Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 مقسمات، اس سے مراد فرشتے ہیں جو کام کو تقسیم کرلیتے ہیں، کوئی رحمت کا فرشتہ ہے تو کوئی عذاب کا، کوئی پانی کا ہے تو کوئی سختی کا، کوئی ہواؤں کا فرشتہ ہے تو کوئی موت اور حوادث کا۔ بعض نے ان سب سے صرف ہوائیں مراد لی ہیں اور ان سب کو ہواؤں کی صفت بتایا ہے۔ جیسے کہ فاضل مترجم نے بھی اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن ہم نے امام ابن کثیر اور امام شوکانی کی تفسیر کے مطابق تشریح کی ہے۔ قسم سے مقصد مقسم علیہ کی سچائی کو بیان کرنا ہوتا ہے یا بعض دفعہ صرف تاکید مقصود ہوتی ہے اور بعض دفعہ مقسم علیہ کو دلیل کے طور پر پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں قسم کی یہی تیسری قسم ہے۔ آگے جواب قسم یہ بیان کیا گیا ہے کہ تمک سے جو وعدے کیے جاتے ہیں یقیناً وہ سچے ہیں اور قیامت برپا ہو کر رہے گی جس میں انصاف کیا جائے گا۔ یہ ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا پانی کو اٹھانا، سمندروں میں کشتیوں کا چلنا اور فرشتوں کا مختلف امور کو سر انجام دینا، قیامت کے وقوع پر دلیل ہے، کیونکہ جو ذات یہ سارے کام کرتی ہے جو بظاہر نہایت مشکل اور اسباب عادیہ کے خلاف ہیں، وہی ذات قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ بھی کرسکتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فالمقمت امراً : یہ بھی وہ ہوائیں ہی ہیں جو بھاری بادلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے انہیں اللہ کے حکم سے زمین کے مختلف حصوں میں لے جا کر ان کے حصے کی بارش برساتی ہیں، جس سے مردہ زمین زندہ ہوتی ہے اور ہر علاقے کے لوگوں میں ان کا رزق تقسیم ہوتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا۝ ٤ ۙ- تقسیم کرنے والیاں۔ امرا منصوب بوجہ مفعول بہ ہونے کے۔ کہا جاتا ہے قسم الرزق اس نے رزق تقسیم کیا۔ امر واحد آیا ہے۔ لیکن مراد اس سے امور ( جمع) ہے۔ المقسمت امرا۔ تقسیم کرنے والیاں مختلف چیزوں کو ، یا کاموں کو، مراد یہاں فرشتے ہیں۔ جو رزق بارش وغیرہ لوگوں کے درمیان تقسیم کرتے ہیں۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا ۔ ” پھر اللہ کے امر کو تقسیم کرنے والی ہیں۔ “- اس سے مراد بارش کے پانی کی تقسیم ہے۔ بادل کی شکل میں سمندر کے پانی کو ہوائیں مختلف علاقوں میں اڑائے پھرتی ہیں ‘ مگر کس جگہ بارش ہوگی اور کس جگہ نہیں ہوگی اور جہاں ہوگی وہاں کس قدر ہوگی ‘ یہ سب کچھ تو اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اللہ کے اس امر (حکم) کی تقسیم ہوائوں کے ذریعے سے ہی ہوتی ہے۔ اس تقسیم کا مشاہدہ ہم آئے دن کرتے ہیں۔ چناچہ بعض علاقوں میں بارش سے جل تھل ہوجاتا ہے اور کچھ علاقے پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے رہ جاتے ہیں اور کالی گھٹائیں ان کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔- ان آیات میں ہوائوں کی قسمیں کھا کر اور پھر ان کے ذریعے طے پانے والے بعض امور کا ذکر کر کے دراصل کائنات کے محکم نظام پر غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے ۔ اگر انسان اس بارے میں غور کرے گا تو وہ ضرور اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بنائی ہے : (اِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَـکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْاٰخِرَۃِ ) (١) ” یہ دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :2 الجَارِیَاتِ یُسْراً اور المُقَسِّمٰتِ اَمْراً کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ نے اس بات کو ترجیح دی ہے ، یا یہ مفہوم لینا جائز رکھا ہے کہ ان دونوں سے مراد بھی ہوائیں ہی ہیں ، یعنی یہی ہوائیں پھر بادلوں کو لے کر چلتی ہیں اور پھر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ، جہاں جتنا حکم ہوتا ہے ، پانی تقسیم کرتی ہیں ۔ دوسرے گروہ نے الجَارِیَاتِ یُسْراً سے مراد سبک رفتاری کے ساتھ چلنے والی کشتیاں لی ہیں اور المُقَسِّمٰتِ اَمْراً سے مراد وہ فرشتے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کی مخلوقات کے نصیب کی چیزیں ان میں تقسیم کرتے ہیں ۔ ایک روایت کی رو سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں فقروں کا یہ مطلب بیان کر کے فرمایا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا ۔ اسی بنا پر علامہ آلوسی اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ اس کے سوا ان فقروں کا کوئی اور مطلب لینا جائز نہیں ہے اور جن لوگوں نے کوئی دوسرا مفہوم لیا ہے انہوں نے بے جا جسارت کی ہے ۔ لیکن حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے اس کی بنیاد پر قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فی الواقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے ان فقروں کی یہ تفسیر فرمائی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ صحابہ و تابعین کی ایک معتد بہ جماعت سے یہی دوسری تفسیر منقول ہے ، لیکن مفسرین کی ایک اچھی خاصی جماعت نے پہلی تفسیر بھی بیان کی ہے اور سلسلہ کلام سے وہ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ شاہ رفیع الدین صاحب ، شاہ عبدالقادر صاحب اور مولانا محمود الحسن صاحب نے بھی اپنے ترجموں میں پہلا مفہوم ہی لیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یہاں دوباتیں سمجھنے کی ضرورت ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی کسی بات کا یقین دلانے کے لئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اس بات سے بے نیاز ہے کہ اپنی کسی بات پر قسم کھائے، البتہ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو قسمیں کھائی گئی ہیں وہ کلام میں فصاحت وبلاغت کا زور پیدا کرنے کے لئے آئی ہیں، اور بسا اوقات ان میں یہ پہلو مد نظر ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی جارہی ہے اگر اس پر غور کیا جائے تو وہ اس بات کی دلیل اور گواہ ہوتی ہے جو قسم کے بعد مذکور ہے، چنانچہ یہاں قسم کے بعد جو بات بیان فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور جزا وسزا کا فیصلہ ضرور ہوگا۔ اور قسم ان ہواؤں کی کھائی گئی ہے جو گرد اڑاتی ہیں، اور بادلوں کا بوجھ اٹھا کر انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں، اور جب وہ برستے ہیں تو ان کا پانی مردہ زمین میں رزق کا سامان پیدا کر کے انہیں مخلوقات میں تقسیم کرتا ہے، اور ان مخلوقات کے لیے نئی زندگی کا باعث بنتا ہے۔ ان کی قسم کھا کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ ان ہواؤں اور ان کے نتیجے میں برسنے والے پانی کو نئی زندگی کا ذریعہ بناتا ہے، وہ یقیناً اس بات پر قادر ہے کہ مردہ انسانوں کو دوسری زندگی عطا فرما دے۔ یہ تشریح اس بات پر مبنی ہے کہ جن چار چیزوں کی یہاں قسم کھائی گئی ہے، ان سب سے مراد ہوائیں ہیں، اور ان کی چار مختلف صفات ذکر فرمائی گئی ہیں۔ ان آیتوں کی ایک اور تفسیر یہ منقول ہے کہ پہلی صفت یعنی گرد اڑانا تو ہواؤں سے متعلق ہے، اور دوسری صفت سے مراد خود بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اور تیسری صفت سے مراد کشتیاں ہیں جو پانی میں رواں دواں رہتی ہیں، اور چوتھی صفت سے مراد فرشتے ہیں جو مخلوقات میں رزق وغیرہ تقسیم کرنے کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ تفسیر ایک روایت میں خود حضور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے، لیکن اس روایت کے بارے میں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ یہ ایک ضعیف راوی ابوبکر ابن ابی سبرہ سے مروی ہے جو متروک ہے۔ (مجمع الزوائد ج : 7 ص 244، 245 کتاب التفسیر حدیث نمبر 11365) تاہم چونکہ اس تفسیر کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک نسبت ہے، اس لیے بہت سے مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے، اور ہم نے جو ترجمہ کیا ہے، اگر اس میں سے قوسین والے الفاظ کو نظر انداز کردیا جائے تو اس ترجمے میں اس تفسیر کی بھی گنجائش ہے۔ اس تفسیر کے مطابق ان قسموں سے آخرت کا تعلق بظاہر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے یہ انتظامات بے مقصد نہیں فرمائے۔ اس سارے نظام کا یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو جو لوگ ٹھیک ٹھیک استعمال کریں، انہیں ان کی نیکی کا انعام دیا جائے، اور جو لوگ غلط استعمال کریں، انہیں سزا دی جائے، لہذا کائنات کی یہ ساری چیزیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ کوئی ایسا دن آئے جس میں انعام اور سزا کا یہ فیصلہ ہو۔