مہمان اور میزبان ؟ یہ واقعہ سورہ ہود اور سورہ حجر میں بھی گذر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے حضرت امام احمد بن حنبل اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے ۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے ( وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا 86 ) 4- النسآء:86 ) یعنی جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی ۔ پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا حضرت ابراہیم چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لئے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سا ہیں ۔ یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام تھے ۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا حضرت ابراہیم اب ان کے لئے کھانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور انکے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کئے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے ۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا ۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70ۭ ) 11-ھود:70 ) ، یعنی آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہوگئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لئے آئے ہیں آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ تمہارے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں حضرت یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہو گا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہوگئے ۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصًا تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہوگئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں ۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے ۔ تم جس عزت وکرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہو گا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے ۔ الحمد اللہ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے تفسیر محمدی کا چھبیسواں پارہ حم بھی ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے کلام پاک کا صحیح اور حقیقی مطلب سمجھائے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اے پروردگار علم جس طرح تو نے مجھ پر اپنا یہ فضل کیا ہے کہ اپنے کلام کی خدمت مجھ سے لی اسی طرح یہ بھی فضل کر کہ اسے قبول فرما اور میرے لئے باقیات صالحات میں اسے کر لے ۔ اور اس تفسیر کو میری تقصیر کی معافی کا سبب بنا دے اپنے تمام بندوں کو اس سے فائدہ پہنچا اور سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما ۔ آمین ۔
24۔ 1 ھَلْ استفہام کے لئے ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ ہے کہ اس قصے کا تجھے علم نہیں، بلکہ ہم تجھے وحی کے ذریعے سے مطلع کر رہے ہیں۔
[١٨] سیدنا ابراہیم کے ہاں فرشتوں کا سیدنا اسحٰق کی خوشخبری دینے کا ذکر پہلے سورة ہود کی آیت ٦٩ تا ٧٦، سورة حجر آیت ٥١ تا ٦٠ اور سورة عنکبوت کی آیت نمبر ٣١، ٣٢ میں گزر چکا ہے وہ حواشی بھی دیکھ لیے جائیں۔- [١٩] سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں فرشتوں کی آمد :۔ یہ معزز مہمان فرشتے تھے اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ تین فرشتے تھے۔ سیدنا جبرائیل، سیدنا میکائیل اور سیدنا اسرافیل جو انسانی شکلوں میں آئے تھے۔
(١) ھل اتک حدیث ضیف ابراہیم …: یہاں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے چند انبیاء کی مدد کا اور انہیں جھٹلانے والی اقوام پر آنے والے عذابوں کا ذکر فرمایا۔ ابراہیم اور لوط (علیہ السلام) کے واقعات اور ان کے تفسیری فوائد سورة ہود (٦٩ تا ٨٣) ، حجر (٥١ تا ٧٧) اور سورة عنکبوت (١٦ تا ٣٥) میں تفصیل سے گزر چکے ہیں۔ اس مقام سے تعلق رکھنے والی چند باتیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔- (٢) کیا تیرے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی ہے ؟ سوال سے مقصود اس واقعہ کی عظمت و شان اور اہمیت کا احساس دلاتا ہے اور یہ بھی کہ آپ کو اس بات کی خبر نہ تھی، یہ وہ ہیں جو وحی کے ذریعے سے آپ کو اس سے آگ اہ کر رہے ہیں۔- (٣) ” المکرمین “ (معزز) اس لئے فرمایا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ہاں معزز ہیں، جیسا کہ فرمایا :(بل عباد مکرمون) (الانبیائ : ٢٦)” بلکہ وہ بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے۔ “ اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی حکم ہے : (من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلیکرم صیف ٢) (بخاری، الادب، باب من کان یومن باللہ …:6 18)” جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ “
خلاصہ تفسیر - ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی حکایت آپ تک پہنچی ہے (معزز یا تو اس لئے کہا کہ وہ ملائکہ تھے جن کی شان میں ہے (آیت) بل عباد مکرمون۔ اور یا اس لئے کہا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی عادت کے موافق ان کا اکرام کیا تھا اور مہمان کہنا بنا بر ظاہری حالت کے ہے کہ بشکل انسان آئے تھے اور یہ قصہ اس وقت ہوا تھا) جبکہ وہ (مہمان) ان کے پاس آئے پھر ان کو سلام کیا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی ( جواب میں) کہا سلام ( اور کہنے لگے کہ) انجان لوگ ( معلوم ہوتے) ہیں (ظاہر تو یہی ہے کہ دل میں سوچا قرینہ اس کا یہ ہے کہ آگے جواب فرشتوں کا مذکور نہیں اور احتمال بعید یہ بھی ہے کہ بطور پوچھنے کے انہی سے کہہ دیا ہو کہ آپ لوگوں کو پہچانا نہیں اور انہوں نے جواب نہ دیا ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب کا انتظار نہ کیا ہو غرض یہ سلام و کلام ہو کر) پھر اپنے گھر کی طرف چلے اور ایک فربہ بچھڑا (تلا ہوا لقولہ تعالیٰ (آیت) بعجل حنیذ) لائے اور اس کو ان کے پاس (یعنی سامنے) لا کر رکھا (چونکہ وہ فرشتے تھے، کیوں کھاتے اس وقت ابراہیم (علیہ السلام) کو شبہ ہوا اور) کہنے لگے کہ آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں ( جب پھر بھی نہ کھایا) تو ان سے دل میں خوف زدہ ہوئی ( کہ یہ لوگ کہیں مخالفین اور اعدا میں سے نہ ہوں، کما مر فی سورة ہود) انہوں نے کہا کہ تم ڈرو مت ( ہم آدمی نہیں ہیں فرشتے ہیں) اور ( یہ کہہ کر) ان کو ایک فرزند کی بشارت دی جو بڑا عالم (یعنی نبی) ہوگا، کیونکہ مخلوق میں سب سے زیادہ علم انبیاء کو ہوتا ہے اور مراد اس سے اسحاق (علیہ السلام) ہیں، یہ گفتگو ان سے ہو رہی تھی کہ اتنے میں ان کی بی بی (حضرت سارہ جو کہیں کھڑی سن رہی تھیں لقولہ تعالیٰ (آیت) وامراتہ قائمة۔ اولاد کی خبر سن کر) بولتی پکارتی آئیں پھر ( جب فرشتوں نے ان کو بھی یہ خبر سنائی لقولہ تعالیٰ (آیت) فبشرناہا باسحق تو تعجب سے) ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہنے لگیں کہ (اول تو میں) بڑھیا ( پھر) بانجھ ( اس وقت بچہ پیدا ہونا بھی عجیب بات ہے) فرشتے کہنے لگے کہ (تعجب مت کرو لقولہ تعالیٰ (آیت) اتعجبین) تمہارے پروردگار نے ایسا ہی فرمایا ہے (اور) کچھ شک نہیں کہ وہ بڑا حکمت والا بڑا جاننے والا ہے (یعنی گو فی نفسہ یہ بات تعجب کی ہے مگر تم کہ خاندان نبوت میں رہتی ہو اور علم و فہم سے مشرف ہو، یہ معلوم کر کے کہ خدا کا ارشاد ہے تعجب نہ رہنا چاہئے) ابراہیم (علیہ السلام) کو فراست نبوت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علاوہ بشارت کے ان کے آنے سے اور بھی کچھ مقصود ہے تو ان سے کہنے لگے (کہ) اچھا تو (یہ بتلاؤ کہ) تم کو بڑی مہم کیا درپیش ہے، اے فرشتو فرشتوں نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم (یعنی قوم لوط) کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم ان پر کنکر کے پتھر برسائیں جن پر آپ کے رب کے پاس ( یعنی عالم غیب میں) خاص نشان بھی ہے ( جس کا بیان سورة ہود میں ہوا ہے اور وہ) حد سے گزرنے والوں کے لئے ( ہیں، آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب ان بستیوں پر عذاب کا وقت قریب آیا) تو ہم نے جتنے ایمان دار تھے سب کو وہاں سے علیحدہ کردیا، سو بجز مسلمانوں کے ایک گھر کے اور کوئی گھر (مسلمانوں کا) ہم نے نہیں پایا ، (یہ کنایہ ہے کہ وہاں کوئی اور گھر مسلمانوں کا تھا ہی نہیں، کیونکہ جس چیز کا وجود اللہ کے علم میں نہ ہو وہ موجودہ ہو ہی نہیں سکتی) اور ہم نے اس واقعہ میں ( ہمیشہ کے واسطے) ایسے لوگوں کے لئے ایک عبرت رہنے دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں اور ( آگے موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ سنو کہ) موسیٰ ( علیہ السلام) کے قصہ میں بھی عبرت ہے جب کہ ہم نے ان کو فرعون کے پاس ایک کھلی ہوئی دلیل (یعنی معجزہ) دے کر بھیجا سو اس نے مع اپنے ارکان سلطنت کے سرتابی کی اور کہنے لگا کہ یہ ساحر یا مجنون ہیں سو ہم نے اس کو اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا (یعنی غرق کردیا) اور اس نے کام ہی ملامت کا کیا تھا اور ( آگے عاد کا قصہ سنو کہ) عاد کے قصہ میں بھی عبرت ہے جب کہ ہم نے ان پر نامبارک آندھی بھیجی جس چیز پر گزرتی تھی (یعنی ان اشیاء میں سے کہ جن کے اہلاک کا حکم تھا جس پر گزرتی تھی) اس کو ایسا کر چھوڑتی تھی جیسے کوئی چیز گل کر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے اور ( آگے ثمود کا قصہ سنو) ثمود کے قصہ میں بھی عبرت ہے جبکہ ان سے کہا گیا (یعنی صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ) اور تھوڑے دنوں چین کرلو (یعنی کفر سے باز نہیں آؤ گے تو عبد چندے ہلاک ہوگئے) سو ( اس ڈرانے پر بھی) ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی، سو ان کو عذاب نے آ لیا اور وہ (اس عذاب کے آثار کو) دیکھ رہے تھے (یعنی یہ عذاب کھلے طور پر آیا) سو نہ تو کھڑے ہی ہو سکے، ( بلکہ اوندھے منہ گر گئے لقولہ تعالیٰ جاثمین) اور نہ ( ہم سے) بدلہ لے سکے اور ان سے پہلے قوم نوح کا یہی حال ہوچکا تھا (یعنی اس سبب سے کہ) وہ بڑے نافرمان لوگ تھے ( ان کو بھی ہلاک کیا تھا)
ہَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ ضَيْفِ اِبْرٰہِيْمَ الْمُكْرَمِيْنَ ٢٤ ۘ- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : أتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - ضيف - والضَّيْفُ : من مال إليك نازلا بك، وصارت الضِّيَافَةُ متعارفة في القری، وأصل الضَّيْفِ مصدرٌ ، ولذلک استوی فيه الواحد والجمع في عامّة کلامهم، وقد يجمع فيقال : أَضْيَافٌ ، وضُيُوفٌ ، وضِيفَانٌ. قال تعالی: ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر 51] - ( ض ی ف ) الضیف - الضیف ۔ اصل میں اسے کہتے ہیں کو تمہارے پاس ٹھہرنے کے لئے تمہاری طرف مائل ہو مگر عرف میں ضیافت مہمان نوازی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اصل میں چونکہ یہ مصدر ہے اس لئے عام طور پر واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی اس کی جمع اضیاف وضیوف وضیفاف بھی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر 51] بھلا تمہارے اس ابراھیم کے مہمانوں کی خبر پہنچتی ہے ۔ - كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے
اے محمد کیا ابراہیم کے معزز مہمانوں کی جن کی بھنے ہوئے بچھڑے سے مہمان نوازی کی گئی تھی آپ تک حکایت پہنچی ہے۔
آیت ٢٤ ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ ۔ ” کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبرپہنچی ہے “- یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب فرشتے انسانی شکلوں میں مہمان بن کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر آئے تھے۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :21 اب یہاں سے رکوع دوم کے اختتام تک انبیاء علیہم السلام اور بعض گزشتہ قوموں کے انجام کی طرف پے در پے مختصر اشارات کیے گئے ہیں جن سے دو باتیں ذہن نشین کرانی مقصود ہیں ۔ ایک یہ کہ انسانی تاریخ میں خدا کا قانون مکافات برابر کام کرتا رہا ہے جس میں نیکوکاروں کے لیے انعام اور ظالموں کے لیے سزا کی مثالیں مسلسل پائی جاتی ہیں ۔ یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ دنیا کی اس زندگی میں بھی انسان کے ساتھ اس کے خالق کا معاملہ صرف قوانین طبیعی ( ) پر مبنی نہیں ہے بلکہ اخلاقی قانون ( ) اس کے ساتھ کار فرما ہے ۔ اور جب سلطنت کائنات کا مزاج یہ ہے کہ جس مخلوق کو جسم طبیعی میں رہ کر اخلاقی اعمال کا موقع دیا گیا ہو اس کے ساتھ حیوانات و نباتات کی طرح محض طبیعی قوانین پر معاملہ نہ کیا جائے بلکہ اس کے اخلاقی اعمال پر اخلاقی قانون بھی نافذ کیا جائے ، تو یہ بات بجائے خود اس حقیقت کی صاف نشاندہی کرتی ہے کہ اس سلطنت میں ایک وقت ایسا ضرور آنا چاہیے جب اس طبیعی دنیا میں انسان کا کام ختم ہو جانے کے بعد خالص اخلاقی قانون کے مطابق اس کے اخلاقی اعمال کے نتائج پوری طرح برآمد ہوں ، کیونکہ اس طبیعی دنیا میں وہ مکمل طور پر برآمد نہیں ہو سکتے ۔ دوسری بات جو ان تاریخی اشارات سے ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جن قوموں نے بھی انبیاء علیہم السلام کی بات نہ مانی اور اپنی زندگی کا پورا رویہ توحید ، رسالت اور آخرت کے انکار پر قائم کیا وہ آخر کار ہلاکت کی مستحق ہو کر رہیں ۔ تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کا قانون اخلاق جو انبیاء کے ذریعہ دیا گیا ، اور اس کے مطابق انسانی اعمال کی باز پرس جو آخرت میں ہوئی ہے ، سراسر مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ جس قوم نے بھی اس قانون سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں اپنا رویہ متعین کیا ہے وہ آخر کار سیدھی تباہی کی طرف گئی ہے ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :22 یہ قصہ قرآن مجید میں تین مقامات پر پہلے گزر چکا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، ص 353 تا 355 ، 509 تا 511 ۔ جلد سوم ، ص 696 ۔
11: یہ مہمان درحقیقت فرشتے تھے جو ایک طرف تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوشخبری دینے آئے تھے، اور دوسری طرف حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ ہود : 69 تا 83 اور سورۃ حجر : 51 تا 77 میں گذر چکا ہے۔