Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 یعنی جب انہوں نے اپنے ہی طلب کردہ معجزے اونٹنی کو قتل کردیا، تو ان سے کہہ دیا گیا کہ اب تین دن اور تم دنیا کے مزے لوٹ لو، تین دن کے بعد تم ہلاک کردیئے جاؤ گے۔ یہ اسی طرف اشارہ ہے بعض نے اسے حضرت صالح (علیہ السلام) کی ابتدائے نبوت کا قول قرار دیا ہے۔ الفاظ اس مفہوم کے بھی متحمل ہیں بلکہ سیاق سے یہی معنی زیادہ قریب ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧] ذکر قوم ثمود :۔ قوم ثمود کی طرف صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے قوم کو اللہ کا پیغام پہنچایا لیکن وہ مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ اس وقت صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر تم اس دعوت کو قبول نہ کرو گے تو تم پر عذاب الٰہی آکے رہے گا۔ اس عذاب سے پیشتر ہی تم دنیا کے مال و متاع سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ یا ممکن ہے یہاں حین سے مراد عذاب کے وقت کے بجائے ان کی موت کا وقت ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(وفی ثمود اذ قیل لھم تمتعواحتی حین…: اس کی تفسیر میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ جب انہوں نے اونٹنی کو کاٹ دیا تو ان سے کہا گیا کہ تین دن تک خوب فائدہ اٹھا لو، اس کے بعد تم پر عذاب آجائے گا۔ ان تین دنوں میں وہ تائب ہوسکتے تھے، مگر وہ اپنی سرکشی پر اور صالح (علیہ السلام) کی تکذیب پر اڑے رہے تو تیسرے دن ان کے دیکھتے دیکھتے ایک ہولناک چیخ بلند ہوئی (ہود : ٦٧) جس کے ساتھ نہایت خوفناک کڑک والی بجلی گری، جس نے انہیں بھسم کردیا اور وہ اس طرح نیست و نابود ہوئے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہ تھا۔ فرمایا :(کان لم یغنوا فیھا) (ھود : ٦٨) ” جیسے وہ ان میں رہے ہی نہ تھے۔ “ دوسرا قول یہ ہے کہ اس ” تمتعوا حتی حین “ (ایک وقت تک خوب فائدہ اٹھا لو) کہنے سے مراد صالح (علیہ السلام) کا ان کی طرف مبعوث ہونے کے وقت کا خطاب ہے کہ دنیا میں تمہیں موت تک مہلت ہے، اس میں خوب فائدہ اٹھا لو، مگر اس اونٹنی کو نقصان نہ پہنچانا ورنہ تم پر عذاب آجائے گا، مگر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور اونٹنی کو کاٹ دیا تو انہیں ساعقہ نے پکڑ لیا۔ آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے اور دونوں بیک وقت بھی مراد ہوسکتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَفِيْ ثَمُوْدَ اِذْ قِيْلَ لَہُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِيْنٍ۝ ٤٣- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٣۔ ٤٤) اور صالح کی قوم کے واقعہ بھی عبرت ہے جبکہ ناقہ کی کونچیں کاٹنے کے بعد پھر صالح نے اپنی قوم سے فرمایا کہ عذاب آنے تک عیش کرلو تو انہوں نے پھر بھی اپنے پروردگار کے حکم کو قبول کرنے سے انکار کیا سو ان کو صاعقہ (کڑک) کے عذاب نے آلیا اور وہ اس عذاب کو اپنے اوپر نازل ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ وَفِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَہُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰی حِیْنٍ ۔ ” اور اسی طرح ثمود کے معاملے میں بھی (نشانی ہے) جب ان سے کہا گیا کہ ایک خاص وقت تک کے لیے تم فائدہ اٹھا لو (دنیا کی نعمتوں سے) ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :40 مفسرین میں اس امر پر اختلاف ہے کہ اس سے مراد کون سی مہلت ہے ۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ یہ اشارہ سورہ ہود کی اس آیت کی طرف ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ثمود کے لوگوں نے جب حضرت صالح کی اونٹنی کو ہلاک کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو خبردار کر دیا گیا کہ تین دن تک مزے کر لو ، اس کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا ۔ بخلاف اس کے حضرت حسن بصری کا خیال ہے کہ یہ بات حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی دعوت کے آغاز میں اپنی قوم سے فرمائی تھی اور اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم توبہ و ایمان کی راہ اختیار نہ کرو گے تو ایک خاص وقت تک ہی تم کو دنیا میں عیش کرنے کی مہلت نصیب ہو سکے گی اور اس کے بعد تمہاری شامت آ جائے گی ۔ ان دونوں تفسیروں میں سے دوسری تفسیر ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ بعد کی آیت فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ ( پھر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی ) یہ بتاتی ہے کہ جس مہلت کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے وہ سرتابی سے پہلے دی گئی تھی اور انہوں نے سرتابی اس تنبیہ کے بعد کی ۔ اس کے برعکس سورہ ہود والی آیت میں تین دن کی جس مہلت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ان ظالموں کی طرف سے آخری اور فیصلہ کن سرتابی کا ارتکاب ہو جانے کے بعد دی گئی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani