندر غسل اور مسح میں فرق کردیا ہے۔ اس لئے ہم پر اس امر کی پیروی اس کے مقتضی اور موجب کے مطابق لازم ہوگی اس لئے غسل کے عمل کو چھوڑ کر کوئی اور عمل اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ وضو کے اندر جن اعضا کو دھونے کا حکم ہے ان میں دھونے کے عمل کا ہمارے لئے امر تعبدی ہونا ایسا ہے جیسا اس عضو کے مسح کا جس کے متعلق مسح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لئے لفظ کے حکم کو ترک کر کے کسی اور حکم کو اختیار کرنے کے سلسلے میں نظر اور قیاس سے کام لینا جائز نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ وضو کرنے والے کے بازو کا کوئی حصہ خشک رہ جائے اور اس نے اس کا مسح کرلیا اور اس پر ہاتھ پھیرلیا تو وضو جائز ہوجاتا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ پورے عضو کا مسح اس طرح جائز ہے جس طرح اس کے ایک حصے کا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ خشک حصہ اگر یکجا ہو تو وہ مغسول یعنی دھوئے ہوئے حصے کے حکم میں ہوتا ہے لیکن اگر متصل اور یک جا نہ ہو تو اس کا مسح بالاجماع جائز نہیں ہوتا۔ اس کے اندر یہ دلالت موجود ہے کہ مسح غسل یعنی دھونے کے قائم مقام نہیں ہوتا، نیز معترض سے یہ کہا جائے گا کہ اگر وضو کے سلسلے میں ہم پر یہ چیز لازم آئے گی تو غسل جنابت کے سلسلے میں اس جیسی بات تم پر بھی لازم آ جائے گی۔ واللہ اعلم۔- نیت کے بغیر وضو - قول باری (فاغسلوا وجوھکم) غسل یعنی دھونے کے عمل کے وجود کے ساتھ نماز کے جواز کا مقتضی سے خواہ اس کیس اتھ نیت ہو یا نہ ہو۔ یہ اس لئے کہ غسل ایک اسم شرعی ہے جس کے معنی لغت کے لحاظ سے قابل فہم ہیں یعنی وضو کے اعضاء سے پانی گزارنا۔ یہ بات نیت سے عبادت نہیں ہے اس لئے جس نے اس میں نیت یک شرط عائد کردی اس نے گویا نص میں اضافہ کردیا ہے اور یہ بات دو وجوہ سے فاسد ہے۔- اول یہ کہ یہ آیت کے نسخ کی موجب ہے اس لئے کہ آیت نے تو طہارت کے لئے دھونے کے عمل کے وجود پر نماز کی ادائیگی مباح کردی ہے اور اس میں نیت کی کوئی شرط عائد نہیں کی ہے۔ اس لئے جو شخص وضو کی نیت کے بغیر نماز کی ممانعت کرے گا وہ آیت کو منسوخ کرنے کا موجب ہوگا اور یہ بات اسی صورت میں درست ہوسکتی ہے جب اس جیسا کوئی اور نص موجود ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نص کا اپنا حکم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ کوئی ایسا حکم ملحق کرنا جائز نہیں جس کا اس کے ساتھ تعلق نہ ہو جس طرح اس کے کسی جز کا ساقط کردینا جاء نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ نماز کی صحت میں نیت شرط ہے لیکن الفاظ میں اس کا ذکر ضروری نہیں ہے تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہب ات دو وجوہ کی بناء پر جائز ہے اول یہ کہ صلوۃ کا لفظ ایک مجمل اسم ہے جسے بیان اور تفصیل کی ضرورت ہے۔ یہ خود کسی حکم کا موجب نہیں بن سکتا جب تک اس کا بیان وارد نہ ہوجائے۔- چونکہ ایجاب نیت کے ساتھ بیان وارد ہوگیا اس لئے ہم نے نیت کو واجب قرار دیا لیکن وضو میں یہ بات نہیں ہے اس لئے کہ وہ ایک شرعی اسم ہے جس کے معنی ظاہر اور جس کی مراد واضح ہے اس لئے ہم جب بھی اس کے ساتھ ایسا مفہوم ملحق کردیں گے جو اس کے مدلول کا جز نہ ہوگا اس سے نص میں اضافہ لازم آئے گا اور نص میں اضافہ صرف اس جیسے نص کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ نماز میں نیت کے ایجاب پر سب کا اتفاق ہے۔ اگر صلوۃ کا اسم عموم ہوتا اور مجمل نہ ہوتا تو اس اتفاق کی بنا پر اس کے ساتھ نیت کا الحاق جائز ہوتا۔ اس لئے یہ ایسا مجمل ہے جس میں اجماع کی جہت سے نیت کا اثبات ایک نہایت ہی مناسب بات ہے۔- نیت کی فرضیت کے متعلق فقا کے اختلاف کا ذکر - امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ ہر ایسی طہارت جو پانی کے ذریعے حاصل کی جائے وہ نیت کے بغیر درست ہوجاتی ہے، لیکن تیمم نیت کے بغیر درست نہیں ہوتا سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ نیت کے بغیر وضو درست ہوجاتا ہے تیمم کی نیت کے متعلق اوزاعی سے روایت محفوظ نہیں ہے۔ امام مالک، لیث اور امام شافعی کا قول ہے کہ وضو اور غسل نیت کے بغیر دسرت نہیں ہوتے۔ اسی طرح تیمم کا بھی حکم ہے حسن بن صالح کا قول ہے کہ وضو اور تیمم دڈونوں نیت کے بغیر درست ہوجاتے ہیں۔ ابو جعفر طحاوی کا کہنا ہے حسن بن صالح کے علاوہ کسی اور سے نیت کے بغیر تیمم درست ہوجانے کا قول منقول نہیں ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سابقہ سطور میں نیت کے بغیر وضو کے جواز پر آیت کی دلالت کا ذکر کردیا ہے اور قول باری (ولا جنبا لا عابری سبیل حتیٰ تغتسلوا اور نہ جنابت کی حالت میں جب تک غسل نہ کرلو الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو) نیت کے بغیر غسل جنابت کے جواز پر دلالتکر رہا ہے۔ اسی طرح قول باری (ازا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم) بھی نیت کے بغیر وضو کے جواز پر دلال ہے کہ ہم سابق میں بیان کر آئے ہیں۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (وانزلنا من السماء ماء طھورا اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا) طہور کے معنی یعنی پاک کرنے والے کے ہیں اس لئے جب جگہ بھی پانی کا وجود ہوجائے اس میں پاک کرنے کی صفت کا پایا جانا ضروری ہے اگر ہم اس میں نیت یک شرط بھی عائد کردیں تو اس صورت میں ہم پانی سے اس کی اس صفت کو سلب کرلیں گے جس کے ساتھ اللہ نے اسے موصوف کیا ہے یعنی پاک کرنے کی صفت۔ اس لئے نیت کے ساتھ مشروط ہونے کی صورت میں پانی بذاتہ مطہر تو نہیں رہے گا البتہ کسی اور چیز کی شرکت سے اس میں تطہیر کی یہ صفت پیدا ہوگی جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کسی اور چیز کی شرکت کے بغیر اسے تطہیر کی صفت عطا کی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نیت کی شرط کا ایجاب اسے مطہر ہونے کی اس صفت سے خارج نہیں کرتا جس کے ساتھ اللہ نے اسے موصوف کیا ہے۔ مثلاً حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (جعلت فی الارض مسجدا و طہورا۔ میرے لئے ساری روئے زمین مسجد بنادی گئی ہے اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دی گئی ہے) اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (التراب طہور المسلم مالم یجد الماء۔ مسلمان کو جب تک پانی نہ ملے اس وقت تک مٹی اس کے لئے مطہر ہوتی ہے) مٹی کا مطہر ہونا تیمم میں نیت کو شرط قرار دینے سے مانع نہیں ہوا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مٹی کو طہور (پاک کرنے والا) بطور مجاز کہا گیا ہے اسے نماز کی اباحت کے سلسلے میں دراصل پانی کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نئی نہ تو حدث کا ازالہ کرتی ہے اور نہ ہی نجاست کو دور کرتی ہے جس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اسے بطور مجاز اور استعارہ طہور کہا گیا ہے۔ ایک اور جہت سے غور کریں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (التراب طہور المسلم) کے باوجود تیمم کے اندر نیت کے اثبات کو شرط قرار دینا درست ہے لیکن وضو میں ایسا کرنا درست نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قول باری (فتیمموا) نیت کی ایجاب کا مقتضی ہے اس لئے کہ لغت میں تیمم کے معنی قصد کے ہیں جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درج بالا ارشاد بطریق آحاد وارد ہوا ہے۔- اس لئے ضروری ہے کہ خبر کو آیت پر مرتب قرار دیا جائے یعنی آیت کو مقدم اور روایت کو موخر رکھا جائے اس لئے کہ خبر واحد کی بنا پر آیت کے حکم کو ترک کرنا کسی حالت میں بھی درست نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ آیت کی بنا پر خبر کے حکم میں اضافہ درست ہوتا ہے۔ قول باری (و انزلنا من السماء ماء طھورا) کی حیثیت اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ نص قرآنی میں اضافہ صرف اسی وقت درست ہوتا ہے جب کوئی اس جیسا نص موجود ہو جس کے ذریعے اس نص کا فسخ جائز ہوسکتا ہو۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (و ینزل علیکم من السماء ماء لیطہر کم بہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسمان سے پانی نازل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کر دیض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح دی کہ نیت ک بغیر تطہیر کا عمل وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ (فاغسلوا وجوھکم) تا آخر آیت طہارت کی فرضیت کا مقتضی ہے اس لئے جس صورت میں بھی فرضیت کا وجود ہوگا اس کی صحت کے لئے نیت کی شرط لازم ہوگی اس لئے کہ کسی فعل کا فرض کی صورت میں ادا ہونا صرف نیت کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے کیونکہ فرض کی ادائیگی کی صحت کے لئے دو نیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تو عبادت اور تقرب الٰہی کینیت اور دوسری فرض کی نیت۔- اسی لئے جب کوئی شخص نیت نہیں کرے گا تو فرضیت کی صحت نہیں پائی جائے گی اور اس صورت میں اس کا کیا ہوا فعل اس پر عائد شدہ فرض کے لئے کفایت نہیں کرے گا کیونکہ اس نے وہ کام نہیں کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جو بات معترض نے بیان کی ہے اس کا وجوب ان فرائض میں ہوتا ہے جو مقصود بالذات ہوتے ہیں اور کسی اور فرض کی ادائیگی کیلئے سبب نہیں وتے لیکن جو فرائض ایسے ہوں جنہیں کسی اور فرض کی صحت کے لئے شرط قرار دیا گیا ہو ان میں درود امر کی بنا پر معترض کی کہی ہوئی بات کا وجوب نہیں ہوتا۔ وجوب اس وقت ہوتا ہے جب کوئی دلالت موجود ہو جو نیت کو اس فعل کے ساتھ مقرون کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے جب طہارت کو نماز کی صحت کے لئے شرط قرار دیا اور طہارت فی نفسہ فرض نہیں ہے اس لئے کہ جس انسان پر نماز کی فرضیت نہیں اس پر طہارت کی فرضیت بھی نہیں ہوتی۔ مثلاً وہ مریض جس پر کئی دنوں تک بےہوشی کا دورہ پڑا رہے یا جس طرح حیض اور نفاس والی عورتیں ہوتی ہیں۔- دوسری طرف قول باری (اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم) ہے۔ نیز یہ ارشاد بھی (ولا جنبا الا عابری سبیل حتی تغسلوا) ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے طہارت کو ایک اور فرض کی ادائیگ کے لئے شرط کی حیثیت دے دی لیکن خود طہارت کو فی نفسہ مامور یعنی مفروض قرار نہیں دیا۔ اس لئے جو شخص طہارت کی صحت کے لئے نیت کے وجوب کا قائل ہے اسے اس کے سوا کوئی اور دلیل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو فرائض کے اندر شرطوں کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن خود فرائض کے ضمن میں نہیں آتیں۔ بلکہ ان میں اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ کسی اور ذات کے فعل کی نتائج ہوں۔ مثلاً وقت کو لے لیجئے۔ نماز کی ادائیگی کی صحت کے لئے نماز کے وقت کا ہونا شرط ہے لیکن وقت کے معاملے نمازی کا کوئی دخل نہیں۔- اسی طرح عقل و بلوع کا معاملہ ہے۔ یہ دونوں باتیں ایکشخص کے مکلف وہنے کی صحت کے لئے شرطیں ہیں۔ لیکن ان دونوں باتوں میں خود مکلف کا اپنا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ہمارے اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایسی چیز کے متعلق امر کا درود جسے کسی اور فعل کی صحت کے لئے شرط کی حیثیت دی گئی ہو، طاعت کے طور پر اس کے وقوع کا مقتضی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں نیت کی ایجاب کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (وثبابک فطھر اور اپنے کپڑے پاک رکھیں) میں اگرچہ نجاست سے کپڑوں کو صاف رکھنے کا حکم ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی تطہیر کے لئے نیت کی شرط کو واجب قرار نہیں دیا کیونکہ نجاست دور کرنا فی نفسہ مفروض نہیں ہے بلکہ یہ کسی اور فرض کی ادائیگی کے لئے شرط ہے۔- گویا آیت کے مفہوم کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ صرف پاک کپڑوں میں اور ستر عورت کے ساتھ نماز ادا کرو “۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ امام شافعی ہمارے ساتھ اس مسئلے میں متفق ہیں کہ اگر ایک شخص طہارت کی نیت کے ساتھ بارش میں بیٹھ جائے اور پانی اس کے تمام اعضاء تک پہنچ جائے تو یہ اس کے غسل کے لئے کافی ہوگا جبکہ اس غسل میں اپنا کوئی فعل شامل نہیں ہوگا۔ اگر یہ فی نفسہ مفروض ہوتا تو اس کا یہ غسل اس وقت تک درست نہ ہوتا جب وہ خود اس میں کردار ادا نہ کرتا یا کسی اور کو اس کا حکم دیتا اس لئے کہ فرض عمل کا یہی حکم ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تیمم فی نفسہ فرض شدہ یعنی مفروض عمل نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود نیت کے بغیر یہ درست نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی ک نیت کا ایجاب صرف ان فرائض تک محدود نہیں جو بالذات ہوں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات لازم نہیں آتی کیونکہ اس بات ک ہم نے حکم کے لئے علت کی حیثیت نہیں دی کہ معترض تیمم کی مثال دے کر ہم پر اس کا مناقضہ ثابت کر دے گا۔- ہم نے تو صرف یہ بیان کیا ہے کہ اگر اس چیز کے بارے میں جس کی خصوصیت ہم نے درج بالا سطور میں بیان کی ہے، امر کا درود وہ جائے تو نیت کے ایجاب کو اس میں شرط قرار دینے کا مقتضی نہیں ہوتا، البتہ اس امر ک سوا کوئی اور دلالت موجود ہو جچو نیت کو شرط قرار دینے کی مقتضی ہو تو اس صورت میں ایسا ہوسکتا ہے۔ اس وضاتح سے ہم نے صرف ان لوگوں کو استدلال ساقط کردیا ہے جچو نیت کے ایجاب کے سلسلے میں امر کے ورود کو حجت تسلیم کرتے ہیں۔ تیمم کے لفظ کے ضمن میں نیت کے ایجاب کی بات موجود ہے کیونکہ لغت میں تیمم قصد کے معنوں کے لئے اسم ہے۔ قول باری ہے (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون اور تم خبیث یعنی بری چیز کا قصد نہ کرو کہ اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنے لگو) یہاں (لا تیمموا) کے معنی لا تقصدوا، (قصد نہ کرو) کے ہیں۔ شاعر کا شعر ہے :- ولن یلبث العصران یوم ولیلۃ - اذا طلباء ان یدر کا ما تیمما - دن اور رات کے دو زمانے ہیں کہ جب کسی چیز کی طلب میں ہوں تو انہیں فوراً اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی ہوجاتی ہے۔- ایک اور شاعر کہتا ہے :- فان تک خیلی قد اصیب صمیمھا - فعمد علی عین تیممت مالکا - اگر میرے خالص اور اصل سوار میدان جنگ میں کھیت رہے تو مجھے اس کا کوئی غم نہیں کیونکہ میں نے قبیلہ ماک کے لوگوں کو ایک چشمے پر جان بوجھ کر گھیرے میں لینے کا قصد کیا تھا۔- اعشی کا شعر ہے :- تیممت قیسا و کم دونہ - من الارض من مھنہ ذی شزن - میں نے قیس تک پہنچنے کا قصد کیا لیکن درمیان میں کس قدر جنگل بیابان اور سخت زمین واقع ہے۔ شاعر نے تیممت کہہ کر قصد کے معنی لئے ہیں جبکہ آیت کے لفظ سے قصد کا ایجاب ثابت ہوتا ہے اور قصد اس نیت کو کہتے ہیں جو امر شدہ کام کو سرانجام دینے کے لئے کی جاتی ہے اس لئے ہم نے تیمم کی صحت کے لئے نیت کو شرط قرار دیا۔ تیمم میں نیت واجب کر کے آیت میں ایسے اضافے کو شامل کردیا جو اس میں موجود تو ہے لیکن مذکور نہیں ہے۔ جہاں تک غسل کا تعلق ہے اس کے اندر نیت کے معنی ادا کرنے والا کوئی مفہوم موجود نہیں ہے۔ اگر غسل میں نیت کو شرط قرار دے دیا جائے تو اس سے آیت کے مفہوم میں ایسا اضافہ لازم آتا ہے جو اس مفہوم میں شامل نہیں ہے اور یہ چیز درست نہیں ہوتی۔ وضو اور تیمم میں نیت کے لحاظ سے فرق کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ تیمم کبھی وضو کی جگہ کیا جاتا ہے اور کبھی غسل کی جگہ۔ دونوں حالتوں میں اس کی کیفیت یکساں ہوتی ہے۔ اس بنا پر نیت کی ضرورت پیش آئی تاکہ ان دونوں کے حکموں کے مابین خط امتیاز کھینچ دیا جائے اس لئے کہ نیت کی شرط ہوتی اس لئے ہے کہ افعال کے احکام کے مابین تمیز کیا جاسکے۔- جب تیمم کا حکم مختلف ہوتا ہے یعنی کبھی یہ وضو کی جگہ آتا ہے اور کبھی غسل کی جگہ تو اس میں نیت کی ضرورت پڑگئی تاکہ غسل کی جگہ آنے والے تیمم اور وضو کی جگہ آنے والے تیمم میں فرق کیا جاسکے۔ رہ گیا غسل تو اس کا حکم نہ تو اپنی ذات کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے سبب کے لحاظ سے اس لئے اس میں نیت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور نہ ہی غسل کی مختلف صورتوں کے درمیان امتیاز کرنے کی حاجت پیش آئی کیونکہ غسل کے حکم میں مقصود غسل کے عمل کو واقع کرنا ہوتا ہے۔ جس طرح کوئی یہ حکم دے کہ اپنے بدن یا کپڑوں سے نجاست دور کئے بغیر نماز نہ پڑھو “ یا ” ستر عورت کے بغیر نماز ادا نہ کرو “۔ ان فقروں میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو نیت کے ایجاب کی مقتضی ہو۔ گزشتہ سطور میں نیت کے سلسلے میں ہم نے جو گفتگو کی ہے اس پر سنت کی جہت سے وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے حضرت رفاعہ بن رافع اور حضرت ابوہریرہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق آپ نے ایک بدو کو نماز پڑھنا سکھایا تھا۔ نیز آپ نے فرمایا تھا (لاتتم صلوۃ امری حتی یضع الطور مواضعہ فیغسل وجھہ و یدیہ و یمسح براسہ و بغل رجلیہ۔ کسی شخص کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک وہ طہارت کو اس کے مقامات پر نہ رکھ دے۔ یعنی اپنا چہرہ اور دونوں بازو دھونے، سر کا مسح کرے اور دونوں پیر دھوئے) آپ کے ارشاد کے الفاظ (حتی یضع الطھور مواضعہ) اس پر دلالت کرتے ہیں کہ نیت کے بغیر وضو جائز ہے۔ اس لئے کہ مقامات طہور یعنی اعضائے وضو معلوم ہیں اور قرآن میں ان کا ذکر آچکا ہے گویا آپ نے یوں فرمایا : ” کسی شخص کی نماز مکمل نہیں ہوسکتی جب تک وہ ان اعضاء کو دھو نہ لے “۔ - اسی طرح آپ کا یہ ارشاد (فیغسل یدیہ و رجلیہ) بھی نیت کے بغیر وضو کے جواز کو واجب کرتا ہے اس لئے آپ نے اس میں نیت کی شرط نہیں لگائی۔ ظاہر الفاظ اس بات کا مقتضی ہے کہ جس طریقے سے بھی وہ ان اعضاء کو دھوئے گا اس کا وضو ہوجائے گا۔ ایک اور جہت سے بھی اس پر دلالت ہوتی ہے وہ یہ کہ اعرابی کا نماز اور طہارت کے احکام سے ناواقف ہونا بالکل واضح ہے۔ اگر طہارت میں نیت شرط ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اس کی اطلاع دیئے بغیر جانے نہ دیتے۔ یہ بات اس کی واضح ترین دلیل ہے کہ نیت طہارت کی شرائط اور اس کے فرائض میں داخل نہیں ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ قول بھی دلالت کرتا ہے جو آپ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) کو غسل جنابت کے سلسلے میں فرمایا تھا (انما یکفیک ان تحثی علی راسک ثلاث حثیات و علی سائر جسدک فاذا انت قد طھرت، تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے سر اور پورے جسم پر تین دفعہ پانی ڈالو، اس کے بعد تم پاک ہو جائو گی) اس ارشاد میں آپ نے نیت کی شرط نہیں لگائی۔- حضرت ابن عمر (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کے بارے میں بیان کیا ہے کہ آپ نے وضو کیا اور اعضائے وضو کو صرف ایک ایک مرتبہ دھویا اور پھر فرمایا (ہذا وضوء لا یقبل اللہ الصلوۃ الابہ یہ وہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں کرتا) آپ نے اس فعل کی طرف اشار کیا جس کا مشاہدہ ہوا تھا نیت کی طرف اشارہ نہیں کیا جو پوشیدہ ہوتی ہے اور اس کی طرف اشارہ کرنا درست بھی نہیں ہوتا۔ آپ نے اس وضو کے ساتھ نماز قبول ہونے کی خبر بھی دے دی اور فرمایا (ازواجدت الماء فامسسہ جلدک جب تمہیں انی ملے تو اسے اپنی جلد کے ساتھ لگائو) نیز فرمایا (ان تحت کل شعرۃ جنابہ نبلوا الشعر وانقوا البشرۃ، ہر بال کے نیچے ناپاکی ہوتی ہے اس لئے بالوں کو تر کرو اور چہرے کو صاف کرو) عقلی طور پر بھی غسل جنابت کی طرح وضو طہارت سے جو پانی کے ذریعے حاصل ہے۔ نیز یہ ایسا ذریعہ ہے جس سے ادائے صلوٰۃ کی صحت تک رسائی ہوتی ہے لیکن کسی اور چیز کا بدل نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ غسل جنابت، ستر عورت اور پا جگہ پر نماز کے لئے کھڑے ہونے کے مشابہ ہوگیا۔ اس پر تیمم لازم نہیں ہوتا کیونکہ یہ کسی اور چیز کا بدل ہوتا ہے۔ اگر نیت کی شرط کے قائلین قول باری (وما امرو الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین۔ انہیں صرف یہ حک مدیا گیا کہ وہ اللہ کے لئے فرمانبرداری کو خالص کر کے اس کی عبادت کریں) سے استدلال کریں جو ایجاب نیت کا مقتضی ہے کیونکہ ایجاب نیت اخلاص کا کم سے کم درجہ ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ پہلے یہ ثابت کیا جانا چاہیے کہ آیا وضو عبادت ہے یا اس کا تعلق دین سے ہے۔- کیونکہ یہ کہنا درست ہے کہ عبادات وہ امور ہیں جو تعبد ک اندر مقصود بالذات ہوتے ہیں لیکن ایسے امور جو مقصود بالذات نہیں ہوتے بلکہ کسی اور فرض ک یخاطر ان کا حکم دیا جاتا ہے، یا یہ شرط یا ذریعے کے طور پر سرانجامپاتے ہیں ان کو عبادت کا اسم شامل نہیں ہوتا۔ اگر طہارت کے اندر نیت کا تارک اللہ کعے لئے اخلاص کا اظہار کرنے والا نہ ہوتا تو نجاست کو دھونے اور ستر عورت کرنے ک اندر نیت کے تارک پر یہی حکم لگانا واجب ہوتا۔ جب یہ بات درست نہیں کہ ان کاموں کے اندرنیت کے تارک کو غیرمخلص قرار دیا جئاے کیونکہ اسے نماز کی خاطر ان کاموں کا حکم ملتا ہے تو پھر طہارت کے اندر نیت کے تارک کا غیرمخلص ہونا بھی درست نہیں ہونا چاہیے۔- نیز جو شخص اسلام کا عقیدہ اختیار کرلیتا ہے وہ عبادات بجا لانے میں اللہ کے لئے مخلص ہوتا ہے کیونکہ وہ نیت میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شامل نہیں کرتا۔ اس لئے کہ اخلاص کی ضد اشراک ہے۔ اس لئے جب وہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شامل نہیں کرتا تو وہ نفس عقیدہ ایمان کی بناء پر اپنی تمام عبادات میں اس قوت تک مخلص ہوتا ہے جب تک وہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک اور شامل نہیں کرتا۔ ان حضرات نے حور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد (افما الاعمال بالنیات، تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے) سے بھی استدلال کیا ہے لیکن اختلافی نکتہ پر اس حدیث سے استدلال درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ علم نیت پر موقوف ہوتا ہے جبکہ نیت نہ ہونے کے باوجود عمل کا وجود ہوجاتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے حقیقی معنوں کا ارادہ نہیں کیا بلکہ آپ نے اس سے پوشیدہ معنی مراد لئے ہیں جو الفاظ میں مذکور نہیں ہے۔ اس لئے اس حدیث کے عموم سے استدلال کرنے والے غفلت اور کوتاہی فہم کے شکار ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد میں عمل کا حکم مراد ہے یعنی عمل کے حکم کا دارومدار نیت پر ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث میں حکم کا لفظ موجود نہیں ہے اس لئے اس کے عموم سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ اگر ظاہر لفظ سے استدلال ترک کردیا جائے اور یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کا کسی فائدے سے خالی وہنا جائز نہیں ہوتا او ہمیں یہ معلوم ہے ک آپ نے اس سے نفس عمل مراد نہیں لیا ہے تو پھر یہ واجب ہے کہ اس سے عمل کا حکم مراد لیا جائے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ نے عمل کی فضیلت مراد لی ہو، عمل کا حکم مراد نہ لیا ہوو۔ جب دونوں باتوں کا احتمال پیدا ہوگیا تو اس صورت میں اس کے معنی مراد کے اثبات کے لئے کسی دوسرے ذریعے سے دلالت کی ضرورت ہوگی اور اس سے استدلال ساقط ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں دونوں معنی مراد ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ ان دونوں معنوں کا متحمل پوشیدہ لفظ حدیث کے الفاظ میں مذکور نہیں ہے جس یک بناء پر یہ کہا جاسکے کہ ان میں دونوں معنوں کا احتمال ہے۔ یہ بات تو صرف اس صورت میں کہی جاتی ہے جب الفاظ میں اس کا ذکر ہو اور اس میں کئی معانی کا احتمال ہو۔ اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ کا عموم ان تمام معانی کو شامل ہے۔ لیکن جس چیز کا الفاظ میں ذکر نہ ہو بلکہ وہ پوشیدہ ہو اور الفاظ سے اس کی تعبیر نہ کی گئی ہو اس صورت میں کسی کے لئے یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ میں اسے عموم پر محمول کرتا ہوں۔ اس لئے دونوں معنوں کا ارادہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر فضیلت سے مراد لی جائے تو حدیث کا مفہوم یہ ہوگا۔ ” عمل کی فضیلت کا دارومدار نیت پر ہے “۔ یہ بات عمل کے حکم کے اثبات کی مقتضی ہوگی تاکہ نیت نہ ہونے کی وجہ سے اس سے فضیلت کی نفی کرنا درست ہوجائے۔ اگر اس سے عمل کا حکم مراد یا جائے گا تو پھر عمل کی فضیلت مراد لینا جائز نہیں ہوگا جبکہ اصل ہی منتفی ہو۔ اس لئے ایک ہی لفظ سے یہ دونوں معنی مراد لینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس کی گنجائش نہیں ہے کہ ایک ہی لفظ اصل کی نفی اور کمال کی نفی دونوں کے معنی ادا کرے۔ نیز یہ بھی درست نہیں ہے کہ خبر احاد کے ذریے قرآن کے حکم میں اضافہ کردیا جائے جیسا کہ ہم اس کے پہلے وضاحت کر آئے ہیں یاد رہے کہ زیربحث حدیث خبر واحد ہے۔- فصل - وضو میں چہرے کی حد بندی - قول باری ہے (وجوھکم) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ چہرے کی حد کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ پیشانی کے بالوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک۔ ابوالحسن کرخی نے ابوسعید البروعی سے اس قول کی حکایت کی ہے۔ اس مفہوم کے متعلق ہمیں فقہاء کے مابین کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ ظاہر اسم بھی اسی مفہوم کا مقتضی ہے۔ کیونکہ چہرے کو وجہ کا اس لئے نام دیا گیا ہے کہ یہ کھلا ہوتا اور ایک چیز کے سامنے آتا اور اس کے بالمقابل ہوتا ہے۔ ہم نے چہرے کی جس حد بندی کا ذکر ہے اسی کے مطابق ایک انسان کا چہرہ دوسرے انسان کے سامنے آتا اور اس کے بالمقابل ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس حد بندی کی بنا پر دونوں کان بھی چہرے کا حصہ ہونا چاہئیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات ضروری نہیں ہے اس لئے کہ دونوں کان پگڑی اور ٹوپی وغیرہ کی جہ سے چھپ جاتے ہیں جس طرح انسان کا سینہ چھپا رہتا ہے حالانکہ جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو اپنے بالمقابل چیز یا انسان کے سامنے ہوتا ہے۔ ہم نے چہرے کے جس مفہوم کا ذکر کیا ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا واجب نہیں ہے کیونکہ منہ اور ناک کا اندرونی حصہ چہرے کا جز نہیں ہے اس لئے کہ وہ اس شخص کے سامنے نہیں ہوتے جو ان کے بالمقابل ہوتا ہے۔ جب آیت ان دونوں اندرونی حصوں کو دھونا واجب نہیں کرتی اور صرف ہمارے سامنے اور بالمقابل آنے والے حصے کے غسل کو واجب کرتی ہے تو جو لوگکلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے وجوب کے قائل ہیں وہ فرض کے حکم میں ایسی بات کا اضافہ کرتے ہیں جو اس میں سے نہیں ہے۔ ایسا اقدام جائز نہیں ہوتا کیونکہ اس سے اس کے فسخ کا وجوب لازم آتا ہے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (بالغ فی المضمضۃ والاستنشاق الا ان تکون صائما۔ اگر تم روزے دار نہ ہو تو اس میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے عمل میں خوب مبالغہ کرو) نیز اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونے کے بعد آپ کا یہ قول (ھذا وضوء لا یقبل اللہ الصلوۃ الا بہ یہ وہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ نماز قبول نہیں کرتا صمضمضہ اور استنشاق کی فرضیت کو لازم کردیتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس روایت میں یہ منقول ہے کہ آپ نے اعضائے وضو ایک ایک مرتبہ دھونے کے بعد فرمایا (نذا وضوء لا یقبل اللہ الصلوۃ الا بہ) اس میں یہ بات مذکور نہیں ہے کہ آپ نے کلی کی تھی اور ناک میں پانی ڈالا تھا۔ اس میں تو صرف آپ کے وضو کے عمل کا ذکر ہے اور بس۔ جبکہ وضو ان اعضاء کے دھونے کا نام ہے جو اللہ کی کتاب میں مذکور ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اس وضو میں مضمضہ اور استنشاق نہ کیا ہو۔ اس لئے کہ آپ کے ییش نظر یہ بات تھی کہ لوگوں کو فرض وضوء بتلا دیں جس کے سوا کوئی اور وضو کافی نہیں ہوتا۔ اس لئے اس حدیث کے اندر مضمضہ اور استنشاق کے وجوب پر جس کا معترض قائل ہے، کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مضمضہ اور استنشاق کا عمل ثابت بھی ہوجاتا تو بھی آیت کے حکم میں اضافہ کرنے کا جواز پیدا نہ ہوتا۔ اسی طرح آپ کے پہلے ارشاد (بالغ فی المضمضۃ والاستنشاق الا ان تکون صائما) کے ذریعے اضافہ کے اثبات کے سلسلے میں آیت کے مفہوم میں دخل اندازی جائز نہیں ہے کیونکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کے حکم میں اضافہ جائز نہیں ہوتا۔- میں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، انہیں ابو میسرہ محمد بن الحسن بن العلاء نے انہیں عبدالاعلیٰ نے، انہیں یحییٰ ان میمون بن عطاء نے، انہیں ابن جریج نے عطاء سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کی کیفیت دریافت کی تو آپ نے جواب دیا : ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پانی کا برتن لایا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اپنے ہاتھوں پر ایک مرتبہ پانی انڈیلا، ایک مرتبہ چہرہ مبارک دھویا، ایک مرتبہ دونوں بازو دھوئے، ایک مرتبہ سر کا مسح کیا اور ایک مرتبہ اپنے دونوں بازو دھوئے اور پھر فرمایا (نذا الوضوء الذی افترض اللہ علینا۔ یہ وہ وضو ہے جو اللہ نے ہم پر فرض کردیا ہے) پھر آپ نے دوبارہ اسی طرح کیا اور فرمایا (من ضاعف ضاعف اللہ لہ جچو شخص دو مرتبہ ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے دوگنا دے گا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری دفعہ یہی عمل لوٹایا اور فرمایا (نذا وضوء نا معشوالا بنیاء فمن زاد فقد اساء، یہ ہم گروہ انبیاء کا وضو ہے، جو شخص اس میں اضافہ کرے گا وہ برا کرے گا) حضرت عائشہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کی جو کیفیت بیان کی وہ مضمضہ اور استنشاق کے بغیر تھی، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرض وضو کے بیان کا ارادہ کیا تھا اگر مضمضہ اور استنشاق بھی فرض ہوتا تو آپ اسے بھی ضرور ادا کرتے۔- داڑھی دھونا اور اس کا خلال کرنا - قول باری ہے (فاغسلوا وجوھکم) ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ چہرہ انسان کے رو کو کہتے ہیں جو تمہارے سامنے آتا ہے۔ اس لئے یہ احتمال ہے کہ داڑھی بھی انسان کے چہرے کا ایک حصہ ہو۔ اس لئے کہ یہ بھی اس انسان کے سامنے آ جاتی ہے جو تمہارے بالمقابل کھڑا ہوتا ہے اور اکثر احوال میں ڈھکی ہوئی نہیں ہوتی ہے۔- جس طرح چہرے کا باقی حصہ ڈھکا ہوا نہیں ہوتا بلکہ کھلا ہوتا ہے۔ اسی طرح جب کسی انسان کی داڑھی آ جاتی ہے تو کہا جاتا ہے ” خرج وجھہ “ (اس کا چہرہ نکل آیا) اس بنا پر اس میں کوئی امتناع نہیں کہ داڑھی کو چہرے کا حصہ تسلیم کرلیا جائے۔ اس صورت میں درج بالا قول باری وضو میں اسے بھی دھونے کا مقتضی ہوگا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ داڑھی چہرے کا حصہ نہ قرار دیا جائے اور انسان کے بشرے یعنی ادھوڑی کا صرف وہی حصہ چہرہ کہلائے جو تمہارے سامنے کھلا ہو، ڈھکا ہوا نہ ہو۔ اس میں وہ بال داخل نہ ہوں جو داڑھی کی شکل میں انسان کے چہرے پر اگے ہوتے ہیں جنہیں اگر صاف کردیا جائے تو چہرے کا یہ حصہ سامنے آ جائے۔ جو لوگ پہلے قول کے قائل ہیں وہ اس کے جواب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ بشرے کے ظہور کے اس پر بالوں کا اگ آنا اس چہرے سے خارج نہیں کرتا۔ جس طرح سر کے بال سر کا حصہ ہوتے ہیں۔ قول باری ہے (وامسحوا برئوسکم اپنے سروں کا مسح کرو) اگر کوئی شخص سر کی چھڑی تک پانی پہنچائے بغیر سر کے بالوں کا مسح کرلے تو اس کا مسح مکمل ہوجائے گا اور سب کے نزدیک… وہ آیت کے مقتضی پر عمل پیرا تسلیم کرلیا جائے گا۔