اہل کتاب کی موضوع روایتیں ق حروف ہجا سے ہے جو سورتوں کے اول میں آتے ہیں جیسے ص ، ن ، الم ، حم ، طس ، وغیرہ ہم نے ان کی پوری تشریح سورہ بقرہ کی تفسیر میں شروع میں کر دی ہے ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ قاف ایک پہاڑ ہے زمین کو گھیرے ہوئے ہے ، میں تو جانتا ہوں کہ دراصل یہ بنی اسرا ئیل کی خرافات میں سے ہے جنہیں بعض لوگوں نے لے لیا ۔ یہ سمجھ کر کہ یہ روایت لینا مباح ہے گو تصدیق تکذیب نہیں کر سکتے ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اور اس جیسی اور روایتیں تو بنی اسرائیل کے بد دینوں نے گھڑ لی ہوں گی تا کہ لوگوں پر دین کو خلط ملط کر دیں ، آپ خیال کیجئے کہ اس امت میں باوجودیکہ علماء کرام اور حافظان عظام کی بہت بڑی دیندار مخلص جماعت ہر زمانے میں موجود ہے تاہم بددینوں نے بہت تھوڑی مدت میں موضوع احادیث تک گھڑ لیں ۔ پس بنی اسرائیل جن پر مدتیں گزر چکیں جو حفظ سے عاری تھے جن میں نقادان فن موجود نہ تھے جو کلام اللہ کو اصلیت سے ہٹا دیا کرتے تھے جو شرابوں میں مخمور رہا کرتے تھے جو آیات اللہ کو بدل ڈالا کرتے تھے ان کا کیا ٹھیک ہے ؟ پس حدیث نے جن روایات کو ان سے لینا مباح رکھا ہے یہ وہ ہیں جو کم از کم عقل و فہم میں تو آ سکیں ، نہ وہ جو صریح خلاف عقل ہوں سنتے ہی ان کے باطل اور غلط ہونے کا فیصلہ عقل کر دیتی ہو اور اس کا جھوٹ ہونا اتنا واضح ہو کہ اس پر دلیل لانے کی ضرورت نہ پڑے ۔ پس مندرجہ بالا روایات بھی ایسی ہی ہے واللہ اعلم ۔ افسوس کہ بہت سلف وخلف نے اہل کتاب سے اس قسم کی حکایتیں قرآن مجید کی تفسیر میں وارد کر دی ہیں دراصل قرآن کریم ایسی بےسروپا باتوں کا کچھ محتاج نہیں ، فالحمد اللہ ، یہاں تک کہ امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابو حاتم رازی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی یہاں ایک عجیب و غریب اثر بہ روایت حضرت ابن عباس وارد کر دیا ہے جو ازروے سند ثابت نہیں ، اس میں ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے ایک سمندر پیدا کیا ہے جو اس ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہے اور اس سمندر کے پچھے ایک پہاڑ ہے جو اس کو روکے ہوئے ہے اس کا نام قاف ہے ، آسمان اور دنیا اسی پر اٹھا ہوا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ کے پچھے ایک زمین بنائی ہے جو اس زمین سے سات گنا بڑی ہے ، پھر اس کے پچھے ایک سمندر ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے پھر اس کے پچھے پہاڑ ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اسے بھی قاف کہتے ہیں دوسرا آسمان اسی پر بلند کیا ہوا ہے اسی طرح سات زمینیں ، سات سمندر ، سات پہاڑ اور سات آسمان گنوائے پھر یہ آیت پڑھی ، آیت ( وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27 ) 31- لقمان:27 ) اس اثر کی اسناد میں انقطاع ہے علی بن ابو طلحہ جو روایت حضرت ابن عباس سے کرتے ہیں اس میں ہے کہ ( ق ) اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں ( ق ) بھی مثل ( ص ، ن ، طس ، الم ) وغیرہ کے حروف ہجا میں سے ہے پس ان روایات سے بھی حضرت ابن عباس کا یہ فرمان ہونا اور بعید ہو جاتا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ کام کا فیصلہ کر دیا گیا ہے قسم اللہ کی اور ( ق ) کہہ کر باقی جملہ چھوڑ دیا گیا کہ یہ دلیل ہے محذوف پر جیسے شاعر کہتا ہے ۔ قلت لھا قفی فقالت ق لیکن یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ۔ اس لئے کہ محذوف پر دلالت کرنے والا کلام صاف ہونا چاہئے اور یہاں کونسا کلام ہے ؟ جس سے اتنے بڑے جملے کے محذوف ہونے کا پتہ چلے ۔ پھر اس کرم اور عظمت والے قرآن کی قسم کھائی جس کے آگے سے یا پچھے سے باطل نہیں آسکتا جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس قسم کا جواب کیا ہے ؟ اس میں بھی کئی قول ہیں ۔ امام ابن جریر نے تو بعض نحویوں سے نقل کیا ہے کہ اس کا جواب آیت ( قد علمنا ) پوری آیت تک ہے لیکن یہ بھی غور طلب ہے بلکہ جواب قسم کے بعد کا مضمون کلام ہے یعنی نبوت اور دو بارہ جی اٹھنے کا ثبوت اور تحقیق گو لفظوں سے قسم اس کا جواب نہیں بتاتی ہو لیکن قرآن میں جواب میں اکثر دو قسمیں موجود ہیں جیسے کہ سورہ ص کی تفسیر کے شروع میں گزر چکا ہے ، اسی طرح یہاں بھی ہے پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر تعجب ظاہر کیا ہے کہ انہی میں سے ایک انسان کیسے رسول بن گیا ؟ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ڼ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ Ą ) 10- یونس:2 ) ، یعنی کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی تاکہ تم لوگوں کو خبردار کر دے ، یعنی دراصل یہ کو تعجب کی چیز نہ تھی اللہ جسے چاہے اپنے فرشتوں میں سے اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور جسے چاہے انسانوں میں سے چن لیتا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے مرنے کے بعد جینے کو بھی تعجب کی نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ جب ہم مر جائیں گے اور ہمارے جسم کے اجزا جدا جدا ہو کر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی ہو جائیں گے اس کے بعد تو اسی ہئیت و ترکیب میں ہمارا دوبارہ جینا بالکل محال ہے اس کے جواب میں فرمان صادر ہوا کہ زمین ان کے جسموں کو جو کھا جاتی ہے اس سے بھی ہم غافل نہیں ہمیں معلوم ہے کہ ان کے ذرے کہاں گئے اور کس حالت میں کہاں ہیں ؟ ہمارے پاس کتاب ہے جو اس کی حافظ ہے ہمارا علم ان سب معلومات پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی کتاب میں محفوظ ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی ان کے گوشت چمڑے ہڈیاں اور بال جو کچھ زمین کھا جاتی ہے ہمارے علم میں ہے ۔ پھر پروردگار عالم انکے اس محال سمجھنے کی اصل وجہ بیان فرما رہا ہے کہ دراصل یہ حق کو جھٹلانے والے لوگ ہیں اور جو لوگ اپنے پاس حق کے آجانے کے بعد اس کا انکار کر دیں ان سے اچھی سمجھ ہی چھن جاتی ہے مریج کے معنی ہیں مختلف مضطرب ، منکر اور خلط ملط کے جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ Ďۙ ) 51- الذاريات:8 ) یعنی یقینا تم ایک جھگڑے کی بات میں پڑے ہوئے ہو ۔ نافرمانی وہی کرتا ہے جو بھلائی سے محروم کر دیا گیا ہے ۔
1۔ 1 اس کا جواب قسم محذوف ہے لَتُبْعَثنَّ (تم ضرور قیامت والے دن اٹھائے جاؤ گے) بعض کہتے ہیں اس کا جواب ما بعد کا مضمون کلام ہے جس میں نبوت اور معاد کا اثبات ہے (فتح القدیر و ابن کثیر)
[١] قرآن کی شان :۔ شان والا اس لحاظ سے ہے کہ دنیا میں کوئی کتاب اس کے مقابلہ میں پیش نہیں کی جاسکتی، نہ مضامین کے لحاظ سے، نہ اسرار و رموز کے لحاظ سے اور نہ کثیر الاشاعت ہونے کے لحاظ سے۔ پھر اس کی شان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں جتنا بھی غور کیا جائے، نئے سے نئے اسرار کھلتے جاتے ہیں اور ہر انسان خواہ وہ علمی لحاظ سے کس درجہ کا آدمی ہو اس سے ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔ نہ اس سے مبتدی بےنیاز ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی علامہ دہر۔
(١) ق : مفسر ابن کثیر نے فرمایا : ” ق “ ان حروف تہجی میں سے ہے جو سورتوں کی ابتدا میں مذکور ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” ص “ ، ” ن “ ، ” الم “ ، ” حم “ ، ” طس “ ، وغیرہ ۔ یہ مجاہد کا قول ہے۔ ہم سورة بقرہ کے شروع میں اس پر کلام کرچکے ہیں جسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ (ہماری اس تفسیر میں بھی سورة بقرہ کے شروع میں اس پر کلام گزر چکا ہے) بعض سلف سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا ” ق “ ایک پہاڑ ہے جو ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہے، اسے جبل قاف کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم) کہ یہ بنی اسرائیل کی خرافات سے ہے جو بعض لوگوں نے یہ سمجھ کرلے لی ہیں کہ بنی اسرائیل سے وہ روایات لینا جائز ہیں جنہیں ہم نہ سچا کہیں نہ جھوٹا۔ میرے نزدیک یہ اور اس جیسی دوسری باتیں بنی اسرائیل کے دشمن دین اور زندیق لوگوں کی گھڑی ہوئی ہیں، جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کے دلوں میں ان کے دین کے بارے میں شکوک پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ ہماری امت میں بڑے بڑے جلیل القدر علماء و حفاظ اور ائمہ کی موجودگی کے باوجود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھوٹی روایات گھڑ کر بیان کی گئی ہیں، حالانکہ کوئی زیادہ مدت بھی نہیں گزری۔ تو اتنی لمبی مدت میں بنی اسرائیل کا کیا حال ہوگا جن میں تنقید کرنے والے حفاظ بہت کم تھے، شرابیں پی جاتی تھیں اور ان کے علماء اللہ کے کلام اور اس کی آیات میں لفظی اور معنوی تحریف اور تدبیلی کیا کرتے تھے۔ شارع نے یہ کہہ کر ” حدتوا عن بنی اسرائیل ولا حرج “ (بنی اسرائیل سے بیان کرو اور کوئی حرج نہیں) صرف ان روایات کی اجازت دی ہے جنہیں عقل ممکن قرار دیتی ہو، رہی ہو باتیں جو عقلاً محال اور واضح طور پر باطل ہیں، وہ اس فرمان میں شامل نہیں ہے۔ “ (ابن کثیر)” حدتوا عن بنی اسرائیل ولا حرج “ کی تفسیر جو ابن حبان (رح) نے فرمائی ہے، اس تفسیر کے مقدمہ میں اسرائیلیات پر کلام میں ملاحظہ فرمائیں۔- اس کے بعد ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کے حوالے سے ایک روایت نقل فرما کر اس کی تردید کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کے پیچھے ایک سمندر پیدا فرمایا ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے، پھر اس کی پیچھے ایک پہاڑ پیدا فرمایا ہے جسے ” کوہ قاف “ کہا جاتا ہے، جس کے اوپر آسمان دنیا ہے۔ اسی طرح سات زمینیں ہیں جن میں ہر ایک کیپ یچھے ایک سمندر اور ایک کوہ قاف ہے۔ غرض لمبی روایت ہے جو عقل و نقل اور مشاہدے کے صریح خلاف ہے۔ اگر واقعی قاف کسی پہاڑ کا نام بھی ہوتا تو اسے ” ق “ کے بجائے ” قاف “ لکھا جاتا۔ معلوم ہوتا ہے مسلمانوں میں کوہ قاف اور اس کی پریوں کے افسانے ایسی ہی روایتوں سے رائج ہوئے ہیں اور کتب تفسیر میں نقل ہونے کی وجہ سے ملحد اور بےدین لوگوں کو اسلام اور قرآن و سنت پر اعتراض کا موقع مل گیا ہے، حالانکہ قرآن و سنت دونوں ایسی فضول باتوں سے پاک ہیں۔ غیر محتاط اور مکھی پر مکھی مارنے والے مفسرین کی باتوں کو لے کر اسلام پر اعتراض صرف بد باطن اور بدنیت لوگ ہی کرتے ہیں، اہل تحقیق کا یہ شیوہ نہیں۔- (٢) والقرآن المجید : قسم کسی بات کی تاکید کے لئے اٹھائی جاتی ہے، وہ تاکید یا تو اس چیز کی عظمت کی بنا پر ہوتی ہے جس کی قسم اٹھائی گئی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کے اسمائے حسنیٰ کی قسم ہے، یا قسم کے اس بات کی دلیل اور شاہد ہونے کی بنا پر ہوتی ہے جو قسم کے جواب میں آرہی ہو۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی قسم اس کے عظیم مجدو شرف کی بنا پر اٹھائی ہے اور اس بنا پر بھی کہ قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے کی دلیل ۔ اس کا جواب قسم محذوف ہے جو اگلی آیت :(بل عجبوآ ان جآء ھم منذر منھم فقال الکفرون ھذا شیء عجیب) سے سمجھ میں آرہا ہے۔ اگلی آیت میں پہلی بات جس پر کفار کے تعجب کا ذکر ہے، یہ ہے کہ ان کی طرف خود ان میں سے ایک پیغمبر کیسے مبعوث ہوگیا ؟ وہ تو کوئی فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ جواب قسم اس مفہوم کا جملہ ہوگا۔” انک رسول اللہ حقا و ما ردوا امرک بحجۃ ولا کذبوک ببرھان “ یعنی یہ عظیم الشان قرآن اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور کفار نے آپ کی نبوت کا انکار کسی دلیل یا جھت کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور کفار نے آپ کی نبوت کا انکار کسی دلیل یا حجت کی بنا پر نہیں کیا بلکہ محض اس تعجب کی بنا پر کیا ہے کہ ان کے پاس ان میں سے ایک ڈرانے والا کیسے آگیا ؟ سورة یٰسین میں اس قسم کا جواب محذوف محض اس تعجب کی بنا پر کیا ہے کہا ن کے پاس ان میں سے ایک ڈرانے والا کیسے آگیا ؟ سورة یٰسین میں اس قسم کا جواب محذوف نہیں بلکہ مذکور ہے، فرمایا :(یسیٰ ، والقرآن الحکیم، انک لمن المرسلین) (یٰسین : ١ تا ٣) ” یس۔ اس حکمت سے بھرے ہوئے قرآن کی قسم بلا شبہ تو یقینا بھیجے ہوئے لوگوں میں سے ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر کفار کے اس تعجب اور شبہے کا ذکر فرما کر اس کا رد فرمایا ہے۔ (دیکھیے بنی اسرائیل : ٩٤) سورة ص میں بھی ” والقرآن ذی الذکر “ کا جواب محذوف ہے جو اس سے اگلی آیت :(بل الذین کفروا فی عزۃ و شقاق) سے معلوم ہو رہا ہے۔
خلاصہ تفسیر - ق ( اس کے معنی اللہ کو معلوم ہیں) قسم ہے قرآن مجید کی (یعنی جس کو دوسری کتابوں پر فضیلت و شرف ہے کہ ہم نے آپ کو عذاب قیامت سے ڈرانے کے لئے بھیجا ہے مگر ان لوگوں نے نہ مانا) بلکہ ان کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی ( کی جنس) میں سے (یعنی انسانوں میں سے) ایک ڈرانے والا (پیغمبر) آ گیا (جس نے ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا) سو ( اس پر) کافر لوگ کہنے لگے کہ (اول تو خود) یہ (ایک) عجیب بات ہے (کہ بشر پیغمبر ہو، دوسرے پھر دعویٰ بھی عجیب بات کا کرے کہ دوبارہ زندہ ہوں گے بھلا) جب ہم مر گئے اور مٹی ہوگئے تو کیا دوبارہ زندہ ہوں گے یہ دوبارہ زندہ ہونا (امکان سے) بہت ہی بعید ہے (خلاصہ یہ ہے کہ اول تو وہ ہم جیسے انسان ہیں ان کو پیغمبری کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں، پھر وہ اپنے دعوے میں ایک محال چیز کا دعویٰ کرتے ہیں، کہ مرنے اور مٹی ہونے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جاویں گے، اس کے جواب میں حق