Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) انما توعدون لصادق …: یہاں ” انما “ اکٹھا لفظ نہیں جو کلمہ حصر ہے اور جس کا معنی ہے ” اس کے سوا نہیں “ بلکہ اس میں ” ان ‘ حرف تاکید الگ ہے اور ” ما الگ ہے جو اسم موصول ہے اور اس کا معنی ہے ” وہ جو۔ ذ صحابہ کرام (رض) کے زمانے میں رسم الحظ پوری طرح ضبط نہیں ہوا تھا، انہوں نے ان دونوں کو اکٹھا لکھ دیا، تو بعد میں امت نے قرآن مجید کی حفاظت کا اتنا زبردست اہتمام کیا کہ صحابہ نے جو لفظ جس طرح لکھا تھا قرآن مجید کے رسم الخط میں اسے اسی طرح باقی رکھا گیا۔- (٢) یعنی انچ اورں صفات کی حامل ہوائیں شاہد ہیں کہ تم سے دوبارہ زندہ کئے جانے اورق بروں سے نکل کر اللہ کے سامنے پیش ہونے کا جو وعدہ کیا ج اتا ہے وہ یقیناً سچا ہے اور ہر عمل کی جزا بلاشبہ یقینا واقع ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہواؤں کی مردوں کے زندہ کرنے پر دلالت کو ایک اور آیت میں خوب واضح فرمایا :(وھو الذی یرسل الریح بشراً بین یدی رحمتہ ، حتی اذا اقلت سحاباً ثقالاً سقنہ لبلد میت فانزلنا بہ المآء فاخرجنا بہ من کل الثمرت ، کذک نحرج الموتی لعلکم تذکرون) (الاعراف : ٥٨) ” اور وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے بھیجتا ہے، اس حال میں کہ خوش خبری دینے والی ہیں، یہاں تک کہ جب وہ بھاری بادل اٹھاتیہیں تو ہم اسے کسی مردہ شہر کی طرف ہانکتے ہیں، پھر اس سے پانی اتارتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ہر قسم کے کئی پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو نکالیں گے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ “ قرآن مجید نے بارش کے ساتھ مردہ زمین کے زندہ کرنے کو قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنے کی دلیل کے طور پر بار بار بیان فرمایا ہے، مثلاً دیکھیے سورة فاطر (٩) اور سورة روم (٤٨ تا ٥٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ۝ ٥ ۙ- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ ‘ ٦ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ ۔ وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ ۔ ” جو وعدہ تمہیں دیا جا رہا ہے وہ یقینا سچ ہے۔ اور جزا و سزا ضرور واقع ہو کر رہے گی۔ “- یہ کائنات اور اس کا نظام گواہ ہے کہ بعث بعد الموت ‘ نفخہ اولیٰ ‘ نفخہثانیہ وغیرہ سے متعلق جو خبریں تمہیں دی جارہی ہیں وہ یقیناسچی ہیں اور جس عذاب کی تمہیں وعید سنائی جا رہی ہے اس میں کچھ شک و شبہ نہیں۔ قیامت ضرور قائم ہوگی اور اس دن تمام انسانوں کو پھر سے ضرور زندہ کیا جائے گا اور انہیں ان کے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :3 اصل میں لفظ تُوْعَدُوْنَ استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ اگر وَعْد سے ہو تو اس کا مطلب ہو گا جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ۔ اور وَعید سے ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ جس چیز کا تم کو ڈراوا دیا جا رہا ہے ۔ زبان کے لحاظ سے دونوں مطلب یکساں درست ہیں ۔ لیکن موقع و محل کے ساتھ دوسرا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے ، کیونکہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو کفر و شرک اور فسق و فجور میں غرق تھے اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کبھی ان کو محاسبے اور جزائے اعمال سے بھی سابقہ پیش آنے والا ہے ۔ اسی لیے ہم نے تُوْعَدُوْنَ کو وعدے کے بجائے وعید کے معنی میں لیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani