Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تفسیر سورۃ ق جن سورتوں کو مفصل کی سورتیں کہا جاتا ہے ان میں سب سے پہلی سورت یہی ہے گو ایک قول یہ بھی ہے کہ مفصل کی سورتیں سورہ حجرات سے شروع ہوتی ہیں یہ بالکل بے اصل بات ہے علماء میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں مفصل کی سورتوں کی پہلی سورت یہی ہے اس کی دلیل ابو داؤد کی یہ حدیث ہے جو ( باب تحریب القران ) میں ہے حضرت اوس بن حذیفہ فرماتے ہیں وفد ثقیف میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت مغیرہ بن شعبہ کے ہاں ٹھہرے اور بنو مالک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبے میں ٹھہرایا ۔ فرماتے ہیں ہر رات عشاء کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آتے اور کھڑے کھڑے ہمیں اپنی باتیں سناتے یہاں تک کہ آپ کو دیر کی وجہ سے قدموں کو بدلنے کی ضرورت پڑتی کبھی اس قدم کھڑے ہوتے کبھی اس قدم پر عموما آپ ہم سے وہ واقعات بیان کرتے جو آپ کو اپنی قوم قریش سے سہنے پڑے تھے پھر فرماتے کوئی حرج نہیں ہم مکے میں کمزور تھے بےوقعت تھے پھر ہم مدینے میں آگئے اب ہم میں ان میں لڑائی ڈولوں کے مثل ہے کبھی ہم ان پر غالب کبھی وہ ہم پر غرض ہر رات یہ لطف صحبت رہا کرتا تھا ایک رات کو وقت ہو چکا اور آپ نہ آئے ۔ بہت دیر کے بعد تشریف لائے ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آج تو آپ کو بہت دیر ہو گئی آپ نے فرمایا ہاں قرآن شریف کا جو حصہ روزانہ پڑھا کرتا تھا آج اس وقت اسے پڑھا اور ادھورا چھوڑ کر آنے کو جی نہ چاہا ۔ حضرت اوس فرماتے ہیں میں نے صحابہ سے پوچھا کہ تم قرآن کے حصے کسی طرح کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا پہلی تین سورتوں کی ایک منزل پھر پانچ سورتوں کی ایک منزل ، پھر سات سورتوں کی ایک منزل ، پھر نو سورتوں کی ایک منزل پھر گیارہ سورتوں کی ایک منزل پھر تیرہ سورتوں کی ایک منزل اور مفصل کی سورتوں کی ایک منزل ۔ یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے پس پہلی چھ منزلوں کو کل اڑتالیس سورتیں ہوئیں پھر ان کے بعد مفصل کی تمام سورتوں کی ایک منزل تو انچاسویں سورت یہی سورہ قاف پڑتی ہے ۔ باقاعدہ گنتی سنئے ۔ پہلے منزل کی تین سورتیں سورہ بقرہ سورہ آل عمران اور سورہ نساء ہوئیں ۔ دوسری منزل کی پانچ سورتیں مائدہ انعام ، اعراف ، انفال اور برات ہوئیں ۔ تیسری منزل کی سات سورتیں یونس ، ہود ، یوسف ، رعد ، ابراہیم ، حجر ، اور نحل ہوئیں ۔ چوتھی منزل کی نو سورتیں سبحٰن ، کہف ، مریم ، طہ ، انبیاء ، حج ، مومنون ، نور اور فرقان ہوئیں ۔ پانچویں منزل کی گیارہ سورتیں شعراء ، نمل ، قصص ، عنکبوت ، روم ، لقمان ، الم سجدہ ، احزاب ، سبا ، فاطر ، اور ےیٰسین ہوئیں ۔ چھٹی منزل کی تیرہ سورتیں صافات ، ص ، زمر ، غافر ، حم السجدہ ، حم ، عسق ، زخرف ، دخان ، جاثیہ ، احقاف ، قتال ، فتح اور حجرات ہوئیں ۔ اب ساتویں منزل مفصل کی سورتیں باقی رہیں جو حجرات کے بعد کی سورت سے شروع ہوں گی اور وہ سورہ ق ہے ۔ اور یہی ہم نے کہا تھا فالحمد اللہ ۔ مسلم شریف میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت ابو واقد لیثی سے پوچھا کہ عید کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا پڑھتے تھے؟ آپ نے فرمایا سورہ ق اور سورہ آیت ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) ، مسلم میں ہے حضرت ام ہشام بنت حارثہ فرماتی ہیں کہ ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسال تک یا ایک سال کچھ ماہ تک ایک ہی دستور رہا میں نے سورہ ق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سن سن کر یاد کر لیا اس لئے کہ ہر جمعہ کے دن جب آپ لوگوں کو خطبہ سنانے کیلئے منبر پر آتے تو اس سورت کی تلاوت کرتے الغرض بڑے بڑے مجمع کے موقع پر جیسے عید ہے جمعہ ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سورت کی تلاوت کرتے کیونکہ اس میں ابتداء خلق کا مرنے کے بعد جینے کا اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا حساب کتاب کا ، جنت دوزخ کا ثواب عذاب اور رغبت و ڈراوے کا ذکر ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ نام : آغاز ہی کے حرف ق سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس کا افتتاح حرف ق سے ہوتا ہے ۔ زمانۂ نزول : کسی معتبر روایت سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ ٹھیک کس زمانہ میں نازل ہوئی ہے ، مگر مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکہ معظمہ کا دوسرا دور ہے جو نبوت کے تیسرے سال سے شروع ہو کر پانچویں سال تک رہا ۔ اس سورہ کی خصوصیات ہم سورہ انعام کے دیباچہ میں بیان کر چکے ہیں ۔ ان خصوصیات کے لحاظ سے اندازاً یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ سورہ پانچویں سال میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ کفار کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی ، مگر ابھی ظلم و ستم کا آغاز نہیں ہوا تھا ۔ موضوع اور مباحث : معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر عیدین کی نمازوں میں اس سورۃ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ ایک خاتون ام ہشام بن حارثہ ، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑوسن تھیں ، بیان کرتی ہیں کہ مجھے سورہ ق یاد ہی اسطرح ہوئی کہ میں جمعہ کے خطبوں میں اکثر آپ کی زبان مبارک سے اس کو سنتی تھی ۔ بعض اور روایت میں آیا ہے کہ فجر کی نماز میں بھی آپ بکثرت اس کو پڑھا کرتے تھے ۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں یہ ایک بڑی اہم سورۃ تھی ۔ اس لیے آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بار بار اس کے مضامین پہنچانے کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اس اہمیت کی وجہ سورۃ کو بغور پڑھنے سے بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے ۔ پوری سورۃ کا موضوع آخرت ہے ۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے جب مکہ معظمہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا تو لوگوں کو سب سے زیادہ اچنبھا آپ کی جس بات پر ہوا وہ یہ تھی کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا ۔ لوگ کہتے تھے یہ تو بالکل انہونی بات ہے ۔ عقل باور نہیں کرتی کہ ایسا ہو سکتا ہے ، آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہمارا ذرہ ذرہ زمین میں منتشر ہو چکا ہو تو ان پراگندہ اجزاء کو ہزارہا برس گزرنے کے بعد پھر اکٹھا کر کے ہمارا یہی جسم از سر نو بنا دیا جائے اور ہم زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تقریر نازل ہوئی ۔ اس میں بڑے مختصر طریقے سے چھوٹے چھوٹے فقروں میں ایک طرف آخرت کے امکان اور اس کے وقوع پر دلائل دیے گئے ہیں ، اور دوسری طرف لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ تم خواہ تعجب کرو ، یا بعید از عقل سمجھو ، یا جھٹلاؤ ، بہرحال اس سے حقیقت نہیں بدل سکتی حقیقت اور قطعی اٹل حقیقت یہ ہے کہ تمہارے جسم کا ایک ایک ذرہ جو زمین میں منتشر ہوتا ہے ، اس کے متعلق اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں گیا ہے اور کس حال میں کس جگہ موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ اس کے لیے کافی ہے کہ یہ تمام منتشر ذرات پھر جمع ہو جائیں اور تم کو اسی طرح دوبارہ بنا کھڑا کیا جائے جیسے پہلے بنایا گیا تھا ۔ اسی طرح تمہارا یہ خیال کہ تم یہاں شتر بے مہار بنا کر چھوڑ دیے گئے ہو اور کسی کے سامنے تمہیں جواب دہی نہیں کرنی ہے ، ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست خود بھی تمہارے ہر قول و فعل سے ، بلکہ تمہارے دل میں گزرنے والے خیالات تک سے واقف ہے ، اور اس کے فرشتے بھی تم میں سے ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے تمام حرکات و سکنات کا ریکارڈ محفوظ کر رہے ہیں ۔ جب وقت آئے گا تو ایک پکار پر تم بالکل اسی طرح نکل کھڑے ہو گے جس طرح بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی زمین سے نباتات کی کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں ۔ اس وقت یہ غفلت کا پردہ جو آج تمہاری عقل پر پڑا ہوا ہے ، تمہارے سامنے سے ہٹ جائے گا اور تم اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لو گے جس کا آج انکار کر رہے ہو ۔ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تم دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں تھے بلکہ ذمہ دار اور جواب دہ تھے ۔ جزا و سزا ، عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ جنہیں آج فسانہ عجائب سمجھ رہے ہو ، اس وقت یہ ساری چیزیں تمہاری مشہود حقیقتیں ہونگی ۔ حق سے عناد کی پاداش میں اسی جہنم کے اندر پھینکے جاؤ گے جسے آج عقل سے بعید سمجھتے ہو ، اور خدائے رحمان سے ڈر کر راہ راست کی طرف پلٹنے والے تمہاری آنکھوں کے سامنے اسی جنت میں جائیں گے جس کا ذکر سن کر آج تمہیں تعجب ہو رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ ق اس سورت کا اصل موضوع آخرت کا اثبات ہے، اسلام کے عقائد میں عقیدۂ آخرت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کے قول وفعل میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرتا ہے، اور اگر یہ عقیدہ دل میں پیوست ہوجائے تو وہ ہر وقت انسان کو اس بات کی یاد دلاتا رہتا ہے کہ اسے اپنے ہر کام کا اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہے، اور پھر یہ عقیدہ انسان کو گناہوں، جرائم اور ناانصافیوں سے دور رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لئے قرآن کریم نے آخرت کی زندگی کو یاد دلانے پر بہت زور دیا ہے، اور اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابۂ کرام ہر وقت آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کی فکر میں لگے رہتے تھے، اب جو مکی سورتیں آرہی ہیں، ان میں زیادہ تر اسی عقیدے کے دلائل اور قیامت کے حالات اور جنت اور دوزخ کی منظر کشی پر زور دیا گیا ہے، سورۂ ق کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بکثرت فجر اور جمعہ کی نمازوں میں اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے، سورت کے آغاز حروف مقطعات میں حرف ق سے کیا گیا ہے، جس کے معنی اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں، اسی حرف کے نام پر سورت کا نام رکھا گیا ہے۔