9۔ 1 کٹنے والے غلے سے مراد وہ کھیتیاں مراد ہیں جن سے گندم مکڑی جوار باجرہ دالیں اور چاول وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کا ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔
[١١] بارش سے نباتات کی روئیدگی اور بعث بعد الموت :۔ جس زمین پر بارش ہوئی وہ بذات خود مٹی اور مردہ ہے اور جو پانی برسا وہ بھی بےجان تھا۔ تاہم برکت والا اس لحاظ سے تھا کہ اس نے زمین میں مل کر زمین کو مردہ سے زندہ بنادیا اور وہ اس قابل ہوگئی کہ وہ زندہ چیزیں اگائے۔ اس میں جو فصلیں اور غلے پیدا ہوئے وہ بھی زندہ تھے کیونکہ وہ بڑھتے اور پھلتے پھولتے تھے اور یہی زندگی کی علامت ہے۔ پھر کئی طرح کے درخت اور باغات اور بالخصوص کھجوروں کے اونچے اونچے بلند وبالا درخت پیدا کئے ان میں زندگی موجود تھی۔ پھر اس فصل اور ان باغات سے غلے اور میوے اور پھل حاصل ہوئے۔ اور یہ چیزیں بےجان تھیں۔ گویا اللہ نے مردہ چیز سے زندہ چیز کو اور زندہ چیز سے مردہ کو پھر پیدا کر دکھایا اور یہ عمل ہر وقت اور ہر آن جاری رہتا ہے۔
(١) ونزلنا من السمآء مآء مبرکاً :” مآء مبرکاً “ وہ اپنی جس میں بہت برکت یعنی خیر کثیر رکھی گئی ہے۔ یہاں باب مفاعلہ مشارکت کے لئے نہیں بلکہ مبالغے کے لئے ہے۔ جس پانی کو اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے اس کی خیر کی کثرت کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے۔ موت کے بعد زندگی کے اثبات کے لئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی چیزوں کی پیدائش کا ذکر کرنے کے بعد اب بارش کا اور اس کی برکت سے زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کا ذکر فرمایا۔ مقصود اس سے بھی موت کے بعد زندگی کا اثبات ہے، چناچہ آخر میں فرمایا :(کذلک الخروج) (ق : ١١)” اسی طرح (دوبارہ زندہ ہو کر) نکلنا ہے۔” آسمان سے پانی اتارنے کے لئے باب تفعیل ” نزلنا “ استعمال فرمایا جس میں تدریج ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بارش کے قطروں کے بجائے کروڑوں اربوں ٹن پانی دفعتاً گرا دے تو زمین پر کوئی چیز باقی ہی نہ رہے۔- (٢) فانبتتابہ جنت وحب الحصید :” خصد یحصد حصداً و حصادا “ (ن) کھیتی کاٹنا۔ (الحصید “ بمعنی (المحصود “ کاٹی ہوئی کھیتی۔ بارش سے پیدا ہونے والی چیزیں دو قسم کی ہیں، کچھ وہ جن کے درخت باقی رہتے ہیں اور ان کے پھل پھول، گوند، پتوں، ٹہنیوں اور لکڑی وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور کچھ وہ جنہیں کاٹ کر ان سے غلہ، دالیں، سبزیاں، ادویات اور بیشمار مفید چیزیں حاصل کی جاتی ہیں۔ یہاں خصوصاً پھل دار درختوں اور غلہ جات کا ذکر فرمایا، کیونکہ یہ دوسری اشیاء پر برتری رکھتے ہیں اور انسان اور اس کے پالتو جانوروں کی خوراک بنتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا :(متاعا لکم ولا تعامکم ) (النازعات : ٣٣)” تمہاری اور تمہارے چوپاؤں کی زندگی کے سامان کے لئے۔ “
وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِيْدِ ٩ ۙ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- حب ( دانه)- الحَبُّ والحَبَّة يقال في الحنطة والشعیر ونحوهما من المطعومات، والحبّ والحبّة في بزور الریاحین، قال اللہ تعالی: كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة 261] ، وقال : وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام 59] ، وقال تعالی: إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق 9] ، أي : الحنطة وما يجري مجراها ممّا يحصد، وفي الحدیث : «كما تنبت الحبّة في حمیل السیل» - ( ج ب ب ) الحب والحبۃ ( فتحہ حاء ) گندم ۔ جو وغیرہ مطعومات کے دانہ کو کہتے ہیں ۔ اور خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج کو حب وحبۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة 261]( ان کے دلوں ) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں ۔ وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام 59] اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] بیشک خدا ہی دانے اور گھٹلی کو پھاڑ کر ( ان سے درخت اگاتا ہے ۔ ) اور آیت کریمۃ ؛۔ فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق 9] اور اس باغ سے دلبستان اگائے اور اناج ۔ میں حب الحصید سے گندم وغیرہ مراد ہے جو کاٹا جاتا ہے اور حدیث میں ہے ۔ کما تنبت الحبۃ فی جمیل السیل ۔ جیسے گھاس پات کے بیج جو سیلاب کے بہاؤ میں آگ آتے ہیں ۔- حصد - أصل الحَصْد قطع الزرع، وزمن الحَصَاد والحِصَاد، کقولک : زمن الجداد والجداد، وقال تعالی: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام 141] ،- ( ح ص د ) الحصد والحصاد - کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں اور زمن الحصاد والحصاد یہ زمن من الجداد والجداد کی طرح ( بکسرہ حا وفتحہا ) دونوں طرح آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ آتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام 141] اور جس دن ( پھل توڑ و اور کھیتی ) کا نو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو ۔ میں وہ کھیتی مراد ہے جو اس کی صحیح وقت میں کاٹی گئی ہو ۔
(٩۔ ١٠) اور ہم نے آسمان سے اگانے والا اور فائدہ والا پانی برسایا جس میں ہر ایک چیز کی زندگی ہے اور پھر اس پانی سے بہت سے باغات اگائے اور کئی قسم کی کھیتیوں کا غلہ اور لمبی لمبی کھجور کے درخت جن کے گچھے خوب گوندھے ہوتے ہیں۔
آیت ٩ وَنَزَّلْـنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً مُّبٰـرَکًا ” اور ہم نے آسمان سے اتارا برکت والا پانی “- لفظ ” برکت “ میں کسی چیز کی خفتہ صلاحیت کو ترقی دینے کا مفہوم پایاجاتا ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی متعدد بار وضاحت ہوچکی ہے کہ بارش کا پانی زمین کی قوت نمو کو جلا بخشتا ہے اور اس کی روئیدگی کو اجاگر کرنے کا باعث بنتا ہے اور اسی پہلو سے یہ مبارک ہے ۔- فَـاَنْبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ ۔ ” تو ہم نے اگایا اس کے ذریعے سے باغات کو اور ان فصلوں کو جو کٹ جاتی ہیں۔ “ - الفاظ کی یہ ترتیب منطقی اور بہت خوبصورت ہے۔ جَنّٰت سے درختوں کے باغات مراد ہیں اور درختوں کو کاٹا نہیں جاتا ‘ صرف ان کے پھل اتارے جاتے ہیں ۔ دوسری طرف اناج کی فصل (جیسے گندم کی فصل) پودوں سمیت کاٹ لی جاتی ہے ‘ اس لیے اس کے لیے حَبَّ الْحَصِیْدِ کی ترکیب آئی ہے ۔