Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 یعنی کفر و معصیت سے توبہ کرکے فوراً بارگاہ الٰہی میں جھک جاؤ، اس میں تاخیر مت کرو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) فقروا الی اللہ : یعنی جب آسمان و زمین اور کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر اور تمہیں دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت پر دلالت کر رہی ہے تو تم پر لازم ہے کہ اللہ کی طرف دوڑو، کفر کو ترک کر کے توحید کی طرف آؤ اور گناہوں سے توبہ کر کے اس کی رحمت کی پناہ میں آجاؤ۔- (٢) انی لکم منہ نذیر مبین : ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(مثلی و مثل ما یعثنی اللہ کمثل رجل اتی قوما فقال رایت الجیش بعینی وانی انا النذیر العریان فالنجاء النجاء فاطعتہ طائفۃ فاذ لجوا علی مھلھم فنجوا، وکذبتہ طائفۃ فصبحھم الجیش فاجناجھم) (بخاری، الرقاق، باب الانتھاء عن المعاصی : ٦٣٨٢)” میری مثال اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دے ر مجھے بھیجا ہے اس کی مثال اس آدمی ک سی ہے جو ایک قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا، میں نے لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں ننگا ڈرانے والا ہوں، (عرب کا قدیم دستور تھا کہ دشمن کے حملے سے خبردار کرنے والا شخص کپڑے اتار دیتا اور ننگا ہو کر چیخ چیخ کر حملے سے ڈراتا) اس لئے دوڑو، دوڑو۔ تو ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور آرام کے ساتھ اندھیرے میں چل پڑے اور بچ کر نکل گئے اور ایک گروہ نے اسے جھٹلا دیا تو لشکر نے صبح صبح ان پر حملہ کیا اور انہیں تباہ و برباد کردیا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَفِرُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ ، یعنی " دوڑو اللہ کی طرف " حضرت ابن عباس نے فرمایا مراد یہ ہے کہ اپنے گناہوں سے بھاگو اللہ کی طرف توبہ کے ذریعہ، ابوبکر دراق او جنید بغدادی نے فرمایا کہ نفس و شیطان معاصی کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور بہکانے والے ہیں، تم ان سے بھاگ کر اللہ کی طرف پناہ لو تو وہ تمہیں ان کے شر سے بچا لیں گے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَفِرُّوْٓا اِلَى اللہِ۝ ٠ ۭ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْہُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٥٠ ۚ- فر - أصل الفَرِّ : الکشف عن سنّ الدّابّة . يقال : فَرَرْتُ فِرَاراً ، ومنه : فَرَّ الدّهرُ جذعا «1» ، ومنه :- الِافْتِرَارُ ، وهو ظهور السّنّ من الضّحك، وفَرَّ عن الحرب فِرَاراً. قال تعالی: فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء 21] ، وقال : فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر 51] ، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح 6] ، لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب 16] ، فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ- [ الذاریات 50] ، وأَفْرَرْتُهُ : جعلته فَارّاً ، ورجل - ( ف ر ر ) الفروالفرار - ۔ اس کے اصل معنی ہیں جانور کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کے دانتوں کو کھولنا اسی سے فرالدھر جذعا کا محاورہ ہے یعنی زمانہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آیا ۔ اور اسی سے افترار ہے جس کے معنی ہنسنے میں دانتوں کا کھل جانا کے ہیں ۔ فر من الحرب فرار میدان کا راز چھوڑ دینا ۔ لڑائی سے فرار ہوجانا قرآن میں ہے ۔ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء 21] تو میں تم سے بھاگ گیا ۔ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر 51] یعنی شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں ۔ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح 6] لیکن میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے ۔ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب 16] کہ اگر تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو فائدہ نہ دے گا ۔ فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات 50] تو تم خدا کی طرف بھاگ چلو ۔ افررتہ کسی کو بھگا دینا ۔ رجل فر وفار ۔ بھاگنے والا ۔ المفر ( مصدر ) کے معنی بھاگنا ( ظرف مکان ) جائے ۔ فرار ( ظرف زمان ) بھاگنے کا وقت چناچہ آیت ؛ أَيْنَ الْمَفَرُّ [ القیامة 10] کہ ( اب ) کہاں بھاگ جاؤں کے معنی تینوں طرح ہوسکتے ہیں ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ - مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٠۔ ٥١) سو اللہ کے حکم سے اللہ ہی کی طرف دوڑو یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف دوڑو یا یہ کہ شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف دوڑو میں اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ڈرانے والا رسول ہو کر آیا ہوں، یا یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ اور نہ اس کے لیے اولاد تجویز کرو میں تمہارے لیے اللہ کی طرف سے صاف طور پر ڈرانے والا ہو کر آیا ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ ط اِنِّیْ لَـکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۔ ” تو دوڑو اللہ کی طرف ‘ یقینا میں تم لوگوں کے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔ “- اگر اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچ گیا ہے اور میری باتیں تمہاری سمجھ میں آگئی ہیں تو پھر اللہ کی طرف رجوع کرنے میں دیر نہ کرو۔ ممکن ہے فرشتے کو تمہاری جان قبض کرنے کا حکم بھی مل چکا ہو اور تمہاری مہلت عمل ختم ہونے کا وقت بالکل قریب آ لگا ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے دین پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں جلدی کرو۔