تعالیٰ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا امکان ثابت کر کے ان کے محال کہنے کو رد فرماتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ دوبارہ زندہ ہونے کو تم جو غیر ممکن کہتے ہو اس کی دو وجہ ہو سکتی ہیں، یا تو یہ کہ جن چیزوں کے زندہ ہونے کو کہا گیا ہے ان میں زندہ ہونے کی صلاحیت ہی نہ ہو، یہ تو مشاہدہ سے غلط ہے، کیونکہ وہ اس وقت تمہارے سامنے زندہ موجود ہیں، اگر زندگی کی صلاحیت ہی نہ ہوتی تو اس وقت کیسے زندہ ہیں، دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فاعل یعنی اللہ تعالیٰ کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت اس لئے نہ ہو کہ جو اجزاء میت کے مٹی ہو کر منتشر ہوگئے وہ اس کو معلوم نہ ہوں کہ کہاں بکھرے ہیں، تو اس کے جواب میں فرمایا کہ ہمارے علم کی تو یہ شان ہے کہ) ہم ان کے ان اجزاء کو جانتے ہیں جن کو مٹی (کھاتی ہے اور) کم کرتی ہے اور (یہ نہیں کہ آج سے جانتے ہیں بلکہ ہمارا علم تو قدیم ہے، حتیٰ کہ ہم نے قبل و قوع ہی سب اشیاء کے سب حالات اپنے علم قدیم سے ایک کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھ دیئے تھے اور اب تک) ہمارے پاس (وہ) کتاب (یعنی لوح) محفوظ (موجود) ہے (جس میں ان اجزاء منتشر کا مکان اور وضع اور مقدار اور وصف سب کچھ ہے، سو اگر علم قدیم کسی کی سمجھ میں نہ آوے تو یوں ہی سمجھ لے کہ وہ دفتر جس میں سب کچھ ہے، حق تعالیٰ کے سامنے حاضر ہے مگر یہ لوگ پھر بھی بلاوجہ تعجب ہی میں ہیں اور صرف تعجب ہی نہیں) بلکہ سچی بات کو (جس میں مسئلہ نبوت اور آخرت کی دوبارہ زندگی بھی ہے) جبکہ وہ ان کو پہنچتی ہے جھٹلاتے ہیں، غرض یہ کہ وہ ایک متزلزل حالت میں ہیں (کہ کبھی تعجب ہے، کبھی تکذیب ہے، یہ درمیان میں بطور جملہ معترضہ کے تھا، آگے بیان ہے قدرت کا یعنی) کیا ان لوگوں ( کو ہماری قدرت کا علم نہیں ہے اور کیا انہوں) نے اپنے اوپر کی طرف آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو کیسا (اونچا اور بڑا) بنایا اور (ستاروں سے) اس کو آراستہ کیا اور اس میں (بوجہ مکمل استحکام کے) کوئی رخنہ تک نہیں (جیسا کہ اکثر تعمیرات سے زمانہ کے دراز ہونے کے بعد رخنہ پڑجایا کرتا ہے، یہ تو آسمان میں ہماری قدرت نمایاں ہے) اور زمین (میں یہ قدرت ظاہر ہے کہ اس) کو ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑوں کو جما دیا اور اس میں ہر قسم کی خوش نما چیزیں اگائیں جو ذریعہ دانائی اور بینائی کا (یعنی ہماری قدرت کی معرفت کا) ہر رجوع ہونے والے بندے کے لئے (یعنی ایسے شخص کے لئے جو مصنوعات کو اس نظر سے دیکھے کہ ان کو کس نے بنایا ہے) اور (ہماری قدرت اس سے ظاہر ہے کہ) ہم نے آسمان سے برکت والا پانی برسایا پھر اس سے بہت سے باغ اگائے اور کھیتی کا غلہ اور لمبی لمبی کجھور کے درخت جن کے گچھے خوب گندھے ہوئے ہوتے ہیں، بندوں کے رزق دینے کے لئے اور (دوسری نباتات مثل گھاس وغیرہ کے جمانے کے لئے بھی) ہم نے اس (بارش) کے ذریعہ سے مردہ زمین کو زندہ کیا (پس) اسی طرح (سمجھ لو کہ مردوں کا) زمین سے نکلنا ہوگا (کیونکہ قدرت ذاتیہ کے اعتبار سے تمام مقدورات برابر ہیں بلکہ جو ذات بڑی چیزوں پر قادر ہے اس کا چھوٹی چیزوں پر قادر ہونا اور زیادہ ظاہر ہے، اسی لئے آسمان و زمین کا یہاں ذکر کیا گیا، کہ ان کی تخلیق ایک مردہ کو دوبارہ زندہ کرنے سے بہت بڑی بات ہے کماقال تعالیٰ (آیت) لخلق السٰموٰت والارض اکبر) تو جب ان بڑے بڑے کاموں پر اللہ تعالیٰ کی قدرت ثابت ہوگئی تو مردہ کو زندہ کردینے پر کیوں نہ ہوگی، تو معلوم ہوا کہ مردوں کو زندہ کرنا محال نہیں، ممکن ہے اور زندہ کرنے والا فاعل مختار بڑی قدرت والا ہے، پھر اس میں تعجب یا تکذیب کی کیا بات ہے، آگے تکذیب کرنے والوں کو ڈرانے کے لئے پچھلی امتوں کے واقعات بتلا کر وعید کی گئی ہے کہ جس طرح یہ لوگ انکار قیامت سے رسول کی تکذیب کرتے ہیں اسی طرح) ان سے پہلے قوم نوح اور اصحاب الرس اور ثمود اور عاد اور فرعون اور قوم لوط اور اصحاب ایکہ اور قوم تبع تکذیب کرچکے ہیں (یعنی) سب نے پیغمبروں کو (یعنی اپنے اپنے پیغمبر کو توحید اور رسالت اور قیامت کے معاملہ میں) جھٹلایا سو میری وعید ( ان پر) محقق ہوگئی ( کہ ان سب پر غذاب نازل ہوا، اسی طرح ان مکذبین پر عذاب آوے گا، خواہ دنیا میں بھی یا صرف آخرت میں، وعید کے بعد پھر مضمون اول کی طرف دوسرے طور پر عود ہے کہ) کیا ہم پہلی بار کے پیدا کرنے میں تھک گئے ( کہ دوبارہ زندہ نہ کرسکیں، یعنی ایک مانع یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کام بھی ممکن ہو اور کرنے والے کو قدرت بھی پوری ہو، مگر کوئی عارضی مانع پیش آجائے جیسے کرنے والا تھک گیا ہو، اس لئے یہ کام نہیں کرسکا، اس آیت میں اس کی بھی نفی فرما دی کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کے عیوب سے پاک ہے اور وہ کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتا، نہ اس کو تکان ہونے کا کوئی امکان ہے، اس لئے قیامت میں دوبارہ زندہ ہونا دلائل سے ثابت ہوگیا اور یہ لوگ جو انکار کر رہے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ از سر نو پیدا کرنے کی طرف سے (محض بےدلیل) شبہ میں (پڑے ہوئے) ہیں (جو دلائل کے سامنے کسی طرح قابل التفات نہیں۔- معارف و مسائل - سورة ق کی خصوصیات :- سورة ق میں بیشتر مضامین آخرت اور قیامت اور مردوں کے زندہ ہونے اور حساب و کتاب سے متعلق ہیں اور یہی مناسبت ہے اس کو اس سے پہلی سورة حجرات سے کہ اس کے آخر میں انہی مضامین کا ذکر تھا۔- سورة ق کی ایک خاص اہمیت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ ام ہشام بنت حارثہ بن النعمان کہتی ہے کہ (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت قریب میرا مکان تھا) دو سال کے قریب ہمارا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تنور ( جس میں روٹی پکتی تھی) ایک ہی تھا، مجھے سورة ق پوری اس طرح حفظ ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سورت ہر جمعہ کو منبر پر خطبہ میں تلاوت فرماتے تھے (رواہ مسلم از قرطبی)- اور حضرت عمر بن خطاب نے ابو واقد لیثی سے دریافت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدین کی نمازوں میں کونسی سورت پڑھا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا : قۗ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ ، اور اقتربت الساعتہ اور حضرت جابر سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز میں بکثرت سورة ق تلاوت فرماتے تھے ، (یہ سورت خاصی بڑی ہے) مگر اس کے باوجود نماز ہلکی رہتی تھی (قرطبی) یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی تلاوت کا خاص اثر تھا کہ بڑی سے بڑی سورت اور طویل سے طویل نماز بھی پڑھنے والوں پر ہلکی رہتی تھی۔
قۗ ٠ ۣ ۚ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ ١ - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- مجد - الْمَجْدُ : السّعة في الکرم والجلال، وقوله في صفة القرآن : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ [ ق 1] - ( م ج د ) مجد - یمجد مجدا ومجا دۃ کے معنی کرم وشرف اور بزرگی میں وسعت اور پہنائی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ [ ق 1] قرآن مجید کی قسم ۔
(١۔ ٢) ق۔ یہ دنیا میں سبز رنگ کا پہاڑ کا اس کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور قسم ہے قرآن مجید کی۔ قریش سے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے تو اس پر ان لوگوں کو تعجب ہوا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ قسم کھا کر بیان کرتا ہے اور ان تعجب کرنے والوں میں ابی بن خلف، امیہ بن خلف، منبہ بن الحجاج اور نبیہ بن حجاج ہیں کہ ان لوگوں کو اس پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس ان کے خاندان میں سے ایک ڈرانے والا رسول ان کے پاس آیا۔
آیت ١ قٓ قف وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ ۔ ” ق ‘ قسم ہے عظیم الشان قرآن کی۔ “- قرآن کی تین سورتیں ایسی ہیں جن کے آغاز میں صرف ایک ایک حرفِ مقطعہ ہے۔ ان میں سورة قٓ کے علاوہ تیئسویں پارے کی سورة صٓ اور انتیسویں پارے کی سورة القلم (یا سورة نٓ) شامل ہیں۔ بہت سی دوسری سورتوں کے آغاز کی طرح اس سورت کے آغاز میں بھی قرآن مجید کی قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے ۔ بہرحال چونکہ سورة یٰسٓ کے آغاز میں قرآن حکیم کی قسم کا مقسم علیہ موجود ہے اس لیے اس قسم کا مقسم علیہ بھی وہی ہوگا ‘ یعنی اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ (یٰسٓ) ۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قسم ہے اس عظیم الشان قرآن کی ‘ بیشک آپ مرسلین میں سے ہیں۔ اس قسم کے فوراً بعد دوسری آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعارف انذارِ آخرت کے حوالے سے کرایا گیا ہے جو اس سورت کا مرکزی مضمون ہے۔
سورة قٓ حاشیہ نمبر :1 مجید کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ایک ، بلند مرتبہ ، با عظمت ، بزرگ اور صاحب عزت و شرف ۔ دوسرے ، کریم ، کثیر العطاء ، بہت نفع پہنچانے والا ۔ قرآن کے لیے یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال فرمایا گیا ہے ۔ قرآن اس لحاظ سے عظیم ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے مقابلے میں نہیں لائی جا سکتی ۔ اپنی زبان اور ادب کے لحاظ سے بھی وہ معجزہ ہے اور اپنی تعلیم اور حکمت کے لحاظ سے بھی معجزہ ۔ جس وقت وہ نازل ہوا تھا اس وقت بھی انسان اس کے مانند کلام بنا کر لانے سے عاجز تھے اور آج بھی عاجز ہیں ۔ اس کی کوئی بات کبھی کسی زمانے میں غلط ثابت نہیں کی جا سکی ہے نہ کی جا سکتی ۔ باطل نہ سامنے سے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ پیچھے سے حملہ آور ہو کر اسے شکست دے سکتا ہے ۔ اور اس لحاظ سے وہ کریم ہے کہ انسان جس قدر زیادہ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرے اسی قدر زیادہ وہ اس کو رہنمائی دیتا ہے اور اتنی زیادہ اس کی پیروی کرے اتنی ہی زیادہ اسے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ اس کے فوائد و منافع کی کوئی حد نہیں ہے جہاں جا کر انسان اس سے بے نیاز ہو سکتا ہو ، یا جہاں پہنچ کر اس کی نفع بخشی ختم ہو جاتی ہو ۔