- اسی طرح چہرے پر بالوں کا اگ آنا اس حصے کو چہرے سے خارج نہیں کرتا، لیکن جو لوگ ڈاڑھی کو چہرے کا حصہ تسلیم نہیں کرتے وہ سر کے بال اور ڈاڑھی کے بال میں اس طرح فرق کرتے ہیں کہ سر کے بال بچے کی پیدائش ک وقت سے سر پر اگے ہوتے ہیں۔ اس لئے ان بالوں کو وہی حیثیت ہوگی جو ابرو کی ہے اور ان میں مشترک بات یہی ہے کہ ان میں سے ہر ایک اس عضو کا حصہ ہوتا ہے جس پر یہ اگا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس داڑھی کے بال پیدائش کے وقت موجود نہیں ہوتے بلکہ بعد میں اگتے ہیں۔ اس لئے یہ چہرے کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ وضو میں ڈاڑھی دھونے، اس کا مسح کرنے اور اس کے بالوں کا خلال کرنے کے متعلق سلف سے اختلاف رائے منقول ہے۔ اسرائیل نے جابر سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم مجاہد، عطاء اور شعبی کو اپنی اپنی داڑھیوں کا مسح کرتے یعنی ان پر پانی لگاتے دیکھا ہے۔ طائوس سے بھی یہی مروی ہے۔ حربز نے زید بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ابن ابی لیلیٰ کو وضو کرتے دیکھا ہے یعنی انہیں داڑھی کا خلال کرتے یعنی داڑھی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے نہیں دیکھا۔ اس موقع پر ابن ابی لیلیٰ کہا کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔- یونس کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر کو ڈاڑھی کا خلال کرتے نہیں دیکھا۔ ان تمام حضرات کے نزدیک گویا داڑھی دھونا واجب نہیں تھا۔ ابن جریج نے نافع سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) اپنی داڑھی کے بالوں کو ان کی جڑوں تک تر کرتے تھے اور اپنی انگلیاں بالوں کی جڑوں تک داخل کردیتے یہاں تک کہ داڑھی کے بالوں سے کثرت سے قطرے ٹپکتے رہتے۔ عبید بن عمیر، ابن سیرین، سعید بن جبیر سے بھی اسی قسم کی رویات منقول ہے۔ ان تمام حضرات سے داڑھی دھونے کی بات منقول ہے لیکن ان سے یہ بات ثابت نہیں کہ وہ اسے واجب بھی سمجھتے تھے جس طرح چہرے کا دھونا واجب یعنی ضروری ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) طہارت کے معاملے میں کچھ متشدد واقع ہوئے، وضو اور غسل میں آپ اپنی آنکھوں میں بھی پانی داخل کرتے اور ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے، لیکن آپ کا یہ علم استجاب کے طور پر تھا وجوب کے طور پر نہیں تھا۔ فقاء امصار کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ داڑھی کا خلال واجب نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے داڑھی کا خلال کیا تھا۔ حضرت انس (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داڑھی کا خلال کیا کرتے تھے اور یہ فرماتے کہ مجھے میرے رب نے اس کا حکم دیا ہے۔ حضرت عثمان (رض) اور حضرت عمار (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے وضو کے اندر داڑھی کا خلال کیا تھا۔ حسن نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ن ے ایک دفعہ، دو دفعہ یا تین دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو نہیں کرایا، یعنی میں نے کئی دفعہ آپ کو وضو کرایا ہے۔ میں نے ہر دفعہ آپ کو اپنی انگلیوں سے داڑھی کا خلال کرتے دیکھا ہے۔ آپ انگلیاں یوں جوڑ لیتے جس طرح کنگھی کے دندانے ہوتے ہیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کی کیفیت کے بیان میں بہت سی دوسری روایات بھی منقول ہیں۔ ان میں داڑھی کے بالوں کے خلال کا ذکر نہیں ہے۔ ایک حدیث عبد خیر نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے، اسی طرح عبداللہ بن زید اور ربیع بنت معوذ وغیرہم کی روایتیں ہیں ہر ایک نے یہی ذکر کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین مرتبہ چہرہ مبارک دھویا تھا۔ ان حضرات نے تخلیل لجیہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ آیت کی رو سے تخلیل لحیہ کا ایجاب یا اسے دھونے کو لازم قرار دینا درست نہیں ہے اس لئے کہ آیت نے صرف چہرہ دھونا لازم کیا ہے، اور چہرہ اس حصے کا نام ہے جو تمہارے سامنے ظاہر ہو اس لئے داڑھی کا اندرونی حصہ چہرہ نہیں کہلائے گا مثلاً منہ اور ناک کا اندرونی حصہ چونکہ چہرے میں داخل نہیں سمجھا جاتا اس لئے وضو میں وجوب کے طور پر ان دونوں کی تطہیر نہیں کی جاتی۔ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے داڑھی کا خلال یا اسے دھونے کی بات روایتوں سے ثابت ہے تو اسے استجاب پر محمول کیا جائے گا وجوب پر نہیں جس طرح کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا استجاب پر محمول ہے۔- اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آیت میں داڑھی دھونے یا اس کا خلال کرنے کے وجوب پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے تو ہمارے لئے خبر واحد کی بنا پر آیت کے معنوں میں اضافہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔ وہ تمام روایتیں اخبار آحاد کی صورت میں منقول ہوئی ہیں جن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی داڑھی کو خلال کرنے کا ذکر ہے ان کے ذریعے نص قرآنی میں اضافہ درست نہیں ہے۔- نیز خلال کرنا دھونے کے مترادف نہیں ہے اس لئے آیت کی بنا پر اس کا وجوب ثابت نہیں ہوگا۔ پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تخلیل لحیہ ثابت ہوگیا تو اس کیس اتھ یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ داڑھی دھونا واجب نہیں ہے اس لئے کہ اگر غسل لحیہ واجب ہوتا تو آپ دھونا چھوڑ کر خلال پر اکتفا نہ کرتے۔ تخلیل لجیہ اور مسح لحیہ کے مسئلے میں ہمارے اصحاب کے درمیان بھی اختلاف رائے ہے۔ المعلی نے امام ابو یوسف سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ سے وضو میں تخلیل لحیہ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ داڑھی کا خلال نہیں کرے گا۔ اس کے لئے بالوں کی سطح پر اپنا ہاتھ پھیرلینا کافی ہوگا۔ اس لئے کہ وضو کے مقامات صرف وہی ہیں جو ظاہر اور کھلے ہوں اور بالوں کا خلال وضو کے مواضع اور مقامات نہیں ہیں۔ ابن ابی لیلیٰ کا بھی یہی قول ہے لیکن امام یوسف کہتے ہیں کہ میں تو داڑھی کا خلال کرتا ہوں۔ بشر بن الولید نے امام ابو یوسف سے ان کے نوادر کے ضمن میں یہ روایت کی ہے کہ داڑھی کے ظاہری حصے ا مسح کیا جائے گا۔ خواہ وہ عریض کیوں نہ ہو۔ اگر وضو کرنے والے نے ایسا نہیں کیا اور نماز پڑھ لی تو نماز کا اعادہ کرے گا۔ ابن شجاع نے حسن سے اور انہوں ن زفر سے روایت کی ہے کہ جب کوئی شخص وضو میں چہرہ دھونے لگے تو اسے اپنی داڑھی پر سے بھی پانی گزار دینا چاہیے۔ اگر داڑھی کے تہائی یا چوتھائی حصے کو پانی لگ جائے تو کافی ہوجائے گا لیکن اگر اس سے کم مقدار کو پانی لگا ہو تو وضو جائز نہیں ہوگا۔- امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے اور حسن نے بھی یہی مسلک اختیار کیا ہے۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ وضو کرنے والا جب اپنا چہرہ دھو لے تو اگر داڑھی کے کسی حصے کو بھی پانی نہ لگائے اس کا وضو مکمل ہوجائے گا۔ ابن شجاع کا کہنا ہے کہ وضو کرنے والے پر جب داڑھی کا دھونا لازم نہیں ہے تو داڑھی اگنے کی ساری جگہ چہرے کا حصہ قرار پائے گی جس طرح سر کی حیثیت ہے کہ اس کا دھونا واجب نہیں ہوتا۔ اس لئے جس طرح سر کا مسح واجب ہے اسی طرح داڑھی کا مسح بھی واجب ہوگا۔ اور سر کے مسح کی طرح چوتھائی داڑھی کا مسح کافی ہوجائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ داڑھی یا تو چہرے کا حصہ ہوگی یا چہرے کا حصہ نہیں ہوگی۔ پہلی صورت میں اسے دھونا بھی اسی طرح واجب ہوگا جس طرح چہرے کی اس چمڑی کا جس پر بال اگے نہیں ہوتے۔ دوسری صورت میں آیت کے رو سے نہ اس کا دھونا ضروری ہوگا اور نہ ہی اس کا مسح لازم ہوگا۔ جب اسے نہ دھونے پر سب کا اتفاق ہوگیا تو یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ داڑھی چہرے کا حصہ نہیں ہے اس لئے کہ اگر وہ چہرے کا حصہ ہوتی تو اس کا دھونا واجب ہوتا۔ جب اسے دھونے کا حکم ساقط ہوگیا تو اس کے مسح کا ایجاب جائز نہیں ہوگا اس سے آیت میں اضافے کا اثبات لازم آتا ہے۔ جس طرح مضمضہ اور استنشاق کا ایجاب بھی اسی لئے درست نہیں ہے کہ اس سے بھی نص کتاب میں اضافہ لازم آتا ہے۔ اگر اس ا مسح واجب ہوتا تو اس سے ایک ہی عضو یعنی چہرے میں دھونے اور مسح کرنے کے دونوں افعال کا اثبات لازم آتا ہے۔ جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات اصول کے خلاف ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بعض اوقات ایک ہی عضو میں دھونے اور مسح کرنے کے افعال کا اجتماع ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو اور اس نے ہڈی جوڑنے کی خاطر اس حصے پر پلستر چڑھایا ہوا ہو جسے جبیرہ کہتے ہیں تو اس صورت میں جبیرہ پر مسح فرض ہوگا اور باقی حصے کا دھونا لازم ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ صورت ضرورت اور عذر کی بنا پر واجب ہوتی ہے جبکہ داڑھی کے اگے ہوئے بالوں کے لئے دھونے کا عمل ترک کر کے مسح کرنے کے سلسلے میں کوئی ضرورت یا عذر نہیں ہوتا۔ چہرہ ان تمام اعضاء کی طرح ہے جن کی طہارت اللہ تعالیٰ نے واجب کردی ہے۔ اس لئے اس میں بلاضرورت دھونے اور مسح کرنے کے افعال کا جمع ہوجانا جائز نہیں ہوگا۔- یہ چیز امام ابو یوسف کے اس قول کی مقتضی ہوگی جس میں کہا گیا ہے کہ داڑھی دھونے اور اسی پر مسح کرنے کی فرضیت ساقط ہے البتہ وضو کرتے وقت اس پر پانی گزارنا مستجب ہوگا۔ قول باری ہے (و ایدیکم الی المرافق اور ہاتھوں کو کہنیوں تک) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ید کے اسم کا اطلاق بازو پر کندھے سے ہوتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمار (رض) نے کندھے تک تیمم کیا اور فرمایا کہ ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کندھوں تک تیمم کیا تھا۔ اس لئے قول باری (فامسحوا بوجوھکم و ایدیکم منہ اپنے چہروں اور ہاتھوں کا پاک مٹی سے مسح کرو) لغت کی جہت سے کسی نے حضرت عمار (رض) کی اس بات پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ حضرت عمار (رض) خود اہل لغت تھے اور ان کے نزدیک ید کا عضو کندھے تک تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اسم ید اس عضو کو کندھے تک شامل ہے۔- جب اسم کے اطلاق کا یہ تقاضا تھا اور دوسری طرف تحدید کا ذکر ہوگیا اور کہنی کو اس کی انتہا قرار دیا گیا تو دو وجوہ کی بنا پر کہنی کا ذکر اس سے ماوراء حصے کی اسقاط پر محمول ہوگا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ لفظ کا عموم کہنی کو بھی شامل ہے اس لئے لفظ کو کہنیوں کے لئے استعمال کرنا واجب ہوگا کیونکہ اس کے سقوط کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ غایت بعض دفعہ مغیا میں داخل ہوتی ہے اور بعض دفعہ داخل نہیں ہوتی۔ جن مواقع پر غایت مغیا میں داخل ہے وہ مثلاً یہ ہیں (ولا تقربوھن حتی یطھرن جب تک وہ حیض سے پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جائو) اس میں ہم بستری کی اباحت کے لئے طہر کے وجود کو شرط قرار دیا۔ اس طرح غایت یعنی طہر کا وجود مغیا یعنی مقاربت کی ممانعت میں داخل ہوگیا۔ اسی طرح قول باری ہے۔ (حتیٰ تنکح زوجا غیرہ، جب تک وہ طلاق دینے والے شوہر کے سوا کسی اور سے نکاح نہ کرے) کسی اور سے نکاح کے وجود کو پہلے شوہر سے نکاح کی اباحت کیلئے شرط قرار دیا گیا۔ حرف حتی اور حرف الی دونوں غایت کا مفہوم ادا کرتے ہیں۔ جن مواقع پر غایت مغیا میں داخل نہیں ہوتی ان میں سے مثلاً ایک یہ ہے (ثم اتموالصیام الی اللیل پھر روزے کو رات تک پورا کرو) ظاہر ہے کہ رات روزے کے اوقات سے خارج ہے۔- آیت زیر بحث میں بھی صورت حال یہی ہے چونکہ اس عضو میں حدث کا ہنا یقینی امر ہے اس لئے اس کا ارتفاع کسی یقینی امر کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے اور وہ یقینی امر دونوں کہنیوں کا دھونا ہے اس لئے کہ کہنیوں کو غایت قرار دیا گیا ہے اور غایت کا معاملہ اسلحاظ سے مشکوک ہے آیا غایت مغیا میں داخل ہے یا نہیں۔ اس لئے حدث کے ارتفاع کو یقینی بنانے کے لئے کہنیوں کو دھونے کے حکم میں داخل قرار دیا جائے گا۔ حضرت جابر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جب آپ وضو کرتے ہوئے کہنیوں تک پہنچتے تو ان پر پانی پھیرتے۔ ہمارے نزدیک آپ کا یہ عمل وجوب کی بناء پر تھا۔ اس لئے کہ اس عمل کا ورود بیان کے طور پر ہوا ہے۔ کیونکہ قول باری (الی المرافق) میں دونوں احتمالات موجود تھے کہ یہ دھونے کے حکم میں داخل ہیں اور داخل نہیںھی ہیں اس بناء پر یہ مجمل بن گیا تھا اور اسے بیان و تفصیل کی ضرورت پیش آ گئی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فعل جس کے راوی حضرت جابر (رض) ہیں اس مجمل ک بیان کے طور پر وارد ہوا اس لئے اسے وجوب پر محمول کیا جائے گا۔- کہنیاں دھونے کے حکم میں داخل ہیں اس پر ہمارے تمام اصحاب کا اتفاق ہے۔ البتہ زفر اس بات کے قائل ہیں کہ یہ دھونے کے حکم میں داخل نہیں ہیں۔ ٹخنوں کے مسئلے میں بھی ہمارے بقیہ اصحاب سے زفر کا یہی اختلاف ہے۔ قول باری ہے (وامسحوا بروسکم اور اپنے سروں کا مسح کرو) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ سر کے مسح کے سلسلے میں فقہاء کے درمیان یہ اختلاف رائے ہے کہ آیا اس کے کتنے حصے کا مسح فرض ہے۔ ہمارے اصحاب سے اس کے متعلق دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت تو چوتھائی سر ہے اور دوسری روایت تین انگلیوں کی مقدار ہے۔ مسح کی ابتدا پیشانی کی طرف سے کی جائے گی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ سر کے پچھلے حصے سے مسح کی ابتدا کی جائے گی۔ اوزاعی اور یعث کا قول ہے کہ سر کے اگلے حصے سے مسح کیا جائے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ پورے سر کا مسح فرض ہے لیکن اگر تھوڑا سا حصہ رہ جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ سر کے بعض حصے کا مسح فرض ہے، انہوں نے اس بعض حصے کی تجدید نہیں کی۔ قول باری (وامسحوا برئوسکم) سر کے بعض حصے کے مسح کا مقتضی ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ حروف معانی کے افادہ کے لئے موضوع ہوتے ہیں اس لئے جب ہمارے لئے ان حروف کے ضمن میں موجود فوائد کے لئے ان کا استعمال ممکن ہو تو انہیں ان فوائد کے لئے استعمال کرنا واجب ہوتا ہے۔ اگر بعض مواقع میں صلہ کلام کے طور پر ان کا دخول جائز ہوتا ہے اور ان کے اپنے کوئی معانی نہیں ہوتے۔ مثلاً حرف ” من “ کو لے لیجئے۔ اس کے کئی معانی ہیں جن میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ تبعیض کے معنی دیتا ہے۔ بعض دفعہ یہ کلام میں داخل ہوتا ہے لیکن زائد ہوتا ہے یعنی اس کے اپنے کوئی معنی نہیں ہوتے اور کلام میں اس کا وجود اور عدم برابر ہوتا ہے لیکن جب تک اس کے کسی معنی کا فائدہ حاصل کے طور پر اس کا استعمال ممکن ہو، نیز یہ اپنے معنی موضوع لہ میں استعمال وہ سکے اس وقت تک ہمارے لئے اس کا الغاء یعنی اسے بےمعنی قرار دینا جائز نہیں ہوگا۔ اسی بناء پر ہم یہ کہتے ہیں کہ آیت میں حرف باء تبعیض کے معنی دیتا ہے اگرچہ یہ کہنا بھی درست ہے کہ آیت میں اس کا وجود ملغی یعنی کسی معنی کے بغیر ہے۔ یہ تبعیض کے معنی دیتا ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب آپ ” مسحت یدی یا لحائط (میں نے ہاتھ سے دیوار کا مسح کیا) کہتے ہیں تو اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ دیوار کے بعض حصے کا مسح ہوا ہے ساری دیوار کا نہیں۔ لیکن آپ نے اگر ” مسحت الحائط “ کہا ہوتا تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی کہ پوری دیوار کا مسح کیا گیا ہے۔ صرف بعض حصے کا نہیں۔ ان دونوں مثالوں سے کلام میں حرف باء داخل کرنے اور نہ داخل کرنے کا معنوی فرق واضح ہوگیا۔ عرف اور لغت کے لحاظ سے یہ فرق بالکل واضح ہے۔ جب بات اس طرح ہے تو ہمارے لئے قول باری (وامسحوا برئوسکم) کو سر کے بعض حصے کے مسح پر محمول کرنا واجب ہوگیا تاکہ ہم اس حرف کو اس سے حاصل ہونے والے معنوی فائدے کا پورا پورا دے سکیں اور اسے زائد یعنی بےفائدہ قرار نہ دیں کہ کلام میں اس کا دخول اور عدم دخول دونوں یکساں قرار پائے۔ حرف باء اگرچہ الصاق کے معنی ادا کرنے کے لئے کلام میں داخل ہوتا ہے مثلاً آپ کہتے ہیں کتبت بالقلم ص میں نے قلم سے لکھا) یا ” مررت بزید “ (میں زید کے پاس سے گزرا) لیکن الصاق کے معنی ادا کرنے کے لئے کلام میں اس کا دخول اس کے ساتھ ساتھ تبعیض کے معنی ادا کرنے کے منافی نہیں ہے۔- ہم دونوں میں اسے استعمال کرسکتے ہیں یعنی زیربحث آٰیت میں یہ حرف سر کے اس بعض حصے کے لئے الصاق کے معنی میں مستعمل ہوگا جس کی طہارت فرض کی گئی ہے۔ تبعیض کے معنی ادا کرنے پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے عمر بن علی بن مقدم نے اسماعیل بن حماد سے نقل کی ہے، انہوں نے اپنے والد حماد سے اور انہوں نے ابراہیم سے کہ قول باری (وامسحوا بروسکم کی رو سے اگر ایک شخص سر کے بعض حصے کا مسح کرلیتا ہے تو یہ اس کے لئے کافی ہوگا۔ ابراہیم نے مزید کہا کہ اگر آیت کے الفاظ وامسحوا رئوسکم ہوتے تو پھر سارے سر کا مسح لازم ہوجاتا۔ ابراہیم نے یہ کہہ کر دراصل یہ بات بتائی ہے کہ حرف باء تبعیض کے معنی ادا کر رہا ہے۔ ابراہیم اہل زبان تھے اس لئے اس بارے میں ان کی رائے قابل قبول ہے۔ آیت زیربحث میں حرف باء تبعیض کے معنی ادا کر رہا ہے اور یہی معنی مراد ہیں اس پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اگر سر کا کچھ حصہ مسح ہونے سے رہ جائے تو سب کے نزدیک مسح درست وہ جائے گا۔ اس حرف کو تبعیض کے معنوں میں استعمال کرنے کا اس کے سوا اور کوئی مفہوم نہیں ہے۔ ہمارے مخالف نے سر کے اکثر حصے کے مسح کو واجب قرار دے کر گویا اسے تبعیض کے معنوں میں استعمال کرلیا ہے اور اس سے وہ اپنا پہلو بچا نہیں سکا ہے۔ البتہ اس کا یہ دعویٰ ضرور ہے کہ مسح سے رہ جانے والا حصہ مقدار میں اسی قدر ہونا چاہیے جس کا وہ دعویدار ہے۔ جب سب کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ پورے سر کا مسح مراد نہیں ہے بلکہ بعض حصہ مراد ہے تو اب اس مقدار کو ثابت کرنے کے لئے جس کی ہمارے مخالف نے تحدید کی ہے کسی دلالت کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حرف باء اگر تبعیض کے معنی ادا کرتا تو یہ فقرہ درست نہ ہوتا ” مسحت براسی کلہ “ ص میں نے سارے سر کا مسح کیا) جس طرح یہ کہنا درست نہیں ہے ” مسحت ببعض راسی کلہ “ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے گزشتہ سطور میں یہ واضح کردیا ہے کہ اس حرف کے حقیقی معنی اور اس کا مقتضی اطلاق کی طورت میں تبعیض کا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کے ملغی یعنی بےفائدہ ہونے کا بھی احتمال موجود ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ” مسحت براسی کلہ “ تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس نے حرف باء یعنی ملغی مراد لیا ہے لیکن جب فقرے کی ساخت یہ نہ ہوگی تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ حرف باء یہاں اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے جس طرح حرف من تبعیض کے لئے ہوتا ہے یہی اس کے حقیقی معنی ہیں۔ لیکن بعض دفعہ یہ کلام میں صلہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور اس صورت میں ملغی ہوتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (مالکم من الہ غیرہ تمہارے لئے اس کے سوا اور کوئی الہ نہیں) نیز (یغفرلکم من ذنوبکم، تمہارے گناہ معاف کر دے گا) لیکن اس بنا پر یہ لازم نہیں آتا کہ ہم ہر مقام پر اسے کسی دلالت کے بغیر ملغی قرار دیں۔- سر کے ایک حصے کے مسح کے جواز پر، جیسا کہ ہمارا قول ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے روایت منقول ہے۔ ان میں حضرت ابن عمر (رض) بھی شامل ہیں۔ نافع نے ان سے رویات کی ہے کہ انہوں نے اپنے سر کے اگلے حصے کا مسح کیا تھا۔ حضرت عائشہ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ شعبی کا قول ہے کہ سر کے جس جانب بھی مسح کرلو کافی ہوجائے گا۔ ابراہیم نخعی نے بھی یہی کہا ہے۔ جو لوگ بعض حصے کے مسح کی فرضیت کے قائل ہیں ان کے قول کی صحت پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ابوالحسن عبید اللہ بن الحسین الکرخی نے سنائی ہے، انہیں ابراہیم الحربی نے، انہیں محمد بن الصباح نے، انہیں ہشیم نے، انہیں یونس نے ابن سیرین سے، انہیں عمرو بن وہب نے، ان کا قول ہے کہ میں نے حضرت مقیرہ بن شعبہ (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ دو باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں نے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں آپ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ قضائے حاجت کے لئے سواری سے اترے، پھر واپس ہو کر وضو کیا اور اپنی پیشانی اور عمامہ کے دونوں جانب سر کا مسح کیا۔- سلیمان التیمی نے بکر بن عبداللہ المزنی سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت منیرہ کے ایک بیٹے سے اور انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موزوں پر مسح کیا، اپنی پیشانی کا مسح کیا اور اپنا ہاتھ پگڑی پر رکھا یا یوں کہا کہ پگڑی کا مسح کیا۔ ہمیں عبید اللہ بن الحسین نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن سلیمان الحضرمی نے، انہیں کردوس بن ابی عبداللہ نے، انہیں المعلیٰ بن عبدالرحمن نے، انہیں عبدالحمید بن جعفر نے عطاء بن ابی رباح سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو فرمایا آپ نے اپنی پیشانی اور سر کے کناروں کے درمیان ایک دفعہ مسح کیا۔ درج بالا سطور میں ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے کتاب و سنت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ سر کے بعض حصے کا مسح فرض ہے۔ اگر یہ کا جائے کہ اس بات کا احتمال ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضرورت کے تحت پیشانی کے مسح پر اقتصار کیا ہو یا آپ نے حدث کی بناء پر یہ وضو نہ کیا ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات ضرورت کے تحت ہوتی تو صحابہ کرام اسے ضرور نقل کرتے جس طرح دوسری صورتیں آپ سے منقول ہیں۔ یہ کہنا کہ آپ نے حدث کی بنا پر یہ وضو نہیں کیا تھا ایک ساقط تاویل ہے۔ اس لئے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت میں یہ ذکر موجود ہے کہ آپ نے قضائے حاجت کے بعد وضو کیا تھا جس میں اپنی پیشانی کا مسح کیا تھا۔ اگر پیشانی کے مسح کے متعلق اس تاویل کی گنجائش ہوتی تو موزوں پر مسح کے سلسلے میں بھی اسی تاویل کی گنجائش ہوتی اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے ضرورت کے تحت موزوں پر مسح کیا تھا یا آپ کا یہ وضو حدث کی بنا پر نہیں تھا۔- (آیت ہذا ۔ آیت نمبر 6 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
(٦) جب نماز کے وقت تم بےوضو ہو تو اللہ تعالیٰ نے وضو کرنے کا طریقہ سکھلا دیا نیز اپنے پیروں کو بھی ٹخنوں سمیت دھوؤ اور غسل کی حاجت پر غسل کرلو،- یہ آیت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے بارے میں نازل ہوئی یعنی پانی کا استعمال نقصان دہ ہو یا زخم وغیرہ یا اس کے علاوہ پیشاب یا پاخانہ کی حاجت سے فارغ ہوا ہو یا ہم بستری کی ہو اور پھر پانی میسر نہ ہو سکے تو دو ضربوں کے ساتھ پاک مٹی سے تیمم کرلو وہ اللہ تمہیں تیمم کے ذریعے حدث اصغر (چھوٹی ناپاکی جس سے وضو ٹوٹ جائے جیسے پاخانہ، پیشاب کا آنا، خون اور ہوا کا نکلنا وغیرہ) اور حدث اکبر (بڑی ناپاکی جس کے بعد غسل کرنا واجب اور ضروری ہوجاتا ہے جیسے جنابت، احتلام، حیض وغیرہ (مترجم) سے پاک کرتا ہے اور تم پر اپنا انعام اس تیمم اور اجازت کے ذریعے تام کرتا ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے انعام اور اس کی سہولت عطا کرنے کا شکر ادا کرو۔- شان نزول : یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) نے بواسطہ عمرو بن حارث، عبدالرحمن بن قاسم (رض) ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے، فرماتی ہیں کہ میرا ایک ہار گرگیا اور اس وقت ہم مدینہ منورہ آرہے تھے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اونٹ سے اتر کر اپنا سر مبارک میری گود میں رکھ کر سوگئے۔- اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) آئے اور انہوں نے زور سے میرے ایک مکا مارا اور بولے تو نے ایک کی وجہ سے سب لوگوں کو روک دیا، اس کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوگئے اور صبح کی نماز کا وقت آیا تو پانی کی تلاش ہوئی مگر پانی نہ ملا۔- اس پر یہ آیت ” اذا قمتم “۔ تشکرون “ تک نازل ہوئی، اسیدان حضیر بولے ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر والو، تمہاری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اتنی بڑی آسانی دی۔ (سبحان اللہ)- اور طبرانی (رح) نے بواسطہ عباد بن عبداللہ بن زبیر (رض) حضرت عائشہ (رض) سے روایت نقل کی ہے، فرماتی ہیں کہ جب میرا ہار کا جو کچھ معاملہ ہونا تھا سو ہوا اور اصحاب افک نے جو موشگافیاں کرنی تھیں، سو انہوں نے کی میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دوسرے جہاد کے لیے روانہ ہوئی، وہاں بھی میرا ہار گرگیا۔ صحابہ کرام (رض) اس کی تلاش میں رک گئے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مجھے فرمایا اے لڑکی تو ہر ایک سفر میں لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے، تب اللہ تعالیٰ نے تیمم کی اجازت نازل فرمائی، پھر ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا تو تو برکت والی ہے (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )- (دو ضروری فوائد)- ١۔ امام بخاری (رح) نے اس حدیث کو عمر وبن حارث کی روایت سے نقل کیا اور اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ تیمم کی آیت جو اس روایت میں مذکور ہے وہ سورة مائدہ کی آیت ہے اور اکثر راویوں نے صرف اتنا بیان کیا ہے کہ تیمم کی آیت نازل ہوئی اور یہ نہیں بیان کیا کہ کون سی آیت نازل ہوئی، حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ یہ بہت مشکل چیز ہے میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں کیوں کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ حضرت عائشہ (رض) کا مقصد ان دونوں آیتوں میں سے کون سی آیت ہے اور ابن بطال فرماتے ہیں کہ یہ سورة نساء کی آیت اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سورة مائدہ کی آیت آیت وضو کے ساتھ مشہور ہے اور سورة نساء کی آیت میں وضو کا کوئی تذکرہ نہیں، اس بنا پر آیت تیمم کے ساتھ یہی آیت خاص ہے اور واحدی نے اسباب النزول میں اس حدیث کو سورة نساء کی آیت کے ماتحت بھی روایت کیا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امام بخاری جس طرف مائل ہوئے ہیں کہ یہ سورة مائدہ کی آیت ہے، وہ ہی چیز صحیح ہے کیونکہ روایت مذکور میں اس کی تصریح ہے۔- ٢۔ حدیث میں اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وضو اس آیت کے نازل ہونے سے قبل ہی فرض تھا اسی وجہ سے پانی کی عدم موجودگی میں صحابہ کرام (رض) نے اس آیت کے نزول کو زیادہ اہمیت دی اور حضرت ابوبکر (رض) حضرت عائشہ (رض) کو جو کچھ فرمایا سو ٹھیک ہے، ابن عبدالبر فرماتے ہیں، تمام اہل مغازی کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ جس وقت سے نماز فرض ہوئی ہے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی بھی نماز بغیر وضو کے نہیں پڑھی اور اس چیز کا کوئی بیوقوف ہی انکار کرسکتا ہے، اور اس کے باوجود کہ وضو پر پہلے ہی سے عمل تھا مگر آیت وضو کے نازل کرنے میں یہ حکمت ہے کہ وضو کی فرضیت بھی قرآن کریم میں تلاوت کی جائے۔- اور دیگر حضرات نے فرمایا کہ یہ بھی احتمال ہے کہ وضو کی فرضیت کے ساتھ آیت وضو پہلے نازل ہوچکی ہو پھر بقیہ آیت جس میں تیمم کا ذکر ہے وہ اس واقعہ میں نازل ہوئی ہو کہ پہلا ہی قول زیادہ صحیح ہے کیوں کہ وضو کی فرضیت نماز کی فرضیت کے ساتھ مکہ مکرمہ ہی میں فرض ہوچکی تھی اور یہ آیت مدنی ہے۔
آیت ٦ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصّلٰوۃِ ) - یعنی نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو۔- (وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ط) - یہاں پر واضح رہے کہ اَرْجُلَکُمْ اور اَرْجُلِکُمْ دونوں قراءتیں مستند ہیں ‘ لہٰذا اہل تشیّع اس کو مستقلاً ‘ اَرْجُلِکُمْپڑھتے ہیں اور ان کے نزدیک اس میں پاؤں پر مسح کا حکم ہے۔ چناچہ وہ (وَامْسَحُوْا بِرُءُ وْسِکُم وَاَرْجُلِکُمْ ) کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں : اور مسح کرلیا کرو اپنے سروں پر بھی اور اپنے پاؤں پر بھی۔ لیکن اہل سنت کے نزدیک یہ اَرْجُلَکُمہے اور اِلَی الْکَعْبَیْنِکے اضافے سے یہاں پاؤں کو دھونے کا حکم بالکل واضح ہوگیا ہے۔ اگر صرف مسح کرنا مطلوب ہوتا تو اس میں کوئی حد بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لہٰذا اِلَی الْکَعْبَیْن کی شرط سے یہ ٹکڑا (فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِق) کے بالکل مساوی ہوگیا ہے۔ جیسے ہاتھوں کا دھونا ہے کہنیوں تک ‘ ایسے ہی پاؤں کا دھونا ہے ٹخنوں تک۔ اس حکم میں وضو کے فرائض بیان ہوئے ہیں۔- (وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا ط) - یعنی پورے جسم کا غسل کرو۔ جنابت کی حالت میں نماز پڑھنا یا قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔- (وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضآی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ ) (اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآءِطِ ) - یہ استعارہ ہے قضائے حاجت کے لیے۔ عام طور پر لوگ قضائے حاجت کے لیے نشیبی جگہوں پر جاتے تھے۔ - (اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ ) (فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً ) (فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا ) - یعنی پاک مٹی سے تیمم کرلیا کرو۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :24 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منہ دھونے میں کلی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے ، بغیر اس کے منہ کے غسل کی تکمیل نہیں ہوتی ۔ اور کان چونکہ سر کا ایک حصہ ہیں اس لیے سر کے مسح میں کانوں کے اندرونی و بیرونی حصوں کا مسح بھی شامل ہے ۔ نیز وضو شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چاہییں تاکہ جن ہاتھوں سے آدمی وضو کر رہا ہو وہ خود پہلے پاک ہو جائیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :25 جنابت خواہ مباشرت سے لاحق ہوئی ہو یا خواب میں مادہ منویہ خارج ہونے کی وجہ سے ، دونوں صورتوں میں غسل واجب ہے ۔ اس حالت میں غسل کے بغیر نماز پڑھنا یا قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔ ( مزید تفصیلات کے لیےملاحظہ ہو سورہ نساء ، حواشی نمبر ٦۷ ، ٦۸ و ٦۹ ) ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :26 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء حاشیہ نمبر ٦۹ و ۷۰ ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :27 جس طرح پاکیزگی نفس ایک نعمت ہے اسی طرح پاکیزگی جسم بھی ایک نعمت ہے ۔ انسان پر اللہ کی نعمت اسی وقت مکمل ہو سکتی ہے جبکہ نفس و جسم دونوں کی طہارت و پاکیزگی کے لئے پوری ہدایت اسے مل جائے ۔
11: ’’ قضائے حاجت کی جگہ سے آنا‘‘ در حقیقت اس چھوٹی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے جس میں انسان پر نماز وغیرہ پڑھنے کے لیے صرف وضو واجب ہوتا ہے اور عورتوں سے ملاپ، اس بڑی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے جس کو جنابت کہتا ہے اور جس میں غسل واجب ہوتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ جب پانی میسر نہ ہو یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے اس کا استعمال ممکن نہ ہو توناپاکی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی دونوں صورتوں میں تیمم کی اجازت ہے اور دونوں صورتوں میں اسکا طریقہ ایک ہی ہے۔